حُب ِرسول ﷺ کے عملی تقاضے۔۔۔۔اور ہماری غفلت
مومن کا دل حُب رسول ﷺمیں سرشار ہونا،لازمی اور فطری بات ہے،اور یہ محبت علی وجہ الاتم تمام مادی نسبتوں اور چیزوں سے بڑھ کر ہونا ، کمال ِ ایمان کی نشانی اور عند اللہ ورسولہ مطلوب ہے،لایومن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ الناس اجمعین (بخاری) تم میں سے کوئی کمال ِایمان کو اسوقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک میں اسکے نزدیک اسکے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں ،حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺسے عرض کیا یارسول اللہﷺ میری ذات کے بعد مجھے آپ سے سب سے زیادہ محبت ہے آپ ﷺ نے فرمایا تمھارا ایمان کامل نہیں ، پھر حضرت عمر نے عرض کیا آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایااللہ کی قسم تمھارا ایمان اب مکمل ہوا،قدرتی دستور اور عشقِ رسول ﷺ کا پہلا مطالبہ عمل ہی ہے ، صرف زبانی دعوئے محبت یا تصدیق قلبی واقرارِلسانی کافی ہوتاتوعہد نبوت سے آج تک کوئی منافق اور کافر نہ ہوتا ، جب تک کے کردار عملی کا اظہار نہ ہو ، مومن اور منافق میں امتیاز ، موحد اور مشرک میں امتیاز کیسے ہوتا ،عمل پیمانہ ہے مومن ِصادق اور منافق کے درمیان، عشق ِ رسول ﷺ کے باب میں زبانی دعوئے محبت اس پھول کے مانند ہے جو کاغذ سے بناہوجسمیں خوشبو چُھو کربھی نہ گزری ہو ، یہی وجہ ہے کہ شیطان عمل ہی سے مومن کو روکتا ہے، اور اللہ کے یہاں بھی بندہ مستحق ِاجر عمل ہی کے بعد ہوتا ہے ، علم بغیر عمل کے حجت ہوگا ،بے عملی کی زندگی موجب غضب الہی ہے اور باعث ِ رسوائی ہے، انسان کی طبیعت میں یہ بات فطرتاً داخل ہے کہ وہ اپنے ادنیٰ سے محسن کا بھی زندگی بھرممنون ہوتا ہے، اسکے حکم اور ہر اشارہ کو روبہ عمل لانے کیلئے بے تاب ہوتا ہے ، لیکن جہاں محسن اعظم امام الانبیاء ﷺ کے حکم کو ماننے اور اطاعت کرنے کی بات آتی ہے تو پھر انجان ہوجاتے ہیں ، کلیم عاجز ؒ نے ہماری موجودہ صورت حال کی حقیقت بیانی اس شعر میںیوں کیـ ؎ وقت جب قول کے بندوں سے عمل مانگے ہیں
کوئی کہیں دبکے ہیں کوئی تو کہیں بھاگے ہیں۔
ساری کائینات پر آپ ﷺ کے احسانات نصف النہار کے سورج کی طرح عیاں ہیں، آپﷺ سے محبت دل کا اطمینان ہے،آپﷺسے عقیدت شرط ِ ایمان ہے، آپ ﷺ حکم پر عمل آوری وصف ِ مسلمان ہے، حضرات صحابہ کرام ؓ میںآقاﷺ سے محبت کامل، سچے عشق،کیساتھ ساتھ بھرپور عمل بھی تھا،صحابہ کرام ؓ نہ صرف حکم بلکہ آپ ﷺ کی طرف منسوب ہر حرکت کو بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا، انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی ، شخصی معاملات ہو یا ملکی یا بین الاقوامی معاہدات ، حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ، مصلیٰ پر ہو یا بستر ِ حرم پر ، ہر موقع پرحضرات صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کی سیر ت اور اسوہ کواپنے دامن عمل سے ایسے پیوستہ رکھا، بعد والوں کیلئے وہ مقدس جماعت مینارہِ منزل بن گئی ،اتباع سنت کیلئے انہیںنہ بادشاہ کی پرواہ ہے ، نہ باپ کی ، آقاﷺ کے حکم کو بجا لانے میں نہ دریا حائل ہوتا تھا نہ جنگل وبیاباںاور صحراء نہ گلستاں، اسی بناء پرباطل ان کے رعب سے لرز اٹھتابقول علامہ اقبال ؒ کے ؎
ہرمسلمان رگ ِ باطل کیلئے نشتر تھا ٭ اسکے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت ِ بازو پر تھا ٭ ہے تمھیں موت کا ڈر ،اسکو خدا کاڈر تھا
قر آن ِپاک میں بے شمار مقامات پر اللہ رب العزت نے ایمان باللہ کیساتھ عمل صالح کا ذکر بکثرت کیا ہے، ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات کانت لھم جنٰت الفردوس نزل(کہف)ایک اور جگہ پرفرمایا سای انسانیت خسران میں سوائے ایمان اور عمل ِ صالح کے ان الانسان لفی خسر الاالذین امنوا وعملوا الصالحات (العصر)ایک مقام پر یوں ذکر کیا ومن عمل صالحاًمن ذکر او انثیٰ وھو مومن فاولٰئک یدخلون الجنۃ یرزقون فیھابغیر حساب(المومن)جو نیک کام کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہوایسے لوگ جنت میں جاویں گے (اور) وہاں بے حساب ان کو رزق دیا ملے گا(تھانویؒ) ،ایک مقام پر اپنی ذات سے محبت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے حبیب سے کی اتباع کرو ، قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکمژذنوبکم (ال عمران)اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ مومنین کو نبی ﷺ کی اطاعت پر دو انعامات سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے ایک اپنی محبت اوردوسرا گناہوں کی مغفرت ، ایک حدیث پاک میں فرمایا اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا تمھارا ایمان اسوقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک تمھارے خواہشات اور جذبات اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسکو میں لیکر آیا ہوں لا یومن احدکم حتیٰ یکو ن ھواہ تبعاًلما جئت بہ(مشکوٰۃ) اسکا عملی نمونہ ہم کو دیکھنا ہے تو حضرات صحابہ کرام ؓ کی زندگی دیکھیں کہ انہوں نے کیسے لازوال نمونے بعد والوں کیلئے چھوڑے ہیں ، حضرت انس ؓ کو کدّو پسند نہ تھا آقا ﷺ کو تلاش کر کے کھا تا دیکھ کر آپ ؓ کو بھی شوق ہوگیا، حضرت ابن عمر ؓ محض اتباع ِ سنت کی غرض سے اس مقام پر جہاں آقا ﷺ نے ایک سفر کے دوران قضائے حاجت کیلئے گئے تھے، کچھ دیر آپ ؓ نے اسی مقام پر بیٹھا، (حیاۃ الصحابہ)حضرت عمر ؓ نے حجر اسود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اگر میں آقاﷺ کو بوسہ کرتے ہوئے نہ دیکھتا یقبلک ماقبلتک، ثم قبلہ(الشفاء) قاضی عیاض ؒ نے شفاء مین فرمایا واقعتاًکسی سے محبت ہوجاتی ہے تو محبوب کو محبوبات ومرغوبات حتیٰ کہ مباحا ت سے بھی محبت ہوجاتی ہے ، ایک سچے عاشق ِ رسول کا جذبہ یہ ہوتا ہے ، اور ہوناچاہئے کہ وہ کردار کاغازی بنے نہ کہ محض گفتار کا، آقا ﷺ کی ہر ادا اور ہر حکم کو اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں عملی طور پر بجا لائے، دور فتن میں جو لوگ راہ سنت کے غازی ہوتے ہیں انہیں مژدہ ہے آقاﷺ کا کہ اللہ انہیں شہیدکا ثواب عطا فرمائے گا ،قال رسول اللہ ﷺ المتمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر شھید (معجم اوسط للطبرانی بحوالہ معارف الحدیث) )مقام افسوس ہیکہ آج ہماری دین کے اعتبار سے حس مفقود ہوگئی ، سنن ،مستحبات،مباحات تو دور کی بات ہے ، فرائض کابھی پتہ نہیں ،صلہ رحمی ،ایثار ، ہمدردی ، تالیف ِ قلب تو دور کی بات حقوقِ واجبہ ولازمہ تک بھی ادا نہیں ہوتے ،منکرات پر نہ دل ناراض ہوتا نہ بے دینی کے ماحول میں بے چینی ہوتی ہے ، معروفات کی تلقین ہے نہ دینی فضاء سے وابستگی ، سچی محبت عمل پر ابھارتی ہے ،سچا عشق اطاعت کا پابند بناتا ہے،ورنہ زبانی دعویٰ ،محض دعویٰ ہے اور کچھ نہیں ۔ اللہ ہمیں توفیقِ عمل نصیب فرمائے ۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی دوزخ بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ۔