اسلامیات

امدادی کاموں کے ساتھ ۔۔

ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں، انسانوں کے اعمال ہی حالات کے بگاڑ کا سبب ہوتے ہیں، آج ہمارے معاشرے میں کونسا گناہ نہیں ہو رہا ہے، سود ، بے حیائی، قتل، والدین کی نافرمانی، گانا بجانا ، نوجوانوں کی آوارگی، رشتوں کا توڑ ، سسرال کا ظلم ، حرام خوری وغیرہ خدائی شفقت کا تقاضا ہے کہ عذابِ اکبر (عذاب آخرت) سے بچانے کے لئے عذابِ أدنی( دنیوی عذاب ، وقتی حالات) میں انسانوں کو ڈالتے ہیں تاکہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع ہوں (لعلھم یتضرعون ، لعلھم یرجعون) چھت پر سے نہ گر جائے اس لیے پیچھے کی طرف جھٹکا دیا جاتا ہے ، جسم کی گندگی صاف ہوجائے اس لیے مائیں گرم گرم پانی سے بچے کا جسم صاف کرتی ہے ،قیامت کی بے سر وسامانی  سے بچ جائیں ؛اس لیے یہاں بے سروسامان کر دیا گیا ، قبر کا گھر انسان آباد کرلے اس لیے یہاں بے گھر کرکے احساس دلایا گیا ؛ کرونا میں دائیں بائیں موت کا ننگا ناچ، جنازوں کا انبار اور قیامت کے منظر جیسی اپنوں کی بے وفائی اور دوری بتلائی گئی، ویسے دنیا کی کوئی مصیبت یا راحت ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں، کامیاب بیمار وہی ہے جس کی بیماری اس کو رب سے قریب کر دے ، دل کا کتنا اندھا پن ہے کہ ڈنڈے پر نظر ہے مگر مارنے والے پر نہیں ، کرونا کا ڈر ہے مگر اس کے رب کا نہیں ، موت کا خوف ہے مگر اس کی تیاری نہیں ، خوب یاد رکھیے چیونٹی اور مکھیوں کی طرح حالات اور موسم بھی انہیں کی مخلوق ہیں ،ان کے ہی ڈالنے سے آتے ہیں ان کے ہی چاہنے سے جاتے ہیں لیس لھا من دون اللہ کاشفہ ؛ ہم اللہ کے ساتھ کتنا تھے کہ اب اللہ ہمارے ساتھ ہوتا ، سیکنڈ سے کم میں حالات بدل جائیں گے اگر فرش والے عرش والے کو منالیں ، باز آباد کاری کا کام ، مکانوں کی صفائی ، صاف پانی ، چادر اور بلانکٹس کی تقسیم ، دور کی اندرونی بستیوں میں جا کر بغیر تصویر کشی کے ایسا دودھ تقسیم کیجئے،جس میں شکر ڈالنے یا گرم کرنے کی ضرورت نہ ہو ، موز اور بریڈ دیجیے ، جس کو وہ حسبِ ضرورت استعمال کرسکیں ، تسلی دیجئے کہ ہم آپ سے بدتر تھے لیکن پروردگارِ عالم نے شاید آپ کو محبوب جان کر معتوب کیا، قریبی شاگرد کو ، چہیتے  بیٹے کو زیادہ سزا دی جاتی ہے ۔
    *درستگئ اعمال اور کثرت استغفار*
               لیکن اسی کے ساتھ درستگئ اعمال اور کثرتِ استغفار کی طرف بھی متوجہ کیجیے، بار بار کی بارش ، بے قابو نالے، زمین سے ابلنے والے چشمے ؛ صرف ان کا رب ہی تھام سکتا ہے وما کان اللہ معذبھم و ھم یستغفرون ؛ مسجدوں میں دعائیہ اجتماع کیجیے ، فنکشن ہالوں میں پناہ لینے والی خواتین میں غذائی اشیاء تقسیم کرنے سے پہلے زندگی سے گناہ ختم کرنے اور توبہ کرنے کی ترغیب دیجیے۔
        *امدادی چیزیں دیتے وقت ویڈیو بنانا*
              بے حس، کم عقل یا انتہائی لاچار شخص تو اس طرح لے لے گا مگر غیرت مند اور خود دار اپنی عزتِ نفس کا خون کرنا نہیں چاہتا ، چندہ دینے والوں کو اعتماد میں لینے کا طریقہ یہ ہے کہ حساب کی شفافیت ہو، شرعی اصول کی پوری رعایت ہو ، انہیں از خود مصرف تک پہنچانے کی ترغیب دی جائے ، چھپاکر غیرت مندوں کو دے کر ان کی دلی دعا لی جائے ، آخری درجے میں صرف انہیں مطمئن کرنے کے لیے ایک آدھ  تصویر لے لی جائے ، اس طرح کہ لینے والے کا چہرہ دھندلا ہو ، مبہم ہو ، بڑے بڑے کام کرنے والے اللہ کے نیک بندے اور کم مشہور تنظیمیں ہم سے بڑا کام کرتی ہیں اور کرتی تھی مگر انہیں ہر قدم پر ہر چھوٹی چیز پر ویڈیو یا تصویر کشی  کی ضرورت نہیں تھی ، چندہ دینے والے، لینے والے کی غربت کے مذاق کے ساتھ کیا ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ اخلاص کے ساتھ دینے والوں کا مال صحیح مصرف میں پہنچ ہی  جاتا ہے یا وہ مصرف درست ہوجاتا ہے دینے کے بعد ( حدیث میں واقعہ موجود ہے ، ایک مخلص نے رات کے اندھیرے میں مالدار بخیل ، فاحشہ اور چور کو دے دیا ، بعد میں افسوس ہوا ، اُسے خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ انہوں نے افعالِ بد سے توبہ کر لی ہے)
             چندہ دینے والوں کو متوجہ کرنے کے لیے دعا ، اپنا اخلاص اور روحانیت پیدا کرنے کے بجائے صرف اس رواجی طریقے سے ہم کیا اپنی آخرت بنانا چاہتے ہیں؟ کام کی مقدار سے زیادہ کام کی عنداللہ مقبولیت کا فکر کرنے والوں کا ہرگز یہ طرز عمل نہیں تھا؛ مالی تعاون کرنے والوں کو آپ پر اس قدر بھی اعتماد نہیں تھا تو کام کیوں شروع کیا ، کیاان کا بھروسہ جیتنے کے لیے آپ اتنا گر سکتے ہیں ۔
           الیکڑانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا کچھ بھی کرے ، ہر مسلمان چلتا پھرتا میڈیا ہے ،اگر وہ مثالی مسلمان بن جاتا ہے تو نفرتوں اور عصبیتوں کے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے ، آپ مبارکبادی کے قابل ہیں کہ نفرت کاجواب محبت سے دیا اور دیتے رہنا ہے ، دنیا میں رہنے کی چیز محبت ہے نفرت نہیں اما الزبد فیذھب جفاء ؛ صلہ کی پرواہ کیے بغیر ، غیر مسلم بھائیوں سے دادِ تحسین کی امید کے بغیر اپنا کام کرتے رہیے ، اسلام سے قریب کرنے کی نیت زیادہ ہو، دین سے متاثر کرنے کا غم سوار ہو ، انہیں جہنم سے نجات دلانے کی فکر غالب ہو، وہ ان حالات میں بھی ہر اعتبار سے ہم سے زیادہ قابلِ رحم ہیں ،خدا سے دوری ، غیر سے امید ہی دنیا میں بڑا عذاب ہے ، ظلم و قتل کے وہ ہم سے زیادہ شکار ہیں ، آپ کامیاب ہو گئے ملک میں انسانیت کو باقی رکھنے میں، آپ جیت گئے کہ میدان تو ہارے ہیں مگر ہمت اور حوصلہ نہیں ہارے ہیں ، زمینوں اور ملازمتیں تو کھویا ہے مگر اپنے اصول واقدار بچانے کی فکر میں لگے رہے ۔ واللہ المستعان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×