اسلامیات

اے بنت حرم جاگ ذرا!

اے جنس انسانی کی محیرالقعول صنف! تجھے خالق مجازی بھی کہا جاتا ہے۔ تو نے اس وسیع وبسیط کا ئنات میں ایسی ایسی ہستیوں کو جنم دیا ہے جن پر انسانیت فخر کرتی ہے۔ یہ تیرے وجود کا بہت بڑا شاہکار ہے کہ تو نے انسان کے ظاہری وباطنی محاسن کو بام عروج پر پہنچا یا۔ اور جسمانی نشو ونما اور روحانی تربیت و ارتقاء تیرے ہی مرہون منت ہیں۔
اے منبع حسن وجمال !مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تیرا حسن و جلوہ، جس کی ایک ادنیٰ سی تجلی کا پر تو اسرار نہفتہ اورحقائق سربستہ کو منکشف کر تا ہے۔ جس کی نو رانیت انسان کے قلب ونظر میں اس طرح حلول کر جا تی ہے کہ پردہ ہائے حجاب متحرک ہو نے لگتے ہیں۔ تیرا نور کبھی ادراکات خفیہ کو جگا تاہے ، تو کبھی اعتبارات ، ذات و صفات الہیہ کے موہوم سے نقوش صفحہ دل پرمرتسم کرتاہے۔ جب تو اپنے چہرے سے گھو نگھٹ اٹھا نے لگتی ہے تو ہزاروں کوہ طور لرزہ بہ اندام ہو جا تے ہیں،اور کا ئنات کے ذرہ ذرہ میں ایک عجب کیف والہانہ طاری ہو جا تی ہے۔ اور جب صبح کے سہا نے پن میں باد نسیم کے روح پرور جھو نکوں کے ساتھ تیرا نزول پر سکون ہوتا ہے تو پرستاران حسن کی خاموش دنیامیں ایک ہل چل سی پیدا ہوجا تی ۔ جب تو شرم وحیاسے بیک آن سمٹ جا تی ہے تو بقعہ نور بن جا تی ہے اور تیرے روئیں روئیں سے ایک نو ر چھلکنے لگتا۔ تیری ہر ہر ادا میں ایک کیف ابدی اور سرور جا ودانی کچھ اس طرح ہویدا ہو تے کہ ساری احساسی قوتیں غیر ارادی طورپرتیری بارگاہ میں حاضر ہوجاتیں اور غرورو تکبر، ظلم واستبد اد تیرے حضور سر نگوں ہو جاتے ۔
اے مہر وفا! تو ایک ایسی لطیف شی ہے، جسے محبت کے ذریعہ نہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ چھوا بھی جا سکتا ہے۔ سن، محبت ایک جذبہ خیر ہے جو ارتقاء روحانی کا پہلا زینہ ہے۔اگر یہی محبت نفسیاتی خواہش کی آمیزش کی حامل ہو تو پھر، تو وہ نہیں رہتی بلکہ ایک مادہ کی شکل میں چلتی پھر تی مو رت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تیرا روپ، تیری سندر تا، تیرے خاص جسمانی اعتبارات میں مقید ہو کر رہ جا تی ہے۔ تواور تیرا کمال، نسوانی تصورات میں اوجھل ہو کر ایک وہم بن جا تا ہے۔ میں یقین کر تا ہوں کہ تیرا حسن، تیرے جسم کی موزونیت متناسب الاعضاء ہو نے میں نہیں ہے۔ بلکہ تیری شرم وحیا کی اس لطیف نو رانیت میں ہے، جس کا ظہور تیری ہرادا میںکشش، اور تیرے ہر خط وقال میں حلاوت پیدا کر تا ہے۔ تیری شرم وحیا نے تجھ میں وہ جذبہ خود داری پیدا کی اور تیرے کر دار کو اس قدر بلند کیا کہ حیوانی جذبات اور ہوس پرستی، تیری حیا پرور جذبہ و خودداری کے آگے ہمیشہ سر نگوں رہے۔
یہ سب کچھ صحیح اور حقیقت ہے۔ مجھے تیری خوشامد مقصود نہیں، میں غلو نہیں کر رہا ہو ں، یہ میرے نفس کی پکار نہیں بلکہ میرے ضمیر کی آواز ہے۔ گو زمانہ گزر چکا ہے، لیکن اب بھی تیرے ماضی کے نقوش اس وسیع وبسیط فضا میں محفوظ ہیں۔ تو اب وہ نہیں ہے، لیکن دنیا اور دنیا کے ہر ذرہ ذرہ میں، ہر شجر وگل، ہر برگ وبار میں تیرا حسن، تیرا کردار، تیری حیا سب ہی مو جو دوباقی ہے۔ جسے انقلاب زمانہ مٹا سکا اور نہ دنیا کی تہی دستی محو کر سکی۔ ایک محبت سے بے قرارتڑپتے دل کواب بھی تیرے ماضی کے منتشر اوراق میں ایک گو نہ سکون ملتا ہے ۔ اوردل کی گہرا ئیوں میں تیرا نقش پا ابھرکرسامنے آتا ہے۔ مجھے ان سارے حالات کودہرا نے اور تیرے ماضی کے اور راق الٹنے سے تیری تذلیل مقصود نہیں، بلکہ تمنا یہ ہے تجھے تیرے مقام پر دیکھوں، تیری اصلی اور حقیقی تصویر تیرے سامنے رکھ دوں اور بتا دوں کہ دیکھ پہلے تو کیا تھی؟ اب کیا ہے؟؟ اور کیا قدرو قیمت ہے تیری؟؟؟
اے محبت کی دیوی ! خالق ارض وسماء نے تیرے وجود وکمال کو محبت کی خمیر سے تیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تومجسمہ محبت ہے اور تیری ذات و صفات اس کی تفسیر۔ تیری محبت ماں کے روپ میں—- جب کہ ہر سو تاریکی اور ہر طرف سنا ٹا چھا یا ہو تا ہے اور سارے لوگ مست وبے خود سوئے ہو تے ہیں—-بچہ کی رو نے کی آواز سن کر توبے قرار ہو جا تی ہے۔ رات بھر بچہ کو سینہ سے چمٹائے ادھر ادھر ٹہلتی جا تی ہے اور آہستہ آہستہ زیر لب سریلی آواز میں اپنی ممتا کو میٹھی لو ریوں کے ذریعہ اس کی روح میں منتقل کر تی رہتی ہے۔ تیری محبت بیوی کے روپ میں —- جب بے کراںمحبت کرنے والے والدین کو چھوڑ دیتی ہے ،بہنوں، بھائیوں اورہم جولیوںکو یکلخت بھلادیتی ہے—- شوہر کی خوشنودی کی خاطر اپنا سکھ چین سب کچھ قربان کر تی جاتی ہے۔ اور اس کے بقاکیلئے اپنی ذات تک کو فنا کردیتی ہے۔ تو چو نکہ محبت کی دیوی ہے اس لئے تیری مانگ بھی محبت ہے۔ بہر حال تو نے مختلف روپ لئے اور ہر روپ میں تیری محبت ایک نئے ہی انداز میں جلوہ گر ہوئی۔ اس طرح محبت کا تو نے وہ سبق دیا کہ کا ئنات اور کا ئنات کا ذرہ ذرہ محبت میں ڈوبا ہوا محسوس ہو تا ہے۔ یہ وہ لا قیمت جذبہ ہے جسے خوشی و مسرت، دکھ درد، رنج وغم ہر مرحلہ پر انسان کو انسانیت سے مربوط رکھا۔ لیکن یاد رکھ! وہ محبت محدود ہے جو محبوب پر قابو حاصل کر نا چا ہے۔ وہ محبت جو زمان ومکاں کی قید سے آزاد ہو، محبوب کی ذات کے سوا کچھ نہیں چاہتی۔ وہ محبت جو جوانی کی غفلت وہو س کے درمیان پیدا ہو تی ہے۔ محبوب کے وصال سے مطمئن ہوجا تی ہے اور بوسوں کی حلاوت اور ہم آغوشیوں کی لذتوں سے نمو پا تی ہے۔ لیکن وہ محبت جو آغوش الہی میں پر وان چڑھتی ہے دوام وہمیشگی کے بعد مطمئن ہو جاتی ہے اور نہ خدا کے سوا کسی سے ڈرتی ہے۔
اے مجسم شرم وحیا! مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ آج تیری حقیقت ایک مٹی کے کھلو نے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ زمانہ تجھے جیسا چاہا و یسا بنادیا۔ جب تک تجھ میں رنگ وروغن ، نقش ونگار باقی ہے جی چاہاکھیلا اورپھر چھوڑدیا۔ کل تک تیری شرم وحیا کا یہ عالم تھا کہ تو اپنے سا یہ کو دیکھ کر خود ہی شرما جا تی اور عرق انفعال تیری بدر جیسی پیشانی پر خوشہ پروین کی طرح نمودار ہو تا۔ زمین وآسمان اور اس کے ذرہ ذرہ کو حسرت رہ گئی تھی کبھی تیرے جسم کے ایک ایک روئیں کو دیکھ لے۔ تیری خودداری اورغیرت کا یہ حال تھا کہ گندہ ذہنوں کی پر ہوس نظریں تجھ پر پڑتے ہی لرزہ بہ اندام ہو جا تیں۔ لیکن آج کیا ہو گیا کہ معیشت کے ہر شعبہ میں تجھ ہی کو زیادہ سے زیادہ عریاں کر کے پیش کیا جا ہا ہے۔آزادی نسواںکے نام پر دنیا کے گوشہ گوشہ میں تیرے لئے آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ معمولی قیمت پر تجھے برہنہ اورنیم برہنہ کر کے اسے آرٹ کا نام دیاجا رہا ہے۔ آج ساری دنیا میں ایسی کوئی تجا رت نہیں ہے جس کی تشہیر کیلئے تجھے استعمال نہ کیا جا تا ہو۔ عیش وعشرت کے پجا ریوں کو دولت کے مواقع فراہم کر کے تو نے نسوانیت کے اعلی قدروں کو پا مال کر دیاہے۔

اے بنت حرم جاگ ذرا!___اب بھی وقت ہے___ اپنی قدر وقیمت پہچان! خدا نے تجھے کیوں پیدا کیا ہے اسے جان! توحقیقت ہے صرف ایک دلچسپ کہانی ہی نہیں ۔ تیری مسلمہ ہستی ہے صرف ایک جوانی ہی نہیں۔ تجھ میں شعلے بھی ہیںتیرا کام اشک فشانی ہی نہیں ۔ اٹھ اورہوس پرستوں کو اپنے اوپر نظر ڈالنے کا موقع نہ دے، خدا تیری مدد کر یگا۔ انسان کی تو خالق مجازی ہے۔ اس وسیع وعریض دنیا میں جتنے انسان نظر آتے ہیں سب نے تجھ ہی سے جنم لیا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج تجھے ہی ذلیل کیا جا رہا ہے۔خداکا حکم ہے کہ مرد و عورت اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ تو اپنے ضمیر کی آواز سن ….. اتاردے یہ عریاں لباس ….. ٹھوکر مار ان لمحات کو جو تجھ سے تیری نسوانیت چھین رہے ہیں۔ وقت آچکا ہے، ضعف عشرت سے نکل، قید و بندسے نکل، حمیت وخود داری تجھے آواز دے رہی ہے۔ اسے اپنے دامن میں سمو لے۔ عصمت وعفت تیری زندگی کا لا قیمت سرمایہ ہے اس کی بہر حال حفاظت کر۔ زندہ رہنا اور زندگی کے اسباب حاصل کر نابے شک تیرا حق ہے، مگر اس طرح کہ تیرا مقام متأثر نہ ہو۔ تیری عفت و عصمت پر کو ئی آنچ نہ آئے۔ اور آخرت والی زندگی پر ہمیشہ نظر رکھ، یہی صراط مستقیم ہے۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×