اسلامیات

بے نکاحی زندگی سے ممانعت ۔۔۔۔

نکاح ایک انسانی ضرورت اور بشری تقاضہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنتِ انبیاء بھی ہے ، اور بے حیائی و بدکاری سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہے ، اسی لئے اسلام نے اپنے متبعین کو بے نکاحی زندگی سے منع کیا ہے؛ اگرچہ بے نکاحی زندگی  نوافل عبادات میں  اشتغال کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو۔

عہدِ نبوت میں جن صحابہ کرام نے باہمی یہ طے کیا تھا کہ وہ اپنی جنسی شہوت کو کسی تدبیر سے ختم کر دیں گے، لذت اور سہولتوں سے کنارہ کش ہو جائیں گے، اور عیسائی راہبوں کی طرح دنیا میں گشت لگاتے رہیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”وَاللّٰہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ“ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں، اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں، راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منھ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ( بخاری : کتاب النکاح : ٥٠٦٣ )
ایک اور روایت میں نکاح کو عفت و عصمت کی حفاظت اور دنیا کی آلائش اور گندگیوں سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ” من اراد ان یلقی اللہ طاھرا مطھرا فلیتزوج الحرائر ” ( ابن ماجہ : کتاب النکاح : ١٨٦٢ )
یعنی ” اللہ تعالیٰ سے جو شخص پاک و صاف ملنا چاہے تو اسے شریف عورتوں سے نکاح کرلینا چاہیے ”
ان سب روایات میں بالکل واضح انداز میں نکاح کرنے کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہے ۔
شریعت میں بے نکاحی سے ممانعت : جب اسلام نے نکاح کی اتنی ترغیب دی تو وہیں بے نکاحی زندگی گذارنے سےمنع بھی کیا ہے ، چنانچہ ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی جو خود پر حلال چیزوں کو حرام کرلیتے ہیں :
يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين… ( سورۃ المائدہ : ٨٧ )
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےتبتل کی اجازت مانگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمادیا ۔ حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیدیتے تو ہم اپنے آپ کو خصی بنا لیتے ؛ تاکہ محلِ شہوت ہی ختم ہو جائے اور ہم عبادت کے لئے یکسو ہوجائیں مگر اسلام میں یہ عمل سخت ناپسندیدہ اور بہت ہی مبغوض ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نکاح کا حکم دیتے تھے اور بے نکاح رہنے سے منع فرماتے تھے اور بے حد محبت کرنے والی،کثرت سے بچہ جننے والی عورت سے نکاح کی تلقین کرتے تھے۔ ( ابوداؤد ، کتاب النکاح: ٢٠٥٠ )
بے نکاحی سے بچنے کے سلسلے میں صحابہ کرام کا عمل :
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اپنے مرض الوفات میں انہوں نے اپنے اخیارسے کہا ۔
زوجوني اني اكره ان القى الله عزبا…
میرا نکاح کردو میں بے نکاحی کی حالت میں اللہ سے ملنا ناپسند سمجھتا ہوں۔۔
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے
” اگر میری زندگی کے صرف دس ہی دن باقی ہو تب بھی میری خواہش یہی ہوگی کہ اس وقت بھی میری زوجیت میں کوئی خاتون ہو ” ۔
نیز انہی کا یہ قول بھی ہے اگر میری زندگی کے صرف دس دن بچے اور مجھے معلوم ہوجائے کہ دسویں دن میں مرجاؤں گا اور ان دنوں مجھے نکاح کی وسعت حاصل ہو تو بھی فتنے سے بچنے کے لئے میں نکاح کر لوں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو الزوائر نامی آدمی سے فرمایا تھا۔
ما يمنعك من النكاح الا عجز او فجور.
تم کیوں نکاح نہیں کرتے مجھے تو اس کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یا تو تم نکاح سے عاجز اور نامرد ہو یا زنا اور فضول کی زندگی پسند کرتے ہو۔
بے نکاحی زندگی گزارنے کے پس پردہ دو   ہی باتیں ہوتی ہے (١) یا تو انسان حقوقِ زوجیت کی ادائیگی سے یا حقوقِ مالیہ و جسمانیہ سے یا کسی اور سبب سے عاجز ہے (٢) یا پھر اسے نکاح پر بدکاری کی راہ بھلی معلوم ہوتی ہے نکاح سے دوری بے حیائی کا باعث ہے اور حیا کے ختم ہونے سے ایمان کا ختم ہونا نصوص اور تجربات دونوں سے ثابت ہے۔
ان سارے احکام و آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں یہ جائز نہیں ہے کہ قدرت کے باوجود بغیر نکاح کے زندگی گذارے ۔
بلکہ مختلف حالات اور کیفیات کے اعتبار سےنکاح فرض ۔واجب اور سنت ہو جاتا ہے ۔۔۔
اس تحریر پر بالخصوص ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے جن کی بیویوں کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ تجرد اور بے نکاحی پن کی زندگی گزار رہے ہیں دوسرا نکاح کرنے سے محض یہ بات روکے رکھی ہے کہ معاشرہ کیا کہے گا خاندان کیا کہے گا دوست اور احباب کیا کہیں گے ؟نہیں
بلکہ اپنے دوسرے نکاح کی کوشش میں لگ کر دوسرا نکاح کرلینا چاہئے۔
خوب یاد رکھیں ! نکاح سے دوری بے حیائی کا باعث ہے فتنوں میں پڑجانے اورزنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ وخطرہ ہے۔
حیا اور غیرت کے ختم ہونے سے ایمان کا ختم ہونا ثابت شدہ حقیقت ہے۔
لہذا ہمیں اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور گناہوں میں پڑجانے سے بچاؤ کے لئے نکاح کرلینا چاہیے ۔نہ عشق با ادب رہا، نہ حسن میں حیا رہی
ہوس کی دھوم دھام ہے، نگر نگر گلی گلی

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×