اسلامیات

کتب خانوں کی ضرورت اور کتاب کی اہمیت

کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایک خاص تعلق ہےہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلا ارشادخداوندی اترا وہ یہی تھا کہ غار حرا کے اس نورانی لمحے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کا شہر بنا دیا اور انہیں ایک عظیم کتاب کا حامل قرار دیےدیا۔۔۔۔۔۔
گویا مسلمان دینی نقطہ نظر سے اور وراثت کے اعتبار سےصاحب کتاب بھی ہے اور کتاب دوست بھی۔۔
  یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم مسلمان انفرادی طور پراور مجموعی لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں کتب خانے قوم کی علمی عظمت صحت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں مخالف قوموں نے جب بھی کبھی مسلمانوں پر یلغار کی تو اس یلغار کی زد میں ہمارے جسم ہی نہیں بلکہ ہمارے کتب خانے بھی آئے ہیں تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار ہی تعمیرنہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو بھی دریا میں غرق بھی کر دیا تاکہ مسلمان فکری علمی اور ادبی لحاظ سے مفلس ہو کر رہ جائیں۔۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا۔۔۔
 مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۔۔۔
 ہمارے مخالفین نے ہمیں یوں بھی لوٹا کہ وہ ہماری کتابوں کویورپ کی لائبریریوں میں لے گئے کتابیں ہی ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھی اور انہی کی سائنسی تحقیقات کی بنیادوں پر انہوں نے اپنی زمین کو آسمان بنا دیا اور ہم ان کی ترقی کو حیران کن نظروں سے دیکھتے رہے گئےاہل مغرب کی سائنسی ترقی میں ہمارے اجداد کے خون جگر کی سرخی جھلکتی ہےیہی بات علامہ اقبال اس شعر میں کہہ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایک انسان جب مصروفیات زندگی سےاکتا جاتا ہے زمانے کے غم اس پر چھا جاتے ہیں تو اس کی تلخیوں سے بچنے کے لیے مختلف پناہ ڈھونڈتا ہےکھیل تماشے میں لگ جاتا ہے فلمیں دیکھ کر زندگی کے غم دور کرتا ہے بعض لوگ نشہ آور اشیاء میں چین تلاش کرتے ہیں اور اپنا وقت اور اپنی جان گنوا دیتے ہیں جبکہ اللہ والے ذکر حق میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔۔۔
اورکتب خانےذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں انسان کتابوں کی دنیا میں اپنی کلفتوں کو بھول جاتا ہے اس کی سوچ میں وسعت آ جاتی ہےامن عالم کے ساتھ ساتھ فضیلتوں کے موتیوں سے بھرورہوجاتا ہے جس قوم کے افرادعلم وفضل کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ہیں وہ سب سے پہلےاپنے باپ دادا کی ان تصنیفات کو کتب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے انہی قوموں کا تاریخ میں احترام کیا گیا جو اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کرنا جانتے ہیں  مہنگائی کے اس دور میں نئی کتابیں خریدنا اکثریت کے لیے مشکل ہو گیا ہے انسان کے لیے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز ناممکن ہوتا جا رہاہے اس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے کتابوں کو سنبھالناان کی حفاظت کرنااور ان کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا بہترین صدقہ جاریہ ہے اس لیے لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کوقومی سطح کے کتب خانوں میں بطور عطیہ منتقل کرتے ہیں تاکہ ان کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نور بکھیرتی اور فکر و خیال کی راہوں کو اجاگر کرتی رہیں جب ہم کسی لائیبریری سے کوئی کتاب لاتے ہیں تو ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کتاب خراب نہ ہو اور محفوظ رہےکیونکہ وہ ذاتی ملکیت نہیں ان کو سنبھال کر رکھنا چاہیے ہو سکتا ہے آپ کوبعد میں اس کتاب کی ضرورت پڑے یا کسی دوست احباب کو ضرورت ہوکتاب امانت کی مانند ہے یہ ایک قومی دولت ہے اور اس پر ہر ایک کا حق ہے بعض لوگ کتاب لائبریری سے لے کر ان کی قیمت جمع کرا دیتے ہیں یہ قومی نوعیت کا ایک سنگین جرم ہے روپیے تو مل جاتے ہیں مگر وہ نایاب کتابیں نہیں ملتی نتیجہ معلوم کہ ایک دنیا اس کے فائدے سے محروم ہو جاتی ہے ۔۔
کتب خانوں کا قیام ایک کارِ ثواب ہے اسی طرح وہاں سے کتابوں کو اڑانا ایک جرم ہے۔۔
کتاب بہترین رفیق ہے انسان کو انسان بنا دیتی ہے مگر کتاب کبھی دھوکا نہیں دیتی کتاب کا ایک ایک ورق واضح کھلا اور سچا ہوتا ہے کتاب زندگی کی تلخیوں میں حلاوت پیدا کرتی ہے۔۔۔
کتاب سے وقت بھلتا احساس سنورتا فکر نکھرتی ہے اور ذوق شگفتہ ہوتا ہے الغرض کتب خانے قومی ضرورت ہے تنہائی کی نعمت ہے ادب اور فن کے خزانے ہیں علم کا ایک سمندر ہے کہ موجیں مار رہا ہوتا ہے اور ہر ایک کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت وقت اور اپنے ظرف کے مطابق اپنی پیاس بجھاتا چلا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×