اسلامیات

فضائل ذی الحجہ وعشرہ ذی الحجہ

کتاب وسنت میں جن ایام وماہ کے فضائل مذکور ہیں ان میں سے ایک ماہ ذی الحجہ بھی ہے۔ یہ مہینہ قمری سال کے اعتبار سے آخری مہینہ ہے ۔نصوص قطعیہ کی رُو سے یہ مہینہ اشہر حرم میں داخل ہے ، اشہر حرم چار مہینے ہیں ،تین مسلسل ذیقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم الحرام اور ایک علیحدہ رجب المرجب ہے۔اشہر حرم وہ مہینے کہلائے جاتے ہیں،جن میں قتل وقتال جنگ وجدال اور کسی قسم کے فتنہ فسادکرنا زمانہ جاہلیت ہی سے ممنوع مانے جاتے تھے ۔اورگذشتہ انبیاء علیھم السلام کی شریعتوں میں بھی قابل احترام تھے۔چنانچہ دین اسلام نے بھی ان کی فضیلت کو برقرار رکھا،اور ان میں کئے جانے والے اعمال صالحہ کا ثواب دیگر مہینوں کی بنسبت ان مہینوں میں دوگنا کردیا جاتا ہے اور یہی حال گناہوں کابھی ہے ۔بہر حال اشہر حرم میں سے نمایاں مقام ماہ ذی الحجہ کاہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں اسلام کا رکن اعظم حج ادا کیا جاتا ہے نیز قربانی جیسا اہم فریضہ بھی اس ماہ سے متعلق ہے ۔اسی طریقہ سے امت مسلمہ کے دو اہم تہوار وں میں سے ایک عید الاضحی بھی اس مہینہ میں منائی جاتی ہے ۔علاوہ ازیں قرآن وحدیث میںبھی اس ماہ کے متعلق فضائل وارد ہوئے ہیں۔اورذ ی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی بھی بے شمار فضیلتیں مذکورہیں۔ پہلے ذی الحجہ کی پھر عشرہ ذی الحجہ کی فضیلتیں لکھی جاتی ہیں ۔
ٖماہ ذی الحجہ کی فضیلت: قرآن مجیدمیں اشہر حرم کی فضیلت کے متعلق اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ان عدۃ الشہورعند اللہ اثنیٰ عشر شھرافی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منھا اربعۃ حرم ،ذلک الدین القیم ،فلا تظلموا فیھن انفسکم ۔ترجمہ یقیناشمار مہینوں کا (جو کہ)کتاب الہی میں اللہ کے نزدیک (معتبر ہیں ) بارہ مہینے (قمری ہیں) جس روز اللہ تعالی نے آسمان وزمین پیدا کئے تھے (اسی روز سے اور ) ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں یہی (امر مذکور )دین مستقیم ہے سو تم ان سب مہینوں کے بارے میں (دین کے خلاف ) کرکے اپنا نقصان مت کرنا۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس آیت کی تشریح میں یہ روایت بڑی چشم کشا ہے حضرت قتادہ ؓ نے فرمایا حرمت کے مہینوں میں نیک کام کرنے کا ثواب بہت بڑا ہے لہذا ان میں گناہ کرنے کاعذاب بھی بہت بڑا ہے اگرچہ گناہ ہر زمانہ میں (برائی کے لحاظ سے ) بڑا ہی ہوتا ہے ( تفسیر مظہری)اسی طرح مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒاپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء کی شریعتیں اسپر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں (ذیقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم الحرام اور رجب المرجب )میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اسکا وبال وعذاب بھی زیادہ ہوتا ہے(معارف القرآن)امام جصاص ؒ نے احکام القرآن میں فلاتظلموافیھن انفسکم۔(ان مہینوں میں اپنا نقصان مت کرنا )کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اسمیں اس بات کی طرف اشارہ ھیکہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ کہ ان مہینوں (ذیقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم الحرام اور رجب المرجب) میںجو شخص کوئی عبادت کرتاہے تو اسکو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اور جواپنے آپ کو گناہوں سے بچائے تو باقی سال کے مہینوں میں اسکو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اسی لئے ان مہینوں کا فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (معارف القرآن)۔
ماہ ذی الحجہ کی اہمیت: ایک حدیث پاک میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس ماہ کی اہمیت یوں بیان فرمائی عن ابی سعید خدریؓقال قال رسول ﷺ سید الشھور شھر رمضان واعظمھا حرمۃ ذوالحجۃ(حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ھیکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تمام مہینوں کا سردار رمضان المبارک اور تمام مہینوں میں زیادہ معظم ومکرم ذو الحجہ کا مہینہ ہے ( شعب الایمان للبیھقی بحوالہ ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام ) جہاں رمضان المبارک کی سرداری تمام مہینوں پر مسلم ہے وہیں ماہ ذی الحجہ کی بھی فضیلت تمام مہینوں سے بڑھ کر ہے ۔
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت: قرآن وحدیث میںماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت سے متعلق بھی نصوص واردہوئی ہیں ،اللہ رب العزت کا فرمان ہے والفجر ولیال عشرقسم ہے فجر کے(وقت) کی اور (ذی الحجہ کی )دس راتوں کی۔(ترجمہ تھانویؒ)پہلی چیز جسکی قسم کھائی گئی فجر یعنی صبح صادق کا وقت ہے ،یا ہوسکتا ہر روز کی صبح کیونکہ وہ عالم میں ایک انقلاب لاتی ہے اور حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے (معارف القرآن)صاحب مظہری حضرت ضحاک ؒ کا قول رقم فرماتے ہیں کہ فجر سے ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کی فجر مراد ہے ، کیونکہ اس سے ذی الحجہ کی دس راتیں متصل ہیں (تفسیر مظہری) اسی طریقہ سے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ والفجر قال فجر النھار (ولیال عشر)قال عشر الضحیٰقسم ہے فجر کی یعنی دن کے صبح کی ، اور دس راتوں کی یعنی ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی ( مستدر ک حاکم)دوسری چیز جس بات کی قسم کھائی وہ دس راتیں ہیں کئی ائمہ مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کی ابتدائی عشرہ ہے (ذو الحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام)ایک حدیث پاک میں عشرہ ذی الحجہ کو دنیا کے تمام دنوں میں افضل قرار دیا گیاحضرت جابر ؓ سے روایت ھیکہ ان رسول ﷺقال افضل ایام الدنیا ایام العشر یعنی عشر ذی الحجۃ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کے دنوں میں سب سے افضل دن ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے دن ہیں (کشف الاستارعن زوائد البزار)قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے چند مقررہ دنوں اللہ کی یاد کا اہتمام کریں ویذکر اسم اللہ فی ایام معلومات (سورۃ الحج پارہ ۱۷)کئی مفسرین کے نزدیک ان مقررہ دنوں سے ذی الحجہ کا پہلا عشرہ مراد ہے جس میں اللہ کے ذکر کی خاص فضیلت واہمیت ہے ( ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام )۔
عشر ہ ذی الحجہ میں اعمال کی فضیلت: جس طرح مطلقا ذی الحجہ وعشرہ ذی الحجہ کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے اسی طرح اللہ سے ان دنوں میں کئے جانے والے اعمال پر زائد اجر ملنے کی امید ہے عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺ مامن ایام احب الی اللہ ان یتعبد فیھا من عشرذی الحجۃ یعدل صیام کل یوم بصیام سنۃ وقیام کل لیلۃ منھا بقیام لیلۃ القدر ۔حضر ت ابوھریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا کہ عشرہ ذی الحجہ میں محبوب ہوتا ہے ، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اسکی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے ( رواہ الترمذی بحوالہ معارف الحدیث ومشکاۃ )اس حدیث میںکس قدر ثواب کا بیان ہے ان لوگوں کیلئے جو ان ایام کی قدر کرے اور ان میں عبادت کرکے اپنی آخرت کا توشہ تیار کرلے،ایک دوسری روایت ہے عن ابن عباسؓقال رسول اللہ ﷺ ما من ایام العمل الصالح فیھن احب الی اللہ من ھذہ الایام العشر قالو ایُرسول اللہ ﷺ ولا الجھاد فی سبیل اللہ قال ولا الجھاد فی سبیل اللہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذلک بشئی (بخاری) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ھیکہ آپ ﷺ نے فرمایادنوں میں کوئی دن نہیں ہے جسمیں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ محبوب ہو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی ان دنوں کے نیک اعمال کے برابر ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں ! اس آدمی جہاد جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکلا اور واپس نہ ہوا ہو۔ اس حدیث میں اس عشرہ ذی الحجہ میں عمل کرنے کو جہاد جیسے عظیم فریضہ کے برابر بتلایا گیا ہے ۔جہاد وہ اہم فریضہ ہے جس میں ایک قطرہ خوں کا بہنا ساری زندگی کی مغفرت کیلئے کافی ہے ۔
عرفہ کے دن کی فضیلت: عرفہ کا دن مبارک دن ہے ، اس دن حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کیا جاتا ہے ، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش ہوتی ہے، حجاج کرام مقام عرفات پہنچ کر اسکی فضیلت کو تو حاصل کر تے ہیں ،لیکن غیر حجاج بھی اسکے انوار وبرکات سے محروم نہ ہو اسکے لئے اللہ رب العزت نے عرفہ کا روزہ مقرر فرمایا ہے،قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے والسماء ذات البروج والیوم الموعودوشاھد ومشھود قسم ہے آسمان کی جس میں برج ہیں اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے اور اس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اس دن کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔ترمذی کے حوالہ سے یہ بات منقول ہے کہ یوم موعود سے مراد روز قیامت اور شاہد سے مراد روز جمعہ اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے (معار ف القرآن ) ایک حدیث میں اس آیت کی وضاحت بعینہ بیان کی گئی ہے، عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ الیوم الموعود یوم القیامۃ والیوم المشہود والشاہد یوم الجمعۃ۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا یوم موعود قیامت کا دن ہے اور یوم مشہود عرفہ کا دن ہے اور شاہد جمعہ کا دن ہے ( ترمذی )ایک حدیث میں عرفہ کے روزہ کو پچھلے اور اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ بتایا گیا قال رسول اللہ ﷺصیام یوم عرفۃ انی احتسب علی اللہ ان یکفر التی بعدہ والسنۃ التی قبلہ (ترمذی بحوالہ معار ف الحدیث)
ان دنوں کرنے کے کام: ان مبارک ساعتوں میں یوں تو ہر نیک عمل کی بڑی عظمت ہے،
تاہم چند اعمال کا بطور خاص اہتمام کرنا چاہئے (۱) استغفار کی کثرت (۲) نفلی روزوں اور نمازوں کا اہتمام (۳) گذشتہ گناہوں پر دلی شرمندگی اور آئیند نہ کرنے کا عزم مصمم (۴) ذکر اللہ کی کثرت (۵) نو ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک مردحضرات جہرا تکبیر تشریق اور خواتین کاآہستہ ہر نماز کے بعدایک دفعہ پڑھنا واجب ہے (۶) صاحب استطاعت پر قربانی ۔اللہ سے دعا ھیکہ ہمیں ان قیمتی اوقات کی صحیح طور پرکما حقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×