اسلامیات

غیبت معاشرتی بگاڑ کا ایک سنگین گناہ

اللہ تعالی نے انسان کو دیگر مخلوقات سے کچھ صفات کے ذریعے ممتاز کیا ہے ان معیاری صفات میں سے اعلی صفت قوت گویائی ہے ، تمام نعمتوں میں سے نطق یعنی کلام کرنا یہ سب سے بڑی نعمت ہے اسی کلام کے ذریعے وہ اپنی خوشی وغم، درد و راحت کا اظہار کرسکتا ہے اس کے برعکس دیگر مخلوقات ان کیفیات کے اظہار کے متحمل نہیں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کتنی بڑی نعمت (نطق) کے ساتھ متصف ہے ، جیسا کہ دنیا دارالامتحان ہے جس کا ذکر سورہ ملک کی ابتدائی ایات میں مذکور ہے، اسی کے سبب اللہ تعالی نے اس نعمت (بات کرنا،زبان) کے استعمال کو انسان کے اختیار میں دے دیا ہے اب یہ انسان کی خوبی پر منحصر ہے کہ آیا وہ اس نعمت کے ذریعے حقوق کی ادائیگی میں کوشاں رہتا ہے یا پامال کرتا ہے، جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ کلام ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا استعمال انسان کے اختیار میں ہے تو کیا اللہ تعالی کی طرف سے بھی اس کے تئیں کچھ رہنمایانہ اصول دیے گئے ہیں لہذا جب ہم قرآن مجید سے رجوع ہوں تو قرآن مجید میں الفاظ کے اظہار کے تعلق سے یوں ارشاد ہوا ہے آیت : مَّا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِـيْبٌ عَتِيْدٌ (سورہ ق،18)
وہ منہ سے کوئی بات نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک ہوشیار محافظ(فرشتہ )ہوتا ہے۔قرآن مجید کی اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان جب کوئی بات اپنے دہن سے اظہار کرتا ہے تو وہ لفظ محفوظ ہوجاتا ہے قارئین کے گوشہ ذہن میں فوراً یہ سوال آ جاتا ہے کہ اپنے زبان سے کونسے الفاظ ادا کریں اور کونسے نہ کریں یہاں پر صرف ایک برائی کا ذکر کیا جاتا ہے جو معاشرتی بگاڑ کا سبب ہے اور وہ ہے غیبت، غیبت ایک سنگین گناہ ہے، جو معاشرے کے سارے تعلقات کو کھوکھلا کردیتی ہے، اس کی وجہ سے آپسی رشتوں میں بگاڑ آجاتا ہے ایک دوسرے سے نفرت و بغض پیدا ہو جاتا ہے بھائی بھائی سے نفرت کرتا ہے دوست دشمن بن جاتے ہیں ، چنانچہ باری تعالی قرآن مجید میں غیبت کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ0 سورہ حجرات 12، *ترجمہ: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی پسند کریگا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ہرگز گوارہ نہ ہوگا۔ اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے غیبت کرنے کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے برابر کہا ہے ، انسان چاہے کتنا ہی اخلاقی پستی کا شکار کیوں نہ ہو وہ کسی مردار انسان کے گوشت خوری کو پسند نہیں کرتا اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پاک کلام میں بہت سے گناہوں کا ذکر کیا ہے سورہ بنی اسرائیل میں زنا کی خباثت کا ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد ہوا ہے کہ وہ فحش کام ہے اس کے قریب بھی مت جائو، اور بھی قرآن مجید میں بے شمار گناہوں کا ذکر ہے کہ جن سے روکا گیا لیکن جس سنگینی کے ساتھ غیبت کا وبال مذکور ہے اتنا کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں اب اندازہ کر سکتے ہیں کہ دینی و دنوی اعتبار سے اس گناہ میں (غیبت)کتنا نقصان ہے اور یہ بات دائمی طور پر استحضار میں رہے کہ غیبت کرنا گویا کہ مردار بھائی کے گوشت کھانے کے مرادف ہے چنانچہ احادیث مبارکہ میں بھی اس گناہ کی قباحتیں مذکور ہوئی ہیں ہمارے نبی، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کرنا زنا سے بھی بدتر ہے( شعب الایمان) بعض لوگ اس confusion اور شبہ میں رہتے ہیں کہ غیبت کس کو کہتے ہی عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ اسے ناگوار ہو عرض کیا گیا: اور اگر میرے بھائی میں وہ چیز پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ چیز اس کے اندر ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر جو تم کہہ رہے ہو اس کے اندر نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان باندھا ۔ ابو داود 4874 ۔
جب غیبت پر اتنی وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہوں تو پھر کیوں کر اس گناہ کے مرتکب ہوکر دارین میں خسارے کے باعث بنیں اور اللہ ورسول کے قرب سے محروم ہوں، تو پھر ہم یہ عزم کریں کہ اب ہم اپنی زیست میں کبھی کسی کی غیبت نہیں کریں گے،چونکہ ماہ مبارک رمضان المبارک کا مہینہ جاری ہے اسی مناسبت سے ایک حدیث مبارکہ گوش گزار کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو سوائے بھوکے پیاسے رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا (ابن ماجہ 1690) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بعضے روزے داروں کو سوائے بھوکے پیاسے رہنے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس حدیث مبارکہ کی تفصیل میں اکثر علماء تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غیبت فحش کلامی جھوٹ چغلی بد نگاہی ایسے گناہ ہیں کہ ان گناہوں کی وجہ سے روزے دار روزے کی روحانیت سے محروم رہتا ہے لہذا ضروری ہے یہ بات کہ ہم ان گناہوں سے صد فیصد اجتناب کریں، اب آخر میں اس گناہ سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں اس کے لئے کچھ رہنمایانہ اصول بتاکر مضمون ختم کیا جاتا ہے۔
1) کسی ماہر اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں اور ان سے اپنے گناہوں کا (اسی میں غیبت) ذکر کرکے ان کے بتائے ہوئے مشوروں کو اپنے دانتوں سے مضبوط پکڑ لیں، انشاءاللہ صد فیصد اصلاح ممکن ہے 2) ہمارے ذہن و دماغ میں غیبت پر آئی وعیدیں مستحضر ہوں چنانچہ حضرت تھانوی رح کے قول کے مطابق جب انسان کسی کا تذکرہ خیر کے ساتھ شروع کرتا ہے اور اس کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے شیطان اس کو شر تک یعنی غیبت تک پہنچادیتا ہے، حضرت تھانوی رح کے قول کے اتباع میں بعض اللہ والوں کا مقولہ ہے جیسے حاجی شکیل صاحب دامت برکاتہم ( پونے والے) کا ملفوظ قابل تذکیر ہے غیر موجود غیر مذکور یعنی جو موجود نہیں اس کا تذکرہ نہیں کے ہم پابند رہیں لہذا جب بھی ہم بات کریں یہ کوشش کریں کہ کسی کی غیبت نہ ہو تاکہ ہر طرح کے دنیوی اخروی نقصان سے بچ سکیں اللہ تعالی ہم سب کو معاف فرماییں اور ہر گناہ سے بچنے کی توفیق و ہمت عطاء فرمائے امین اللہم انفعنی بما علمتنی و علمنی بما ینفعنی و صلی اللہ علی النبی الامی وسلم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×