اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے!

ماہِ رمضان اپنی خیر و برکت کے ساتھ آیا اور رحمت و مغفرت کی نویددے کر رخصت ہوگیا،تلاوت و تراویح کی حلاوتیں اسی کے ساتھ چلی گئیں،سحر و افطار کی لذتیں ہلالِ عیدکےساتھ ختم ہوگئیں،آہ سحرگاہی اور نالۂ نیم شبی کانورانی ماحول سال بھرکےلیے گم ہوگیا؛لیکن سب سے بڑا خسارہ یہ ہوا کہ مسجدیں ویران ہوگئیں، مصلے سنسان ہوگئے، کل تک جو بندگان خدا تہجد ونوافل کا التزام کرتے تھے آج بے دریغ فرائض و واجبات سے غفلت برتنے لگے۔ان حالات کو دیکھ کرایسامحسوس ہونےلگاکہ ہمارامسلمان خدائے واحد کے بجائے ماہِ رمضان کی عبادت کرتا ہے،اس کا ایمان اتنا کمزور ہوچکاہے کہ حالات و تغیرات کا سیل رواں اسے بہالےجاتاہے،نہ ایمان میں استحکام و مضبوطی ہے نہ اعمال پراستقامت ودوام !

فریضہ نماز کے سلسلہ میں جو مجرمانہ غفلت وداعِ رمضان کےبعددیکھی جاتی ہے وہ مسلم معاشرےکےلیے بدنماداغ اور ملت اسلامیہ کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے،اگر لاپرواہی و کسل مندی کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہاتو پھر ہمیں اللہ رب العزت کے دردناک عذاب سےپناہ مانگنی چاہیے ۔اس عمومی صورت حال کے برعکس اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اعمال صالحہ اور طاعت وعبادت کی توفیق بخشی،ثبات واستقامت کا حوصلہ دیا، وہ قابل رشک اور لائق تحسین ہیں اور انہیں اس بات پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور نیکی کے کاموں کے لیے اپنے آپ کو مزید تیار کر نے کی فکر کرنی چاہیے۔

فریضہ ٔنماز کی اہمیت :

نماز اﷲ کی رضا کا سبب ، فرشتوں کی محبوب ترین چیز ، انبیاءکرام علیھم السلام کی سنت اور زندگی کا کیف و سرور ہے۔ اس سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے، دعا ئیں قبول ہوتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے،ہر حاجت پوری ہوتی ہے۔نماز ہی ایمان کی جڑ ، بدن کی راحت ، دشمن کے لئے ہتھیار اور نمازی کے حق میں سفارشی ہے ۔حافظ ابن حجرؒ نے منبہات میں حضرت عثمان غنی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص نماز کی محافظت کرےاور اوقات کی پابندی کے ساتھ اس کا اہتمام کرے حق تعالیٰ شا نُہ نو چیزوں کیساتھ اس کا اکرام فرماتے ہیں: اول یہ کہ اس کو خودمحبوب رکھتے ہیں ۔ دوسرے تندرستی عطا فرماتے ہیں۔ تیسرے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔چوتھے اس کے گھر میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ پانچویں اس کے چہرہ پر صلحاء کے انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ چھٹے اس کا دل نرم فرماتے ہیں۔ ساتویں پل صراط پرسے بجلی کی طرح گزاردیتےہیں۔ آٹھویں جہنم سے نجات عطا فر ما یتے ہیں۔نویں جنت میں ایسے لوگوں کے پڑوس سے شرف بخشتے ہیں؛جن کے بارے میں‘لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون’ وارد ہے یعنی قیامت میں نہ ان کو کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔

حضورؐ کا ارشاد ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیاں ہیں: چہرہ کی رونق ہے، دل کا نور ہے، بدن کی راحت اور تندرسی کا سبب ہے، قبر کا انس ہے، اﷲ کی رحمت اترنے کا ذریعہ ہے، آسمان کی کنجی ہے، اعمال ناموں کی ترازو کا وزن ہے ( کہ اس سے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے ) اﷲ کی رضا کا سبب ہے، جنت کی قیمت ہے اور دوزخ کی آڑ ہے ،جس شخص نے اس کو قائم کیا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اس کو چھوڑا اس نے دین کو گرا دیا(دیلمی) اور یہ تو مشہور حدیث ہے کہ میری امت قیامت کے دن وضو اور سجدہ کی وجہ سے روشن ہاتھ پاؤں والی روشن چہرہ والی ہو گی اسی علامت سے دوسری امتوں سے پہچانی جائے گی۔(متفق علیہ) ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آسمان سے کوئی بلااور آفت نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹا لی جاتی ہے۔ متعدد احادیث میں واردہے کہ اﷲ تعالی نے جہنم پر حرام کر دیا ہے کہ سجدہ کے نشان کو جلاے (یعنی اگر اپنے اعمال بد کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل بھی ہو گا تو سجدہ کا نشان جس جگہ ہو گا اس پر آگ کا اثر نہ ہوسکے گا ) ایک حدیث میں ہے کہ نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے اور صدقہ اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔

نماز کی کیا اہمیت ہے اور اس کا پابند ہونا کس قدر ضروری ہے؟ اس کا اندازہ اس مکتوب گرامی سے ہوتا ہے، جسے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دو رخلافت میں مختلف ریاستوں کے گورنروں کے نام لکھا تھا، اور جس کا ایک ابتدائی حصہ اس طرح ہے: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکے (آزاد کردہ) غلام نافع سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے گورنروں کو لکھا تھا ‘‘ تمہارے تمام کاموں میں سب سے بڑھ کر اہمیت میرے نزدیک نماز کی ہے، جس کسی نے اس کی حفاظت کی او راس کی نگرانی کرنے میں لگا رہا، اس نے اپنے دین کو بچالیا او رجس نے نماز کو ضائع کیا، وہ دوسرے تمام کاموں کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا’’۔ (الموطالامام مالک، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر ۶)

ایک عالم ربانی کے بہ قول :’’نماز اسلام کے ان تمام عقائد کو تازہ کرتی ہے، جن پر ایمان لائے بغیر نفس کی پاکیزگی، اخلاق کی درستی اور اعمال کی اصلاح ممکن نہیں ۔ صبر و توکل اور پاکیزگی، طہارتِ نقس وغیرہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے، نماز کے اندر آدمی کو پاکباز اور خدا ترس انسان بنانے کی بے انتہار قوت موجود ہے، نماز ہمیں باحوصلہ اور عالی ظرف بناتی ہے اور ایک پاک اور ستھری زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔۔۔۔ نماز کو دین کے ایک جامع عنوان کی حیثیت حاصل ہے، نماز مومن کی زندگی کا اول اور آخر سب کچھ ہے۔ نماز مومن کی اخلاقی اور حقیقی زندگی کی آئینہ دار ہے‘‘۔ (کلام نبوت)

ترک صلاۃ پر وعیدیں:

قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں جہاں نماز کی فضیلتیں بیان ہوئیں ہیں وہیں نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں بھی سنائی گئیں ہیں چنانچہ اﷲ عز و جل ارشاد فرماتا ہے کہ جہنمیوں سے پوچھا جائے گا:تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی؟ تو جہنمی جواب دیں گے :ہم نمازیوں میں سے نہ ہوسکے(سورۂ مدثر آیت:۵۹) اس آیت سے بے نمازی سبق حاصل کریں کہ کہیں وہ بھی نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہو جائیں۔

دوسری جگہ اﷲ عز وجل ارشاد فرماتا ہے: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنھوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ(دوزخ میں) غی میں داخل ہوں گے.( سورۂ مریم آیت:۵۹)غی کیا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کے اور وادی بھی پناہ مانگتے ہیں (خزائن العرفان)

اسی طرح فرمان الٰہی ہے:تو ان نمازیوں کی (کے لئے ) خرابی جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں(یعنی جو لوگ نماز کو ان کے اوقات سے مؤخر کر کے پڑھا کرتے ہیں ) (سورۂ ماعون آیت: ۳)ویل کیا ہے؟ ویل جہنم کی ایک وادی کانام ہے اگر اس میں دنیا کے پہاڑ ڈالے جائیں تو وہ بھی اس کی شدید گرمی کی وجہ سے پگھل جائیں، اور یہ وادی ان لوگوں کا مسکن ہے جو نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور ان کو ان کے اوقات سے مؤخر کر کے پڑھتے ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافقوں پر فجر اور عشاء کی نمازوں سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں، اگر وہ جانتے کہ ان میں کیا (فضیلت) ہے تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے بھی نماز کے لئے حاضر ہوتے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں مؤذن کو حکم دوں کہ وہ اقامت کہے، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر آگ کے شعلے لے کر اُن (کے گھروں) کو جلا دوں جو( بغیر کسی عذرِ شرعی کے) نماز (باجماعت) کے لیے ابھی تک نہیں نکلے۔(بخاری شریف)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے میرے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اور تجھے جلا دیا جائے؛ اور جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے( اللہ تعالیٰ کا) ذمہ ختم ہوجاتا ہے؛ اور شراب نہ پینا؛کیونکہ شراب تمام برائیوں کی چابی ہے۔ (یعنی شراب نوشی سے برائیوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں)۔(ابن ماجہ )

حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہو گئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔(صحیح ابن حبان)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ نبی اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہنچ گیا۔(مستدرک حاکم)

ان کے علاوہ اور بھی متعدد نصوص موجودہیں ؛جن سے تارک صلاۃ کا انجامِ بد معلوم ہوتاہے۔اللہ تعالی سے دعاءہےکہ ہمیں اپنی بندگی کےلیے قبول فرمائے اور رمضان المبارک کی طرح سال بھر فرائض کے اہتمام کی توفیق بخشے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×