اسلامیات

محبوبیت اور مقبولیت دونوں مشروط ہے تقوی کے ساتھ

واماماینفع الناس فیمکث فی الارض ……القرآن
جوبندہ انسانیت کے لےء نافع ہوگا اس کو زمین جماؤ ملے گا
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی نے فرمایا کہ زمانہ بڑا نباض ہے وہ نافع کے مقابلہ میں انفع کو اور صالح کے مقابلہ میں اصلح کو ترجیح دیتا ہے زمانہ نباض ہونے کامطلب یہ ہیکہ ایک ماہر حکیم جس طرح انسان کی نبض دیکھ کر پہچان لیتا ہےکہ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون کتنافاسد ہے اور کتنا اچھا ہے ایسے ہی زمانہ بھی اپنے اندر رہنے والے لوگوں کی پہچان کرلیتا ہیکہ کون فاسد ہے کون اچھا ہے
آج دنیا خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے اور اسی کو مقتدا کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے
اصلح اور انفع بننے کامطلب یہ ہیکہ عوام الناس کے لےء سودمند اور زیادہ سے زیادہ ہم نفع کا ذریعہ اور سبب بنیں لوگوں کی علمی پیاس بجھائیں خدمت خلق کے حوالہ سے آگے بڑھنے کی ترغیب مقصود ہے ورنہ تو اپنے آپ کو بڑا بنانا یا بننا اس کو شریعت اسلامیہ میں منع کیا گیا ہے
صالح ہر وہ چیز کہلاتی ہے جو بالکل سیدھی لکڑی کی طرح کھڑا رہے جس میں کوی کجی اور تیڑھاپن نہ ہوں
مثلا ایک بندہ نماز روزہ زکوۃ حج قربانی سب اعمال کرتا ہو لیکن وہ شرعی پردہ کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو شریعت میں صالح نہیں کہا جاے گا
صالحیت میں اگر نقص اور کمی ہوں تو معاشرہ اس کو قبول نہیں کرتا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ جب ایک نقص کی وجہ سے زمانہ ہم کو قبول نہیں کرتا ہے تو جس کے اندر سرے سے ہی صالحیت نہ ہوں تو وہ کیسے مقبول ہوسکتاہے
یہ بات بھی یادرکھنا چاہیے کہ قبولیت صلاحیت سے نہیں ملتی ہے بلکہ صالحیت سے ملتی ہے کئ ایسی مثالیں زمانہ میں ہم کو مل جائیں گی جہاں صلاحیت تو اعلی معیار کی ہے لیکن قبولیت نہیں ہے
ہمارے ان دینی مدارس کا مقصد جہاں صلاحیت پیدا کرنا ہے وہیں صالحیت کو بھی پروان چڑھاناہے یہ اور بات ہیکہ ہمیں مدارس میں صلاحیت تو نظر آتی ہے لیکن صالحیت دکھای نہیں دیتی یہ ہماری نظر کی کمزوری ہے مدارس کا قصور نہیں ہے
مدارس اسلامیہ کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن
ہم لوگ ظاہر کو لے لیتے ہیں اور باطن کو یہیں چھوڑ جاتے ہیں آج ضرورت اس بات کی ہیکہ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی لیا جاے
ظاہر کا مطلب ہے کتابوں کے الفاظ وحروف اور نصاب ..
باطن کا مطلب ہے ان حروف میں چھپے ہوے معانی اور حقائق .جیسے الحمدللہ رب العالمین .کا معنی ہے تمام تعریفیں اللہ کے لےء ہی خاص ہے جو عالمین کا پالنہار ہے اور ان حروف کا باطن یہ ہیکہ ہم اپنے آپ کو یہ باور کرالیں کہ قیامت تک میری کوی تعریف نہیں ہوگی اب جب بندہ اس بات کق سمجھ گیا کہ میری کوی تعریف نہیں تعریف فقط اللہ کی ملکیت ہے تو
اب دنیا کا کوی انسان ہماری تعریف کرے نہ کرے ہمیں اس سے کوی مطلب نہیں اس حقیت کو سمجھنا یہ مدارس کا باطن ہے
اگر واقعۃ ہم لوگ اس بات کو سمجھ جائیں تو پھر عوام الناس کی جانب سے عدم قبولیت کا جو شکوہ ہماری زبانوں پر ہوتا ہے وہ خود بخود رفع ہوجاے گا ہم مدارس کو ملامت نہیں کرسکتے چونکہ وہاں تو باطن موجود ہے بلکہ ہم اپنے آپ کو ملامت کریں چونکہ ہم نے اس باطن کو نہیں لیا
حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ ایک مرتبہ راستہ سے گذررہے تھے دوسری جانب سے دو خواتین گذرتے ہوے کہنے لگیں کہ یہ آدمی خواہ مخواہ بزرگ بنا پھرتا ہے کوی للہیت اور اخلاص اس میں نہیں ہے حسن بصری نے جواب میں کہا کہ اے بوڑھی عورت تم نے مجھے صحیح پہچانا اورلوگ یوں ہی مجھے بزرگ سمجھتے ہیں تم ہی اکیلی ہو جس نے مجھے صحیح پہچانا حسن بصری نے یہ جواب اس وجہ سے دیا کیونکہ وہ مدرسہ کاباطن لےء ہوے تھے
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رح کے بارہ میں آتا ہیکہ آپ نے اپنے سدابہار دشمن جو ہروقت آپ کی برای اور دشمنی میں ہی جی رہا تھا اس دشمن کو آپ نے ایک طبق میں مٹھای رکھ کر تحفہ بھجوایا وہ یہ دیکھ کر حیران ہواکہ مجھے یہ تحفہ کیوں پیش کیا جارہا ہے تو آ نے جواب دیا کہ بھای آپ گالیاں دے دے کر روزآنہ میرے نامہ اعمال میں نیکیاں بھجواریے ہواور بنا کسی احسان کے آپ کی جانب سے مجھے نیکیاں تحفہ میں دے رہے تھے لہذا میں نے سوچا کہ کم ازکم یہ مٹھائیاں آپ کو تحفہ دوں تاکہ کچھ بدلہ اداہوسکے
یہ جواب اپنے دشمن کو امام اعظم نے اس وجہ سے دیا کہ وہ مدرسہ کے باطن کو لےء ہوے تھے
امام اعظم کانام نعمان ابن ثابت ہے لیکن محض اپنی فقہی وعلمی صلاحیتوں کے ساتھ صالحیت کو بھی انہوں نے اپنایا ہوا تھا
حکیم الامۃ مجددالملۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کاعلمی تفوق عالمی تھا لیکن ساتھ میں صالحیت بھی کمال کو پہونچی ہوی تھی جس کی وجہ سے آپ کو حکیم الامۃ کا لقب دیا گیا
بہرحال
اسی صالحیت کو مزید بڑھاتے بڑھاتے ہم اصلحیت تک لے جانے کی کوشش کریں مدرسہ سے صلاحیت وصالحیت کے ساتھ ہم فارغ ہوں یہ مدارس اسلامیہ صلاحیت وصالحیت کے کارخانے ہیں ان کی قدرکریں اور یہیں سے کچھ بننے کی کوشش کریں
احادیث میں آیا ہیکہ قیامت علم کو اٹھالیا جاے گاجس کی صورت یہ بتلای گیء کہ علماء کرام کی اموات ہوں گی جس کی وجہ سے ان کا علم بھی رخصت ہوجاے گا اور جہلاء علماء کرام کامقام لے لیں گے جب صلاحیت والے چلے جائیں گے تو بے صلاحیت والے لوگ ان کی جگہ لیں گے
اسی طرح قرب قیامت کی نشانی یہ ہیکہ جب صالحیت والے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اب صرف بھوسی باقی رہ جاتی ہے جومنج جانب اللہ عذاب کہلاے گا
اور یم لوگ اسی دور میں داخل ہوچکے ہیں آج عالمی سطح پر اگر کسی چیز کی کمی ہوی ہے تو وہ یے تقوی اور جوچیزجتنی کم ہوتی ہے اس کی مانگ اسی قدر زیادہ ہوتی ہے  آج پورے عالم میں حرم سے لیکر دیارکفر تک تقوی ہی کی کمی ہے شیطان نے اللہ تعالی سے یہی کہا تھا کہ میں آپ کے بندوں کو دائیں جانب سے بائیں جانب سے اور کبھی ادھر سے بہکاؤں گا اور آپ اپنے بندوں میں سے  شکرگذاروں کو بہت کم پاؤگے یعنی نعمت کی قدردانی کرنے والے نہیں رہیں گے اور آپ کو پسند آنے والے نہیں رہیں گے
اور اللہ کو پسند آنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو تقوی والےہیں
اللہ تعالی متقین کو پسند فرماتے ہیں
 ان اللہ یحب المتقین
اورایک جگہ ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک تقوی والوں کو ہی قبولیت عطاء فرماتے ہیں
انمایتقبل اللہ من المتقین
دنیامیں ہرانسان دوہی چیزوں کا طلبگار ہوتاہے ایک تو محبوبیت اور دوسرے قبولیت
اور یہ دوچیزیں مربوط ہیں تقوی کے ساتھ ہی اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کی علامت یہی بتلای گیء کہ وہ ایمان کے ساتھ تقوی والی زندگی گذارتے ہیں
الذین امنوا وکانوایتقون
 اور تقوے والا انسان ہی دنیاوالوںنکے لےء نافع بن سکتاہے اور جونافع بن جاتا ہے اللہ پاک دنیا میں اسی کو جمادیتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×