اسلامیات

اسلامی تاریخ کی شرعی حیثیت

محرّم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے؛ جیسا کہ عیسوی سال کا پہلا مہینہ جنوری ہے۔
اسلامی تاریخ کا جاننا فرض کفایہ ہے
چوں کہ احکامِ شریعت کا مدار حسابِ قمری پر ہے، اس لیے اس کی حفاظت فرض علی الکفایہ ہے۔پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے، جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے، تو سب گنہگار ہوں گے، اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے، لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حسابِ قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے افضل واحسن ہے۔(بیان القرآن ۔۱/ ۵۸)
ہم اسلامی تاریخ کے ابتدائی احوال سے واقف تو ہوتے ہیں لیکن استعمال صرف شمسی تاریخ کا کرتے ہیں حتٰی کہ پورا سال گذرجاتا ہے لیکن سوائے دو تین دفعہ کے ہمیں اسلامی تاریخ یاد  ہی نہیں آتی ہمارے سارے معاملات عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہوتے ہیں اسلامی سال ختم بھی ہوجاتا ہے دوسرے سال میں ہم داخل بھی ہوجاتے ہیں  ہمیں خبر تک نہیں ہوتی  اسکے بر عکس عیسوی سال شروع بھی نہیں ہوتا کئی دنوں سے اسکا انتظار  ہوتا ہے ایک دوسرے کو مبارکبادیوں کا سلسلہ زوروں پر ہوتا ہے   درد اور دکھڑا تو اپنوں سے ہے غیروں سے کیا گلہ ہم نے غیروں کی تاریخ میں اس قدر دلچسپی لی کہ اسی کے عادی ہوکر رہ گئے حالانکہ اسلامی تاریخ سے واقفیت ضروری ہے اور شرعاً اُسکی بڑی اہمیت ہے۔
 يسألونك عن الأهله قل هي مواقيت للناس والحج (البقره)
 اس آیت کے شانِ نزول  میں صاحبِ روح المعانی نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے نبی کریم صلی علیہ وسلم سے ہلال (یعنی مہینے کے ابتدائی چاند) کے بڑنے اور گھٹنے کے متعلق پوچھا تو اللہ نے آیت نازل فرمائی کہ نبی جی آپ فرمائیے کہ چاند دراصل لوگوں کے معاملات اور عبادات کے اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے( روح المعانی  ۷۱/۲)۔
اسلئے علماء نے لکھا ہے کہ عبادات میں قمری حساب کا اعتبار کرنا ضروری ہے
مفتی شفیع صاحب علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ عبادات کے معاملے میں قمری تاریخ کو اختیار کر نا فرض ہے؛ جبکہ دیگر معملات میں اُسکو پسند کیا گیا ہے مزید یہ کہ یہ ایک طرح کا اسلامی شعار بھی ہے (معارفِ القران ٤٦٧/١)
 لیکن یہ لکھتے ہوئے بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کام و کاج میں جس طرح عیسوی تاریخ عام ہورہی ہے اور اسلامی تاریخ سے عدم دلچسپی بڑھ رہی ہے حالت یہ ہوگئی ہے کہ اکثر حضرات اسلامی مہینوں کے ( رمضان کے علاوہ) نام تک نہیں جانتے یہ شرعی حیثیت کے علاوہ غیرت قومی کا بھی دیوالیہ ہے۔
خلاصہ کلام : ہمیں اپنی تاریخ کا لحاظ کرنا اور اور اُسکا اہتمام کرنا چاہئے اور اپنے سارے معاملات کو قمری تاریخ کے تابع کرنا چاہئے؛ یہ ہمارا شعری فریضہ بھی ہے اور غیرت ملّی کا تقاضا بھی ہے  ( نفائس الفقہ ۳ /۳۵۰ )
علامہ تھانوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ شمسی تاریخ کا استعمال مباح تو ہے لیکن سلف کے طریقے کے خلاف ہے۔
اب ہم یہ عزم کرلیں کہ آئندہ کے معاملات میں اسلامی تاریخ کو عمل میں لائیں گے
 اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×