اسلامیات

اسلامی سال نو کا پیغام امت کے نام

’’اسلامی تقویم جسے ہجری کیلنڈر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے یہ ماہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور ماہ ذوالحجہ پر ختم ہوتا ہے ، اسلامی تاریخ سے ادنی واقفیت رکھنے ولا شخص بھی جانتا ہے کہ اسلامی کیلنڈر کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ؐ کے واقعہ ہجرت مدینہ سے ہے ، اگر چہ کہ اس وقت پوری دنیا میں سن وتاریخ کے حوالے سے کئی کیلنڈر رائج ہیں مگر ان تمام میں دو کیلنڈر لوگوں میں بہت زیادہ معروف و مقبول ہیں ،ایک اسلامی اور دوسرا عیسوی ،بلاشبہ کیلنڈر کی اہمیت مسلم ہے ،یہ ایک معاشرہ کی اہم ترین ضرورت ہے ،اسی سے ماہ وسال کا علم ہوتا ہے ، انسانی عمر کا پتہ لگایا جاتا ہے اور حالات و واقعات کے رونما ہونے کا تعین کیا جاتا ہے،اسلامی کیلنڈر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق چاند پر موقوف ہے اور چاند کو اللہ تعالیٰ نے ماہ وسال کے تعین کا ذریعہ بنایا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ،ارشاد ہے :یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرہ:۱۸۹)’’لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں ،آپ انہیں بتادیجئے کہ یہ لوگوں (کے مختلف معامالات کے) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لئے ہیں‘‘، اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ قمری سن وتاریخ ہی سے اسلامی احکامات جڑے ہوئے ہیں اور اسی کے مطابق مسلمانوں کو شرعی احکام بجالانا لازمی ہے ، سال میں کل بارہ مہینے ہوتے ہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے :إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ(التوبہ:۳۶)’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ،جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا‘‘ ،سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے اس سے کم یا زیادہ کا نہیں ہوتا ہے جس ذکر حدیث شریف میں کیا گیا ہے ،ارشاد نبوی ؐ ہے : اشہر تسع وعشرون لیلۃ فلا تصوموا حتی تروہ فان غم علیکم فاکملواالعدۃ ثلاثین( بخاری) ۔
مؤرخین اسلام اور مسلمانان عالم کے نزدیک اسلامی کیلنڈر کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ اسلامی کیلنڈر ہی سے اسلام احکامات ودیگر دینی امور کا تعلق ہے ،اسی سے اسلامی غزوات و فتوحات کا صحیح علم ہوتا ہے ، رسول اللہ ؐ کی مبارک حیات و سیرت طیبہ کے ان منٹ نقوش نیز صحابہؓ وتابعینؒ کے عظیم الشان کارنامے سن ِ ہجری اور اس کی تواریخ کے ساتھ محفوظ ہیں ، اسلامی عبادات اور مسلمانوں پر لازم فرائض کا تعلق بھی سنِ ہجری اور اس کی تواریخ کے ساتھ وابستہ ہے،جیسے رمضان المبارک کے روزے اور حج بیت اللہ کا فریضہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانان عالم اور ان کے دینی رہنماء نہایت اہتمام کے ساتھ ہر ماہ پہلی تاریخ کوچاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کی تاریخوں کو یاد رکھتے ہیں ،بلکہ فقہ کی کتابوں میں رویت ہلال کے متعلق مفصلاً احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیںجس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی میں سن ہجری کی غیر معمولی اہمیت ہے اور اسی پر اسلامی بہت سے احکامات کا مدار ہے،جس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کے لئے اسلامی تقویم کی حفاظت اور اس کی تاریخوں کا یاد رکھنا ان کا دینی وملی فریضہ اور اجتماعی ذمہ داری ہے،افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ دھیرے دھیرے اسلامی تقویم سے ناواقف ہوتا جارہا ہے ، بہت سے مسلمان نہ تو اسلامی مہینوں سے واقف رہتے ہیں نہ ہی انہیں اسلامی تاریخوں کا علم رہتا ہے بلکہ بہت سے مسلمان تو وہ ہیں جنہیں سوائے رمضان المبارک اور ربیع الاول کے اسلامی مہینوں کے نام تک معلوم نہیں ہیں،بلکہ ایک مباحثہ کے دوران مسلم نوجوان سے پوچھا گیا کہ اس مہینہ کا نام بتائیں جس میں مسلمان حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں ؟ ، نوجوان نے سر جھکا کر بس اتنا کہا کہ رمضان کے بعد وہ مہینہ آتا ہے ۔
اسلامی تقویم کے آغاز سے پہلے اہل عرب ان کے درمیان رونما ہونے والے مخصوص واقعات کی طرف نسبت کرتے ہوئے اپنی اور اپنے اولاد کی عمروں کا علم رکھتے تھے اور کسی بھی اہم چیز کے یاد رکھنے کے لئے انہیں واقعات کا سہارا لیا کرتے تھے جس کا تذکرہ بہت سی تاریخی کتابوں میں ملتاہے ،مثلا واقعہ عام الفیل وغیرہ ،جب اسلامی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا ،دور دور تک اسلامی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں اور کئی بڑے علاقوں کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ،جگہ جگہ گورنروں کا تقرر عمل میں آنے لگا اور خلیفۃ المسلمین اور گورنروں کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا ،احوال سے واقفیت اور ہدایات کے لئے خطوط بھیجے جانے لگے تو اس وقت تاریخ وسن کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی ،چنانچہ سیدنا عمر فارق ؓ کے زمانہ خلافت میں سیدنا ابوموسی اشعری ؓ نے آپ ؓ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کئے جاتے ہیں مگر ان خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی ہے حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں اس سے کافی مدد وسہولت حاصل ہوتی ہے ،مثلا ً حکم نامہ کب جاری ہوا تھا ،اس پر عمل کب سے اور کب تک کیا جائے وغیرہ ،سیدنا عمر فاروق ؓ نے جب اس خط کو پڑھا تو اسے خوب سراہا اور بہت پسند فرمایا ،چنانچہ اس پر غور وفکر اور مشورہ کے لئے اکابر صحابہ ؓ کو طلب فرمایا اور ان کے سامنے سیدنا ابوموسی اشعری ؓ کی بات رکھی ، جب سبھوں نے اسے پسند فرمایا تو سیدنا عمر فاروق ؓ نے سب سے رائے طلب کی کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیسے رکھی جائے اور کہاں سے سن اسلامی کی شروعات کی جائے ،اس سلسلہ میں چار قسم کی رائے سامنے آئی (۱) رسول اللہ ؐ کی ولادت باسعادت کے سال سے اسلامی تقویم کا آغاز کیا جائے (۲) رسول اللہ ؐ کو جس سال نبوت سے سرفراز کیا گیا اس سال سے( ۳) ہجرت نبوی ؐ کے سال سے اور (۴) آپ ؐ کی وفات کے سال سے ،ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کو لے کر اکابر صحابہ ؓ کے درمیان بحث ومباحثہ اور خوب غور خوض ہوا ،آخر میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ ولادت یانبوت کی تاریخ اور دنوں میں اختلاف ہے اس لئے یہ مناسب نہیں ،وفات نبوی سے اسلامی سال کا آغاز اس لئے مناسب نہیں کیونکہ یہ سال مسلمانوں کے لئے نہایت رنج وغم کا سال تھا ،رہا ہجرت نبوی کا سال تو یہ سب سے زیادہ مناسب ہے ،کیونکہ طویل مشقت وآزمائش اور اس پر ثابت قدمی کے بعد ہجرت کا حکم دیا گیا جو دراصل حق وباطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز کرتا ہے ،اہل ایمان کے لئے اس میں آئندہ کامیابی کا پیغام ہے،اسلامی سلطنت کی بشارت ہے ، مسجد نبوی کی بنیاد اور اس کی تعمیر کی خوش خبری ہے، سکون وچین کے ساتھ اسلامی احکام پر عمل کی بشارت ہے ،فتح مکہ کی نوید ہے اور مجاہدات پر کمربستہ ہونے اور جان و مال اور وطن و جائداد کی قربانیوں کے طفیل میں کامیابی وکامرانی اور فتح ونصرت کی عظیم بشارت ہے،سیدنا عمر فاروق ؓ کی رائے سے سبھوں نے اتفاق کیا اور یہی سے اسلامی سال کا آغاز کیا گیا ۔
اسلامی کیلنڈر کا اغاز ہجرت نبوی سے کیا گیا جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے ،سیدنا عمر فاروق ؓ نے اکابر صحابہ ؓ کے مشورہ اور اتفاق رائے کے بعد ہی اسے منظورفرمایا تھا ، سن ہجری کے لئے صحابہ ؓ کا اتفاق در حقیقت من جانب اللہ تھا ،اس کے ذریعہ قیامت تک پوری انسانیت کو اور خصوصاً امت مسلمہ کو ایک پیغام دیا گیا کہ دراصل کامیابی وکامرانی کا مدار قلت وکثرت ،طاقت وقوت اور دولت وحشمت پر نہیں بلکہ صبر وثبات ، ہمت وبرداشت اور جہد مسلسل اور عمل پیہم پر ہے ،توحید کی حفاظت اور نبوی تعلیمات پر مداومت کرنے والے کبھی ناکام ونامراد نہیں ہوتے ،بظاہر وہ مغلوب نظر آتے ہیں مگر حقیقت میںسر بلندی و کامیابی اور فتح وکامرانی ان کے قدموں میں ہوتی ہے ، وہ جدھر کا رخ کرتے ہیں ہوائیں ان کا استقبال کرتی ہیں ،صحراء ان کے لئے اپنا سینہ کھول دیتی ہیں اور جس جگہ وہ پڑاؤ ڈالتے ہیں لوگ انہیں اپنا سر کا تاج بنالیتے ہیں ، ہجرت کے ذریعہ اللہ نے اہل ایمان کی قدم قدم پر مدد ونصرت فرمائی تھی ،انہیں کمال قوت سے مالال کیا تھا ،ان کے دلوں کو مضبوط کیا تھا ،ان کے قدموں کو جمادیا تھا اور انہیں فاتح بناکر دنیا کی سرداری کا تاج ان کے سروں پر سجایا تھا ،وہ جد ھر گئے کامیابی سمیٹتے گئے ،فتح وکامرانی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے اور عزت وعظمت کی چوٹیوں کو سر کرتے چلے گئے ،ہجرت سے انہیں ایک نئی توانائی حاصل ہوئی تھی ،عزم وحوصلہ ملا تھا ،جدجہد کا ملکہ عطا ہوا تھا اور یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لئے قربانی دیتا ہے تو پوری دنیا اس پر قربان ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہے ، صحابہ ؓ کی مالی وجانی قربانیاں رنگ لائی ،انہیں ہجرت کے بعد مقام امن پہنچایا گیا اور نصرت الٰہی کے ذریعہ ان کی دستگیری کی گئی اور بدر سے لے کر فتح مکہ وحنین تک انہیں قدم قدم پر کامیابی سے ہمکنار کیا گیا اور دشمنوں کی ہوا اُکھاڑ دی گئی ، ہجرت سے جہاں مسلمانوں کو اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے کا موقع ملا ،مدینہ کو اسلامی چھاؤنی میں تبدیلی کے مواقع حاصل ہوئے وہیں اسلام کے شجر رحمت کی چھاؤں سے لاکھوں میل دور رہنے والے اس سے سایہ عاطفت حاصل کر نے لگے ،یہ دراصل جہد مسلسل ،صبر وتحمل ،دنیا سے بے رغبتی ،آخرت کی خواہش اور اسلام پر جینے اور مرنے کی تمنا کی بدولت ہی یہ مقام حاصل ہوا تھا ۔
اسلامی نیا سال ہر سال آتا ہے اور امت مسلمہ کو ہجرت کی یاد دلاتا ہے ،انہیں بتاتا ہے کہ کس طرح اللہ کے محبوب ؐ نے دین متین اور توحید خالص کے لئے وطن عزیز کی قربانی دی تھی اور آپ ؐ کے ساتھ آپ کے جانثاروں نے بھی محض اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت واطاعت میں اپنی جائے پیدائش کو خیر آباد کرکے مدینہ تشریف لے گئے تھے ، مسلمان سال نو کے موقع پر واقعہ ہجرت یاد کریں اور اس کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے اندر ایک تحریک پیدا کریں ،اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لئے سب کچھ قربان کرنا سیکھیں ،کیونکہ اس کے بغیر نصرت و کا میابی کا تصول محال ہے،صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ،حکمت ودانائی سے حالات کا مقابلہ کریں ،دین کی دعوت کو اپنے لئے لازم سمجھیں ،پہلے خود دین پر قائم رہیں ،نفرت کا جواب محبت اور دشمنی کا مقابلہ دوستی سے کریں ،آزمائش سے گھبرائیں نہیں بلکہ اس کے ذریعہ کامیابی کے حصول کی کوشش کریں ، رضاء الٰہی کے لئے قربانیاں درکارر ہوتی ہیں اور قربانی کے لئے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ،موجود ہ عالمی وملکی حالات میں ہم کو ہجرت سے ہمت اور قوت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،حالات سے مایوس ہوجانا اور دشمن آگے ہمت ہار جانا بزدلی کی علامت ہے ، صحابہ ؓ کو اپنا آئڈیل ماننے والی قوم قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہے بلکہ بڑے بڑے طاقتوروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، مسلمان ہجرت سے تحریک لیتے ہوئے اپنے اندر عزم وحوصلہ پیدا کریں ،باتوں کے بجائے عمل وکردار کا مظاہرہ کریں ،بزدلی کے بجائے مقابلہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں ، اپنے اندر ایمانی قوت ،روحانی طاقت کے ساتھ وہ تمام چیزوں کے حصول کی فکر کریں جو کامیابی میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ، اس وقت دشمن اسلام کو دنیا سے مٹانے اور دولت ایمان کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے بھر پور کوشش کررہا ہے اور شاید آگے بھی کرتا رہے گا ،کبھی مال سے آئے گا تو کبھی اقتدار سے آئے گا ،تو کبھی تجارت ومعیشت سے آئے گا تو کبھی جدید ہتھیار لے کر آئے گا مگر اہل ایمان کو اسی طرح ثابت قدم رہنا ہوگا جس طرح مکی دور میں اور بوقت ہجرت مسلمان ایمانی قوت سے بھر پور ہوکر دین پر ثابت قدم تھے اور ذات الٰہی پر بھروسہ رکھتے ہوئے امید کا دامن تھامے ہوئے تھے ، یقینا مومن اپنا بھروسہ اللہ پر رکھتا ہے اور موت سے گھبراتا نہیں ،وہ جانتا ہے کہ اس کی حیات خدا کا انعام ہے اور اس کی شہادت خدا کا تحفہ ہے، خدا کی غلامی بڑی نعمت ہے ، اسلام اور پیغمبر اسلام سے وابستگی بڑی چیز ہے،جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ دنیا میں کا میاب اور آخرت میں سرخرو ہوگیا ،تمہارا سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہونے دو مگر ایمان سلامت رہنا چاہیے ،زندگی زندہ دلی کا نام ، اپنے خواہشات کو دین کے تابع کرنے اور خود کو اس پر مٹانے کا نام قربانی ہے، ہجرت قربانی کا درس دیتی ہے اور اسی سے کامیابی حاصل ہوتی ہے ،اگر ہم سربلندی چاہتے ،دنیا پر اسی طرح حکومت کرنا چاہتے ہیں اور دنیا وآخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہر طرح کی قربانیاں د ینے کے لئے اسی طرح تیار رہنا ہوگا جس طرح ہجرت کے موقع پر امت کا سب سے مبارک ومحترم طبقہ قربانی دے کر سر بلند ہوا تھا اور دین پر استقامت کے ذریعہ مدد ونصرت کو حاصل کیا تھا اور اس کے بعد انہیں وہ مقام ملا تھا جس پر پوری دنیا رشک کرتی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی ۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×