اسلامیات

تراویح کی رکعات

رمضان المبارک کے مخصوص اعمال میں تراویح کی نماز ہے۔ آپ ﷺ رمضان کے روزے کے ساتھ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (مسلم شریف : حدیث نمبر:۱۷۳)، جو شخص رمضان ایمان و ثواب کی امید پر رات میں نمازیں پڑھتا ہے اس کے اگلے گنا ہ معاف ہوجاتے ہیں ، اس روایت میں آپ نے مطلق تراویح کی نماز کی فضیلت بیان کی اس کے بعد آپ نے اس کی سنیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ان رمضان شہر افترض اللہ عزوجل صیامہ و انی سننت للمسلمین قیامہ فمن صامہ و قامہ احتسابا خرج الذنوب کیوم ولدتہ امہ ( مسند احمد :حدیث نمبر : ۱۶۶۰)بے شک رمضان کے روزے کو اللہ تعالی نے فرض قرار دیا ہے اور میں مسلمانوں کے لیے رمضان کی راتوں کے قیام (تروایح) کو مسنون قرار دیتا ہوں پس جو مسلمان ایمان و اخلاص کے ساتھ روزہ رکھے اور عبادت سے کھڑا رہے وہ گناہوں سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آج اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو ۔
اس روایت میں آپ ﷺ نے تراویح کی نماز کو سنت قرار دیا ، تاہم ابھی تک رکعات کی کوئی صراحت نہیں ہوئی ہے ، آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرات صحابہ مرد و خواتین انفرادی اور اجتماعی طورپر اپنے گھروں میں اور مسجدوں میں تراویح کا اہتمام کرنے لگے ، بیہقی کی روایت کے مطابق اگر چہ رسول اللہ ﷺ نے نماز تراویح کی جماعت کا اعلان نہیں فرمایاتھا لیکن تراویح کی جماعت کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، پھر آپ ﷺ نے تروایح کی صورت اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اور لوگوں میں تراویح کا شوق و جذبہ بیدار کرنے کے لیے ایک رات آپ اچانک مسجد میں تشرسف لائے اور تراویح کی نماز پڑھائی، حضرات صحابہ کو علم نہیں تھا جو لوگ مسجد میں تھے وہ سب تراویح میں شامل ہوگئے ۔دوسرے دن آپ ﷺ پھر تشریف لے آئے آج کچھ زائد حضرات تھے آپ نے اان کو تراویح کی نماز پڑھائی، تیسرے دن مزید حضرات جمع ہوگئے آپ نے ان کو تراویح کی نماز پڑھائی اب پورے مدینہ میں اعلان ہوگیا کہ آپ رات میں تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے مسجد نبوی پوری طرح بھر گئی اور لوگ آپ ﷺ کے تراویح کے نکلنے اور نماز پڑھانے کا انتظار کرنے لگے آج آپ ﷺ تشریف نہیں لائے صبح کی نماز میں آپ نے فرمایا میںرات جان بوجھ کر نہیں آیا تھا مجھے ڈر ہوا کہ تمہارے شوق اور جذبہ کی وجہ سے کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔(صحیح البخاری حدیث نمبر : ۷۲۹)
تراویح کی اہمیت کو آپ نے کم نہیں کیا لیکن اس اندیشہ سے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے آپ نے باضابطہ نماز پڑھنا ترک کردیا لیکن حضرات صحابہ اس کی اہمیت سے واقف ہوگئے تھے وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر تراویح کی نماز پڑھتے تھے ، حضرت ابو بکر ؓ کے عہد میں بھی تراویح کا یہی نظم قائم رہا اس کے بعد حضرت عمر فارق کے عہد میں انہوں نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرض ہونے کے خوف سے جماعت کے نظم کو موقوف کیا تھا اب جب کہ فرضیت کا خوف ختم ہوگیا ہے کیوں نہ آپ کے منشاء کے مطابق لوگوں کو جماعت کے نظام پر جمع کردیا جائے؛ اس لیے آپ نے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت تمیم داری کا انتخاب فرمایا : اور باضابطہ بیس رکعت تروایح کا نظم قائم ہوگیا ، اس کے بعد حضرت عثمان کے عہد خلافت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح کے امام مقرر ہوئے پھر جب ان کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے تراویح کا امام کسی اور کو مقرر کرکے خود وتر کی امامت اپنے ذمہ باقی رکھی ۔(نماز تراویح کی اہمیت چند قابل اصلاح پہلو : ص : ۱۳)خلفاء راشدین کے اس تعامل کے بعد حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح کا تعامل اور تسلسل چلاآرہا ہے ، عرب کے اایک عالم ہیں عطیہ محمد سالم انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے التراویح اکثر من الف عام فی مسجد النبی ﷺ اس میں انہوں نے خلفاء راشدین کے عہد سے اپنے زمانہ تک کا تعامل تاریخی حوالوں سے ذکر کیا ہے کہ حرمین میں تراویح ہمیشہ بیس رکعت ہوتی رہی ہے ۔
حضرات ائمہ اربعہ کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ تراویح بیس رکعت سنت مؤکدہ ہے، صرف امام مالک کی ایک روایت یہ ہے کہ تراویح چھتیس رکعت سنت ہے ،بیس سے کم کسی کا قول نہیں ہے ، ابن قدامہ نے المغنی میں بیس رکعت تراویح پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے (المغنی ۱/۷۹۸)اس لیے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کو بیس رکعت پر تروایح پر جمع کیا تو کسی بھی صحابی نے انکار نہیں کیا جب کہ صحابہ دین میں مداہنت کے قائل نہیں تھے ، او رنہ ہی سست یا بزدل تھے کہ کسی امر کو خلاف شریعت محسوس کریں اور اس پر انکار نہ کریں ، اس عہد میں کوئی عورت بھی حضرت عمر کو ٹوک دیا کرتی تھی اس لیے صحابہ سے بالکل یہ امر بعید ہے ۔ بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ حضور ﷺ نے بیس رکعت تروایح پڑھائی تھی اس لیے حضرت عمر نے اس پر تمام صحابہ کو جمع کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ سنن بیہقی میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے جس میں بیس رکعت کا تذکرہ ہے عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر ( السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر : ۱۱۹۳۴)اس حدیث میں ایک راوی عثمان ابوشیبہ ہیں جو ضعیف ہیں اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے لیکن حضرات صحابہ کے عمل اور اجماع اور تواتر عملی سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے ۔امام ترمذی فرماتے ہیں: اکثر اہل العلم علی ما رو ی علی و عمر و غیرہما من اصحاب النبی عشرین رکعۃ ( سنن الترمذی ۱/۱۶۶)علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں : اعلم ان صلاۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء و ہی عشرون رکعۃ یسلم من کل رکعتین (الاذکار، باب اذکار صلاۃ التراویح ، ص :۲۹۹)امام شافعی کا قول ہے: ادرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ ، ایک جگہ لکھتے ہیں احب الی عشرون و کذلک یقومون بمکۃ (قیام اللیل ص: ۱۵۹)۔حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں حدیث نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے دو دن بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھائی پھر تیسرے دن آپفرضیت کے اندیشے سے تشریف نہیںلائے (التلخیص الحبیر :۲/۴۵) اس طرح دلائل بہت زیادہ ہیں جس میں تراویح کی نماز بیس رکعت ہونے کا اجماع نقل کیا گیا ہے ۔
بعض حضرات کو تراویح کے آٹھ رکعت ہونے پر اصرار ہے اور جب کہ بعض حضرات اختیار کے قائل ہیں کہ جتنا چاہیں پڑھ لیں اس میں گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ کا ایک قول نقل کیا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر چاہے تو بیس رکعت تراویح پڑھے ، جیسا کہ امام شافعی اور احمد کی رائے ہے اور چاہے توچھتیس رکعت تراویح پڑھے جیسا کہ امام مالک کی رائے ہے اور چاہے تو گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت پڑھے یہ سب درست ہے اور یہ رکعت کی کمی اور زیادتی قیام کی کمی زیادتی کی بناء پر ہے یعنی اگر قیام لمبا کرے تو گیارہ بھی پڑھ سکتا ہے ا وراگر قیام مختصر کرے تو بیس رکعت یا چھتیس رکعت پڑھے ،ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ آپ ﷺ بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے کہ آپ اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو ، پھر جب حضرت عمر نے صحابہ کو تراویح کی جماعت پر مجتمع کیا تو صحابہ میں اس درجہ قیام کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی اس لیے طول قیام کی تلافی کے لیے رکعت کا اضافہ کردیا گیااور دس کی جگہ بیس رکعت تراویح ہوگئی انہوں نے دونوں روایت میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہ توجیہ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں حقیقت کا احتمال ہوسکتا ہے یقین نہیں ہے پھر بھی موجودہ حالات میں جو لوگ ابن تیمیہ کے فلسفہ کو تسلیم کرتے ہیں ان کو بھی بیس رکعت کا ہی اہتمام کرنا چاہے؛ اس لیے کہ جب صحابہ میں آپ ﷺ کے طول قیام کو برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی تو آج کون لوگ ہیں جو حضور کی طرح تراویح کی نماز پڑھیں گے ؟ اس لیے ابن تیمیہ کی توجیہ کے مطابق بھی بیس رکعت تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے ۔علامہ ابن تیمیۃ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی قیام رمضان، ویوتر بثلاث فرأی کثیر من العلماء ان ذلک ہو السنۃ لأنہ اقامہ بین المہاجرین و الانصار و لم ینکرہ منکر و استحب آخرون تسعۃ و ثلاثین رکعۃ بناء علی انہ عمل المدینۃ القدیم -وابی بن کعب لما قام بہم وہم جماعۃ واحدۃ لم یمکن ان یطیل بہم القیام فکثر الرکعات لیکون عوضا عن طول القیام و جعلوا ذلک ضعف عدد رکعاتہ فانہ یقوم باللیل احدی عشرۃ أو ثلاث عشرۃ ثم بعد ذلک کأن الناس بالمدینۃ ضعفوا عن طول القیام فکثروا الرکعات حتی بلغت تسعا و ثلاثین( مجموع الفتاوی :۲۳/۱۱۳)
حیرت ہے جو لوگ ابن تیمیہ کو پڑھتے ہیں ، وہ وہاں سے سہولت تلاش کرنا چاہتے ہیں حقیقت نہیں ورنہ ایک ایسا مسئلہ جس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، حرمین کا چودہ سولہ تعامل ، روایت کا ایک تسلسل ہے جس کو تواتر عملی کہا جاتا ہے پھر ایک محتمل روایت سے استدلال کرنا کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے کیا ائمہ اربعہ کے سامنے وہ روایت نہیں تھی جو آج کے مجتہدین کے سامنے ہیں جس کو خوب زور وشور سے پیش کیا جاتا ہے ۔
ذرا ایک نظر اس روایت پر بھی ڈال لیں ، حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیا رہ رکعت پڑھا کرتے تھے تم اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور لمبی ہوتی تھی ۔(بخاری :حدیث نمبر :۱۱۴۷) اس روایت سے تراویح کے آٹھ رکعت پر استدلال کیا گیا ہے ۔ لیکن اس استدلال میں بڑی خامی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تہجد ا ور تراویح کی نماز کوخلط ملط کردیا گیا ہے اس روایت میں تہجد کا تذکرہ ہے ، ذرا سوچئے آپ رمضان اور غیر رمضان دونوں میں گیا رہ رکعت پڑھتے تھے اس کا صاف مطلب ہے کہ تہجد کی نماز ہے کیوں کہ غیر رمضان میں تروایح نہیں ہے ۔اور اس روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیںہے کہ اس گیا رہ رکعت کے علاوہ آپ رمضان میں مزید نمازیں نہیں پڑھتے تھے ، ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ نے آ پ کے تہجد کا معمول اور اس کی عمدگی بیان کی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء کی پیروی کرنا ، یہ صحیح سندسے ثابت ہے آپ بیس رکعت حضرت عمر کے زمانے میں طے ہوگیا تھاجس پر صحابہ نے بھی اتفاق کیا تھا ، کیا حضرات صحابہ اور خلفاء راشدین کا عمل حضور کے منشاء کے خلاف ہوسکتا ہے کس درجہ جرأت ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ بدعت عمر ی ہے جس کی پیروی کا آپ نے حکم دیا ان کے پیروی کرنا بدعت کس طرح ہوگیا ؟ تراویح کا مسئلہ بالکل واضح ہے ، اس میں کسی طرح کا کوئی خفا نہیں ہے ، اس کے باوجود ان روایتوں کولے کر جن کا وہ محل نہیں ہے امت کے ایک اتفاقی مسئلہ میں اختلاف پیدا کرنا کون سی دانش مندی ہے ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو حضرات تراویح کی آٹھ رکعت مانتے ہیں وہ بھی جماعت کے ساتھ پورے رمضان مکمل قرآن کے ساتھ تراویح کے قائل ہیں ذرا بتائے کہ تراویح کی یہ کیفت کہاں سے ثابت ہے ؟ظاہر ہے کہ مرفوع روایت سے یہ کیفیت ثابت نہیں ہے بلکہ حضرت عمر کے اسی عمل سے یہ کیفیت ثابت ہے پھر کیفیت تو حضرت عمر کی لی جائے اور کمیت میں کہا جائے کہ نہیں ہم حدیث دیکھیں گے اور حدیث پر عمل کریں گے یہ کون سا عقلی فلسفہ ہے ؟
اس وقت جب کہ حالا ت کی وجہ سے حرمین میں دس رکعت تراویح ہورہی ہے ، لوگوں میں مزید بے چینی پیدا ہوئی ہے ، ظاہر ہے ہم قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں علماء حرمین کی نہیں پہلے بھی بہت سے مسائل میں علماء عرب سے اختلاف رہا ہے اس لیے کہ اہل علم اس چیز کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ، لیکن حرمین میں بیس رکعت تراویح کا ایک تسلسل تھا جسے ایک عذر کی بناء پر ختم کیا گیا ہے حالاں کہ جب عام لوگوں کو تراویح کی شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے پھر بیس کو دس کرنے کا فلسفہ عقل سے پرے ہے یہ بھی کیا جاسکتا تھاکہ قرأت مختصر کردی جاتی تاکہ حرمین کا ایک تسلسل برقرار رہتا پھر اگر یہ اسی سال ہوتا اور آئندہ بیس رکعت تراویح کا ہی اہتمام ہوتا ہے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ حدیث میں موجود بعض روایت سے موجودہ حالات میں گنجائش نکالی گئی ہے لیکن اگر آئندہ بھی دس رکعت کو ہی رواج دیا جاتا ہے تو یقینا یہ مسلکی سازش کا حصہ قرار دیا جائے گا اور علماء حرمین اگر اپنے آپ کو حنبلی تسلیم کرتے ہیں تو اپنے امام کے بیس والے قول کو ضرور اختیار کریں گے اور کم از کم حرمین کے چودہ سو سالہ تسلسل اور تواتر عملی کو ختم نہیں کریں گے ۔
اس گفتگو کو میں حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کی بات پر ختم کرتا ہوں حضرت نے فرمایا اگر کوئی آدمی بیس روپیہ لے کر پٹرول پمپ پر جاتا ہے اور پٹرول آٹھ روپیہ میں مل جاتا ہے تو کیا اس کا بارہ روپیہ بے کار ہوجائے گا اوراگر آٹھ روپیہ لے کر گیا اور پٹرول ملتا ہے بیس روپیہ میں تو کیا آٹھ روپیہ کام آئے گا ؟ اسی طرح اگر کوئی آخرت میں بیس رکعت تراویح لے کر گیا اور آٹھ سے کام چل گیا تو یہ بارہ اس کے دوسرے کام میں آجائیں گے ضائع نہیں ہو گالیکن اگر کوئی آٹھ لے کر جائے اور وہاں بیس کا مطالبہ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ یہ آٹھ اس کے کام نہیں آئیں گے ۔رمضان عبادت کا مہینہ ہے اور رمضان میں قیام اللیل کی بڑی فضیلت آئی ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام ہونا چاہے بیس رکعت تراویح سے کسی ائمہ مجہتد یا معتبر عالم نے منع نہیں کیا ہے اور تاریخ میں کوئی ایسی روایت بھی نہیں ہے بلکہ اگر تاریخی جائز لیا جائے تو سو سال سے پہلے کہیں آٹھ رکعت تراویح کا رواج بھی نہیں تھا اس لیے بیس کا انکار کرکے آٹھ پر اصرار کرنا حکم شرعی نہیں ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×