اسلامیات

محرم الحرام ویوم عاشورہ

تاریخی نظام اور اسکی ضرورت:
سکینڈ سے گھنٹہ ،گھنٹہ سے دن ،مہینہ اور سال تک کے معمولات کو صحیح انداز اور مناسب تقسیم کر نے کو بزبان عربی ـ تقویم اردو میں نظام الاوقات ہندی میں جنتری اور انگریزی میں کیلینڈر کہتے ہیں۔ اور وقت وہ شئی ہے جو اپنے محور میں گھومتے رہتا ہے ۔اسی وقت سے فرد سے قوم تک کے حالات وواقعات درج ہوکر ماضی کے حوالہ ہوجاتے ہیں ۔جس سے عبرت و نصیحت لیکر انسان اپنے مستقبل کے معاملات طئے کرتا ہے۔علاوہ ازیںانسان کیلئے سیاسی ،سماجی امورمعاشرتی تقریبات اور مذہبی فرائض کی انجام دہی کیلئے ایک مرتب نظام کی ضرورت ہوتی ہے ۔جسکے بغیر انسان کا مفوضہ ذمہ داری کو نبھانا مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہے۔
تاریخی نظام کے اقسام:
اسی مقصد کے تحت دنیا میں مختلف نظام الاوقات رائج ہیں ،عمومی طور پر دو نظام معروف ہیں ۔شمسی ، قمری (۱)شمسی نظام ۔جنوری سے دسمبر تک اور(۲) قمری نظام۔محرم الحرام سے ذی الحجہ تک ۔نظام شمسی کو عیسوی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت یا بزعم یہود حضرت عیسیٰ کو صلیب دیئے جانے سے )نسبت حاصل ہے۔ اور نظام قمری ہجرت نبویﷺکی طرف منسوب ہے ۔موجودہ دور میں سرکاری وغیر سرکاری ، نجی وملکی تمام تر معاملات شمسی تواریخ کے لحاظ سے انجام پاتے ہیں ۔ البتہ اسلامی احکامات وفرائض قمری نظام سے مربوط ہیں ۔جیسے روزہ، زکوٰۃ، حج ، عیدین وغیرہ۔
قمری سن کی اہمیت:
قمرلغت عربی میں چاند کو کہتے ہیں ، اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے قمری کہتے ہیں ،چونکہ اس نظام کا سارا دارومدارچاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر منحصر ہے۔اور یہ نظام قمری نبی آخر الزماں ﷺ کے مقدس عمل ہجرت سے وابستہ ہے ۔(ماہ محرم الحرام کے فضائل واحکام)مفتی شفیع عثمانی ؒ انما النسی زیادۃ فی الکفرکے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں قمری مہینوں کی جو ترتیب اسلام میں معروف ہیں ،وہ رب العالمین کے ترتیب کردہ ہیں ،جسمیں خاص مہینوں کے مخصوص احکام نازل فرمائے ہیں ،اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے یہاں احکام شرعیہ میں قمری سن معتبر ہے ، اور یہ اللہ کو پسند ہیں ۔اسی لئے قمری حساب کا محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے ، اگر ساری امت قمری حساب کو ترک کردے تو گنہگار ہوگی،قمری حساب محفوظ رہے تو شمسی تواریخ کا استعمال بھی جائز ہے۔( معارف القرآن ۳۷۳/۴)
قمری سال کا پہلا مہینہ( محرم الحرام):
محرم کے معنیٰ معظم ،محترم اور معزز ہیں ،اس ماہ کا شمار بھی اشہر حرم میں سے ہے، جسکی عظمت وفضیلت کتاب وسنت میں آئی ہے،جسمیں اعمال صالحہ کا اجر وثواب دوگنا کرکے دیا جاتا ہے،یہ مہینہ ایسی بزرگی والا ہے جسکا ادب واحترام نزُول کتاب کے زمانہ میں اہل کتاب اور کفارمکہ بھی کیا کرتے تھے،بعض علمائے سلف نے اشہر حرم میں بھی محرم الحرام کو افضل لکھا ہے ، چنانچہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ فرماتے ہیں وقداختلف العلماء فی ای الاشہرالحرم افضل؟فقال الحسن البصری افضلھا شھر اللہ المحرم،ورجحہ طائفۃ من المتاخرین۔حضرت حسن بصری ؒ سے بعض علماء کرام نے دریافت کیا اشہر حرم میں کونسا مہینہ افضل ہے؟ آپؒ نے فرمایا ان میں افضل اللہ کا مہینہ محرم ہے ،اور متاخرین میں سے ایک جماعت اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ ( خصوصیات ماہ محرم الحرام ویوم عاشورہ)
محرم الحرام کے فضائل :
ماہ محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے ، جنکی حرمت وعظمت کو اللہ نے کائنات بناتے وقت ہی لکھدیا ،ارشاد باری تعالیٰ ہے ان عدۃ الشہورعند اللہ اثنا عشرشھرافی کتٰب اللہ یوم خلق السموات والارض منھا اربعۃٌ حرم (سورہ التوبہ )یقیناشمار مہینوں کا(جو کہ) کتاب الہی میں اللہ کے نزدیک(معتبر ہیں) بارہ مہینے (قمری)ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے تھے(اسی روز سے اور )ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں ۔حضرت قتادہؓ نے فرمایاحرمت کے مہینوں میں نیک کام کرنے کاثواب بہت بڑا ہے ، لہذا ان میں گناہ کرنے کا عذاب بھی بہت بڑا ہے اگر چہ گناہ ہر زمانہ میں (برائی کے لحاظ سے ) بڑا ہوتا ہے ۔( مظہری) مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اسکا وبال وعذاب بھی زیادہ ہوتا ہے ( معارف القرآن )علامہ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں کہ اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے ،۱)رمضان المبارک کا آخری عشرہ ۲)ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ۳)محرم الحرام کا پہلا عشرہ ۔(محرم الحرام کا مہینہ)امام نسائی ؒ نے اس ماہ مبارک کی فضیلت پر یہ روایت نقل فرمائی ہے عن ابی ذر ؓ قال سالتُ النبی ﷺ ای ُ الیل خیر وای الاشھر افضل فقال خیر الیل جوفہ وافضل الاشھر شھر اللہ الذی تدعونہ المحرم۔
حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے نبی ﷺ سے سوال کیا رات کا کونسا حصہ بہتر ہے اور کونسا مہینہ افضل ہے آپﷺ نے فرمایا رات کا درمیانی حصہ بہترہے، اور مہینوں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے جسکو تم محرم کہتے ہو۔لیکن ماہ رمضان اس سے مستثنیٰ ہے۔(خصوصیات ماہ محرم الحرام )
محر م الحرام میں روزوں کی فضیلت :
ماہ محرم الحرام میں نفلی روزوں کی بڑی اہمیت ہے، چونکہ اس مہینہ کو اللہ سے نسبت حاصل ہے اور یہ نسبت محض ماہ محرم کی فضیلت کو بتلاتا ہے حدیث پاک میں ارشاد ہے افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم ۔( رواہ مسلم بحوالہ مشکاۃ الرقم /۲۰۴۸)رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کا مہینہ محرم ہے۔اس حدیث میں محرم کے عام نفلی روزے مراد ہیںاور یہی راجح قول ہے( ماہ محرم الحرام کے فضائل واحکام)نیز فقہاء کرام اشہر حرم میں بطور خاص محرم کے مہینہ میں نفلی روزوں کے حسب حیثیت اور وسعت مستحب ہونے کے قائل ہیں (حوالہ سابق)
ماہ محرم کے چند اہم تاریخی واقعات:
ماہ محرم ۷؁ھ میں غزوہ خیبر ہوا ،ماہ محرم ۱۴؁ھ میں جنگ قادسیہ ہوئی،اس جنگ میںمسلمانوں کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے اور کفار کا سردارمشہور زمانہ رستم تھا ،تین دن کے سخت مقابلہ کے بعد چوتھے روز مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، ماہ محرم ۱۸؁ھ شام اورعراق میں طاعون عمواس کی سخت جان لیوا وباء پھیلی تھی،اور ابو عبیدہ ابن الجراحؓ کا انتقال بھی اسی بیماری سے ہوا جو اس وقت مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس علاقہ میں مصروف جنگ تھے۔اوراسی سن میں حضر ت امیر معاویہؓاپنے بھائی یزیدبن ابی سفیانؓکی وفات کے بعدحضرت عمرؓکی طرف دمشق کے گورنر مقرر ہوئے ، ماہ محرم ۲۴؁ھ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں حضرت عمرو ابن عاص ؓ مصر میں فاتحانہ داخل ہوئے ، اور یہی وہ سن ہے جسمیں حضرت عثمان ؓ تخت خلافت پر متمکن ہوئے،ماہ محرم ۶۱؁ھ میں جنگ صفین کی عارضی صلح ہوئی، اور حضرت حسین ؓ اسی سن میں جام شہادت نوش کیا،ماہ محرم ۶۷؁ھ میں کوفہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد کا قتل ہوا،ماہ محرم ۷۴؁ھ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکی وفات ہوئی ، ماہ محرم ۸۸؁ ھ میں فرغانہ ہوا، ماہ محرم ۱۲۲؁ھ میںاہل بیت کے بزرگ زید بن علی ھشام بن عبد الملک کے مقابلہ کیلئے نکلے، ماہ محرم ۱۳۱؁ھ ابو مسلم خراسانی نے خراسان میں اُموی حکومت کے خلاف عباسی تحریک کا آغاز کیا ، ماہ محرم ۱۴۱؁ھ میں فرقہ راوندیہ کا خروج ہوا جو شیعی فرقوں کاسا تھا ، ماہ محرم ۱۵۰؁ھ میں استادسیس نامی جھوٹے نے دعویٰ نبوت کیا ، ماہ محرم ۱۶۳؁ھ جنگ روم ہوئی، (ماہ محرم الحرام کے فضائل اور احکام) یہ وہ چند تاریخی اشارے ہیں جو محرم الحرام میں واقع ہوئے ہیں ، اسکے علاوہ بے شمار اور تاریخی حقائق کتب سیر میں مذکور ہیں ۔
صوم عاشورہ کے فضائل :
صوم عاشورہ کی فضیلت محرم الحرام کے دیگر ایام سے بڑھی ہوئی ہے،اوراحادیث میں اسکے فضائل وارد ہوئے ہیں ،جمہور صحابہؓوتابعینؒ اور ائمہ مجتھدین کی آرا یہی ہیکہ عاشورہ سے دس محرم کا روزہ مرادہے،اور لُغت کی رُو سے بھی عاشور ہ کا لفظ دس محرم پر صادق آتا ہے ۔ عن عائشۃ ؓ قالت :کان رسول اللہ ﷺ امر بصیام یوم عاشواراء، فلما فُرض رمضان کان من شاء صام ومن شاء افطر ( بخاری ۲۰۰۱)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا ،جب رمضان کے روزے فرض کردئے گئے (اختیار ا دیا گیا) جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ،ایک حدیث میں اس دن کو اللہ رب العزت کا دن قرار دیا گیا چنانچہ ابو داؤد میں ابن عمر ؓ کے حوالہ سے یہ روایت منقول ہے کہ قال رسول اللہ ﷺھذا یوم من ایام اللہ فمن شاء صامہ ومن شاء ترکہ ( ابوداؤد ۲۴۴۳)اور اس دن روزہ رکھنے کاثواب یہ ہے کہ سال گذشتہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ کی ایک طویل حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے وسئل عن صوم یوم عاشوراء فقال یکفر السنۃ الماضیۃ (مسلم ۱۱۲۶) اس حدیث کے ضمن میں یہ بات ملحوظ رہے کہ گناہوں سے صرف صغائر معاف ہوں گے البتہ کبائرکیلئے توبہ شرط ہے۔
تنہا صوم عاشوراء اور مخالفت یہود:
یہود اسلام کے ازلی اور قریبی دشمن ہیں ، انکی مخالفت سنت نبوی ہے ،اسی وجہ سے اسلام کے بیشتر احکامات میں انکی مخالفت قولاً وعملاً کی گئی ، جو بہت سی وجوہات سے ضروری بھی تھا، ابتداء میں صرف ایک روزہ رکھا جاتا تھاجب آپ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ یہود بھی روزہ رکھا کرتے ہیں اس پر آپ ﷺ نے انکی مخالفت میں مزید ایک روزہ اضافہ کرنے کا حکم دیا اسکی تائید ابن عباس ؓ کی ایک روایت سے ہوتی ہے ،قال رسول اللہ ﷺ صومواالتاسع والعاشر وخالفوا الیہود ۔(ترمذی ۷۵۵) اگر کوئی نو کے بجائے گیارہ تاریخ کو بھی روزہ رکھ لے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ،اسکی بھی تائید حضرت عباس ؓ کی ایک دوسری روایت میں ملتی ہے ، قال رسول اللہﷺصوموا یوم عاشوراء وخالفوا الیہود صوموا قبلہ یوماً او بعدہ یوماً (مسند احمد) فقہائے کرام نے ان ارشادات کی روشنی میں تنہا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ لکھا ہے، اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا گناہ ہے یہ بے اصل بات ہے ۔(ماہ محرم کے فضائل اور احکام ) بعض اہل علم کی رائے ہیکہ فی زمانہ اہل یہودروزہ نہ رکھنے کی وجہ سے تشبہ نہیں پایا جاتاہے ،اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اول اسکاقطعی علم نہیں کہ وہ روزہ رکھتے ہیں یا نہیں ،(کذا فی فتاویٰ رحیمیہ ج ۵/ص ۱۹۷)دوسرا یہ کہ نو اور گیارہ کا روزہ رکھنا منصوص ہے اور چودہ سو سال سے تعامل ناس ہے ۔(المغنی لابن قدامہ۔ بحوالہ حاشیہ ماہ محرم کے فضائل اور احکام )
یوم عاشوراء سے وابستہ تاریخ:
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اس دن ہوئی ،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جبل جودی پر اس دن ہی آٹہری،حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ سے خلاصی ملی وہ یہی دن تھا ،حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے آج ہی ہوئی ،اور حضرت یوسف علیہ السلام تخت خلافت پر دس محرم ہی کو متمکن ہوئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سمیت فرعون سے نجات پائے،ؑ اور یہی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیداہوئے ، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش کے بعد بادشاہت ملی ، اور حضرت ایوب علیہ السلام کوبھی بعد امتحان شفاء اسی روز ملی، یہی وہ دن جسمیں حضرت ادریس علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ، اور یہی وہ دن ہے جسمیں جگر گوشہء رسول حضرت حسین ؓ باطل سے ٹکراکرجام شہادت گلے لگایا، آج ہی کے دن اس کائنات کی بساط لپیٹ کر قیامت برپا کر دی جائیگی۔(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ بحوالہ خصوصیات ماہ محرم الحرام ویوم عاشوراء)
اس ماہ میں کرنے کے کام:
اس ماہ میں چند کام ہیں جنکو ہمیں انجام دینا ہے ۱۔ یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا ۲۔گھر والوں پر خرچ کرنا ۳۔ فرائض کا اہتمام اورنفلی عبادات بکثرت کرنا ۴۔گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا ۵۔ اتباع سنت کا التزام کرنا۔
اس ماہ میں نہ کرنے کے کام:
وہ امور جن سے اس ماہ میں بچنا ہے وہ یہ ہیں ۱۔کالا لباس پہننا اور کالا جھنڈا لگانا ۲۔ نحوست اورغم کا مہینہ سمجھنا ۳۔ سوگ وتعزیہ اور ماتم کرنا ۴۔شربت وغیرہ کی سبیلیں لگانا ۵۔دیگر من گھڑت رسموں کو اپنانا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×