اسلامیات

نیکی اور اچھائی پر جم جانا کمال ہے

عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی زید فضلہٗ کے نورانی بیان کے کچھ اہم نکات
بیان27؍رمضان1441ھ م 21؍مئی 2020ء

بچے ہوئے ایام رمضان کی قدردانی
ہم لوگوں میں اعمال کا ذوق ویسے ہی کم ہے؛ مگر ماحول کی وجہ سے کچھ کر لیتے ہیں، جیسے اعتکاف کی حالت میں جب مسجد میں دیکھتے ہیں کہ سب عبادت ، تلاوت ، ذکر اور تصحیح قرآن مجید میں مصروف ہیں تو سب کے لیے عمل آسان ہوجاتا ہے، لیکن اس دفعہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اجتماعی دینی ماحول نہ مل سکا، پہلے ہی سے ذوق کم ، اعمال کی کوتاہیاں، رمضان کی قدردانی میں بے حد کمی، اس کا احساس اپنے اندرون میں رکھتے ہوئے جتنا رمضان گزرگیا، اس میں ہونے والی کوتاہیوں سے معافی تلافی اور جو دو تین دن کا وقت باقی رہ گیا ہے ، اس کی قدردانی کی کوشش کریں۔
نیکی اور اچھائی پر جم جانا کمال ہے
لوگ رمضان میں کچھ سیدھے ہوجاتے ہیں،نیکی اور اچھائی اختیار کرلیتے ہیں، کسی اچھائی کو اپنانا اچھا ہے ؛ مگراچھائی پر جمے رہنا یہ عمل کو شاندار بناتا ہے ، اسی لیے آپ حضرات سے گزارش ہے کہ جن برائیوں کو ہم نے چھوڑا ، جن اچھائیوں کو ہم نے اپنایا، جن نیکیوں کو ہم اختیار کرتے رہے اور جن نیک اعمال کو ہم اپناتے رہے، ان کے اوپر جمے رہنے کا ، استقامت کا اور غیر رمضان میں بھی اس کے اہتمام کا خیال رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ سب سے بہترین عمل وہ ہے کہ جس کے اوپر ہمیشگی اختیار کی جاتی ہے۔(صحیح بخاری:6464)
اللہ کے بندوں کی خدمت بھی ایک اہم ذمہ داری ہے
جس طرح نماز اللہ کا حق ہے، روزہ اللہ کا حق ہے، نماز اورر وزے کے ذریعہ ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی طرح ایک حق ہمارے ذمہ بندوں سے متعلق ہے :وہ اپنی طاقت، صلاحیت اور استطاعت کے حساب سے اللہ کے بندوں کی مددو تعاون کرنا، یتیم و بے سہارالوگوں کے لیے سہار ا بننا، صدقات اور خیرات کا اہتمام کرناہے ، اس کی طرف بھر پور توجہ دیں اور موجودہ حالات خاص طور پر اس کا تقاضہ اپنے اندرون میں رکھتے ہیں، اس کے لیے اسلام میں ایک حکم زکوۃ کا ہے ، ایک حکم صدقۂ فطر کا ہے اور ایک حکم صدقات نافلہ کا ہے ، جو مال اللہ نے دیا ہے زکوۃ کے دریعہ اس کا چالیسواں حصہ نکالنا،زکوۃ میں تو آدمی صرف اپنی طرف سے اپنے مال کا چالیسواں نکالتا ہے ؛ مگر صدقۂ فطر اپنی طرف سے اور اپنے بچوںبالخصوص اپنے نابالغ بچوں اور بچیوںکی طرف سے نکالنا ہے۔ہر ایک کا فطرہ پونے دو کیلو ہے ، چھوٹا ہو یا بڑا ہو، اب اس کے حساب سے اس کی قیمت لگا کر کسی غریب گھرانہ میں دے دیں تا کہ وہ لو گ اپنا کچھ انتظام کرلیں، اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے روزوں میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں پروردگار عالم ا س کے ذریعہ سے اس کا تدارک فرمادیں گے ۔صدقۂ فطر عید کی نمازپڑھنے سے پہلے پہلے ادا کریں۔ (شامی: 367/2، ابن ماجہ: 1755)
لاک ڈاؤن میں عید کی نماز اور خطبہ
جس گھر میں چار پانچ افراد ہوں، وہاں نماز عید ادا کی جاسکتی ہے، ہر گھر میںایک آدمی تو ایسا ہونا چاہیے جو نماز پڑھا سکے اور خطبہ دے سکے اور خطبہ کے بنیادی رکن اللہ کی تعریف او رشہادتین کا اقرار ہے، سورۂ فاتحہ بھی پڑھ لے تو خطبہ ادا ہوجاتا ہے ، چوں کہ دو خطبے ہیں ،ایک میں اللہ کی تعریف ، حضور پر درود ، احکام کی آیات و احادیث ہوں، دوسرے خطبہ میں اللہ کی تعریف ، حضور پر درود ، صحابہ کرامؓ اور بالخصوص حضرات خلفائے اربعہؓ، حضرات حسنین ؓ،سیدہ فاطمہؓ اور اہل بیت کا تذکرہ ہو،صرف الحمد للہ کہنے سے بھی خطبہ ہوجائے گا، خطبہ کہہ لے اور نماز پڑھالے کہ تین تکبیریں پہلی رکعت میںقرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیریں کہے تو نماز عید ہوگئی۔
دوسرے خطبہ سے متعلق ایک شبہ اور اس کا زبردست ازالہ
تیس چالیس سال پہلے ایک صاحب نے ہمارا خطبہ سن کر کہا تھا کہ اس میں شیعیت کی بو آتی ہے ، ا س میں حضرت فاطمہؓ کا تذکرہ ہے ، حسنین ؓکا تذکرہ ہے، حضرت عباسؓو حضرت حمزہؓ کاتذکرہ ہے ، لہذا اس سے شیعیت کی بو آتی ہے؟
(جواب)اس میں اگر شیعیت کی بو ہوتی تو صرف خلیفۂ رابع کا تذکرہ ہوتا ،تینوںاورخلفاءؓ کا تذکرہ نہ ہوتا،حالاں کہ شیعوں کے نزدیک جب تک ان حضرات سے تبرأ نہ کیا جائے تو اس وقت تک وہ شیعہ نہیں ہوسکتا،ان کا عقیدہ ہے: لا ولاء الا ببراء۔ (شرح العقیدۃ الطحاویہ1/360:م دارالتدمریہ ، بیروت)خطبہ کی یہ ترتیب ہمارے علمائے حق نے قائم فرمائی ہے ، اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ حضرات شیخینؓ کی حمایت میں حضرات اہل بیت کی عظمت کم ہوجائے یا ان سے صرف نظر کر لیا جائے اور ان (اہل بیت )کی حمایت و تائید میں حضرات شیخین اور خلفائے ثلاثہ ؓ کی اہمیت کم نہ ہوجائے ، ہمارا مسلک ہر معاملہ میں اعتدال اورراہ اوسط اختیار کرنے کا ہے ، اس لیے ہمارے علمائے حق نے خطبہ اس ترتیب سے بنایا کہ دونوں کی رعایت رکھی جائے، اس میںخلفاءؓ کابھی اور آل رسول ﷺ کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تمام صحابہ ؓ کرام کا تذکرہ عمومی طور پر کیا جاتا ہے، تمام صحابہؓ کے لیے ترضی کا جملہ کہا جاتا ہے ، یہ ساری چیزیں ایک مخصوص مصلحت کی خاطر بنائی گئی ہیں۔
خلق خداکی خدمت شعور کے ساتھ کریں
اپنا اور اپنے بچوں کاپونے دو کیلو گیہوں یا اس کی قیمت کے ذریعہ صدقۂ فطر ادا کریں ، اچھا ہے کہ قیمت دے دیں تا کہ ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو سکے ، اسی لیے میںایک بات کہتا ہوں کہ مساجد کے ائمہ کو لوگ عیدین کے موقع پر، مسجد کی کسی تقریب کے موقع پر، سالانہ رمـضان کے موقع پرلوگ رومال اوڑھاتے ہیں ،ایک صاحب نے آکررومال اوڑھایا، دوسرے نے، تیسرے نے اور اسی طرح کئی لوگوں نے رومال اوڑھایا،بتائیے کہ یہ شخص(امام) رومالو ں کا کیا کرے گا؟ اسی لیے فرمایا: خیر الھدایا النقود، سب سے بہتر ہدیہ نقدی ہے ، اس کی جو بھیضرورت ہوگی وہ اس نقد سے پوری کرلے گا،سمجھ داری کے ساتھ کام کو انجام دینا چاہیے، ہمارے استاذ محترم مولانا نصیر احمد خان صاحب فرمایا کرتے تھے:خیر الھدایا النقود۔ اس کو سکۂ رائج الوقت دیا جائے ، اس سے وہ غلہ چاہے گا تو وہ خرید لے گا، دوا چاہے گا تو دوا خرید لے گا، لوگ خدمت کی طرف تو متوجہ رہتے ہیں ،مگر شعوری طور پر خدمت کا جذبہ نہیں رکھتے ۔
جوش اور جذبہ میں قانون کی خلاف ورزی نہ کریں
اب جب کہ تھوڑی بہت چھوٹ مل گئی ہے؛ لیکن کچھ نہ کچھ قواعد، ضوابط اور قوانین بھی باقی ہیں، مکمل چھوٹ نہیں ملی ہے ،جوش و جذبہ میں ہمارے نوجوان قیود وحدود کو پھلانگ دیں اور دوسروں کو موقع مل گیا،یہ اچھی بات نہیں ہوگی،کچھ لوگمنتظر ہیں کہ کوئی موقع مل جائے اور مسلمانوں کو تکلیف پہونچادیں ، اس لیے جوش اور جذبہ میں کوئی بھی خلاف قانون کام نہ کریں ، مثلا کہا جارہا ہے کہ آپ بغیر ماسک کے باہر نہ جائیں،تو ماسک کا ضرور استعمال کیجیے، اسی طرح جو بھی قوانین ابھی باقی ہیں ، ان کی رعایت کیجیے۔
قرآن مجید رسالت محمدی ﷺ کی سب سے بڑی دلیل
نبیﷺ کے وہ حالات جو آپ کے نبی ہونے ، پورے عالم میں ایک ممتاز شخصیت ہونے کو بتلاتے ہیں، ان کاتذکرہ برادران وطن کے سامنیکیا جائے تا کہ ان کو اس بابرکت شخصیت ﷺکے ماننے پر مائل کیا جاسکے، جو کلام نبیﷺ نے فرمایا، وہ کلام کسی مخلوق کا نہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلام اللہ ہی ہے ، جب سورۂ کوثر نازل ہوئی تو اسے بیت اللہ پر لٹکادیاگیا، اسے دیکھ کر شعراء اپنے پرانے قصیدے اتارلے گئے ،جاتے جاتے کسی نے سورۂ کوثر کے بعد لکھ دیا کہ ماھذا کلام البشر۔
ہم چوں کہ عربی جانتے نہیں ہیں ، اس کی فصاحت ، اس کی بلاغت کا ہمیں اندازہ نہیں ، ایک ایسے شخص سے ایسا کلام کہ جس نے کبھی کسی کے سامنے شرف تلمذ طے نہیں کیا تو ظاہر ہے کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا، قرآن کریم کی ہر صورت حضورﷺکی نبوت کی دلیل ہے ۔
مختصر مدت میں لائے سب سے بہتر انقلاب
جس طرح آپ کی ذات لاثانی ہے ،آپ کا کام بھی لاثانی اور شاندار ہے ، ساری دنیا کا جائزہ لے کر ریسرج کرنے والوں نے کہہ دیا کہ اب تک دنیا میں آنے والوں میں سب سے زیادہ باوقار اوربے مثال شخصیت حضوراکرم ﷺ کی ہے ، ایسا عظیم الشان کارنامہ آپ نے انجام دیا کہ بغیر قتل وخون کے صالح ترین انقلاب آگیا؎
سارے عالم میں انوکھا کارنامہ آپ کا
مختصر مدت میں لائے سب سے بہتر انقلاب
حالات بالکل متغیر ہوگئے ، انسان اپنی بنائی ہوئی چیزوں کی پرستش کرتے تھے، نبی ٔ رحمتﷺ نے خوب سمجھایاکہ تم اپنی بنائی ہوئی چیز کو اپنا معبود کیسے مانتے ہو؟ بنایا تم نے اور اسے ہی اپنا معبود بنالیا۔
معجزات محمدیﷺ کا تمام عالموں میں ظہور
آپﷺ کا کام اور معجزات آپ کے پیغمبر بر حق ہونے کی دلیل ہیں ، اور یہ معجزات بھی عالم کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہوئے، پانی میں ، پتھر میں ، آگ میں ، عالم علوی میں، عالم سفلی میں ہر قسم کے عالم میں ظاہر ہوئے، اب ظاہر کہ یہ کسی مخلوق کا کام تو نہیں ہوسکتا، اس سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ رسول برحق ہیں۔
اخلاق عظیمہ کے حامل ہیں آپ کلام رحماں میں
ایک اور پہلو جو لوگو ں کومتأثر کرنے کے لیے نمایاں کردار کرتا ہے ،وہ آپﷺ کے اخلاق حسنہ ہیں ، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انک لعلی خلق عظیم۔آپ کے اخلاق عظیمہ کی قرآن مجید میں صراحت کی گئی اور اسے اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔
پائیدار بنیادوںکے ذریعہ برادران وطن پر محنت
کچھ ایسے انداز سے برادارن پر محنت کرنی چاہیے کہ اتحاد اور اجتماعیت کا کوئی ایسا سرا ہاتھ لگ جائے کہ جس میں مضبوطی بھی ہو اور پائیداری بھی ہو، اگر کسی عارضی اور وقتی مقاصد کوسامنے رکھ کر کام کریں گے تو جب وہ مقصد ختم ہوجائے تو اتحاد بھی ختم ہوجائے گا ، لہذالوگوں کو اللہ واحد اورراہ حق سے جوڑنے کی کوشش کریں، یہ مضبوط بنیادیں ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×