اسلامیات

شانِ رسالت میں گستاخی ناقابل برداشت جرم

حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس:
کائنات میں اللہ جل جلالہ وعم نوالہ کے بعد حضرت رسول اللہﷺ کی شخصیت بے مثال، بے نظیر بہت زیادہ مقدس، بے انتہا قابل تکریم ہستی ہے، آپ کی زندگی ہر اعتبار سے بے داغ، بے غبار اتباع کئے جانے کے قابل اللہ کے چہیتے انقلابی کارناموں کا ایک ناختم ہونے والا تسلسل یہ سب چیزیں آقاﷺ کی ہستی میں پائی جاتی ہیں۔
اس لئے شانِ رسالت میں گستاخی یا اس کا مذاق اڑانا توہین اور تحقیر ہے، یہ ہرگز اسلام میں قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے، ایمان والے کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں ایک سچائی کو جھٹلانا ہے، باہمی انسانی رواداری کے اصول کے بھی خلاف ہے، کیچڑ اچھالنا چاند پر تھوکنا بیجا قسم کے بہتان اور الزام لگانا حقائق اور سچی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا، آنکھیں بند کرلینا ، ایسی حرکتیں ہیں جس کی اجازت کوئی بھی عقلمند نہیں دے سکتا ہے۔
شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے کا حکم:
اسی لئے ابن فرحونؒ، ابن تیمیہؒ، قاضی تقی الدین شافعیؒ، ابن اخوین حنفیؒ نے بھی اپنی کتاب "السیف المشهور علی الزندیق والشاتم الرسول”علامہ سیوطیؒ نے”الحاوي الفتاوی” کے ایک رسالہ”تنزيه الأنبياء عن تسفيه الأغبياء” ان کتابوں میں ان رسائل میں ابن کمال پاشاہ ابن طولول حنفی ابن عابدین شامی اور ابن حجر حسیمی، ابن حزمؒ، قاضی عیاض مالکیؒ نے اپنی کتابوں میں بالاتفاق یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہو وہ مرتد ہوجاتا ہے، زندیق ہوجاتا ہے، ملحد بن جاتا ہے، اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، اگر دار الاسلام میں کوئی ذمی شخص ٹیکس دے کر رہتا ہے، ویزا لے کر رہتا ہے تو اس کا ذمہ ختم ہوجائے گا، اس کے تحفظ کا وعدہ ختم ہوجائے گا، عدالت کو اختیار ہے، قاضی وقت کو اختیار ہے، اگر وہ توبہ بھی کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے یا قبول نہ کی جائے۔
شتم رسول کا مسئلہ نازک مسئلہ ہے:
احناف میں اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں، اس کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا، مسلسل گستاخی کرنے کے بعد وہ واجب القتل ہوجاتا ہے، یہ شتمِ رسول کا مسئلہ کوئی سادہ سیدھا مسئلہ نہیں ہے، البتہ یہ تعزیری سزا یا قتل کا اقدام ان گستاخی کرنے والوں کا ان گستاخی کرنے والوں پر اقدام قتل کرنا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینا اور ان کے وجود کو ختم کردینا اس کا اختیا ر اسلامی ریاست کو ہے یا اختیار حکومت کو ہے، سرکاری کارندوں کو ہے، عدلیہ کی کاروائی کے بعد ہے، تاکہ ہر آدمی مرتد کے ساتھ اور گستاخِ رسول کے ساتھ قتل کا معاملہ کرکے انارکی نہ پھیلادے، انتشار نہ پھیلادے، معمولی بہتان کے ذریعہ سے کوئی ذاتی عداوت اور شخصی مخاصمت کی انتقامی کاروائی کا ذریعہ نہ بنالے۔
قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا غیر مناسب عمل ہے:
ہندوستان جیسے ملک میں توڑ پھوڑ، پولیس اسٹیشنوں میں ہنگامے، غیر جمہوری طریقہ پر قانون کو ہاتھ میں لینا، یہ ہرگز مناسب نہیں ہے، قانونی دائرہ میں رہ کر جمہوری اصول کے اندر رہ کر جو جو اقدامات کئے جاسکتے ہیں، جو جو قانون سازی ہوتی ہے اور جو جو مقدمے دائر کئے جاسکتے ہیں وہ سارے کام کئے جانے چاہئیں؛ لیکن بے حد مشتعل ہوجانا، بے قابوہوجانا، قانون کی بالادستی کو ختم کردینا، گاڑیوں کا جلانا، پولیس اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ، سرکاری کارندوں کے ساتھ بدتمیزی یہ وہ حرکتیں ہیں جو نہایت نادانی ہوگی اور نئے مسائل کو جنم دینا ہوگا۔
کئی نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئے گی، پھر قانونی چارہ جوئی کے لئے ہمارے پاس باقاعدہ کوئی بندوبست بھی نہیں ہے، ان کے گھرانے اور چولہے کیسے آباد ہوں گے، بڑے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں،اسی لئے عوام کو بھی چاہئے کہ کبھی بھی اس قسم کا موقع آجائے تو ہندوستان جیسے ملکوں میں غیر اسلامی ملکوں میں مسلم اقلیتی ملکوں میں کوئی غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقہ نہ اپنائیں۔
بوقت نکاح حضرت عائشہؓ کی عمر:
اما جان حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی چہیتی بیٹی ہیں، حضرت محمدﷺ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ بیوہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ سے نکاح کیا، پندرہ سال کا عرصہ تقریباً حضرت محمدﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گذارا، پچاس سال کی عمر میں حضرت عائشہؓ سے نکاح ہوا، اس سلسلہ میں کوئی تاریخی بحث چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہےکہ حضرت عائشہؓ کی عمرنکاح کے وقت چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔
سید سلیمان ندویؒ نے ظفر اقبال صاحب نے اپنے ترجمہ کردہ رسالہ میں ان سارے پہلؤوں کو واضح کردیا ہے، دوبارہ اس موضوع میں الجھنے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔
دورِ نبوت اور اس سے قبل نکاح کی عمرکا معیار:
یہی وہ تنہا نکاح تھا جس میں کنواری خاتون تھی، کم عمر خاتون تھی، آقاﷺ پر اس زمانہ میں بھی قریبی زمانہ تک کسی نے شہوت پرستی کا الزام نہیں لگایا، جنسیت زدہ ہونے کا الزام نہیں لگایا، چودہ سو سال پہلے کے زمانہ کو اور عالم عرب کے بہت زیادہ ٹیمپریچر اور درجہ حرارت کو دیکھنا چاہئے، بائبل کو اٹھاکر دیکھئے، منوسمرتی کو اٹھاکر دیکھئے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر نکاح کی عمر نو سال، بارہ سال، تیرہ سال سے زیادہ سمجھی جاتی تھی، اور بادشاہوں میں، انبیاء علیہم السلام میں ان کتابوں کے مطابق اس کا رواج بھی تھا۔
حضرت عائشہؓ سے کم عمری میں نکاح کی مصلحت و مقصد:
مختلف مذاہب میں اس قسم کے ضابطے بھی بنے ہوئے ہیں اور اس نکاح کا مقصد حقیقت میں نکاح نہیں تھا، جنسی تعلق نہیں تھا، ازدواجی تعلق نہیں تھا، بلکہ حضرت عائشہؓ کی ہستی جس پر کفر وشرک کا اثر نہ ہو اس کی ذہانت سے فائدہ اٹھایا جائے، علوم نبوت کو منتقل کیا جائے اور یہ سمجھدار خاتون آپﷺ کی خلوت وجلوت کو نقل کرے، چنانچہ حضرت عائشہؓ کے ذریعہ ۲۲۰۰؍ احادیث امت تک پہنچی ہیں، فقہ عائشہ نام کا ایک پورا ذخیرہ تیار ہوچکا ہے،اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ نکاح ہوا۔
حضرت عائشہؓ کے بلند کارنامے:
ایک باپ اپنے علم اور تجربہ کے مطابق بہو کا انتخاب کرتا ہے بیٹے کے لئے، اللہ جل جلالہ وعم نوالہ نے حضرت محمدﷺ کے لئے اس خاتون کا انتخاب کیا تو کتنی عظیم اور کتنی ستھری قسم کی خاتون ہوں گی، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اماں جان کی تقریباً عمر ۷۴؍ سال رہی، آقاﷺ کے انتقال کے بعد بہت لمبی عمر اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی، ان کے وہ کارنامے جو عہد صدیقی میں رہے اور جو کمالات عہد فاروقی میں ظاہر ہوئے آپ نے جو معاملات حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں سلجھائے، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت معاویہؓ کے دور امارت میں آخر کے دو سال کے علاوہ تقریباً ۱۸؍ سال حضرت معاویہؓ کے دور میں آپ نے علم کی اشاعت کی، قرآن وسنت کی خدمت فرمائی، امت کے مختلف گمبھیر مسائل کے وقت آقاﷺ کا مزاج امت کو بتلایا۔
اس لئے یہ دریدہ دہنی ہے، گندی ذہنیت ہے کہ لوگ حضرت عائشہؓ پر آقاﷺ کی ذات کو لے کر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپﷺ نے ریپ کیا، آپﷺ نے زنا کیا(نعوذ باللہ)، آپ جانتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کھلونے لے کر آئی ہیں، آپ ان کی عمر کی رعایت کرتے تھے، انسانیت کو ایک نمونہ بتلایا گیا کہ بیوی جب کم عمر ہو تو کیسے نرمی اور کیسے دل جوئی کا معاملہ کیا جاتا ہے، کیسے ناز برداری کی جاتی ہے، اس نکاح کے ذریعہ سے آقاﷺ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے خانوادہ سے انتساب آپ کی مہم اور آپ کی تحریک کو آگے بڑھانے میں زبردست معاون رہا، چہیتے دوست کی غیر معمولی دلچسپی رہی اور بہت سارے پہلو ہیں جن کو علماء نے لکھا ہے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری:
ہم مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ شتمِ رسالت کے مسئلہ کو واقعی غیرت وحمیت کے ساتھ لیں؛ لیکن جمہوری حدود کے اندر رہ کر کاروائی کریں اور خود اپنے اکابر اور اپنی شخصیات اور آقاﷺ کی سیرت کو پڑھیں، سنت کی اشاعت کرنے کی فکر کریں۔
اللہ تعالیٰ علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×