اسلامیات

قربانی کا کوئی بدل نہیں/ ہر صاحبِ گنجائش پر واجب!

قربانی کی ابتدا و ثبوت:
اسلام میں جن عبادتوں کی تاکید آئی ہے ان میں قربانی بھی ایک اہم اور مؤکد عبادت ہے جو کتاب وسنت ، اجماع صحابہ و اجماع سلف سے ثابت ہے، اور سن ۲؍ ھجری سے تواترو تسلسل کے ساتھ آج تک جاری و ساری ہے، الفقہ علی مذاہب الاربعہ میںلکھا ہے الاضحیۃ شرعت فی السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ کالعیدین و زکوۃ المال و زکوۃ الفطر و تثبت مشروعیتھا بالکتاب و السنۃ والاجماع یعنی روزہ، زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور نماز عیدین کی طرح قربانی بھی ایک عبادت ہے جو سن ۲؍ ھجری میں مشروع ہوئی ہے، اور اس کی مشروعیت کتاب ،سنت اور اجماع سے ثابت ہے، جیسا کہ سورۃ الکوثر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فصل لربک و انحر اےنبیﷺ آپ اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کرئیے۔ اور قربانی کا کچھ تذکرہ قرآن پاک کی دوسری آیتوں میں بھی موجود ہے،
عن انسؓ قال ضحی النبی ﷺ بکبشین املحین اقرنین، ذبحھما بیدہ۔۔۔ الخ (بخاری ، مسلم) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے چت کبڑھے، موٹے تازے، سینگھ والےدو مینڈھے اپنے ہاتھ سے ذبح کئے۔ (۲) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ قربانی کا جانور عید گاہ میں ذبح فرمایا کرتے تھے۔ (۳) عن ابن عمرؓ قال اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشرسنین یضحی (ترمذی) حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپ ﷺ نے قربانی کا اہتمام فرمایا۔
قربانی کی فضیلت و تاکید:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں اھراقِ دم یعنی جانور ذبح کرنے سے زیادہ کوئی اور عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے، اور بےشک قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور اپنے کھروں اور بالوں کے ساتھ آئے گا اور بے شک قربانی کے جانورکا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تم اس کے ذریعہ اپنا جی خوش کرلو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت زیدابن ارقم سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ ان قربانیوںکی حقیقت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اون کا کیا حکم ہے؟ یعنی ان جانوروں کا حکم کیا ہے جن کے بدن پر اُون (یعنی بال ہی بال ہوتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں بھی یہی حکم ہے کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے (احمد /ابن ماجہ) پہلی دوسری تیسری مذکورہ احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قربانی کی مشروعیت کے بعد سے اپنی وفات تک بقرعید کے دنوں میں صحت مند فربہ اور خوب صورت مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور قربانی کے ان جانوروں کو اپنے دست مبارک سے خود ذبح کیا کرتے تھے۔
قربانی کے فوائد و فضائل:
تیسری اور چوتھی مذکورہ احادیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرنے میں بڑے فوائد و فضائل ہیں اور اس میں بہت ہی برکتیں و حکمتیں مخفی ہیں ، جس میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ بقرعید کے دنوں میں قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے ، ان دنوں میں قربانی کے علاوہ دوسری کوئی نیکی دوسری کوئی عبادت اور دوسرا کوئی عمل اتنا محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے جتنا قربانی کا عمل محبوب و پسندیدہ ہے، دوسری فضیلت یہ ہے کہ قربانی سنت ابراہیمی ہے جس کے ذریعہ سیدنا ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یاد تازہ ہوتی ہے، تیسری فضیلت یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلےپہلے وہ قربانی بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوجاتی ہے، چوتھی فضیلت یہ ہے کہ قربانی کا جانور قیامت کے دن ہمارے لئے اجر و ثواب کا ذریعہ بن کر اس طرح سامنے آئے گا کہ اس کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہوگی حتی کہ اس کی سینگ ، اس کے کھر، اس کے بال اور اس کے گلے کی رسی اور اس سے متعلق وہ چیزیں جو کسی کام کی نہیں ہوتیں عموماً پھینک دی جاتی ہیں۔ وہ بھی مقبول ہوجاتی ہیں۔ اور ان چیزوں کا اجر و ثواب بھی قربانی کرنے والے کو نصیب ہوتا ہے۔ پانچویں فضیلت یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جس قدر بال ہوتے ہیں اس کے ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی فائدے ہیں مثلاًیہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے ذریعہ رشتہ داروں کی مدد ہوتی ہے، غریبوں کی اعانت ہوتی ہے، قربانی کی کھال لاکھوں مستحقین کے لئے امداد کا ذریعہ بنتی ہے ، بکریاں پالنے اور چَرانے والے انسانوں کا روزگار ہوتا ہے ، لاکھوں تاجر لوگوں کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور یہ ہے کہ قربانی شعائر اسلام میں سے ہے جس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی شان و پہچان ظاہر ہوتی ہے اور یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، خدا کی اطاعت و فرمانبرداری سہل ہوتی ہے ،یہی وہ فضیلتیں و برکتیں ہیں جوصرف قربانی کے عمل کےذریعہ حاصل ہوتی ہیں۔ جس سے اہل اسلام اور اہل ایمان کی روح کو خوشی اور تازگی حاصل ہوتی ہے، اسی لئے نبی رحمتﷺ نے ’’فطیبوا بھا نفسا‘‘ فرمایاکہ تم قربانی کے ذریعہ اپنا جی خوش کرلو،
ناظرین محترم! واقعہ اور حقیقت یہی ہے کہ بقرعید کے دنوں میں قربانی کا جانور خریدنے، گھر لانے، پالنے اور ذبح کرنے سے مسلمانوں کی روح کو ایک خاص قسم کی مسرت اور خوشی حاصل ہوتی ہے جو الفاظ کے ذریعہ بیان نہیں کی جاسکتی ہے اس لئے نبی رحمتﷺ بقرعید کے دنوں میں اہتمام کے ساتھ قربانی فرمایا کرتے تھےاور جانور کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام میں بھی قربانی کا خوب اہتمام پایا جاتا تھا حتی کہ جن صحابہ کرام کے پاس گنجائش نہیں ہوتی تھی وہ بھی قربانی کرنے کا شوق رکھتے تھے یہاں تک کہ سفر میں بھی قربانی کا اہتمام کیا جاتا تھا، چنانچہ ترمذی/ نسائی/ ابن ماجہ میں یہ حدیث منقول ہے عن ابن عباسؓ کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فحضر الا ضحی فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ و فی البعیر عشرۃ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھےکہ بقر عید کا موقع آگیاتو گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہوئے اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہوئے ، اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سفر میں بھی قربانی ترک نہیں کی گئی ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایک گائے میں سات آدمی شریک ہوئے، تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہوئے، اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کی شرکت کے متعلق جمہور علماء فرماتے ہیں کہ سفر میں ہونے کی وجہ سے اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہوئے، لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا کیوں کہ دوسری حدیث میں جس کو امام مسلم اور امام ابو داؤد نے نقل کیا ہے جو حضرت جابرؓ سے روایت ہے ان النبی ﷺ قال البقرۃ عن سبعۃ والجزور عن سبعۃ نبی ﷺ نے فرمایابقرہ یعنی گائے ، بیل، بھینس وغیرہ جانوروں کی قربانی میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اور جزور یعنی اونٹ میں بھی سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں لہٰذاجمہور علماءکے نزدیک گائے ، بیل ، بھینس اور اونٹ جیسے بڑے جانوروںکے ذریعہ قربانی کرنے کی صورت میں ایک جانور میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ شریک ہونے کی صورت میں کسی کی قربانی جائز نہیں ہوتی۔
قربانی کا شرعی حکم:
مذکورہ آیت شریفہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں فقہاء احناف نے لکھا ہے کہ قربانی واجب علی العین ہے یعنی ہر وہ شخص جو قربانی کے دنوں میں صاحب نصاب کا مالک ہو اس کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے اور شوافع ، حنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک قربانی سن موکدہ علی العین ہے ، اگر چہ کہ اصطلاحی الفاظ میں اختلاف ہےلیکن مفہوم و مرادایک ہی ہے کیوں کہ بعض مرتبہ سنت موکدہ عمل بھی واجب ہی کے حکم میں شمار ہوتا ہے، لہٰذا ہر وہ مسلمان مرد و عورت جس کی ملکیت میں قربانی کے دنوں میں حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کے بقدر کسی بھی قسم کا سرمایہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی، ایک ہی خاندان میں ایک سے زائد اشخاص صاحب نصاب ہورہے ہوں تو ہر ایک پر علاحدہ علاحدہ قربانی واجب ہوگی، صرف صدر خاندان کے نام سے قربانی کردینا بقیہ اشخاص کی طرف سے کافی نہیں ہوگا، اس لئے کہ فقہاء نے واجب علی العین یا سنت موکدہ علی العین سے تعبیر کیا ہے، بعض لوگوں کی طرف سے یہ باور کیا جاتا ہے کہ ایک قربانی پورے خاندان کی طرف سے کافی ہوجائے گی یہ بات درست نہیں ہے۔
قربانی کا وقت اور ایام:
دس ذی الحجہ بقر عید کا دن اس کے بعد۱۱؍ ذی الحجہ دوسرا دن پھر ۱۲؍ ذی الحجہ تیسرا دن ، یہ تین دن قربانی کے ایام ہیں۔ ایسےگاؤں و دیہات جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی ہے ان دیہاتوں میں دس ذی الحجہ کی صبح سے قربانی کا وقت شروع ہوجاتا ہے، ان کے علاوہ اُن تمام شہروں او رقصبوں میں جہاں جہاں عید کی نماز ہوتی ہے وہاں عید کے دن عید کی نماز کے بعد قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے ، نماز عید سے پہلے کسی نے قربانی کر لی ہو تو اس قربانی کا اعتبار نہیں کیا جاتا اس کی جگہ دوسری قربانی کرنا لازم ہوتا ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا من کان ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکانھا ومن لم یذبح فلیذبح باسم اللہ (بخاری/مسلم) یعنی جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر لیا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے عید کی نماز ختم ہونے تک ذبح نہیں کیا تو اس کو چاہئے کہ اللہ کا نام لے کر ذبح کر لے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید کی نماز ہوجائے تو قربانی کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے،حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ؒ نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ ’’خود مضحی کا نماز عید فارغ ہونا شرط نہیں ہے جوازِ اضحیہ کی، بلکہ مسجد یا عید گاہ میں نماز ہوچکنا کافی ہے‘‘ (امداد الفتاوی ۳۴۴/۸) خلاصہ یہ ہے کہ دس ذی الحجہ عید کی نماز کے بعد سے ۱۲؍ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک قربانی کے ایام ہیں، اس کے بعد یعنی ۱۳؍ ذی الحجہ کے دن قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ حضرت علیؓ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ ، حضرت انسؓ جیسے صحابہ کرام سے منقول ہے الاضحی یومان بعد یوم الاضحی (رواہ مالک) یعنی عید کے دن کے بعد مزید دو دن قربانی کے دن ہیں، لہٰذا دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ تین دنوں میں قربانی کی جاسکتی ہے ا س کے بعد ۱۳؍ ذی الحجہ کو قربانی کرنا درست نہیں ہے ، اس پر امت کا عمل تواتر اور تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے ، نئی بات پیدا کرکے امت کو تشویش میں مبتلاء کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر وعید:
قربانی نہ کرنے پر احادیث میں وعید بھی وارد ہوئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے سخت ناراضگی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے اس شخص پر جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے۔ ارشاد پاک کا مفہوم ہے کہ جو شخص وسعت اور قدرت کے باجود قربانی کا ارادہ نہ رکھے وہ ہماری عید گاہوں میں نہ آئے اور ایک حدیث میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ایسا شخص ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ ناظرین محترم! اگر وعید نہ بھی ہوتی تب بھی قربانی ضروری ہوتی کیوں کہ اس میں بہت سے فائدے ہیں جو قربانی کے ذریعہ ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں اور جب قربانی نہیں کریں گے تو ان تمام فائدوں سے محرومی ہوگی ، اب جب کہ قربانی نہ کرنے پر وعید بھی شامل ہوگئی ہے تو پھر ہم سب کے لئے لازم اور ضروری ہے کہ قربانی کے دنوں میں شوق اور ذوق کے ساتھ قربانی یعنی جانورذبح کریں، اس کے علاوہ اس کا کوئی بدل نہیں ، قربانی کی رقم کا صدقہ کرنا اھراقِ دم یعنی جانور ذبح کرنے کا بدل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔
قربانی کی اہمیت سے ناواقف دین بیزار لوگ ایک زمانہ سے عوام کو یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ ہر سال صرف تین دنوں میں لاکھوں چھوٹے بڑے جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم سے کوئی دوسرا رفاہی کام کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، ان کی یہ سونچ اسلام اور شریعت کی روح اور اس کے مقصد کے خلاف ہے، اسی لئے امتِ مسلمہ نے اس کو کبھی قبول نہیں کیالیکن اس قسم کے لوگوں نے اس سال کورونا بیماری کا بہانہ لے کر ایک فتویٰ کا غلط مفہوم پیش کرکے امت کو غلط فہمی اور گمراہی میں مبتلا کرنے کی ناکام کوشش میں پھر ایک بار سرگرم ہوگئے ہیں ، اللہ اس قسم کے لوگوں کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، تمام بردران اسلام اور دختران ملت سے گزارش ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی قربانی کا اہتمام کریں، خوف زدہ ہر گز نہ ہوں، البتہ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، اس میں کوتاہی ہرگز نہ کریں، اس وقت احتیاطی تدبیروں کے ساتھ دنیاوی ضرورتوں کے تمام کام انجام دئیے جارہے ہیں اسی طرح قربانی جیسی اہم عبادت بھی انجام دی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×