اسلامیات

مسجد کی شرعی حیثیت

اللہ تعالیٰ نےبنی نوع انسانیت کو محض اپنی عبادت و بندگی کے لیے وجود بخشا، عبادات میں اہم ترین عبادت نماز ہے، جو خالق و مالک سے سرگوشی و مناجات کا وسیلہ اور ذریعہ ہے،ظاہر سی بات ہےکہ نماز میں دھیان جمانے اور تعلق مع اللہ کو مضبوط و مستحکم کرنےکے لیے یکسوئی انتہائی لازم و ضروری چیز ہے،اسی وجہ سے ایسی جگہ کا ہونا امر لابدی ہے جو حضور قلبی اور خشوع و خضوع کے حصول میں معاون ہو،اگر چہ امت محمدیہ کے لیےپوری روئے زمین کوپاک کر کے عبادت کا مرکز بنا دیا گیاہے،لیکن عبادات کی انجام دہی کے لیے ایک خاص مکان کی تعمیر کا بھی حکم دیا گیا،تاکہ انہماک کے ساتھ رب کائنات کی بندگی کا فریضہ انجام دیا جا سکے،اسی مخصوص مکان کو مسجد کہا جاتا ہے۔
مسجد اسلام کا شعار ،اللہ کا گھر اور روئے زمین پر اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ جگہ ہے،جس کی حسی اعتبار سے تحسین و تزیین اور معنوی اعتبار سے نمازوں اور دیگر عبادات کے ذریعہ آبادی کی فکر کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے،اس کی تعمیر پر جنت میں عالی شان مکان کا وعدہ خداوندی ہے،اورنمازیں ترک کر کے اس کو ویران کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے،بلکہ اس سےبڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک گھر پر پابندی لگا دی جائے ،اسے مقفل کر دیا جائے،یا اس کو منہدم کر کے شہید کر دیا جائے،یقیناً ایسا کر نے والے بڑے ہی خسارے میں ہونگے،ایسے لوگوں کے لیے ابرہہ اور اس کے لشکرکی ہلاکت و بربادی کا واقعہ آج بھی درس عبرت ہے،جسے دیکھ کر ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے،کیونکہ اللہ رب العزت اپنے گھر کا خود ہی محافظ و نگہبان ہے۔
اسلام؛ مذہب عدل و انصاف
اسلام دنیا میں عقیدۂ توحید کا نمائندہ مذہب ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیں عدل اور رَواداری کی تعلیم بھی دیتا ہے، وہ مذہب کے معاملے میں کسی جبر واِکراہ کا قائل نہیں، اس نے اِس بات سے منع کیا ہے کہ کسی فرد یا قوم کی انفرادی یا قومی اور مذہبی زمین پر قبضہ کرکے، اُسے زبردستی مسجد بنالیا جائے، اس لیے تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک میں کسی زمین یا کسی قوم کی عبادت گاہ پر قبضہ کرکے اُسے مسجد بنالیا ہو۔لہٰذا کسی مسجد کے بارے میں ایسی کوئی صلح، شرعی اعتبار سے قطعاً جائز نہیں ہوگی جس کا مقصد مسجد کی حیثیت کو تبدیل کرنا ، یا نعوذ باللہ اسے بُت خانہ بنانا ہو، اور یہ مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر اور علمائے امت کا متفقہ فیصلہ ہے۔
مسجد شریعت کی نظر میں
مساجد کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظردو اور دو چار کی طرح بالکل واضح ہے، اور جمہور امت کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ جس مقام پر ایک مرتبہ مسجد تعمیر کر دی گئی، وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی ، اب نہ اس کی خرید وفروخت ہوسکتی ہے، نہ وہ خطۂ ارض کسی اور کو بہ طور تحفہ دیاجاسکتا ہے، اور نہ کوئی شخص یا حکومت اس کی حیثیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔مسجد در اصل اسی حصۂ زمین کا نام ہے جسے مسجد کے لیے وقف کردیا گیا ہو، مسجد صرف باب و در،دیواروں اور کھڑکیوں کے ڈھانچےکا نام نہیں ، اس لیے اگر مسجد کی عمارت منہدم ہوجائے، یا اسے ظلمًا منہدم کردیا جائے، یا کسی وجہ سے طویل عرصہ تک وہاں نماز نہ پڑھی جائے، تب بھی وہ مسجد باقی رہتی ہے، اور مسلمانوں پر اس کو دوبارہ آباد کرنا شرعاً واجب ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَآتٰی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰی أُولٰئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔‘‘ (التوبہ:۱۸)’’ہاں! اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور بجز اللہ کے کسی سے نہ ڈریں۔‘‘
اس آیت کریمہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ مساجد کی آبادی کی فکر کرنا امت مسلمہ پر فرض ہے،اوریہ کام ان کے ایمان کی بڑی شہادت ہے۔دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ مساجد اللہ تعالیٰ کی مملوک ہوتی ہیں،لہذا اشخاص یا حکومتوں کو اس بات کا بالکل حق نہیں ہے کہ وہ اس کی ملکیت کو زائل کر دیں۔
مساجد اللہ کی ملکیت ہیں!
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے مسجد کی نسبت اپنی ذات کی جانب فرمائی ہے،اور مساجد کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کیا ہے، جیسے سورہ ٔجن میں فرمان باری تعالیٰ ہے:وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّـٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّـٰهِ اَحَدًا ۔(سورۃالجن:۱۸) ترجمہ:اور بے شک مسجدیں اللہ کے لیے ہیں پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔
آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن علامہ زمخشری تحریر فرماتے ہیں: وقيل معناه: ولأن المساجد لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا على أنّ اللام متعلقة بلا تدعوا، أى: فلا تدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً في المساجد، لأنها لله خاصة ولعبادته.(تفسیر کشاف:۴/۶۲۹)
ترجمہ:یعنی آیت کا ایک مطلب یہ ہے کہ چونکہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں تو تم (ان میں غیر اللہ)کو مت پکارو،اس قاعدہ کے اعتبار سے کہ لام لا تدعوا کے متعلق ہے،یعنی (خلاصہ یہ نکلا کہ)تم مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی (غیر)کو مت پکارو،اس لیے کہ یہ مساجد خالص اللہ تعالیٰ کی(ملکیت ہیں) اور اس کی عبادت کے لیے ہیں۔
اب یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا بھر کی تمام مسجدیں اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ تنہا ان کے مالک حقیقی ہیں،اور اس بات میں حبہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے،لہٰذاجب اللہ تعالیٰ ان کے مالک ہیں تو کس کو حق بنتا ہے اور کس کی مجال ہے کہ ان کی ملکیت میں مالکانہ تصرف کرے،یہ بات شرعی اعتبار سے ناجائز اورملت اسلامیہ کے لیےنا قابل براشت بھی ہے۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مسجدوں میں اللہ ہی کی عبادت و بندگی کی جائے گی،ان میں غیراللہ کی مورتیاں نصب کرنے،معبودان باطلہ کی پرستش و پوجا پاٹ کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مسجد سے دستبرداری و منتقلی
جس جگہ ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے،وہاں سے نہ تو اس کو منتقل کرنا جائز ہے،نہ اس میں دیگر دنیاوی امور انجام دینا جائز ہے اور نہ ہی اس میں ہندوانہ و مشرکانہ رسوم ورواج انجام دینا جائز ہے،بلکہ اب مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اس کو نمازوں اور دیگر عبادات کے ذریعہ آباد رکھیں،اس لیے کہ مسجد کے معاملہ میں کوتاہی و سستی سے کام لینا،اور اس کے حقوق سے پہلو تہی کرنا یہ مسجد کی حق تلفی ہے، اور اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی مسجد کو مقفل ہی کر دے یا اس کو شہید کر دے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ أَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا۔‘‘(سورۃالبقرہ:۱۱۴) ترجمہ:اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے اور اُن کے اُجاڑنے کی کوشش کی۔
اس آیت کی تفسیر میں امام رازی رقم طراز ہیں:السَّعْيُ فِي تَخْرِيبِ الْمَسْجِدِ قَدْ يَكُونُ لِوَجْهَيْنِ. أَحَدُهُمَا: مَنْعُ الْمُصَلِّينَ وَالْمُتَعَبِّدِينَ وَالْمُتَعَهِّدِينَ لَهُ مِنْ دُخُولِهِ فَيَكُونُ ذَلِكَ تَخْرِيبًا. وَالثَّانِي: بِالْهَدْمِ وَالتَّخْرِيبِ ۔(التفسیر الکبیر:۴/۱۲)
ترجمہ:مسجد کو ویران کرنے اور اجاڑنے کی کوشش دو طرح ہوتی ہے:ایک طریقہ نمازیوں،عبادت گزاروں اور مسجد کے محافظوں کو اس میں داخل ہونے سے روک دینا ہے،سو یہ بھی ویران کرنا ہے،اور دوسرے منہدم کرنے اور توڑ پھوڑکے ذریعہ ۔
پتہ چلا کہ مسجد کو غیر آباد کرنا عند اللہ جرم عظیم اور قابل مؤاخذہ ہے۔لہٰذاجونام نہادمسلم قائدین بابری مسجد کو منتقل کرنے کی بات کرتے ہیں اور اس کے متبادل کے لیے حکومت کو عرضیاں پیش کر رہے ہیں،انہیں غور و فکر کرنے اور گریبان میں سر رکھ کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آج کن لوگوں کی صف میں کھڑے ہیں،اسلام کے شعار کو داؤ پر لگا رہے ہیں،اللہ کے گھر کی تخریب و بربادی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں،اور اپنے ایمان کا سودا کر رہے ہیں،بابری مسجد پہلے بھی مسجد تھی،اب بھی مسجد ہے اور آئندہ بھی مسجد ہی رہے گی۔
اور رام کے نام لیوا مفاد پرست غنڈوں کو جان لینا چاہیے کہ بابری مسجد اللہ کا گھر ہے،اس نے جس طرح کعبہ کی حفاظت کی وہ اسی طرح اپنے اس گھر کی حفاظت پر بھی قادر ہے، اس نے ڈھیل دے رکھی ہے،اس کی مہلت سے چند روزہ فائدہ اٹھا لو،پھر جب تمہاری پکڑ ہو گی تو تمہارے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے،ہر جوڑ پکار اٹھے گا،انگلیوں کے پورے بھی عذاب کی شدت سے بے تاب ہوکر تم پر لعنت کریں گے۔
ایک شبہ کا ازالہ
بعض حضرات مسجد کی منتقلی کے جواز پر مسند احمد کی ایک روایت پیش کرتے ہیں : حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْكُوفَةِ أَوَّلَ مَا بُنِيَ مَسْجِدُهَا، وَهُوَ فِي أَصْحَابِ التَّمْرِ يَوْمَئِذٍ۔(مسند احمد:۲۵/۲۱۷)عبداللہ یشکری کہتے ہیں کہ کوفہ کی مسجدکی تعمیرکے بعد سب سے پہلے میں اس میں داخل ہوا، اور وہ مسجد اس وقت کھجور کے بازار میں تھی۔ طریقۂ استدلال اس طرح ہے کہ یہ مسجد کوفہ ابتداء میں بازار میں تھی پھر حضرت عمر کے حکم سے اسےدوسری جگہ منتقل کر دیا گیا،تو جب خلیفۂ راشد نے منتقل کیا تو یہ عمل ہمارے لیےحجت اور لائق تقلید ہے۔
اس روایت پر فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے مفصل کلام کیا ہے،جس کا ما حصل یہ ہے کہ:(۱)اس روایت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کسی مصلحت کی وجہ سے دوسری جگہ مسجد تعمیر کردی گئی،اور لوگ وہاں نمازپڑھنے لگے،یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ پہلی جگہ کو مسجد کے بجائے کسی اور کام کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہو۔(۲)علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے مسجد کو منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ چونکہ کوفہ کے بیت المال میں چوری ہو گئی تھی؛اس لیے مسجد کی سمت قبلہ میں بیت المال بنانے کا حکم فرمایاتھا،تاکہ مسجد میں لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے بیت المال نظر میں رہے، اور اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔(۳)اس مسجد سے مسجد شرعی ہونا ہی مراد ہو،یہ بھی ضروری نہیں،ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بازار میں کسی جگہ کو نمازکے لیے مخصوص کر لیتے ہیں،اس کی حیثیٹ مسجد شرعی کی نہیںہوتی بلکہ عبادت گاہ اور مسجد بیت کی ہوتی ہے۔(۴)کتاب و سنت کی جو نصوص اوپر ذکر کی گئی ہیں،ان کے مقابلہ میں یہ عمل صحابی(جس کا درجہ بہر حال کتاب و سنت کے بعد ہی ہے)قابل توجہ نظر نہیں آتا۔(مسجد کی شرعی حیثیت:ص۱۸۔۱۹)
فقہی نقطۂ نظر
مسجد کی شرعی حیثیت کے سلسلہ میں چاروں مذاہب کے فقہاء کی رائے بھی تقریباًایک ہی ہے،سب کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ جہاں ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے،وہ تا قیامت مسجد رہے گی،اس کی حیثیت میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کر سکتا ،نہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے، نہ اس کو بہ طور ہدیہ دینا جائز ہے،نہ اس کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہےاور نہ ہی اس کو گروی رکھنا جائز ہے،جب یہ مباح اعمال کی بھی اجازت نہیں ہےتو مسجد جیسے مقدس و پاکیزہ خانۂ خدا میں پوجا پاٹ اور مورتیوں کی تنصیب کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟یقیناً یہ سنگین جرم،اورایمان فروشی کے مترادف ہے،احناف کا مفتی بہ قول بھی یہی ہے ۔علامہ حصکفی لکھتے ہیں:وَلَوْ خَرِبَ مَا حَوْلَهُ وَاسْتُغْنِيَ عَنْهُ يَبْقَى مَسْجِدًا عِنْدَ الْإِمَامِ وَالثَّانِي) أَبَدًا إلَى قِيَامِ السَّاعَةِ (وَبِهِ يُفْتِي) ۔ ترجمہ: اگر مسجد کے اطراف کی آبادی ختم ہو جائے،اور اس مسجد کی ضرورت باقی نہ رہے؛تب بھی وہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک دائمی طور پر تا قیام قیامت مسجد باقی رہے گی،اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:فَلَا يَعُودُ مِيرَاثًا وَلَا يَجُوزُ نَقْلُهُ وَنَقْلُ مَالِهِ إلَى مَسْجِدٍ آخَرَ، سَوَاءٌ كَانُوا يُصَلُّونَ فِيهِ أَوْ لَا۔تو ایسی صورت میں (وہ مسجد)نہ تو دوبارہ کسی کی میراث بن سکتی ہے،اور نہ اس کو منتقل کر سکتے ہیں اور نہ اس کی اشیاء کو کسی دوسری مسجد کی جانب منتقل کرنا جائز ہے،خواہ لوگ اس میں نمازیں ادا کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔(درمختار مع رد المحتار:۴/۳۵۸)اسی طرح کی بات فقہ مالکی،فقہ شافعی اور راجح قول کے مطابق فقہ حنبلی کی کتب میں بھی موجود ہے۔
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں مسجد کی ایک مسلمہ حیثیت ہے،کوئی خواہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو اس کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کی حیثیت میں تبدیلی کرے،اسی طرح کسی فرد یا جماعت یا بر سر اقتدار حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مسجد پر غاصبانہ قبضہ کرکے اس کو کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرے،نیز مسجد کی جگہ فرش سے عرش تک تاقیامت مسجد ہوتی ہے،لہٰذا اس سے دستبرداری اختیار کرنا یااس کے متبادل پر مصالحت کر لینایا کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×