اسلامیات

قادیانیت سے متعلق کینیڈا کے وزیر اعظم کی تقریر کا سچ

جولائی ۲۰۱۹ میں سوشیل میڈیا پرقادیانی فرقہ کی مختلف ویڈیوز وائرل کی گئی، اان میںایک ویڈیو وزیر اعظم کینڈا سے قادیانی فرقہ کے موجودہ سربراہ مرزامسرور احمد کی ملاقا ت کی بھی ہے ،ملاقات سے پہلے قادیانیوں نے ’’نعرہ تکبیر‘‘ اور ’’احمدیت زندہ باد‘‘ کے نعروں سے وزیر اعظم کا استقبال کیا، وزیر اعظم نے اپنے استقبالیہ کے جواب میں تقریر کے دوران قادیانی فرقہ کی تعریف کی اور کہا یہ لوگ غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مرزا مسرور کے بارے میں کہا وہ امن ومحبت کو پھیلاتے ہیں، نفرت کو مٹاتے ہیں وغیرہ …
اس ویڈیومیں چوں کہ نعرہ ٔ تکبیر اور ڈائس وغیرہ پر کلمہ طیبہ کی تحریر اور خود قادیانیوں کے لباس وحلیہ کو دیکھ کر عام ذہنوں میں قادیانیوں کے مسلمان ہونے کا تاثر پیدا ہوا ہے ، اس لئے اس کی بھی وضاحت ضروری ہے ۔
سب سے پہلے تو اس پر غور کریں کہ خود کومسلمان سمجھنا اور فی الواقع میں مسلمان ہونا دونوں باتیں بالکل الگ ہیں، ایک آدمی اپنے کو جوچاہے سمجھ سکتا ہے ،آپ چاہیں تو خود کو ملک کا وزیر اعظم اور صدر بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ سمجھ حقیقت واقعہ کے مطابق ہےبھی یانہیں؟
قادیانی اپنے آپ کومسلمان توسمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ مسلمان ہیں بھی یا نہیں ، اس کا فیصلہ نعروں،جھنڈوں اور لباس وچہروں سے نہیں ،عقیدہ ونظریہ سے ہوگا، ڈاکٹر کاکوٹ پہن لینے اور آلۂ تشخیص گلے میں ڈالنے سے کوئی ڈاکٹر نہیں بن جاتا، یا وکیل کا گاؤن پہن لینے سے وکیل نہیں ہوجاتا ،یا سواری پر Pressلکھنے سے کوئی صحافی نہیں ہوجاتا ،پس جیسے ڈاکٹر بننے کے لئے ڈاکٹر ی کورس ،وکیل بننے کے لئے وکالت کا کورس اور صحافی بننے کے لئے صحافت کا کورس کرنا ضروری ہے، اسی طرح حقیقت میں مسلمان بننے اور کہلانے کے لئے اسلامی عقائد ونظریات کو تسلیم کرنا ضروری ہے ،اسلام لباس وپوشاک اور شکل وصورت کا نہیں صحیح اور سچے عقیدہ ونظریہ کو ماننے کا نام ہے،ایک شخص مسلمان گھرانے وخاندان میںپیدا ہو ا لیکن وہ اسلام کے صحیح نظریہ پرقائم نہیں رہا تو پھر وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہا ،مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پیدائش اس کو دائرہ اسلام سے خارج ہونے نہیں روک سکتی ، اس کے برخلاف اگر کوئی غیرمسلم گھرانے میں پیدا ہوا ،اسی میں پلابڑھا ،لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت وتوفیق سے وہ اسلام کے نظریہ کو ماننے والا بن گیا توپھر وہ حقیقت میں مسلمان ہے ،غیرمسلم کی حیثیت سے اس کی پیدائش اس کے مسلمان ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی ۔
ٹھیک یہی بات ہمیں قادیانیوں کے تعلق سے بھی سمجھنی چاہئے ،ہمیں اُن کے لباس وپوشاک ،اُن کی شکل وصورت اور اُن کے جھنڈوں ،جلسوں ونعروں پر جانے کی ضرورت نہیں ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسلام کے نظریہ ’’ختم نبوت‘‘ کو مانتے ہیں یا نہیں؟کرتا پائجامہ اور شیروانی توبعض ہندوبھی پہنتے ہیں ، پگڑی،داڑھی اور ٹوپی یہودی اور سکھ بھی رکھتے ہیںتو کیا اس وجہ سے انھیں مسلمان سمجھ لیا جائے گا ،پھر ان چیزوں کے استعمال سے قادیانیوں کو کیوں اور کیسے مسلما ن مان لیا جائے گا ،بہرحال خود کو ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘ کہنے والا قادیانی فرقہ چوں کہ اسلام کے نظریہ ’’ختم نبوت ‘‘ کا منکر ہے اس لئے وہ مسلمان نہیں ہے ۔
دوسرا مسئلہ وزیر اعظم کینڈا کی تقریر کا ہے ،کینڈا کے مسلمانوں کے ساتھ وہاں کی حکومت کا حسنِ سلوک اورمسلمانوں سے وزیر اعظم کے خیرسگالی تعلقات کی بنیاد پر ہماراحسن ِ ظن یہ ہے کہ وزیر اعظم کی یہ تقریر لاعلمی اور ناواقفیت پر مبنی ہے مگر انصاف پروری اور حقیقت پسندی یہ ہے کہ آپ جس کے بارے میں اظہار خیال کریں تو پہلے اس کے بارے میں صحیح اور پختہ معلومات آپ کو حاصل کرنی چاہئے ،اس کے بعد آپ کا اظہار خیال سچائی وانصاف پر مبنی ہوگا ،شاید کینڈا کے معزز وزیراعظم کو قادیانی فرقہ کے پرفریب نعرہ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ سے غلط فہمی ہوئی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اخلاق وکردار کا اندازہ خوبصورت نعروں ،خوشنما جملوں اور لچھے دار تقریروں سے نہیں آدمی کی سوچ اور اُس کی آئیڈیالوجی سے ہوتا ہے ،قادیانی فرقہ کی آئیڈیا لوجی اس فرقہ کے لٹریچر کو پڑھنے سے معلوم ہوتی ہے ۔
عام طور پرمعاشرہ میں کوئی بھی نیافرقہ وجود میں آنے کے بعد اُس کے افکار وخیالات سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے ، اُس فرقہ کےعقائد ونظریات پرتنقیدی بحثیں بھی ہوتی ہیں ،ایسے میں فرقہ کے بانی اور اُ س کے پیروکاروں کا مزاج سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اُن کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں ،چناںچہ قادیانی فرقہ وجود میں آنے کے بعد جب اس پر تنقیدیں ہونے لگیں تو مرزا غلام قادیانی نے ان تنقیدوں کے جواب میں اپنے مخالفین کو یوں مخاطب کیا:
’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور اُن کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ہیں ‘‘(روحانی خزائن ،ج:۹،ص:۳۱)
ایک جگہ اس شخص نے اپنے دعوی نبوت کی تصدیق نہ کرنے والے عام مسلمانوں کوشرمناک گالی دیتے ہوئے کہا:
’’ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور میرے دعوی کی تصدیق کرتے ہیں مگر بدکار عورتوں کی اولاد نہیں مانتی کہ ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کردی ‘‘ (روحانی خزائن ج:۵،ص:۵۴۸،۵۴۷)
ان حوالوں سے قادیانی فرقہ کے پیشوا کی صرف بدزبانی اور دشنام طرازی نہیں بلکہ مخالفین کے بارے میں اس شخص کی ذہنیت معلوم ہوتی ہے ،یہ نفرت کی آئیڈیالوجی ہے ، جولوگ قادیانی لٹریچر کا منصفا نہ مطالعہ کریں گے ،انھیں نفرت کی یہ آئیڈیالوجی اچھی طرح سمجھ میں آئے گی اور وہ قادیانی فرقہ کے پرفریت نعرہ ’’محبت سب کے لئے …‘‘ سے دھوکہ نہیں کھاسکتے ، ہم کینڈا کے معزز وزیراعظم سے بھی یہی کہنا چاہیں گے کہ وہ قادیانی کمیونٹی اور اس کے لیڈر کے بارے میں اظہار خیال کرتے وقت خود ساختہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی نفرت پر مبنی اس آئیڈیالوجی کوبھی سامنے رکھیں۔
تیسرے یہ کہ کینڈاکے وزیر اعظم ہوں یا دوسرے یوروپی ممالک کے حکمراں ، ان کے یہاں رواداری کی اپنی ایک خاص سوچ ہے ، اسی سوچ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی ان تک رسائی حاصل کرتے ہیں ، اس خاص سوچ کی بنیاد پر ان ملکوں میں مذہب بیزار اور مذہب کے باغیوں کی خاص پذیرائی ہوتی ہے اور انھیں پناہ بھی دی جاتی ہے ، سلمان رشدی اور اس قبیل کے کئی ایک افراد اس کی نمایاں مثال ہے ، ابھی گذشتہ چند ماہ پہلے سعودی عرب کی ایک نوجوان لڑکی گھر سے فرار ہوکر اسلامی اقدار وافکار سے باغی ہوگئی تھی ، ہوائی جہاز کے اندر نیم برہنہ حالت میں شراب نوشی کرتے ہوئے اپنی تصویر میڈیا کو بھیجی ، کینڈاکی وزیر خارجہ نے ایرپورٹ پہونچ کر اس لڑکی کا استقبال کیا اورپھر اقوام متحدہ کے شعبہ کے توسط سے اس لڑکی کو باضابطہ پناہ دی گئی ۔
عدل وانصاف کے نقطۂ نظر سے یوروپی حکمرانوں کی اس رواداری کو حقیقی وسچی رواداری نہیں کہا جاسکتا ،یہ رواداری نہیں مفاد پرستی ہے ، آپ چوں کہ مذہب سے آزاد اور مذہب بیزار معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے معاشروں میں بھی مذہب کے تئیں باغیانہ خیالات کو فروغ دیاجائے اور اس ذہنیت کے حامل افراد کو اپنے یہاں بلاکر انھیں خاص اہمیت دی جائے ، چناںچہ چاہے قادیانی ہوں یا آزاد خیال اور آوارہ مزاج نام نہاد مسلمان ہوں، یوروپی معاشرہ میں اسی حکمت ِ عملی کے تحت ان کا استقبال ہوتا ہے اور خصوصی مراعات کے تحت انھیں شہریت دی جاتی ہے ، یوروپ میں رواداری کی اس پُرفریب اور خود غرضی پر مبنی سوچ کے تحت مذہب کے باغی اور مذہب بیزار لوگوں کے لئے آزادیٔ رائےکے حق کوتسلیم کیا جاتا ہے اور ان سے ہمدردی وخیرخواہی کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مذہب کے تئیں ان چند مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے مذہب کے پابند کتنے ہزار لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے ، آزادی رائے ہو یا دل آزاری، یک طرفہ طورسے کسی ایک پہلو پر فیصلہ کرنے کے بجائے اصولی اور بنیادی طورپر حقیقت تک پہونچنے کی کوشش کی جائے تاکہ سیاسی وسماجی مقاصد ومصالح سے آزاد ہوکر کسی ایک فرد اور فریق کے ساتھ اخلاص وانصاف پر مبنی رواداری کا معاملہ کیا جائے ورنہ پھر یہ رواداری کا دوہرا معیار ہوگا۔
قادیانی فرقہ کا کیس مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کا نہیں بلکہ انصاف اور اصولوں کا ہے ، یہ فرقہ اسلام کے بنیادی اصول’’ختم نبوت‘‘ کا منکر ہے، اس لئے اصولاً یہ فرقہ اسلام سے وابستہ نہیں رہا اور انصاف کی بات یہ کہ جب آپ اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کچھ نئے اصولوں پر اپنے خیالات ونظریات کی بنیادرکھتے ہیں تو ان ہی نئے اصولوں کے حوالہ سے اپنی شناخت بھی الگ رکھنی ہیے لیکن قادیانی ایسا نہیں کرتے ہیں بلکہ اسلام اورمسلمان کی حیثیت ہی سے اپنی شناخت کرواتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں، پس قادیانی فرقہ کے ساتھ صحیح مذہبی آزادی اور انصاف پر مبنی رواداری یہ ہے کہ اس کے پیرورکاروں سے اُن کے اپنے خیالات ونظریات کی بنیاد پر اپنی الگ شناخت وپہچان قائم کرنے کے لئے کہا جائے تاکہ عام مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت اور مذہبی علامات وشعائر کے تعلق سے قادیانی فرقہ کی دھوکہ دہی کی وجہ سے جو مسائل ومشکلات درپیش ہیں وہ پُرامن طریقہ پر ختم ہوسکیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×