اسلامیات

قرآن مجیدکی تاثیر سے محرومی کے اسباب وحل ؟

قرآن ِ مجید وہ کتاب ہے ، جوہر پہلو سے کامل،احسن، جامع اورمنفرد ہے،یہ نوع اِنسانی کی ابدی ہدایت کیلئے نازل کردہ کتاب ہے،جس میں انسان کو منشائے خداوندی کے مطابق زندگی گذارنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے ، نہ صرف یہ۔۔۔ بلکہ یہ کتاب کی تلاوت سے قاری خداوندِقدوس سے ہمکلامی کاشرف حاصل کرسکتا ہے،جس سے انسان کی روحانیت کو غذا ملتی ہے، تعلق مع اللہ میں معاون ہے ، یہ نبی اکرم ﷺکا تابندہ وپائندہ معجزہ ہے،ان تمام کے علاوہ اس کلام میں بے پناہ تاثیری قوت موجود ہے ،اسکی نافعیت اور بے پناہ اثر کے معترف زمانہ کے ادباء اور بلند پایہ شعراء رہے ہیں ،کفار ومشرکین پس پردہ نبی اکرم ﷺ کی تلاوت سنا کرتے تھے،اور متاثر ہوتے، خود حضرت عمرؓ ؓکے اسلام قبول کرنے کا سبب اس قرآن کی سماعت بنی،ابتداء اسلام میں حج کیلئے بیت اللہ کوجو وفودآ یا کرتے تھے منافقین ومشرکین ان کو جتاتے کہ نبی اکرم ﷺکا قرآن کوئی نہ سنے، اسلئے کہ جو سنتا، وہ بس اس قرآن کا گرویدہ ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکر ؓ مکہ میں جب ایک کافر کے امان میں تھے اسوقت آپ ؓ کا معمول نماز میں تلاوت جہراًتھا، جسکو سن کر لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے تھے ، لاکھ مخالفت کے باوجود اس عمل کو جاری رکھا حتیٰ کہ اس کافر کے امان سے بھی آزاد ہونا گورارہ کرلیا،اس پاک کلام کا ایک اثر یہ ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ، اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے ، اللہ فرماتا ہے انما المومنون اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلییت علیھم آیاتہ زادتھم ایمانا ًو علی ربھم یتوکلون (انفال) اس آیت میں مومنین کی ایک خوبی یہ بیان کی ہے کہ جب مومن کے سامنے تلاوت قرآن ہو تو اس سے ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے، مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیںایمان بڑھنے کے ایسے معنی پر علماء ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن سے ایمان کی قوت وکیفیت اور نور ایمان میں ترقی ہوتی ہے، (معارف القرآن)قرآن مجید ایک مقناطیسی کتاب ہے جو سننے والے کو اپنی جانب کھینچتی ہے، اگر اس کو زندگی کا لائحہ عمل بنایا جائے تومعاشرہ میں نمایاں تبدیلی یقینی ہے ، جس طرح قرن اول میں حضرات صحابہ کرامؓ کی زندگی میں انقلاب آیا،انکے اخلاق،معاملات،معاشرت،طرز حیات،حتی ٰ کہ نظروفکر اور رجحانات بھی کلیۃ تبدیل ہوگئے،آج بھی تاثیری قوت وکیفیت مسلم اوراسمیں علی حالہ موجود ہے ،قرآن مجید کی تاثیر کے سلسلہ میں ایک جگہ اللہ نے ارشاد فرمایالو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لر اَیتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ (اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر توتُو دیکھ لیتا کہ دب جاتا پھٹ جاتااللہ کے ڈر سے ۔ ترجمہ شیخ الہندؒ)اس آیت کی تفسیر میں علامہ عثمانی ؒ لکھتے ہیں کہ مقام حسرت وافسوس ہیکہ آدمی کا دل پر قرآن کا اثر کچھ نہ ہو حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست اور قوی ہے کہ اگروہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتارا جاتا اور اسمیں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلم کے سامنے دب جاتااور مارے خوف کے پھٹ کر پارہ پارہ ہوجاتا۔(تفسیر عثمانی ) یہ ہے قرآن کی تاثیری قوت جسکو خود اللہ نے بیان کیا ہے ،اس سب کے باوجود ہمارے دل کیوں اثر لینے سے محروم ہیں اسکے کیا اسباب وعوامل ہیں ان پر غورکیا جائے اور انہیں دور کرنے کی فکر کی جائے تو یقین ہے کہ ہمارے بھی افعال واطوار،اخلاق وکردارسے اسلام کی خو،بو ،آئیگی ۔وہ کیا وجوہات ہیں جسکی بناہم قرآن کے اثر سے محروم رہ ررہے ہیں ، پہلا سبب ۔معصیت الہی خواہ وہ صغائر ہوں یا کبائر ،نفسِ معصیت محرومی کا سبب ہے ،کیوں کہ گناہ کی کثرت سے دل سیاہ ہوجاتا اور اس قدر سخت ہوجاتا ہے ،اللہ نے اسکی سنگینی کو پتھر سے تشبیہ دی بلکہ اس سے بھی سخت ، ثم قست قلوبکم من بعد ذلک فھی کالحجارۃ او اشد قسوۃ(البقرۃ) صاحب معارف القرآن اسکے ذیل میں لکھتے ہیںبعض پتھروں میں ایک آخری اثر تو ہے کہ خوف ِ خدا سے نیچے گر آتے ہیں مگر ان کے قلوب میں تو کم درجہ اور ضعیف تر ین جذبہ انفعال بھی نہیں ،( معارف القرآن ) ایسے ہی دوسرے مقام پر قرآن ارشاد فرماتا ہے ،کلا بل ران علی قلوبھم ماکانو یکسبون(المطففین)علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں ہماری آیتوں میں کوئی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں اصل یہ ہیکہ گناہوں کی کثرت ومزاولت سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گئے ( تفسیر عثمانی )ایک دفعہ حضرت حسن بصری ؒ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ حضرت آپ کے درس قرآن سے ہمارے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے لگتا ہے ہمارے دل سوگئے ، آپ ؒ نے فرمایا سوگئے نہیں مرگئے ،پوچھا وہ کیسے ،فرمایا جو بندہ سوجاتا ہے اسکو ہلانے سے اور حرکت دینے سے اٹھ جاتا ہے، مگر جو بندہ مرجاتا ہے وہ نہ ہلانے سے اٹھتا ہے نہ حرکت دینے سے ،بالکل ہمارا حال یہی ہے کہ شب روز میں ہم کئی دفعہ قرآن کی سماعت کرتے ہیں بلکہ ہماری مصروفیات اسی قرآن کے ارد گرد گھومتی ہیں ،مگر ہمارے قلوب اسکی تاثیر سے محروم ہیں،حدیث پاک میں ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایادل کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو پانی لگ نے سے ،پوچھا گیا اسکو دور کرنے کی کیا صورت ہے فرمایا نبی ﷺ نے موت کو بکثرت یاد کرو اور قرآن کی تلاوت کرو ان القلوب تصدؤکما یصدؤالحدید اذا اصابہ الماء قیل یارسول ﷺ وما جلائھاقال کثرۃ ذکر الموت وتلاوۃ القرآن ( بیھقی )دوسرا سبب محرومی کاقرآن کی بے ادبی ہے ،ادب وہ شئی ہے ،جو حضرت جبرئیل ؑ کو سید الملائکہ بنایا اور بے ادبی نے شیطان کو شیطان بنایا ،نیز تعلیمات اسلامی میں ادب پر خصوصیت سے توجہ دی گئی،ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھلایا اور کیا ہی اچھاادب سکھلایا ادبنی ربی فاحسن تادیبی (مشکاۃ)،ایک اور مقام پر فرمایا کہ الاسلام کلہ ادب اسلام سارا کا سارا ادب ہے ،یعنی جسکو ادب ملا وہ نصیب والا ہوا اور جسے بے ادبی ملی وہ شقاوت کا مستحق رہا ،قرآن کے ادب کا تقاضہ یہ کہ اسے باوضو اور بااحترام قبلہ رو ہوکر پڑھا جائے ،اللہ فرماتا ہے لا یمسہ الا المطھرون (الواقعہ ) ایک حدیث میںنبی اکرم ﷺ نے فرمایا قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو ،ا(روح المعا نی بحوالہ معارف القرآن )سکی طرف نہ پیٹھ کی جائے نہ اسکو نیچے رکھا جائے،اس پاکیزہ کلام کیساتھ بے ادبی کرنے والے بہت سے افراد کا انجام تاریخ نے محفوظ کیا اور مشاہدہ بھی اس پر شاہد عدل ہے ،تاہم اس کے اثر سے محرومی کسی عذاب سے کم نہیں ، اسکی بے ادبی ہی کی ایک مثال ہماری اکثر مساجد اور گھروں میں دیکھا جائے کہ کہیں اگرگرد جمی ملے گی تو وہ اس پاک کلام پر رہیگی ،مجال ہے کہ کبھی ہمارے فون پر اور کبھی ہمارے کپڑوں پر گردہو،اور ہم خاموش بہ لب ہوں ،تیسرا سبب محرومی کا یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم سے عدم رغبت اور دلچسپی کا نہ ہونا ،جب اسکو پڑھا جائے یا سنا جائے تو بالکل بے توجہی کیساتھ، نہ الفاظ قرآنی کی طرف نظر اور نہ معانی قرآن کی جانب غور رہتا ہے ،ایسی صورت میں کُجا مراد الہی کی تفہیم نصیب ہوگی ،اور فہم قرآن کے بعد عمل کا نمبر ہے جو مقصود ہے سارے احکام کا، ہمارے معاشرہ میں قر آن کیساتھ جو رویہ روز مرہ رہتا ہے اسکو الفاظ میں ضبط کرسکتے ہیں نہ قید تحریر میں لاسکتے ہیں ، اس کے ساتھ کسی نے سلوک کیا ہے تو اتنا کہ دکان ومکان کے خیر وبرکت کیلئے تلاوت کا اہتمام کروایاہے ،اور کسی نے اس بڑھ کر کی ہے تو اپنی اولاد میں سے کسی کو حافظ بنادیا اور یہ سمجھا کہ میں نے حق واجب ادا کیا اور اسی کو مقام منزل سمجھ کر اکتفا ء کیا ،اس سے بڑھ کر اس قرآن کو ختم ِ قرآن کے نام سے وظیفہ روز گار بنالیااور باضابطہ اشتہارات مختلف مقامات پر آویزاں کئے ،اور حیرت ہیکہ گھنٹے بھر میں مکمل قرآن بھی ہوجاتاہے ،الامان الحفیظ ۔چوتھاسبب قرآن کے اثر سے محرومی کایہ ہیکہ ہم اپنے معمولات یومیہ میں اسکی تلاوت کا خانہ نہیں بنایا،جو قرآن سے تعلق کا پہلا زینہ ہے، حالانکہ حضرات صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کا معمول اس سے بہت مختلف تھا ،ہر روز ایک قرآن کا ختم ہوتا تھا ،بعض کا دو بھی منقول ہے ، انہیں اس معمول کے پورا کرنے میں زمانہ کے تقاضہ حائل نہ ہوتے تھے ،اور ہمیں کسی کام کے پورا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ،مگر رکاوٹ آتی ہے تو احکام شرعیہ کے بجالانے اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرنے میں ، منجملہ اور وجوہات کے یہ بھی ایک وجہ محرومی کی ہے ،ہم اسمیں پنہاں ہدایت کو اللہ سے نہیں مانگتے ،جسکے ہاتھ میں ساری انسانیت کے قلوب ہوں وہ ہمارے دل کی آواز کو نہ سنے بشرطیکہ خلوص نیت اور حضورِ قلب سے مانگا جائے ،محال ہے ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ایک جگہ قرآن سے استفادہ کے موانع لکھتے ہیںقرآن سے استفادہ اور ہدایت کے موانع کو قرآن نے کفار کی محرومی کے تذکرہ کے ساتھ ذکر فرمایا آگے فرماتے ہیںکفار کے علاوہ اگر مسلمانوں میںبھی یہ موانع پائے جائیں گے تو قرآن مجید سے فائدہ اٹھانے میںحارج ہوں گے وہ تین یہ ہیں (۱)تکبر (۲)مجادلہ (۳)انکار آخرت اور دنیاپرستی ،( تلخیص ۔مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی ) نیزحضرتؒ نے قرآن سے استفادہ میںمعین چند اصولی باتیں ارقام کی ہیں (۱)طلب (۲)استماع واتباع (۳)خوف (۴)ایمان بالغیب (۵)تدبر (۶)مجاہدہ(۷)ادب وعظمت۔ ( حوالہ سابق )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×