اسلامیات

علم کلام میں غور و خوض کی ضرورت

(امام ابوالحسن اشعری کا رسالہ ’’استحسان الخوض فی علم الکلام‘‘ کا خلاصہ)

یہ رسالہ استحسان الخوض فی علم الکلام ‘‘امام ابو الحسن علی بن اسمعیل اشعری(۲۶۰-۳۲۴ھ) کا ہے جس میں انہوںنے اہل سنت و الجماعت کے عقائد کو عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیاہے ، اس رسالہ میں انہوں نے اللہ تعالی کے وجود ،عالم کے حدوث اور بعث بعد الموت کا انکار کرنے والوںکو جواب دیا ہے ، اور ان مسائل کو عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیاہے ۔
شیخ ابوالحسن اشعری نے پہلے ابو علی جبائی معتزلی کی شاگردی اختیار کی یہاں تک کہ معتزلہ کے امام ہوگئے ،پھر انہوں نے اعتزال سے توبہ کی اور بصرہ کی جامع مسجد کے ممبر پر کھڑے ہوکر انہوں نے اعلان کیا کہ میں خلق قرآن کا قائل تھا ، میرا عقید ہ تھا کہ انسانی نگاہیں اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتی ہیں اور بندہ افعال شر کا خو د خالق ہے لیکن میں ان مسائل سے توبہ کرتاہوں اور معتزلہ سے برأت اظہار کرتاہوں ۔ اس رسالہ کے شروع میں محمد الولی الاشعری نے ایک تفصیلی مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے امام اشعری کے حالات ان کے مذہب اور ان کی کتابوں کا تعارف کرایا ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ سبکی نے طبقات میں لکھا ہے کہ اشعری نے کسی مذہب کی بنیاد نہیں رکھی ہے؛ بلکہ انہوںنے سلف کا مذہب جس پر صحابہ کرام تھے کو ثابت کیا ہے ۔ابن عبدالسلام شیخ الشافعیہ اور مختلف حضرات کا قول نقل کیا ہے کہ مالکیہ ، شافعیہ ، حنفیہ اور فضلاء حنابلہ یہ سب اشعری ہیں ، امام ابوالقاسم کا قول ہے کہ ابو الحسن اشعری اصحاب الحدیث کے مام ہیں بعض لوگوں نے امام ابوالحسن اشعری پر جو الزمات لگائے ہیںعلامہ قرطبی نے’’ زجر المفتری علی ابی الحسن الاشعری ‘‘میں اس کا جواب دیا ہے ، ابو الحسن اشعری کی تصنیفات کی تعداد پچاس کے قریب بتائی جاتی ہے۔
امام ابوالحسن اشعری کا یہ رسالہ صرف ۱۵ صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اپنے زمانے کے بعض لوگوں کے رجحان کا جواب دیا ہے ،بعض لوگوں خیال تھا کہ علم کلام میں غور و خوض کرنا اور اس کے مسائل میں کھود و کرید کرنا درست نہیں ہے اور حرکت و سکون ، جسم و عرض الوان و اکوان اور صفات باری میں گفتگو کرنا یہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ،ان لوگوں کاخیال یہ تھا کہ اگر ان چیزوں میں گفتگوکرنا ہدایت کی بات ہوتی تو حضور ﷺ اس میں گفتگو کرتے اور آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کا گفتگو نہ کرنا دو وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو آپ ﷺ کو اور صحابہ کو ان مسائل کا علم تھا اور آپ خاموش رہے، یا آپ ﷺ کو ان مسائل کا علم نہیں تھا اگر آپ کو علم تھا پھر آپ ﷺ خاموش رہے، تو ہمارے لیے بھی ان مسائل میں خاموش رہنے اور ان مسائل میں غو رو خوض ترک کرنے کی گنجائش ہو جاتی ہے جیسا کہ ان حضرات کے لیے ترک خوض کی گنجائش تھی کیوں کہ اگر یہ دین کا کوئی لازمی حصہ ہوتا تو آپ کے لیے خاموش رہنے کی گنجائش نہ ہوتی اور اگر آپﷺ کو اور صحابہ کو اس کا علم نہیں تھا تو ہمارے لیے بھی اس کی جہالت کی گنجائش ہوگئی جیسا کہ ان حضرات کے لیے گنجائش تھی اس لیے کہ اگر اس کا علم ضروری ہوتا تو آپ ﷺ اس سے ناواقف نہ رہتے لہذا دونوں اعتبار سے علم کلام میں کلام کرنا بدعت اور گمراہی ہے ۔
شیخ ابوالحسن اشعری نے اس خیال اور اعتراض کا تین جواب دیا ہے جو اس رسالہ کا اصل مقصد ہے اور یہ رسالہ اسی سوال کے جواب پر محیط ہے ، شیخ ابو الحسن اشعری کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے جہالت کو ہی اپنا رأس المال بنالیا ہے اور دین میں غور و خوض کرنا ان پر گراں گزرتا ہے یہ لوگ تقلید کی طرف مائل ہیں اور اصول دین میں تحقیق و تفتیش کو گمراہی قرار دیتے ہیں ۔
شیخ ابو الحسن اشعری نے ان حضرات کو پہلا جواب الزامی دیا ہے کہ ٹھیک ہے کہ آپ ﷺ نے علم کلام کے ان موضوعات پر کلام نہیں کیا ہے لیکن آپ ﷺ نے ان موضوعات پر کلام کرنے کو بدعتی اور گمراہ کہنے کے لیے بھی نہیں کہا ہے پس ایسے لوگ خود گمراہ اور بدعتی ہیں اس لیے کہ یہ لوگ ان کو گمراہ کہہ رہے ہیں جن کو حضور نے گمراہ نہیں کہا ہے ۔
شیخ ابو الحسن اشعری دوسرا جواب یہ دیتے ہیں کہ علم کلام کے موضوعات جیسے حرکت و سکون ، جسم و عرض ، جز وغیرہ، آپ ﷺ ان مسائل سے واقف تھے اگر چہ کہ متعین طور پر آپ نے کلام نہیں کیاہے لیکن یہ وہ چیز یں ہیں جن کی اصل قرآن و سنت میں اجمالی طور پر موجود ہیں مثلا حرکت و سکون کی اصل قرآن میں موجود ہے اور اس سے تو حید پر استدلال ہوتا ہے جیسے کہ حضرت خلیل علیہ السلام کی گفتگو میں اللہ تعالی نے سورج ،چاند ستارے کے ڈوبنے کی گفتگو کو نقل کیا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ یہ چیزیں ایک جگہ سے دوسری جگہ سے منتقل ہوتی ہیں اور حرکت کرتی ہیں اور یہ چیز یں اللہ تعالی میں ممکن نہیں ہیں اور جن میں یہ چیزیں ہو ں وہ خدا نہیں ہے ، حضرت ابراہیم نے بھی اللہ تعالی کے وجود پر اسی سے استدلال کیا تھا ۔
اسی طرح اصول توحید پر گفتگو بھی کتاب اللہ میں موجود ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے لو کان فیہما آلہۃ الا اللہ لفسدتا یہ جملہ بہت مختصر ہے لیکن اللہ تعالی کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ متکلمین نے توحید کے سلسلے میں جو کچھ بھی کلام کیا ہے اس کی بنیاد یہی آیت ہے ، اسی طرح علم کلام کا ایک مسئلہ بعث بعد الموت کا ہے ، جس میں عقلاء عرب حیران تھے او ر اس کے امکان پر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے أاذا متنا و کنا ترابا ذلک رجع بعید ( کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائے تو ہم پھر لوٹائے جائیں گے یہ لوٹایا جانا بڑی دور کی بات ہے ) من یحی العظام و ہی رمیم ( ہڈیوں کے بوسیدہ ہو جانے کے بعد کون ان ہڈیوں میں جان ڈالے گا) شیخ اشعری کہتے ہیں کہ بعث بعد الموت کا انکار کرنے والے دو طرح کے لوگ تھے ایک تو وہ لوگ تھے جو پہلی تخلیق کو تو مانتے تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے لیکن دوبارہ پیدا کئے جانے کا انکار کرتے تھے دوسرا گروہ وہ تھا جو دونوں تخلیق کا انکار کرتا تھا اور عالم کے قدیم ہونے کا قائل تھا ۔اللہ تعالی نے دونوں گروہ کو جواب دیا ہے پہلے گروہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا قل یحیہا الذی انشأ اول مرۃ ( آپ کہہ دیجئے وہ ذات دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ زندہ کیا ہے ) ہو الذی یبدوا الخلق ثم یعیدہ و ھو اھون علیہ ( وہ ذات جس نے تخلیق کی ابتداء کی ہے وہ دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ اس پر آسان ہے ) یعنی جس نے پہلی مرتبہ بلا کسی مثال اور نمونے کے پیدا کیا ا س کے لیے دوبارہ پیدا کرنا اور بھی آسان ہے ۔
دوسرا گروہ جس نے دونوں تخلیق کا انکار کیا ہے اور عالم کو قدیم کہا ہے ان لوگوں کو ایک شبہ ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حیاۃ (زندگی ) کو تازہ اور گرم دیکھتے ہیں(یعنی زندگی میں حرارت ارو تازگی ہے ) اور موت کو ٹھنڈا اور خشک مٹی کی طبیعت کی طرح(یعنی موت میں برودت او رخشکی ہے) پس یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی اور موت یعنی مٹی کے درمیان اجتماع ہو اس لیے کہ حیات او رمٹی یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ شیخ ابو الحسن کہتے ہیں کہ دو ضد کا ایک محل میں تو اجتماع محال ہے لیکن دومحل میں اجتماع ممکن ہے خود قرآن میں اس کی مثال موجود ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے الذی جعل لکم من الشجر الاخضر نا را فإذاانتم منہ تو قدون اس آیت میں غور کیجئے درخت جو ٹھنڈی اور تر ہے اس سے آگ کا خروج ہورہا ہے جو خشک اور گرم ہے یہاں پر آگ اور درخت کا اجتماع ہورہا ہے لیکن یہ دو محل میں ہے اسی طرح موت و حیات کا اجتماع دو محل میں ممکن ہے ۔
شیخ ابو الحسن اشعری نے ا س خیال کا تیسرا جواب یہ دیا کہ ان کا مسائل کا تفصیلی علم آپ کو تھا لیکن یہ مسائل آپ کے زمانے میں پیش نہیں آئے تھے اس لیے آپ ﷺ نے اس پر کلام نہیں کیا حالاں کہ اس کے اصول قرآن و سنت میں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض مسائل صحابہ کے زمانے میں پیش آئے تو صحابہ کرام نے ان پر کلام کیا ہے بلکہ مناظرہ بھی کیا ہے جیسے علم فرائض میں عول کا مسئلہ اور جدات کا مسئلہ اسی طرح حدود اور طلاق کی بعض صورتیں جس پر آپ ﷺ نے کوئی صراحت نہیں کی لیکن حضرات صحابہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں اس پر کلام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں ان مسائل میں اختلاف بھی ہوا ہے اگر نص کی صراحت ہوتی تو اختلاف نہ ہوتا لیکن حضرات صحابہ نے ان مسائل کا اپنے فہم اور اجتہاد سے قرآ ن و سنت کی روشنی میں جواب دیا ہے اگر یہ مسائل حضور کے زمانہ میں پیش آتے تو آپ ﷺ بھی اس کا جوا ب دیتے جیسا کہ آپ کے صحابہ نے جواب دیا ہے یعنی آپ کا جوا ب نہ دینا اس لیے تھا کہ یہ مسائل اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے ۔(حضرات صحابہ کے عمل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ایسا آئے جس کے سلسلے میں نص میں کوئی صراحت نہ ہو تو اجتہاد کے ذریعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دینا چاہیے ۔
ان تین جوابات کے بعد امام ابو الحسن اشعری نے غورو خوض کی ضرورت پر کلام کرتے ہوئے ان لوگوں سے سوال کیا ہے جو کلام میں غو رو خوض کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے قرآن کا مخلوق یا غیر مخلوق ہونا ثابت نہیں ہے پھر آپ لوگ قرآن کو غیر مخلوق کیوں کہتے ہیں ؟ شیخ ابو الحسن کہتے ہیں کہ اگروہ حضرات یہ جواب دیں کہ بعض صحابہ اور تابعین قرآن کے غیر مخلوق ہونے کے قائل تھے اس لیے ہم قرآن کو غیر مخلوق کہتے ہیں تو یہی کہا جائے گا کہ ان کو بھی وہی لازم آتا جو آپ حضرات کو لازم آتا ہے کہ وہ گمراہ ہیں اس لیے کہ انہوں نے وہ کہا جو حضور ﷺ نے نہیں کہا ہے ۔اور اگر کوئی یہ کہے کہ اس سلسلے میں توقف کروں گا نہ قرآن کو مخلوق کہوں گا نہ غیر مخلوق کہوں گا تو ان سے کہا جائے گا کہ آپ اس توقف میں گمراہ ہیں اس لیے کہ آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر میرے بعد یہ واقعہ پیش آئے تو توقف کرنا او رکچھ نہ بولنا اور نہ ہی آپ نے یہ کہا تھا کہ جو قرآن کو مخلوق یا غیر مخلوق کہے ا سکی تضلیل و تکفیر کرنا ۔
شیخ ابوالحسن نے ایک دوسرا سوال کیا ہے کہ یہ بتائیے کہ اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ اللہ تعالی کا علم مخلوق ہے تو آپ توقف کریں گے ؟ اگر اس کے جواب میں وہ حضرات یہ کہیں کہ نہیں !ان سے کہا جائے گا کہ آپ ﷺ اور حضرات صحابہ سے تو اس سلسلے میں کچھ منقول نہیں ہے ،اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ شکم سیر ہے ، یا بھوکہ ہے ، یا کپڑا پہنا ہوا ہے یا بغیر کپڑے کے ہے یا اللہ کے جسم ہے یا کیا اللہ کو دل ہے وغیر ہ تو آپ کے اپنے اصول کے مطابق آپ کو خاموش رہنا چاہیے اس لیے کہ آپ ﷺنے ان مسائل پر کوئی کلام نہیں کیا ہے او رنہ ہی آپ کے صحابہ نے کلام کیا ہے یا آپ خاموش نہیں رہیں گے او ربیان کریںگے کہ اللہ تعالی کے لیے یہ چیزیں درست نہیں ہیں ان ان دلائل سے ۔
اگر کوئی کہنے والا کہے کہ میں ا س وقت خاموش رہوں گا اور کوئی جواب نہیں دوں گا او رنہ ہی ایسے کہنے والے کو سلام کروں گا اورنہ ہی اس کی عیادت کروں گا او رجب وہ مرے گا تو اس کے جنازہ میں حاضری نہیں دوں گا تو ہم ان سے کہیں گے کہ آپ ان باتوں میں گمراہ اور مبتدع ہیں اس لیے کہ حضور ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ جو ان مسائل کے بارے میں پوچھے تو خاموش رہو اور نہ ہی آپ نے یہ کہا کہ ان کو سلام مت کروا س لیے آپ ایساکرنے میں مبتدع ہیں پھر آپ اپنے فلسفہ کے مطابق ان لوگوں کے حق میں آپ خاموش کیوں نہیں رہے جس نے قرآن کومخلوق کہا اور کیوں آپ نے ان کی تکفیر کی حالاں کہ قرآن کے مخلوق ہونے اور قرآن کو مخلوق کہنے والے کی تکفیر کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں ہے ۔اگر یہ لوگ ا س کا یہ جوا ب دیں کہ امام احمد بن حنبل قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے اور مخلوق کہنے والے کی تکفیر کرتے تھے اس لیے ہم بھی قرآن کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور مخلوق کہنے والے کی تکفیر کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ آخر امام احمد بن حنبل نے توقف کیوں نہیں کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کلام کیوں کیا ؟
ایک آخری سوال شیخ ابو الحسن اشعری نے یہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے نذر ، وصیت اور عتق کے سلسلے میں اور علم فرائض میں مناسخہ کے سلسلے میں کلام نہیں کیا ہے اور نہ کوئی کتاب تصنیف کی ہے جیسا کہ امام مالک ، سفیان ثوری امام ابوحنیفہ نے ان موضوعات پر کتاب تصنیف کی ہے پس تمہارے اصول کے مطابق تو لازم آتا ہے کہ یہ حضرات بھی مبتدع اور گمراہ ہو ں کیوں کہ ان حضرات نے وہ کیا ہے جو حضور ﷺ نے نہیں کیا ہے ۔لیکن آپ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ عاقل کے لیے اشارہ کافی ہے ۔
شیخ ابو الحسن نے بڑے ہی دلچسپ اور منطقی انداز میں ان لوگوں کو جواب دیا جو علم کلام میں غور و خوض کو ناپسند کرتے تھے او رعلم کلام میں غور و خوض کی ضرورت پر مدلل گفتگو کی ہے ۔

E-mail: aaliqasmi1985@gmail.com
Mob: 07207326738

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×