اسلامیات

نحوست کے تمام تصورات اسلام نے مٹادئیے

اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے ،جس کا خالق اللہ ہے ،وہ یحب النظافۃوالی صفت کا حامل ہے ،اس دین کے مبلغ وپیغامبر حضرت محمد ﷺ ہیں ،جو نفاست ولطافت ، نزاکت ولطافت کے اونچے کردار کے علمبردار تھے ، قرآن مجید اسی دین کی آخری کتاب ہے جسکی تبریک کی طلبگار ساری انسانیت ہے ،جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کے مصادر وماخذ ہر اعتبار سے صاف وستھرے معیارپر فائز ہیں ،تو پھر انہیں سے متشرح احکامات ،ارشادات، اوامر ونواہی میں نحوست کا تصورکہاں سے در آیا ہے، سچ یہ ہیکہ زمانہ جاہلیت کی رسومات دوبارہ عود کر آرہی ہیں ،بنیاد ی طور پر مسلم معاشرہ میں نحوست کا جو تصور بالخصوص طبقہ خواتین میںجوپایا جاتا ہے اسکی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ اسلامی تعلیمات کی کمی یااس سے عدم واقفیت ہے ،بلکہ بہت سے تو اسلام کی ابجد ہی سے نابلد ہوتے ہیں ، دوسری وجہ اغیارسے غیر ضروری قربت اور تعلقات میں بے احتیاطی ،ان کے رسومات وتقریبات کا ماحول ،خوشی وغم کامنظرکسی مضبوط دینی اساس کے بغیر دیکھا جائے تونتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوگاکہ مسلمان کہے جانے والا بھی تاریخ،مہینہ ، دیگر کائنات ارضی پرموجود بے جان چیزوں اورپرندوں میں بھی نحوست خیال کرے گا،ماقبل اسلام اہل عرب بہت سی چیزوںمیں نحوست کا تصور رکھا کرتے تھے،اور یہ اسوقت عام سی بات تھی،مثلاً خانہ کعبہ میں چند تلواروں کو’’ نعم ‘‘یا ’’لا‘‘سے مختص کرلیتے اور اسکو بذریعہ قرعہ اٹھاتے،جو تلوار اٹھتی اسکے مطابق فیصلہ کرتے تھے،سفرکی روانگی پر دیکھا جاتا تھا کہ سامنے کے درخت پر اگر کوئی پرندہ ہوتو اسکو اڑادیاجاتا تھا اگر وہ دائیں جانب پرواز کرے تو سفرکی کامیابی کی ضمانت ہوتی ،بائیں سمت اگر وہ پرندہ چلاجائے تو سفر میں نقصان ہونے کااندیشہ کیا کرتے تھے،آقا ﷺ نے اس کی نفی فرمادی اور ارشاد فرمایاکہ اقرو ا الطیور علی مکانتھا ۔پرندوں کو اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے دو ۔اسی طرح زمانہ جاہلیت کا ایک عقیدہ تعدیہ کاتھا یعنی بیماریاں ایک دوسرے میں متعدی ہوتی ہیںآپﷺ نے فرمایا لاعدوی(تعدیہ کوئی چیز نہیں) ٰ تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ اونٹ رتیلے علاقوں میں ہرنوں کی طرح تیز وطرار رہتے ہیںانہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی ہے، لیکن ایک خارش زدہ اونٹ ان کے درمیان آکر گھل مل جاتا ہے تو وہ سب کو خارش زدہ کردیتا ہے ، تو آپﷺنے فرمایافمن اعدی الاول پہلے اونٹ کو کس نے خارش دی ،جب پہلے والے اونٹ کو خار ش من جانب اللہ خارش ہوئی تو انہیں بھی اللہ کے حکم سے ہوئی ہے فقام رجل من الاعراب فقال یا رسول اللہ ارایت الابل تکون فی الرمال امثال الظباء فیخالطھا البعیرالاجرب فیجربھاجمیعا قال رسول اللہ ﷺفمن اعدی الاول(البخاری۵۷۱۷) ’’الّو‘‘جو ایک پرندہ ہے اسکے متعلق یہ خیال تھاکہ مردے کا جسم جب ’’گُل سڑ‘‘جاتا ہے تو اسکی ہڈیاں ’’الُو‘‘کی شکل میں میت کے گھر کے اطراف میںگھومتی ہیں ،آپ ﷺ نے ولا ھامۃ فرما کراس نحوست والے نظریہ کو بھی ختم کردیا یہ کوئی چیز نہیں ہے ، بالکل یہی نظریہ آج شکل کی تبدیلی کے ساتھ یہ رکھا جاتا ہے کہ شب معراج ،شب برات میں مردوں کی روحیں اپنے اپنے گھرآیا کرتی ہیں لہذا اشیائے خوراکی میں اضافی چیزیں بڑھائی جائے وغیرہ۔اسی طرح ایک عقیدہ صفر سے متعلق یہ موضوع روایت کے ذریعہ مشہور کردیا گیا من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ ۔جو شخص مجھے صفر کا مہینہ ختم ہونے کی خوشخبری دے میں اسے جنت کی خوش خبری دوں گا،تمام علماء اسکے موضوع ہونے پر متفق ہیں،اسکے علاوہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا،اس میں کسی قسم کی دعوت محض اس بنا پر نہ کرنا کہ اس ماہ میں اگر دعوت کی جائے گی تو نحوست آجائے گی ،اس ماہ میں عقدنکاح یا پیغام نکاح یا سفروغیرہ کا کرنا منحوس سمجھا جاتا ہے ،بعض ایام کو بابرکت خیال کرنا اور بعض کو منحوس تصور کرنا جیسے’’ تین تیرہ نو اٹھارہ‘‘ کے ایام ،یا ماہ صفر کو سرے منحوس گرداننا،یہ اس دورمیں جاہل لوگوں کا ایک وطیرہ بن گیا ہے، حالانکہ نبی ﷺ نے اسکی خوب تردید فرمائی اور فرمایا ولاصفر،تیرہ تیزی کی کوئی حقیقت نہیں،ذرا اس جیسے عقیدہ رکھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ قرآن مجید میںاللہ نے فرمایاان عدۃ الشہور عند اللہ الثنا عشر شھر ً یوم خلق السموت والارض (التوبۃ)یعنی یہ مہینے اللہ کے یہاں آسمان وزمین کی تخلیق کے وقت ہی سے شمار کئے جاتے تھے ،تو نحوست کہاں سے گھس آگئی ،اہل عرب اس کا بھی تصور رکھا کرتے تھے کہ جنگلوں اور بیابانوں میں بھوت پریت نظر آتے ہیں جو لوگوں کو گم کردہ راہ کردیتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ولا غولبھوت پریت کا کوئی وجود ہی نہیں ،بد شگونی لینا بد فالی لینا ،بلی کا سامنے سے گذر جانے کو منحوس سمجھنا،کوے کا گھر پر چیخ وپکار کرنے کو مہمان کی آمد خیال کرنایہ اور اس جیسی بے ہودہ باتیں مسلم معاشرہ میں پائی جاتی ہیں جسکی کوئی حقیقت نہیں ،آپﷺ نے فرمایاالطیرۃ شرک بد شگونی لینا یابد فالی لینا اعمال شرکیہ ہیں،جہالت کی انتہاء یہ ہیکہ اس وقت بازاروں میں ایک مصنوعی مشین رکھی رہتی ہے جسکی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اسپر کھڑے ہوکر اپنے دل کی کیفیات سے باخبر ہوجائے،کس قدر عقل وشعور سے عاری ہونے کی دلیل ہے ،قرآن مجید میں اللہ نے فرمایاوما رتدری نفس ما ذا تکسب غدا(لقمان )تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ کل کیا کروگے ، میزان عقل پربھی یہ بات اگر پر کھی جائے تو یہ مسئلہ دو اوردو چار کی طرح واضح ہو جائے گا ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسان پاکیزگئی خالص کا ڈھانچہ نہیں ہے ،اسکی ابتدا ہی ایک نطفہ غلیظہ سے ہوئی ،اس کے بدن سے خارج تمام مواد ناپاک ،نجس اور ناپسند خاطر ہو تاہے ، پاکی کیلئے اسے پانی کااستعمال ناگزیر ہوتا ہے، اسی طرح تخلیقی جہالت کی بنا پردرست رہبری نہ ہوتو انسان اعتقادی ، فکری اور عملی لحاظ سے بھی کمزور اور کج رَو ہوجاتا ہے ،اسکے لئے لازمی ہے کہ آفاقی دین کی تعلیم قابل اعتماد ذرائع سے ہو ،جس طرح منھ کی پیاس بیت الخلاکے نل سے بجھائی نہیں جاسکتی ہے،اسی طرح دین اسلام کی تعبیر وتشریح ،تفسیروتحقیق کسی اَن پڑھ اور ٹیکنالوجی کے واسطے سے نہیں لی جاسکتی ہے ،اگر شریعت مطہرہ کی تعلیم ذرائع حقہ سے نہ لی جائے تو جائزوناجائز کا کوئی پیمانہ نہیں رہتا ہے۔ اور ضال ومضل ہوکر امت مسلمہ کیلئے راہ جہنم کے رہبر بن جاتے ہیں ۔دعاوں میں اپنی اس دعا کو شامل کرلینا چاہئے ،آقا ﷺ نے فرمایا اللھم لا یاتی الحسنات الا انت ولا یدفع السئیات الاانت ولا حول ولا قوۃ الاباللہ (ابو داود)اے باری تعالی اچھائیوں کو آپ کے سوا کوئی نہیں لاتا ،اور برائیوں کو آپ کے سوا کوئی نہیں ہٹا سکتا ،اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ ہی سے ملتی ہے ۔
( مستفاد ازمضمون۔مفتی رفیع الدین حنیف)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×