سیرت و تاریخ

جشنِ میلاد النبیﷺ تاریخ کے آئینے میں!

      ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی ہر مومن کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اس لئے کہ اسی مبارک مہینے میں سرور کونین ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے جن کے صدقہ میں اس کائنات کو وجود بخشا گیا، لیکن آج امت مسلمہ کا ایک طبقہ اظہار محبت و عقیدت میں غلو کا شکار ہو کر دوسروں کو مطعون کررہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اظہار محبت و عقیدت کے باب میں تاریخ کا مطالعہ کریں ۔
   جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پوری امت میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرنے والے اور جان نچھاور کرنے والے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین سلف صالحین کا تقریباچھ سو سالہ  سنہری دورہمارے سامنے آتا ہے اس طویل عرصے میں اپنے محبوب رسول سے اظہار محبت و عقیدت کے لئے پوری امت مسلمہ ایک جماعت کی حیثیت رکھتی تھی، اور اس کے لئے انھوں نے دو طریقے اپنائے ایک یہ کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک نقش کو اپنے ظاہر و باطن میں اس طرح سجایا کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں پکار اٹھتا کہ متبع شریعت عاشق رسول آرہا ہے ۔
  دوسرے یہ کہ ہر محفل و مجلس کو ذکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے معطر کیا اور اس کے لئے انھوں نے نا تو میلاد النبی کی محفلیں سجائیں اور نہ جلوس نکالے اور نہ چراغاں کیے اور نہ ہی ذکر نبی کے لئے کوئی تاریخ متعین کی بلکہ ان کا ہر دن اور رات ذکرِ نبی سے معمور تھا  چھ صدیاں گذر جانے کے بعد امت مسلمہ میں ایک نئے طبقہ نے جنم لیا اور سن چھ سو چار ہجری میں سلطان مظفر الدین اور ابوالخطاب بن دحیہ نے مل کر اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے محفل میلاد ایجاد کی، جن کو مورخین نے فاسق اور کذاب لکھا ہے اس طرح یہ رسم بد چلی اور ہوتے ہوتے خرافات و ایجادات کا مجموعہ بن گئی ۔
 اور جس میلاد کے وجود سے اسلام کی چھ صدیاں خالی تھیں آج اس فعل کو اسلام کا شعار قرار دیا جارہا ہے، اس نو ایجاد کردہ شعار  کو زندہ کرنے والے نام نہاد عاشقان رسول کہلاتے ہیں اور مطیعین ومتبعینِ  شریعت کو دشمنان رسول اور گستاخ رسول تصور کیا جاتا ہے انا لله وانا اليه راجعون
 آج امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اس پہلی جماعت کی اتباع کرتے ہوئے جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ ہیں کہتا ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسلام میں دو عیدیں مقرر کی ہیں اس لئے ہم بھی دو ہی عید منائیں گے ۔
   جبکہ دوسرا طبقہ جس کا  وجود ساتویں صدی میں ہوا رسول کے فرمان کے خلاف ایک تیسری عید کا اعلان بلا دلیل  کرتا ہے اور عید کی خوشی اس دن مناتا ہے جس دن کے یوم وفات ہونے پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے حالانکہ خود ان کے جناب مولانا احمد رضا نے اپنی کتاب نطق الہلال میں یوم ولادت ۸ ربیع الاول قرار دی ہے۔ اور پھر عید منائی بھی تو کس شان سے کہ بیسیوں اللہ اور رسول کے احکامات کو پامال کرکے اور امت کو نبی کے جشن کے نام پر لہو ولعب میں لگا کر احکامِ الٰہیہ اور اسوہ نبویہ سے گمراہ کردیا ۔آج امت خود فیصلہ کرے کہ ان دونوں میں سے  گستاخ رسول کون ہے؟وہ پہلی جماعت جس نے مشنِ نبوی کو اپنایا یا وہ دوسری جماعت جس نے جشن نبی کے نام پر نبی کے دین سے کھلواڑ کیاقیامت کے دن جب اللہ تعالی  امت  محمدی ؐ سے پوچھے گا کہ عید میلاد کس کس نے منائی تو نہ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ  کا ہاتھ کھڑا ہوگا، نہ حضرت عمر فاروق  ؓ کا،نہ حضرت  عثمان غنی  ؓ کا، نہ  حضرت  علی مرتضیٰ  ؓ  کا، نہ  لاکھوں صحابہ کرام   ؓ کا، نہ تابعین  کا، نہ محدثین کا، ہاں  مگر چودہ  سو سال بعد آنے والوں کا ہاتھ کھڑا ہوگا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×