اسلامیات

غلط علم تمام پریشانیوں کی جڑ

عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی زید فضلہٗ
بیان: جمعہ مجلس 6 2؍شوال 1441ھ م 19؍جون 2020ء
ضبط وترتیب: مفتی سیدابراہیم حسامی قاسمیؔ
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

دنیوی زندگی اطمینان کے لیے نہیں امتحان کے لیے ہے
دنیا کی زندگی اطمینان کے لیے امتحان کے لیے ہے؛ اگر اتنی بات سمجھ میں آجائے تو لوگوں کی زندگی کا رخ بدل جائے، ساری پریشانی علم صحیح کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے ، اگر کسی نے دنیوی زندگی کے بارے میں یہ طے کر لیا کہ مجھے یہاں اطمینان سے زندگی گزارنا ہے اور دنیوی زندگی کے امتحان ہونے کو بھلا دیا تو اس کا اطمینان متأثر ہوجاتا ہے اور وہ پریشان ہوکر رہ جاتا ہے۔
انسانوں کی پریشانی کی اصل وجہ
آدمی چاہتا ہے کہ اس کو یہاں اطمینان ،راحت اورسکون حاصل ہو، لذات ملنی چاہئیں،خواہشات پوری ہونی چاہئیں اور من پسند چیزیں مہیا ہونی چاہئیں؛ مگریہاں تو ایسا ہوتا ہی نہیں ، اس لیے کہ دنیا کی زندگی ان چیزوں کے لیے ہے ہی نہیں ، یہ غلط علم ہی آدمی کے سارے حالات کو خراب کردیتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب اطمینان نہیں ملتا تو وہ پریشان ہوجاتاہے ، راحت نہیں ملتی تو وہ پریشان ہوجاتاہے، لذت نہیں ملتیتو وہ پریشان ہوجاتاہے، ہر خواہش کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ پریشان ہوجاتاہے، من پسند چیزیں میسر نہیں آتیں تو وہ پریشان ہوجاتاہے ،پوری دنیا کی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے ۔
احکام تکلیفیہ کی دل نشیں وضاحت
اللہ نے انسان کو دنیا میں اطمینان کے لیے نہیں؛ بل کہ کلفت جھیلنے کے لیے بھیجا ہے، راحت پانے کے لیے نہیں،بل کہ تکلیف اٹھانے کے لیے بھیجا ہے، کلفت تکلیف سے ہے ، یعنی اللہ کے حکموں کو پورا کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے اور اللہ کے حکموں کو پورا کرنے میں تکلیف ہوتی ہے ، اس لیے فقہا ء اسلامی احکام کو احکامِ تکلیفیہ کہتے ہیں ،یعنی آدمی کو اتنے ہی احکام کا مکلف بنایا گیا ہے جتنا وہ سہہ سکتا ہے، طاقت سے بڑھ کر کوئی کام نہیں دیا گیا، اب یہاں بھی غلطی ہوجاتی ہے کہ تھوڑی بہت تکلیف آئی توآدمی سمجھتا ہے کہ یہ میری طاقت سے بڑھ کر ہے ،جیسے کسی وقت کا کھانا چھوڑدینا، آدمی سمجھتا ہے کہ یہ میری طاقت سے باہر ہے حالاں کہ رمضان میں دن تمام نہیں کھاتاتو پتہ چلا کہ اس کے پاس طاقت ہے ؛ لیکن اس نے اپنے طور پر سمجھ لیا ہے کہ میرے پاس طاقت نہیں ،حتی کہ گھر میں اگر کھانالانے میں تھوڑی دیر ہوجائے تو بے برداشت ہوجاتا ہے جب کہ وہ برداشت کرسکتا ہے ، کوئی کہتا ہے کہ میں گھر میں رہ ہی نہیں سکتا، مجھے باہر نکلنا ضروری ہے، گھر میں میرا دم گھٹتا ہے، اور اب تین مہینہ گھر میںبیٹھ گیا ، گھر میں معمولی سی خواہش پوری نہ ہوتو مسئلہ کھڑا کردیتا ہے اوراب دواخانہ میں پڑا ہے اور سب برداشت کر رہا ہے ، اگرڈاکٹر یہ کہہ دے کہ نمک، مرچی اورتیل کی چیز نہیں کھانی ہے ، شوگر سے پرہیز کرنا ہے تو کہتا ہے جی اچھا ، اتنے دنوں تک سوائے اڈلی کے کچھ نہیں کھا نا ہے تو صرف وہی کھا تا ہے ،اس سے پتہ چلا کہ آدمی میں قوت برداشت ہے ، ایسے ہیجتنے اسلامی احکام ہیں ،آدمی سب پر عمل کرسکتا ہے، اسلام نے وہی حکم دیا ہے ، جو وہ کرسکتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ عدل والے ہیں، انصاف کرنے والے ہیں ، انسان کی صلاحیت، طاقت،اور اس کی قوت برداشت کوجانتے ہیں، ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ جو اللہ تعالیٰ حکم دیں، انسان کے اندر اس کی طاقت نہ ہو؟
احکام کے مکلف ہونے پر ایک عمدہ مثال
ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بازار جاتا ہے توساتھ میں کچھ بڑے بچے اور کچھ چھوٹے بچے بھی ہوجاتے ہیں ، چھوٹے بچوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ ہم بھی بازار سے سامان خرید کر لائیں ، بازار سے سامان خریدنے کے بعد بڑے کو پانچ کیلو کی تھیلی اور چھوٹے کو ایک یا آدھا کیلو کی تھیلی دی جاتی ہے ،ایساکیوں؟ ایسا اس لیے کہ اس کے اندر اتنی ہی طاقت اور استطاعت ہے ، ایک عام انسان دوسرے انسانوں کے بارے میں اتنا خیال رکھ سکتا ہے تو انسانوں کو پیدا کرنے والا نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو کیا حکم دینا چاہیے ؟
جتنی طاقت اتنا حکم
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔(البقرۃ:286) اللہ نے انسان کو اتنا ہی مکلف بنایا ہے کہ جتنی اس میں طاقت ہے اور اپنے سے ڈرنے کے بارے میں بھی اتناہی حکم دیا جتنا انسان کی قوت ہے ، فرمایا: فاتقواللہ ما استطعتم۔(التغابن: 16) جتنا ڈر سکتے ہیں اتنا ہی ڈرنے کاحکم ہے۔
جس کی طاقت نہیں اس کا حکم نہیں
جن چیزوں اور کاموں سے منع کیا گیا ہے ، انسان کے اندر ان سے بچنے کی استطاعت ہے اسی لییوہ حکم ہے ؛ اگر ان چیزوں سے بچنے کی قوت نہ ہوتی تو اس کا حکم بھی نہ دیا جاتا جیسے میں سامنے بیٹھے ہوئے اس بچے سے یہ کہوں کہ 200کیلو کا تھیلا اٹھا کرلاؤ؛ ورنہ تمہارے پاؤں توڑدوں گا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام بچہ کی استطاعت سے باہر ہے ، اس لیے اس سے یہ بولا بھی نہیں جاتا ہے۔

نفسانی کید کو شیطان تقویت پہونچا تا ہے
احکام اسلامی کے بارے میں انسان کا سوچنا کہ یہ کام میری طاقت سے باہر ہے ، یہ انسان کی خام خیالی اور نفسانی کید ہے اور نفس کی جانب سے گمراہی کا شکار بنانے کی ایک سازش ہے ، اورشیطان اس میں تقویت پیدا کردیتا ہے ،وہ سمجھاتا ہے کہ یہ کام تم کیسے کرسکتے ہو؟ اتنا مشکل عمل تم سے کیسے ہوپائے گا، یہ ساری خرابیاں غلط علم اور غلط فہم کا نتیجہ ہے۔
دنیا میں کسی کو اطمینان نہیں
تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے کہ انسان نے دنیا کو اطمینان کی جگہ سمجھ لیا ہے اور یہاں یہ ملنے والا نہیں ، پوری انسانی تاریخ کو دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہاں کسی کو بھی اطمینان نہیں ملا ، بادشاہ ہوں کہ رعایاہوں، امیر ہوں کہ غریب ہوں، فراخی والے ہوں یا تنگ دست ہوں ، بڑی سلطنتوں کے حکمراں ہوں یا چھوٹے علاقوں کے ، دنیا میں کسی کو اطمینان نہیں۔
رعایا سے زیادہ حکمران پریشان
اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ عوام جتنی پریشان رہتی ہے اس سے زیادہ یہ حکمران پریشان رہتے ہیں ، اسی لیے بعض بادشاہوں نے اپنے بیٹوں کونصیحت کیکہ بیٹا! تم کرسی اورسلطنت کے بارے میں بہت فکر مند رہتے ہو، اس کی فکر کرنا چھوڑدو، اس کی آرزو مت رکھو، یہ ساری پریشانیوں کی جڑ ہے ، ہر وقت بے چینی رہتی ہے، دکھائی دینے میں تو بادشاہ ہے،مگر وہ ہروقت پریشان رہتا ہے کہ کب کون زہر ملادے؟ کون کس وقت سازش کرلے؟ معلوم نہیں کون کس وقت کوئی پٹاخہ ٖچھوڑدے؟
اپنوں کی اذیت کا احساس کیوںزیادہ ہوتا ہے ؟
ایک دشمن اگر تکلیف پہونچائے تو تکلیف ضرور ہوتی ہے ؛ مگرایک جگری دوست نے اگرتکلیف پہونچائی اگرچہ اس کی تکلیف دشمن کی تکلیف سے کم ہے ، پھر بھی جگری دوست سے کہا جاتا ہے کہ تم نے مجھے اتنی تکلیف دی ہے جتنی اس دشمن نے بھی نہیں دی ، یہ بات کیوں پیدا ہوئی ؟ اس کے فہم کے فرق کی وجہ سے تکلیف بڑھ گئی کہ اس نے سوچاتھا کہ دشمن سے تو تکلیف پہونچ سکتی ہے ؛ مگردوست سے نہیں۔
پتہ کڑکا دل دھڑکا
اکثر لوگ پریشان ہیں، ہرروز لوگ اپنے مسائل لے کرآرہے ہیں، کسی کی تجارت کا مسئلہ ہے ، کسی کے معاش کا مسئلہ ہے، کسی کا کوئی اور مسئلہ ہے، اکثر لوگ خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہیں، ذرہ بھی کچھ ہوا، پریشانی میں مبتلا ہورہے ہیں، بالکل اس جملہ کے مصداق بن گئے ہیں: ’’پتہ کڑکا دل دھڑکا‘‘ذرا سی کھانسی ہوگئی یا معمولی سا نزلہ ہوگیا تو پریشان ہوجاتے ہیں کہ پتہ نہیں اب کیا ہوگا، کوئی خاص بیماری تو نہیں نکل آئے گی، فلاں ٹیسٹ کرانا ہو تو ڈرنے لگتے ہیں کہ کہیں کوئی خاص بیماری کا مثبت اثر ظاہر نہ ہوجائے، ایک نفسیاتی خوف میں سب مبتلا ہوگئے ہیں، مرد، عورت، بچے ، بوڑھے سب پریشان ہیں۔
دنیا امتحان ہال کے مانند ہے
اللہ نے قرآن میں فرمایا ہم نے تم کو امتحان کے لیے زندگی دی ہے، لیبلوکم أیکم أحسن عملا۔ (الملک:2) آزمانے کا نام ہی امتحان ہے؛ اگر کوئی امتحان ہال میں جا کر کہے کہ مجھے بیٹھنے کے لیے صوفہ چاہیے، ہوا کے لیے اے سی چاہیے،پنکھے کا رخ میری طرف کردیا جائے، کھانے کے لیے فلاں چیز لائی جائے، پینے کے لیے فلاں مشروب دیا جائے،تو یہ چیزیں امتحان ہال کے مناسب نہیں ہیں؛ بل کہ وہاں جتنی دیربھی بیٹھنا ہے اتنی دیر میں کام کرنا ہے، جلدی جلدی پرچہ لکھ لیناہے، اور ویسا ہی لکھنا ہے جیسا امتحان لینے والا چاہ رہا ہے ، امتحان ہال میں وقت کی پابندی بھی رہتی ہے، امتحان ہال میں اطمینا ن نہیں رہتا، ٹھیک اسی طرح دنیا بھی دارالامتحان ہے، اور اللہ تعالیٰ مختلف چیزوں کو کم یا زیادہ کرکے آزماتے ہیں، اس وقت اموات ہورہی ہیں،یہ جانوں کی کمی ہے، کاروبار نہیں چل رہے ہیں ،ثمرات کی کمی ہے،ہر جانب سے لوگوں کی مخالفت کا سامنا ہے، امن کی کمیکی وجہ سے ہے، حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو روزی روٹی کے مسائل کا سامنا ہے، بھوک کی وجہ سے ہے ،جتنا بچا کچا تھاسب ختم ہوگیا،یہ مال کی کمی کی وجہ سے ہے اور اللہ نے فرمایا یہ سب ہماری جانب سے امتحان کے لیے ہے: ولنبلونکم بشییٔ من الخوف الجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات۔ (البقرۃ:155)

حالات پر کامیابی کا کوئی دارومدار نہیں
دنیوی زندگی دراصل امتحان والی زندگی ہے، جو اس حقیقت سے واقف ہیں ،وہ حالات سے پریشان نہیںہوتے ،وہ یقین رکھتے ہیں کہ حالات کی تبدیلی، تغیراور اونچ نیچ سے ہماری ابدی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کاکوئی تعلق نہیں ہے ،بل کہ ان حالات میں امتحان لینے والے کو جو جواب ہم سے مطلوب ہے ، اس جواب پر کامیابی موقوف ہے،محض حالات کامیابی، ناکامی، سربلندی، رسوائی، عزت اور ذلت کا ذریعہ نہیں ہیں،اس لیے کہ اگر کوئی معاش کی تنگی میں گرفتا رتھاتو کل قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم کیوں معاشی تنگی کا شکار تھے؟ دولت کی فراوانی تمہارے پاس کیوں نہیں تھی ؟بل کہ سوال یہ ہوگا کہ تنگی میں ہماری جانب سے صبر کاحکم تھا، وہ کیا یا نہیں ؟تنگی کوئی کامیابی یا ناکامی کی چیز نہیں ، اگر دولت ملی تھی تو شکر کاحکم تھا، شکر ادا کیا یا نہیں ؟ اگرشکر ادا نہیں کیا تو یہ دولت بھی ذلت کا سبب ہے اور تنگی میںصبر کر لیا تو غربت بھی عزت کا سبب ہوگی، یہی حال بیماری اور صحت کا ہے ، کوئی بیمار ہوا اور گزر گیا ، بیماری پرنہ صبرکیا اور نہ اس کو اللہ کی جانب سے سمجھا،تو یہ بیماری بھی ہلاکت اور رسوائی کا سبب ہے اور اگر بیماری کواللہ کی طرف سے سمجھا اوراس پر صبر کیاتو کامیاب ہوگیا ، والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ۔(شعب الایمان للبیہقی:1/350) ایک آدمی صحت مند ہے اور صحت کو اللہ کی طرف سے نہیں سمجھتا؛ بل کہ کہتا ہے میں جم کرتاہوں، بڑی مقدار میں بادام کھاتاہو ں، روزآنہ کئی لیٹردودھ پیتا ہوں، اس نے صحت کو من جانب اللہ نہیں سمجھا اور اپنی صحت پر اترایا اور گھمنڈ میں مبتلا ہواتو یہ صحت اس کے لیے عزت کے بجائے قیامت کے دن ذلت کا سبب ہوگی۔

دنیا دارالتکلیف ہے دارالتفریح نہیں
یہاں ہر چیز من جانب اللہ ہے ، اس واسطے یہ سمجھیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے ،دار الاطمینا ن نہیں،یہ دارا لتکلیف ہے ، دارالتفریح نہیں، یہاں سے جانا ہے، یہاں رہنا نہیں ہے، یہ دارالفرار ہے، دارالقرار نہیں ، ہر طرح کی پریشانی کا سبب ان ہی بنیادی باتوں کا ذہن میں نہ رکھنا ہے۔
پیش نظر مرضیٔ جاناناں چاہیے
اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ نے مجھے کچھ احکام دئیے ہیں، مجھے ان کو بجا لانا ہے، وہ جس حال میں رکھے مجھے راضی رہنا ہے، پھر آدمی کو کوئی پریشانی نہیں رہتی،وہ کبھی گھبراتا نہیں، کبھی الجھنوں کا شکار نہیں ہوتا، اہل اللہ کی زندگیاں اسی کی ترجمان ہوتی ہیں، وہ ہر حال میں أنابربی راض کہتے ہیں، میں اپنے رب سے ہرحال میں راضی ہوں۔
سارا جہاں خلاف ہو پرواہ نہ چاہیے
پیش نظر مرضی جاناناں چاہیے
مرض رہے ، صحت رہے، عمر زیادہ ملے ، کم ملے، فراخی رہے یا تنگی رہے ،ہر حال میں راضی برضا رہے۔
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
ایسے حالات میں خاص طور پر مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، ہمارا ایمان ہے کہ مجھے اتنا ہی ملے گا جتنا اللہ نے لکھ دیاہے: ان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقھا۔ (مشکوۃ المصابیح: 5300)جب تک آدمی کی روزی کی تکمیل نہ ہوجائے اس وقت وہ مرتا نہیں، اور جو روزی اس کی مقدر میں نہیں ہے گھر وں میں رکھنے کے باوجود نہیں پاسکتا،اناج کی بوریاں رکھی ہوئی ہیں کھا نہیں سکتے یا رکھ کر مر رہے ہیں، جتنی صحت لکھی ہے اتنی ملے گی ، جتنی روزی لکھی ہے وہ ملے گی، جتنی ضروری اشیاء کی فراہمی لکھی ہے وہ ملیں گی ، آزمائش سے حفاظت لکھی ہے ،اس سے بچے گا، وہی ہو گاجو اللہ نے چاہا، اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
خدا جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے
اگر ایسا ہوتا کہ ہمارے ڈرنے سے پریشانی چلی جاتی تو ساری دنیا سے پریشانی کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا، اس واسطے کہ سارے ڈر رہے ہیں ، ایسا بھی نہیں ہے کہ جو موت سے ڈر رہا ہے ،وہ موت سے بچ رہا ہے ،اس لیے ڈرنے اور گھبرا نے کی کوئی ضرورت نہیں؛ بل کہ اندرون میں یہ مضبوط فیصلہ ہونا چاہیے کہ مولیٰ جس حال میں رکھے، میں اس پر راِضی ہوں،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حال اچھا ہے ،وہ اچھا ہے ، جب کہ تعلیمات یہ کہتی ہیںکہ
اللہ جس حال میں رکھے وہ حال اچھا ہے
پریشانی دو طرح کی ہوتی ہے
پریشانی دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک وہ جس میں انسانوں کاکوئی دخل محسوس نہیں ہوتا جیسے بارش زیادہ ہوئی گھر گر گئے ، زلزلہ آیا بستی اجڑ گئی، سیلاب آگیا انسان اورحیوان بہہ گئے ، تیز وتند آندھی چلی درخت اور کھیتیاں اکھڑ گئیں،ٹڈی دل آگئے کھیت کھا گئے، ( یہ اتنی چھوٹی مخلوق ہوتی ہے ؛ مگر چھ فٹ کے لاکھوں انسانوں کی غذا کھا جاتی ہے، اس سے مقابلہ کے لیے فوجی مہم چلانی پڑتی ہے)کچھ پریشانیاںوہ ہوتی ہیں کہ جس میں انسانوں کا دخل ہوتا ہے جیسے ظالم حکمرانوں کا تسلط، برائی چاہنے والے لوگوں کا کرسیٔ اقتدار پر جمے رہنا،وہ بھی اللہ ہی کی حکمت اور مصلحت سے ہوتا ہے ،اللہ سب کو کچھ نہ کچھ موقع دیتے ہیں جب تک وہ دینا چاہیں گے دیں گے اور جب چھیننا چاہیں گے چھین لیں گے: توئی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء۔ (آل عمران:26)
طویل راتیں رنگین صبح پیدا کرتی ہیں
ذہن میں ایک بات یہ بھی گردش کرتی ہے کہ حالات کب بدلیںگے ؟ مسلمان مٹھی بھر ہیں اور وہ بڑی مقدار میں ہیں، ان کے پاس ہر چیز مہیا ہے ، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، اسی واسطے اللہ تعالیٰ رات دن لاتا رہتا ہے: توجل النھار فی اللیل ۔ (آل عمران:27)راتوں کی تاریکی کو دیکھ کر گھبرانے کی ضرورت نہیں، اسی اندھیری سے صبح تازہ پیدا ہوتی ہے ، کسی نے کہا تھا؎
طویل راتیں رنگین صبح پیدا کرتی ہے
ماضی میں انسانوں کی تاریخیں ہیں، ماضی قریب میں تو لوگ کہا کرتے تھے کہ فلاں کی سلطنت میں توسورج غروب ہی نہیںہوتا؛مگر ان کو کیا معلوم کہ سورج ہی پورا ڈوب جانے والا ہے ، اذا الشمس کورت(التکویر:1) جب سورج بے نور کر دیا جائے گا۔بڑے بڑے حکمراں یہاںسے گزرے ہیں،یہاں کسی کو قرار نہیں ، اللہ قادر مطلق ہیں ،وہ جب اورجیسا چاہیں گے کریں گے ، اللہ تعالی حالات کوبدلتے رہتے ہیں ، تلک الأیام نداولھا بین الناس۔ (آل عمران : 140)اور یہ حالات ہی ایمان والوں کے ایما ن کا امتحان ہوتے ہیں ولیعلم اللہ الذین آمنوا۔ (آل عمران : 140)
ظالموں کو چھوٹ محبت کی وجہ سے نہیں دی جاتی
کسی ظالم کو کچھ ملنا اللہ کی پسند کی علامت نہیں ہے ، ہندوستان کے ایک حکمران نے اپنے مخالف کا منصوبہ جان کر قلعہ سے فوجیوں کو خالی کروادیا ، سارا میدان خالی ہوگیا ، اب مخالف نے دیکھا کہ میدان خالی ہے ، یہاں کوئی فوجی نہیں، وہ آگیا کرسی پر بیٹھ گیا، دراصل یہ بادشاہ کی ایک چال تھی کہ آنے والاقلعہ میں غفلت میں رہے اور اچانک اس پر حملہ کردیا جائے، اور فوج سمیت اس کو ہلاک کیا جائے ،ایسا نہیں تھا کہ قلعہ اس کیمحبت کی وجہ سے خالی کیا؛ بل کہ مخالفتمیں خالی کروایا تھا ،جیسے چھوٹی مچھلی کو گل کے سامنے لگا کر بڑی مچھلی پکڑ لی جاتی ہے ، اسی طرح مشہور ہے کہ روٹی گھی میں ڈبو کر چوہے پکڑے جاتے ہیں، چوہا پکڑنے کے لیے روٹی ہی کافی تھی، گھی مزید رغبت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ،اب چوہا سوچتا ہے کہ روٹی کو بند بل میں لے جاکر کھانے کے بجائے، یہیں کھلی ہوا میں اور محل میں پوری شان وشوکت کے ساتھ کھا یا جائے ، وہ دو زانو بیٹھ کر کھانا شروع کرتا ہے اور فوراً پکڑا جاتاہے ،یہ گھی والی روٹی چوہے کی محبت میں نہیں لٹکائی گئی تھی؛ بل کہ اس کو پکڑنے کے لیے ایسا کیا گیاتھا، ٹھیک اسی طرح اللہ جس کو چاہیں موقع دیتے ہیں، کسی کو سیکڑوں برس دئیے،کسی کو دسیوں دہے دئیے،کسی کو دسیوں سال دئیے؛ مگر مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ظالموں کے ساتھ برا معاملہ ہونے والا ہے ، ہم ظالم سے بدلہ لیں گے تو ہم ہمارے حساب سے لیں گے ؛ اگراللہ بدلہ لیں گے تو اپنے حساب سے لیں گے، اس لیے اپنے اور ظالم کے درمیان اللہ کو کر دینا چاہیے۔
حوصلہ وہمت سے کام لیں
ہرحال میں اللہ سے راضی رہیں ، خوش حال رہیںیا تنگ حال رہیں، عمر کم رہے یا زیادہ رہے ،حالات سب پر آتے ہیں، ڈاکٹر، صحافی، عامل اور منسٹر سب کے اوپر حالات آتے ہیں، حالات سے گھبرائیے نہیں، خوف مت کھائیے، ہمت وحوصلہ سے رہیے۔صحابہ ؓکے ایمان کا عالم یہ تھا کہ اگر دشمن سامنے آجاتا تو ایمان بڑھ جاتا تھا، ہمارے اوپر حالات آتے ہیں تو ایمان کمزور ہوجاتا ہے ، اس وقت جو خوف اورگھبراہٹ کی جو کیفیت ہے ، اس کو نکالنے کے لیے کچھ تدبیر کے طور پر یہ باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، ان شاء اللہ ان باتوں سے خوف کی کیفیت ختم ہوگی اور بوجھ ہلکا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×