اسلامیات

دین كی پاسداری ہماری بقا كی ضامن

اس دنیائے فانی كو كسی كَل قرار نہیں‏، یہاں ہر آن تغیر ہے، ہر لمحہ تبدیلی ہے، راحتیں كلفتوں میں تبدیل ہوتی ہیں‏،‏ اور آزمائشیں كامرانیوں كی نوید بنتی ہیں، شركے ہولناک اندھیروں كی جڑ سے خیر كے اجالے پھوٹتے ہیں‏، اور خیر كی بڑھتی روشنی پرشر كی سیاہی حاوی ہوجاتی ہے‏، كبھی عیش كی راحت بھری چھاوں ہے ‏، توكبھی غم كی تپتی ہوئی دھوپ، اور انسانی زندگی ہے جو انہیں حالات كے درمیان جھول رہی ہے،‏ راحتیں پیش آتی ہیں تو انسان اكڑتا اور اتراتا ہے‏‏، اور اسے اپنا حق قرار دیتا ہے، اور پریشانیاں گھیرتی ہیں توگھبراتا اور منتیں كرتا ہے اور بہت جلد مایوس ہونے لگتاہے :
‘‘لايَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُوسٌ قَنُوطٌـ‏، وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي… ‏،وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاء عَرِيضٍ’’ (فصلت: 49 و51)
‘‘ انسان كا حال یہ ہے كہ وہ بھلائی مانگنے سے نہیں تھكتا‏، اور اگر اسے كوئی برائی چھو جائے تو ایسا مایوس ہوجاتا ہے كہ ہر امید چھوڑ بیٹھتا ہے‏، اور جو تكلیف اسے پہنچی تھی اگر اس كے بعد ہم اسے اپنی طرف سے كسی رحمت كا مزہ چكھا دیں تو وہ لازماً یہ كہے گا كہ یہ میرا حق ہے…’’ دوسری آیت میں فرمایا: ‘‘ اورجب ہم انسان پر كوئی انعام كرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو بدل كر دورچلا جاتا ہے‏، اور جب اسے كوئی برائی چھو جاتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں كرنے لگتا ہے۔’’

فرد كی زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ ہے‏، اور قوموں كی زندگی میں بھی نشیب و فراز ہے‏، كبھی قومیں بڑھتی اور چڑھتی ہیں‏، اور كبھی ركتی اور سمٹتی ہیں‏، كبھی فتح كا پرچم لہراتی ہیں اور كبھی شكست وریخت سے دوچار ہوتی ہیں‏، اللہ كویہی منظور ہے، یہی ہوتا رہا ہےاور ہوتا رہے گا‏، غروہٴاحد میں صحابہ كی شكست كا ذكر كرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنی اسی سنت كو بیان كیا ہے:
‘‘اِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ’’ ( آل عمران:140)
‘‘اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو( تمہارے دشمن) لوگوں كو بھی زخم پہلے لگ چكا ہے ‏، یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں كے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں‏، اور( تمہاری شكست سے)یہ مقصد تھا كہ اللہ ایمان والوں كو جانچ لے‏، اور تم سے كچھ لوگوں كو شہید قراردے، اور اللہ ظالموں كوپسند نہیں كرتا۔’’

قوموں كو جب عروج نصیب ہوتاہے توان كے لیے اپنے دین‏ دھرم ‏، تہذیب ‏وكلچر‏، زبان وادب‏،علمی ورثے، تاریخی آثار اور قومی وملی تشخص كی حفاظت كوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ اگر اس پہلو پر توجہ دیتی ہیں تو ان چیزوں كی حفاظت كے ساتھ اس كو بآسانی فروغ بھی دیتی ہیں؛ بلكہ طاقت كے زور پر دوسری كمزور قوموں پر اپنی چیزوں كو تھوپنے پر بھی كامیاب ہوجاتی ہیں‏، انبیاء كے مخالفین نے ہمیشہ اپنے مذہب اور قومی عادات كو انبیاء كرام اور ان كے ماننے والوں پر تھوپنے كی سر توڑ كوششیں كی ہیں، كئی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے ‏، ایک جگہ ارشاد ہے:
‘‘وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّـكُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ’’ (ابراھیم:13)
‏‘‘اور جن لوگوں نے كفراپنا ركھا تھاانہوں نے اپنے پیغمبروں سے كہاكہ: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نكال كررہیں گے یا(بصورت دیگر) تمہیں ہمارے دھرم میں واپس آنا پڑے گا ‏، چنانچہ ان كے پروردگار نے ان پروحی بھیجی كہ: یقین ركھوہم ان ظالموں كوہلاك كردیں گے۔’’

لیكن جب قومیں سیاسی اعتبار سے مغلوب، یاتعداد و وسائل كے اعتبار سے كمزور اور محكومیت كی زنجیر كی وجہ سے بے بس ہوتی ہیں‏، جنہیں قرآن ‘‘مُسْتَضْعَفُونَ فِی الاَرْضِ’’ كے الفاظ سے بیان كرتاہے‏، تو پھر ایسی قوموں كے لیے مخالف ماحول میں اپنے وجود اور تشخص كو باقی ركھنا بڑا چیلنج ہوتا ہے‏، جن قوموں كے پاس اپنا كوئی مذہب ‏اور كوئی فلسفہٴحیات نہیں ہوتا‏، یا مخالف حالات سے نبرد آزما ہونے كا كوئی تجربہ نہیں ہوتا‏، تو ایسی قومیں بہت جلد ہاتھ پاؤں ڈھیلے كركے حالات سے صلح كرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں‏، اور حكمراں قوم كے رنگ میں ڈھل كر جلد ہی اپنے وجود وتشخص كو كھودیتی ہیں۔

مگر جن قوموں كے پاس اپنا كوئی مذہب، تہذیب ‏اور فلسفہٴحیات‏ ہوتا ہے‏، جن كی تاریخ میں مخالف حالات سے نبرد آزما ہونے كے كامیاب تجربوں كے نمونے ہوتے ہیں‏، جن كے دین میں مشکل چیلنجز سے نمٹنے كے لیے رہنمایاں ہوتی ہیں‏، ایسی قومیں اپنی محكومیت ومغلوبیت كے زمانے میں طرح طرح كے نقصانات سے دوچار تو ضرور ہوتی ہے، چنانچہ ان كے بہت سے لوگ آزمائش كے بعض كٹھن موڑ پر ہمت ہار كر ساتھ چھوڑ بھی دیتے ہیں ‏، بہت سے حصے ٹوٹ كر الگ بھی ہوجاتے ہیں ‏؛ مگر وہ بحیثیت قوم اپنے وجود اور تشخص كی حفاظت میں بالآخر كامیاب ہو ہی جاتی ہیں ۔

یہود اپنی تاریخ كے طویل دور میں زبردست آزمائشوں اور سخت ترین غلامی كے دور سے گذرے ہیں‏، ان كی دوبڑی تباہیوں كا ذكر خود قرآن میں اسراء كی آیت4تا 8 میں ہوا ہے، جن میں ایک تباہی ولادت مسیح سے پہلے اور دوسری ولادت مسیح كے بعد كی بتائی جاتی ہے، نزول قرآن كے بعد بھی یہودیوں كو مسلسل شكست وریخت اور نسل كشی كا سامنا كرنا پڑا ہے‏، ہٹلر كی نازی افواج كے ہاتھوں یہودیوں کی نسل كشی یہودیوں كی آزمائشی زنجیر كی ایک كڑی ہے؛ لیكن ان سب كے باوجود یہودی باقی رہے، اور مذہب سے ان كی وابستگی ہی اس بقا كا بنیادی سبب رہی۔ عیسائیت دنیا كے مختلف ملكوں میں اقلیت میں رہی، اور محكومیت ومغلوبیت سے دوچار رہی؛ لیكن مذہبی رسومات سے وابستگی كی وجہ سے وہ ان ملكوں میں اپنے وجود كوبچانے میں كامیاب رہی۔

مسلمان بھی دنیا كے مختلف ملكوں میں محكومیت اورغلامی كے سخت ترین دور سے گذرے، تاتاریوں كے ہاتھوں دارالخلافہ بغداد كی وسیع آبادی كوتہِ تیغ كیا گیا، شہر نذر آتش کردیا گیا، كتب خانے جلادئے گئے ۔اسپین میں مسلمانوں كا مكمل صفایا كركے جارحیت كی بدترین مثال قائم كی گئی‏۔ مصطفی كمال اتاترک كے تركی ‏اور سویت یونین كے زیراقتدار وسط ایشا كی مسلم ریاستوں میں اسلام كو مٹانے كی كیا كچھ كوششیں نہیں ہوئیں‏، اسلام‏، قرآن‏،دینی علوم اورحد یہ ہے كہ عربی زبان تک سے مسلمانوں كا رشتہ كاٹ دیا گیا‏، مسجدیں میوزیم میں تبدیل كردی گئیں‏،اسلامی سرگرمیاں یک لخت موقوف ہوگئیں‏، اور مدتوں فضا میں سناٹا چھایا رہا، مگر ان سب كے باوجود مسلمانوں میں مسلمان ہونے كا شعور باقی رہا‏، گرچہ یہ شعور بعض مرحلوں میں اتنا كمزور اور مدھم ہوگیا، كہ محسوس بھی نہیں كیاجاسكتا تھا، مگر اسلام سے وابستگی اور مسلمان ہونے كا یہی احساس انہیں دوبارہ اسلام كی طرف لانے میں معاون بنا‏، چنانچہ جیسے ہی جارحیت اور ظلم كے بادل چھنٹے، راكھ میں دبی ہوئی چنگاری شعلے میں تبدیل ہونے لگی، اور ہرجگہ اسلام اور اسلامیت كے مناظر نظر آنے لگے، نئی نسلوں نے دین كی متاعِ گم شدہ كو ڈھونڈ ڈھونڈ كرحاصل كرنا شروع كیا ‏، اور ایک اسلامی لہر وجود میں آگئی۔ اسپین جہاں مسلمانوں كاصفایا ہی كردیا گیا تھا‏، وہاں سے بھی اسلام كوہمیشہ كے لیے نكالا نہ جاسكا‏، چنانچہ جب آمد ورفت كے تیز رفتار وسائل پیدا ہوئے ‏، سفری آسانیاں وجود میں آئیں‏، اور بین الاقوامی تجارت كو فروغ ہوا، تو معاش كی تلاش میں مسلمان ایک بار پھر اس خطے میں داخل ہوئے، چنانچہ آج اسپین میں مسلمانوں كی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، ان كے دینی مدارس ہیں‏، مساجد كی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے۔

ہندستان میں اسلام مسلم تاجروں اور زیادہ تر صوفیاء كرام اور اولیاء اللہ كے ذریعے پھیلا‏، گرچہ یہاں مسلمانوں كی تعداد كافی ہوگئی‏، اورصدیوں ان كی حكمرانی قائم رہی ‏، مگر رہے وہ ہمیشہ اقلیت میں، اور اس دور حكمرانی میں بعض مرتبہ ان كے سامنے اپنے وجود وبقا كا مسئلہ ایک مہیب چیلنج كی شكل میں سامنے آیا، عہد اكبری میں”دین الہی” كے نام سے ایک سركاری دین جاری كیا گیا، جو ہندومت اورعیسائیت كا آمیزہ تھا‏، اس نو ایجاد مذہب كو سركاری مشینری كے بل بوتے ملک كے عوام پر عمومًا اور مسلمانوں پر خصوصًا نافذ كرنے كی كوشش كی گئی، دربار اور درباریوں میں یہ نیا دین ضرور نافذ كرلیا گیا ‏، مگر عوام نے عمومًا اس مذہب كو مسترد كردیا، صوفیاء كرام نے ان كے دلوں میں ایمان كے جو دیب جلائے تھے ‏وہی ان كے دین كی حفاظت كا سبب بنے۔

جب مسلمانوں كا اقتدار جاتارہا تو ایک بار پھر اس ملک میں مسلمانوں كی بقا كا مسئلہ ایک ہولناک شكل میں سامنے آيا‏، اب یہاں اسلام اور مسلمانوں كے بقا كی اس كے سوا كوئی صورت نہیں رہی كہ مسلمانوں كو زیادہ سے زیادہ اسلام سے جوڑنے كی كوشش كی جائے۔ اور ان میں اسلامیت كے شعور كو زندہ اور تیز كیا جائے، مختلف بہی خواہان اسلام نے اس مقصد كے لیے مختلف كوشش كیں‏، جن میں دو بہت بنیادی كوششیں مدارس اسلامیہ اورتبلیغی جماعت ہیں‏، الحمد اللہ ان كے ذریعہ نہ صرف اس ملک میں اسلام اورمسلمان باقی رہے، بلكہ دینی شعور اوراسلامی احكام كی بجا آوری میں یہاں كے مسلمان دنیا كے بیشتر مسلم ممالک كے مسلم باشندوں سے بھی فائق نظر آتے ہیں‏، اس كے علاوہ ان دونوں ذرائع سے اسلام اور علوم اسلامیہ كی عالمی سطح پر جو بے نظیر خدمات انجام دی گئیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔

مذہب كا قوموں كے وجود وبقا اور ان كے تشخص كی حفاظت میں بہت ہی بنیادی كردار ہے‏، اللہ كا شكر ہے كہ ہمارے پاس ایک ایسا دین ہے جو دین فطرت ہے، سدا زندہ اور پائندہ ہے، اس كی تعلیمات اتنی سچی اتنی اچھی اور اتنی واضح اور روشن ہیں كہ اس کی رات بھی اس كے دن ہی كی طرح اجالی ہے‏، مخالف حالات میں فكر و تشویش تو فطری ہے، مگركوئی وجہ نہیں كہ ایسے عظیم وشاندار دین كا حامل حالات اور موج حوادث سے گھبرا كر مایوس ہونے لگے‏، یہ دین ہی ہماری زندگی كا ضامن ہے بس شرط یہ ہے كہ ہم اس كی حفاظت كے ضامن بنیں‏، وہ ہمارا بہترین پاسبان اورمحافظ ہے شرط ہے كہ ہم اس كی پاسبانی اور حفاظت كی ذمہ داری كا حق ادا كریں‏، اس كی تعلیمات كو عام كریں‏، اس كے احكام اپنی زندگی میں لائیں‏، یہ دین اور دینی شعور جب تک امت میں قائم رہیں گے امت بھی قائم رہے‏ گی، ارشاد باری ہے:
‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ’’( محمد:7)
‘‘ اے ایمان والو! اگر تم اللہ كی مدد كروگے تواللہ تمہاری مدد كرے گا اورتمہارے قدم جمادے گا(اللہ كی مدد سے مراد اس كے دین كی مدد كرنا ہے ‏، ایمان والے جب اللہ كے دین كے حامی ومددگار ہوں گے اللہ بھی ان كا ناصر ومدد گار ہوگا‏، اوردشمنوں كے مقابلے میں ان كے قدم جمادے گا اور اپنی طاعت پر پختگی اور ثابت قدمی كی توفیق عطا فرمائے گا : روح المعانی )

دین پر ثابت قدمی اور استقامت كی اہمیت یوں تو ہرحال میں ہے؛ مگر جب امت مغلوبیت اور محكومیت كے دور سے گذر رہی رہو‏، اور اس كو اس كے دین و تہذیب سے ہٹانے کی سرتوڑ كوششیں خفیہ اور علانیہ جاری ہوں‏، تو ایسے مخالف اور ہمت شكن حالات میں استقامت اور دین پر مضبوطی سے جمنے كی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے‏، دین پر استقامت كے بغیر چیلنجز كے دور كو كامیابی سے عبور نہیں جاسكتا‏۔ مكہ مكرمہ میں جب اسلام سخت آزمائشی دور سے گذر رہا تھا‏، اور اہل اسلام كو اسلام سے برگشتہ كرنے كے لیے ظلم وبربریت كے ہرحربے آزمائے جارہے تھے‏، اس وقت ہدایت كے ان عظیم علمبرداروں كو جن كی تعداد ابھی مٹھی بھر بھی نہیں تھی مختلف انداز میں بار بار دین پر ثابت قدمی كے درس دئے جاتے تھے ۔ایک موقع پر اللہ تعالی نے ایمان والوں سے كہا كہ اللہ نے تمہیں وہی دین دیا ہے جو نوح كو پھر ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام كو دیا گیا تھا اور ان انبیاء کو اس کے قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس تمہید كے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو مخاطب كركے فرمایا :
‘‘فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ’’(الشوری:15)
‘‘لہذا (اے پیغمبر یہ دین جس كی ان انبیاء نے دعوت دی ) تم بھی اسی كی طرف لوگوں كو دعوت دیتے رہو‏، اورجس طرح تمہیں حكم دیا گیا ہے ( اس دین پر) جمے رہو‏، اور ان (مشرک) لوگوں كی خواہشات كے پیچھے نہ چلو‏، اور كہہ دو كہ میں تو اس كتاب پر ایمان لایا ہوں جواللہ نے اتاری ہے ’’۔
خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو ہے، مگر سنانا در حقیقت ایمان والوں كو ہے‏، حكم میں زور پیدا كرنے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو خطاب كیا گیا ہے، اور مزید زور پیدا كرنے كے لیے تمہید میں ان انبیاء كا ذكر كیا گیا ہے جو مخالفت، دشمنی اور سازشوں كے بیچ دین كی دعوت دینے اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنے میں انبیاء كی صف میں بھی نمایاں مقام ركھتے ہیں‏، اس انداز بیان سے ایمان والوں كو مخالف ماحول میں دین پر جمنے كی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے، اور ہمت وحوصلہ بھی ملتا ہے ۔

ایک اور جگہ مكی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان كو دین پر جمنے اور ظلم پیشہ مشركین كے طریقوں سے پرہیز كرنے كا حكم پوری قوت سے دیا گیا، ارشادہے:
‘‘فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ’وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ ’’(هود:113و112)
‘‘لہذا( اے پیغمبر) جس طرح تمہیں حكم دیا گیا ہے اس كے مطابق تم بھی سیدھے راستے پر ثابت قدم رہو‏، اور وہ لوگ بھی جو توبہ كركے تمہارے ساتھ ہیں‏، اور حد سے آگے نہ نكلو‏، یقین ركھو كہ جو عمل بھی تم كرتے ہو وہ اسے پوری طرح دیكھتا ہے۔اور( اے مسلمانو!) ان ظالم لوگوں كی طرف ذرا بھی نہ جھكنا كبھی دوزخ كی آگ تمہیں بھی آپكڑے، اور تمہیں اللہ كو چھوڑ كر كسی قسم كے دوست میسر نہ آئیں‏، پھرتمہاری كوئی مدد بھی نہ كرے۔’’

مكی دورمیں ہی توحید اوراس كے تقاضوں پر مضبوطی سے قائم رہنے پر ایمان والوں كو زبردست بشارتیں سنائی گئیں‏، اور بڑے بڑے وعدے كئے گیے، چنانچہ فرمایا گیا:
‘‘إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ‏، نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ‏، نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ’’( فصلت: 30تا 32)
‘‘جن لوگوں نے كہا كہ : ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے توان پر بیشک فرشتے یہ كہتے ہوئے اتریں گے، كہ: نہ كوئی خوف دل میں لاؤ‏، نہ كسی بات كا غم كرو‏، اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس كا تم سے وعدہ كیا جاتا تھا‏،ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے‏، اور آخرت میں بھی رہیں گے‏، اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس كو تمہارا دل چاہتا ہے ‏، اوراس میں ہروہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس كو تم منگوانا چاہو‏، یہ سب كچھ اس ذات كی طرف سے پہلی پہلی میزبانی ہے ‏، جس كی بخشش بھی بہت ہے ‏، اوررحمت بھی كامل ہے۔’’
جامع ترمذی میں جناب نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا یہ ارشاد پاک حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :‘‘ يَأتي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمَرِ’’( جامع الترمذي:2260 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں اپنے دین پر مضبوطی سے جمنے والا ایسا ہوگا جیسے انگارے كو ہاتھ سے پكڑنے والا‏۔،‏،

معروف سلفی عالم علامہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ اس حدیث كی تشریح كرتے ہوئے كہتے ہیں، خلاصہ حسب ذیل ہے:
‘‘اس حدیث میں آگاہی بھی ہے اور رہنمائی بھی ‏: آگاہی تو یہ ہے كہ آخر زمان میں شر اور فنتے كے اسباب بہت بڑھ جائیں گے‏، اوردین كو مضبوطی سے تھامنے والے بہت تھوڑے رہ جائیں گے‏، اور اس تھوڑی سی تعداد كو بھی دشمنوں اور ظالموں كے جبر وتشدد، نیز ‏ شكوک وشبہات اورشہوتوں كے فتنوں كی بہتات كی وجہ سے دین پر چلنے میں سخت حالات اور مشكلات كا سامنا ہوگا‏۔ اور رہی رہنمائی تو اس حدیث میں امت كو پیغام دیا گیا ہے كہ اس قسم كے سخت حالات پیش آكر ہی رہیں گے‏، لہذا امت کو اس كے لیے ذہن بنائے رکھناچاہیے، اور دین كی پیروی كی راہ میں جو بھی پریشانیاں آئیں ہمت اور استقامت كے ساتھ اس كو برداشت كرنے كے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جن لوگوں كو یہ حالات پیش آئیں وہ اگر مضبوطی اور پامردی سے دین پر ڈٹے رہیں گے، تو ان كا مقام ومرتبہ اللہ كے نزدیک نہایت بلند ہوگا۔’’( بہجۃ قلوب الابرار‏،حدیث :99)

آج امت سخت حالات ومسائل سے دوچار ہے، ہر روز فتنوں اور آزمائشوں كی نئی یلغارہے، لوگ سہم کر سنبھل نہیں پاتے كہ كوئی نیا سانحہ یا المیہ دستک دے رہا ہوتا ہے، جو خوف و دہشت اور مایوسی وناامیدی كی كیفیت میں مزید اضافہ كرجاتا ہے‏، یہ سب كچھ اس لیے ہے كہ مسلمان ایسے حالات كے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے ‏، اس كی توقعات كچھ اور ہیں اور حالات اس كے بالكل برعكس اسے كچھ اور دكھاتے ہیں‏، حالاں كہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں پیش آنا ہی ہے ‏، اللہ كے رسول نے خبر دی ہے ‏، آپ كی خبر غلط نہیں ہوسكتی، لہذا ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی ‏، ہمیں یہ تسلیم كركے زندگی جینی ہوگی كہ ناگواریاں اور ناخوشگواریاں پیش آنی ہی ہیں‏‏، اور یہ طے كرنا ہوگا كہ زمانہ ہمارے سامنے كیسے ہی حالات لائے، موج حوادث ہماری راہوں میں كیسا ہی طوفان برپا كرے ہمیں تو اللہ كے دین كو سینے سے لگائے ركھنا ہے، اور ہرحال میں اس پر ثابت قدم رہنا ہے۔

سوچ وفكر كے بدلنے سے ہمارے عزائم بدلیں گے‏، ہمارے اندر صبر استقامت اور قربانی كے جذبات پیدا ہوں گے‏، بزدلی اور پس ہمتی‏، بہادری اورالولعزمی میں تبدیل ہوگی، اورہماری راہ ہزار ركاوٹوں كے باوجود بھی آسان ہوتی چلی جائے گی، اور اسی ایمانی عزم وہمت كے ذریعے ان شاء اللہ ہم آزمائشی دور كو سر كرنے میں كامیاب ہوں گے‏، ہمارا دین بھی سلامت رہے گا اورہم بھی بحیثیت ایک امت باقی رہیں گے‏۔

دل كے عزم وارادہ كے ساتھ اللہ سے دین پر استقامت اورثابت قدمی كی دعا بھی كرنی ہے‏، انسان ضعیف البنیان ہے، اس كے عزم و ارادے بھی كمزور ہیں‏، پھر سب كچھ كرنے دھرنے اور كامیابی سے ہم كنار كرنے والی ذات اللہ ہی كی ہے‏، اس كی توفیق وتائید كے بغیر ہماری ہركوشش وسعی لاحاصل ہے‏، لہذا دعا کا اہتمام بے حد ضروری ہے، قرآن پاک میں اللہ نے اپنے الوالعزم بندوں كی دعائیں نقل كركے ہمیں دعا كی تعلیم دی ہے ارشاد ہے:
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُو اللّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ، وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ’’( بقرة:250)
‘‘جن لوگوں كا ایمان تھا كہ وہ اللہ سے جاملنے والے ہیں‏، انہوں نے كہا كہ: نہ جانے كتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ كے حكم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں‏، اوراللہ ان لوگوں كا ساتھی ہے جو صبر سے كام لیتے ہیں‏، اورجب یہ( ایمان والے تھوڑے سے ) لوگ (دشمن كے نامور زورآور سپہ سالار) جالوت اوراس كے لشكروں كے آمنے سامنے ہوئے تو انہوں كے كہا:اے پرور دگار! صبرو استقلال كی صفت ہم پرانڈیل دے‏، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اور ہمیں اس كافر قوم كے مقابلے میں فتح ونصرت عطافردے ۔’’
یہ چند آیتیں پیش كی گئی ہیں‏، قرآن پاک میں ایسی آیتوں كی تعداد خاصی ہے جس میں مسلمانوں كو مشكل اورمخالف حالات میں دین كے دامن كو مضبوطی سے تھامنے كی تاكید مختلف انداز میں آئی ہے ‏‏۔

گذشتہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی كہ بحیثیت امت اپنی بقا كے لیے اپنے دین اور دینداری كی حفاظت انتہائی اہم ہے‏، لہذا ہر ملی شعور اور دینی درد ركھنے والے كا فریضہ ہےكہ وہ اپنی صلاحیت وحیثیت كے اعتبار سے اپنے دائرہ اثر میں دین ودینداری كوعام كرنے كی ہر ممکن كوشش كرے‏، اس فریضہ كو انجام دینے كے لیے پرانے وسائل كو بھی متحرک وفعال بنانا ہوگا‏، اور زمانہ نے ہمیں جو جدید وسائل دئے ہیں ان كو بھی مثبت انداز میں بروئے كار لانا ہوگا‏، جس كا جو میدان ہے وہ اس میں كام كرے ‏۔

ہماری بڑی كمزوری یہ ہے كہ ہم نے سارے دینی و ملی كاموں كی ذمہ داری چند تنظیموں، اداروں‏، تحریكوں اورچند شخصیات كوسونپ ركھی ہے، اورساری توقعات انہیں سےقائم كركے خود ایک طرف بیٹھ گئے ہیں‏، ہرچھوٹے بڑے كام كے لیے ہم انہیں كی طرف دیكھتے‏ ہیں، مشورے دیتے ہیں‏، توقعات پوری نہ ہونے پر لعن طعن كرتے ہیں‏، اورخود كسی سطح پر اپنی كوئی ذمہ داری محسوس نہیں كرتے، بلاشبہ تنظیموں اور با اثر اداروں اور شخصیات کی ذمہ داریاں عام لوگوں سے بہت زیادہ ہیں، مگر كام بہت ہے، تنہا تنظیموں اور بااثر ادارے انجام نہیں دے سکتے، ان كے وسائل بھی محدود ہیں‏، ضروری ہے كہ ہم میں ہرشخص اپنی ذمہ داری محسوس كركے اپنا كردار ادا كرے‏، عام مسلمانوں میں دین، دینداری اوردینی شعوری پیدا كرنے كے لیے مسجد ایک بہت اہم پلیٹ فارم ہے‏، تیاری كے ساتھ جمعہ میں تقریریں كی جائیں‏، حالات اور ضرورت كے اعتبار سے صحیح دینی رہنمائی لوگوں كو پیش كی جائے‏، درس قرآن اور درس حدیث كے حلقے قائم كیے جائیں‏، رمضان میں مسائل كا حلقہ قائم كیاجائے، گاؤں اور محلہ كے جو بچے عصری اداروں میں تعلیم حاصل كررہے ہیں‏ چھٹیوں میں ان كے لیے خصوصی اسلامک كورس كا اہتمام کیا جائے، اس طرح کے اور بھی كام ہیں جو بہت سے اہل علم اور ملی درد رکھنے والے لوگ باہمی تعاون سے انجام دے سکتے ہیں۔

ہماری ایک بہت بڑی مصیبت یہ بھی ہے كہ ہم میں سے ہر كوئی ملكی پیمانے پر كوئی انقلاب لانا چاہتا ہے‏، حالاں كہ ایسا اس كے بس میں نہیں‏، اور اپنے محلہ اور بستی میں تعلیم و تربیت و اصلاح کام کر سکتاہے، مگر اس طرف توجہ نہیں‏، ہمیں حقیقت پسند بننا ہوگا‏، اوراپنے اس غلط رویے كوسدھار نا ہوگا۔

ہم عاجز وناتواں بندے اللہ سے عافیت اور سلامتی كی دعا كرتے ہیں‏، ہرحال میں دین پر استقامت اور اسلام پر جینے مرنے كی توفیق كے طالب ہیں ‏، اللہ پوری امت كےحال پر رحم فرمائے، اور اپنی مرضیات پر چلنا آسان كرے۔ آمین!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×