اسلامیات

میاں بیوی کے تلخ تعلقات اورسرپرستوں کارول

نکاح عفت وپاکیزگی کاجلی عنوان ہے،آفات نظرسے حفاظت کابہترین ذریعہ ہے،ایمان کی تکمیل کاسبب ہے،نکاح وہ پاکیزہ رشتہ ہے جومردوعورت کوایک لڑی میں پرودیتاہے،اوران کے مابین الفت ومحبت کوفروغ دیتاہے،عقدنکاح سے صرف مردوعورت کاہی اجتماع نہیں ہوتا؛بلکہ دوخاندانوں کاباہم اجتماع ہوتاہے،میاں بیوی کے مابین ہی تعلق وانسیت پیدانہیں ہوتی؛بلکہ دوخاندانوں کے افرادمابین تعلق وانسیت پیداہوتی ہے،زوجیت کاپاکیزہ رشتہ قائم ہونے کے بعدزن وشوایک دوسرے کے معاون ومددگاربن جاتے ہیں،ایک دوسرے کی خوشی وغمی میں شریک ہوجاتے ہیں،اوراگرازدواجی زندگی کواسلامی نہج پراستواررکھاجائے تودونوں دوجسم یک جاں بن جاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ کامزاج یہ ہے کہ جب مردوعورت نکاح کے رشتہ میں بندھ جائیں تویہ رشتہ مضبوط اورمستحکم ہو،محبت وہمدردی اورباہمی تعاون کی بنیادوں پراستوارہو،ایک دومہینے یاایک دوسال تک یہ رشتہ محدودنہ ہو؛بلکہ دائمی اورلازوال ہو؛اسی وجہ سے نکاح کے پاکیزہ رشتہ کوبرقرا ررکھنے اوراس میں محبت ومودت کارنگ بھرنے کے لئے اسلام نے زوجین کوخاص ہدایات دی ہیں،شوہراوربیوی ہرایک کے ذمہ اپنے ساتھی کے حوالہ سے کچھ حقوق مقررکیے ہیں،اگران پرعمل آوری کویقینی بنایاجائے،اورازدواجی زندگی کے سفرمیں شریعت کے نقوش جمیل کومدنظررکھاجائے تونکاح کارشتہ مزیدپائیداراورمستحکم ہوتاہے،اورمیاں بیوی میں سے ہرایک دوسرے کے لئے مخلص رفیق ثابت ہوتے ہیں،اوراگرشریعت کی ہدایات سے غفلت اورلاپرواہی برتی جائے،ازدواجی حقوق کی ادائیگی میں سستی اورسہل انگاری کامظاہرہ کیاجائے توپھرمیاں بیوی میں سے ہرایک کی زندگی تلخ اوربے مزہ ہوجاتی ہے،اورزندگی کے ہرموڑپردونوں ایک دوسرے کے لئے بجائے رفیق کے حریف ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف چوں کہ دونوں کاہمیشہ کاساتھ ہوتاہے،اختلاط اورہم نشینی کے مواقع ہمیشہ میسرہوتے ہیں؛اس لئے ایک دوسرے کی اخلاقی کمزوریاں بھی ان کے سامنے ظاہرہوجاتی ہیں،جس کی وجہ سے شکایات کاپیداہوجاناناگزیرہے،زوجین کے مابین باہمی رنجش اوران بن ہوجاناایک فطری امرہے،یہ نہ کوئی معیوب چیزہے اورنہ شریعت کے منشاکے خلاف ہے،تاہم ایسی صورت میں میاں بیوی کے سرپرستوں کوسنجیدہ اورذمہ دارانہ کردارنبھانے کی ضرورت ہے،ایسامضبوط کردارجس میں وقتی غصہ،جذبات کاابلتاہواجوش نہ ہو،عصبیت وجانبداری سے کام نہ لیاگیاہو؛بلکہ سرپرستوں اورذمہ داروں سے ایک ایسارول مطلوب ہوتاہے جس میں حقائق کابے لاگ تجزیہ ہو،شیشہ وآہن کاحسین امتزاج ہو،محبت وہمدردی کے ساتھ احساس ذمہ داری ہو،شکست اورہارماننے کاحوصلہ ہو،جب حضرات سرپرست زوجین کے باہمی چپقلش اورشکررنجی کودورکرنے اوران کے باہمی شکایات کورفع کرنے میں سنجیدہ ہوں گے،اورغیرجانب دارانہ طورپران کے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کریں گے تومیاں بیوی کی ازدواجی زندگی خوش گوارفضامیں بسرہوگی،اوربہت سے ازدواجی رشتے جومعمولی معمولی باتوں کی وجہ سے طلاق پرمنتج ہوتے ہیں ان میں بھی مطلوبہ حدتک کمی آئے گی،نیزطلاق وتفریق اورمیاں بیوی نزاع واختلاف کی وجہ سے جوآج کل پولیس اسٹیشنوں اورکورٹ کچہریوں کے چکرکاٹے جارہے ہیں،اورغیروں کواسلام اورمسلمانوں پرجگ ہنسائی کاموقع مل رہاہے ان پربھی روک لگے گی۔
عہدنبوی جومسلمانوں کاایک مثالی اوردرخشاں دورتھا،جہاں اسلامی معاشرے کی بنیادعالی صفات اوربلنداخلاق پرتھی،محبت وہمدردی،ایثاروسخاوت اورخلوص واپنائیت جیسے پاکیزہ صفات مدنی معاشرے کاجزولاینفک تھے،وہاں بغض وعناد،عداوت ودشمنی اورحسدورقابت کاگزرنہ تھا،جس مدنی معاشرے میں ازدواجی رشتہ ایک اٹوٹ اورمضبوط بندھن ہوتاتھا،جہاں ازدواجی رشتہ محبت ومودت اور بے لوث تعلق وانسیت کامظہرہوتاتھا،جہاں مردوعورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد زندگی کے مخلص رفیق ثابت ہوتے تھے، جوپاکیزہ سماج سکون واطمینان کی گراں مایہ دولت سے معمورتھا،ایسے پاکیزہ دورکی طرف لوٹیے،تاریخ کے صفحات پلٹئے،اوران کی روشنی میں سفرکارخ متعین کیجئے؛کیوں کہ گزری ہوئی بہارکی یادیں ہی ہمارے خزاں رسیدہ چمن کے پودوں میں ذوق ِنموپیداکرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،اورماضی کے دھندلکوں میں چھپے ہوئے نقوش ہی ہمیں مستقبل کی راہ دکھاسکتے ہیں۔
آج کے دورمیں جب نکاح کی مجلس منعقدہوتی ہے،توزوجین کے لئے کچھ اس طرح دعاء کی جاتی ہے:اے اللہ!زوجین کے مابین ایسی محبت والفت پیدافرماجیسی حضرت علی اورحضرت فاطمہؓکے درمیان تھی؛لیکن اس پہلوکوہم نظراندازکردیتے ہیں کہ سیدناحضرت علی ؓ اورجگرگوشہ ئ رسول حضرت فاطمہ زہراؓکے مابین خوش گوارازدواجی تعلقات کاآخرکیارازتھا؟وہ کون سے اسباب وعوامل تھے جن کی وجہ سے حضرت علی وفاطمہ ؓکے مابین پاکیزہ محبت اورایک دوسرے کے تئیں خلوص واپنائیت کے جذبہ کوفروغ ملا؟ازدواجی رشتہ کومثالی اورقابل ِتقلید رخ دینے کے پیچھے کیاچیزکارفرماتھی؟آپ غورکریں گے تواندازہ ہوگاکہ حضرت علیؓاورخاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی ازدواجی زندگی میں متعددبارنشیب وفرازآئے،ایک دوسرے سے شکایات پیداہوگئیں،ناراضگی اورخفگی کے مواقع آئے؛لیکن اللہ کے رسولﷺنے ایک سرپرست اورمربی ہونے کی حیثیت سے باہمی اختلاف کوسلجھایا،آپسی شکایات کابحسن وخوبی ازالہ فرمایا،اورنئے سرے سے محبت والفت کے ساتھ زندگی گزارنے کی زوجین کوتاکیدکی،چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولؓحضرت فاطمہ کے دولت کدہ پرتشریف لے گئے،کیادیکھتے ہیں کہ حضرت علیؓگھرپرموجودنہیں ہیں،دریافت کیاکہ تمہارے چچازادبھائی (علیؓ)کہاں ہیں؟فاطمہؓنے کہا:میرے اورعلی ؓ کے مابین کچھ ان بن ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے وہ ناراض ہوکرگھرسے باہرچلے گئے ہیں،اورگھرمیں قیلولہ بھی نہیں کیا،اللہ کے رسولﷺنے ایک شخص کوبھیجاکہ دیکھوعلی کہاں ہیں؟اس نے آکراللہ کے رسولﷺکواطلاع دی کہ وہ مسجدنبوی میں سورہے ہیں،اللہ کے رسولﷺ مسجدنبوی میں تشریف لائے،دیکھاکہ حضرت علیؓآرام کررہے ہیں،اورچادران کے پہلوسے گرگئی ہے،اوران کے جسم کوگردوغبارلگ گیاہے، سرورِکائنات حضرت علیؓکے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے،اوران سے کہنے لگے:اے ابوتراب!اٹھو،اے ابوتراب!اٹھو۔(بخاری)
مذکورہ بالاحدیث خاندانی تعلقات کوخوش گواراورمضبوط ومستحکم بنانے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،اورزوجین کے مابین رنجش اورجھگڑاہوجانے کی صورت میں ایک سرپرست کاکیارول ہوناچاہیئے اس پہلوکوبھی یہ حدیث اجاگرکرتی ہے،اورایسے رہنمایانہ خطوط متعین کرتی ہے جس پرعمل آوری ازدواجی زندگی کوکامیاب اوربہترسے بہتربنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ذیل میں حدیث کے سبق آموز نکات اختصار کے ساتھ ذکر کئے جاتے ہیں:
زوجین کی خبرگیری:اللہ کے رسول ﷺدوپہرکے وقت اپنے دامادحضرت علیﷺکے گھرتشریف لے گئے،غالبااللہ کے رسولﷺکایہ مقصدہوگاکہ زوجین کی خبرگیری کی جائے،اوران کے احوال سے واقفیت حاصل کی جائے،اس سے یہ سبق ملتاہے کہ سرپرست اورحضرات ذمہ داران کالڑکے یالڑکی کی شادی کردینااوراپنے آپ کوہرقسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآسمجھ لینادرست نہیں ہے،جیساکہ آج اس کارجحان روزافزوں ہے؛بلکہ شادی کے بعدبھی لڑکے اورلڑکی کی خبرگیری کرنااوران کے احوال سے واقفیت حاصل کرتے رہنابھی سرپرستوں کی ذمہ داری ہے،اس کے لئے داماداوربیٹی کووقتافوقتاگھربلانے کااہتمام کیاجائے،اورخودبھی وقت نکال کرداماد کے گھرجانے کوشش کی جائے،آمدورفت رکھنے سے خاندانی تعلقات مضبوط اورمستحکم ہوتے ہیں،اورزوجین کے مابین بھی محبت واعتمادمیں اضافہ ہوتاہے۔
لڑکی کے دل میں شوہرکی عظمت پیداکی جائے:اللہ کے رسولﷺجب سیدہ فاطمہ ؓکے مکان پرتشریف لے گئے،اورحضرت علیؓکوآپ ﷺنے موجودنہیں پایا،توآپﷺکی نگاہ ِبصیرت نے یہ محسوس کرلیاکہ ضرورزوجین کے مابین رنجش ہوئی ہے،اوردونوں کے تعلقات معمول پرنہیں ہیں،میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے کبیدہ خاطرہیں،ایسے وقت آپ نے ضرورت محسو س کی کہ سیدہ فاطمہ کواپنے رفیق ِحیات کے حوالہ سے جوخفگی اورناراضگی ہے اسے دورکیاجائے،اوردونوں کے تعلقات کوازسر ِنوخوش گواربنایاجائے،چنانچہ اس مقصدسے آپﷺنے سیدہ فاطمہ ؓسے یہ دریافت نہیں کیاکہ علی کہاں ہیں؟بلکہ ایک رشتہ کاحوالہ دے کردریافت کیاکہ تمہارے چچازادبھائی کہاں ہیں؟تاکہ سیدہ فاطمہﷺزہرارضی اللہ عنہاکے دل سے حضرت علیؓسے ناراضگی کے ناخوش گواراثرات دور ہوجائیں، اورقرابت ورشتہ داری کی اساس پرحضرت علیؓسے صلح صفائی کرلیں،اس میں لڑکی کے سرپرستوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو جھکنا سکھائیں، لڑکیوں کویہ تعلیم دیں کہ جب شوہرناراض ہوجائے تواسے منانا تمہارا فریضہ ہے، لڑکیوں کویہ سکھائیں کہ اگرتمہاری غلطی ہوتو بہرصورت تمہیں معافی مانگناہے،اوراگرتمہاری غلطی نہ ہوتب بھی اپنی غلطی تسلیم کرلینا اور شوہر سے معافی چاہ لینا اعلی اور بلند اخلاق وکردار کی دلیل ہے، جو ازدواجی رشتہ کومضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے، اورباہمی محبت واعتماد کو پروان چڑھاتا ہے۔
شکایات سے گریز کیا جائے:اللہ کے رسولﷺنے جب گھرمیں حضرت علیؓکونہیں پایا،جب کہ یہ دوپہرکاوقت تھا،اورحضرت علیؓکے گھر میں موجودرہنے اورقیلولہ کرنے کاوقت تھاتوآپﷺنے ان کے بارے میں دریافت کیا،حضرت فاطمہؓ نے کہا:کسی بات پرمجھ سے ناراض ہوکر باہر گئے ہیں،یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ سید ہ فاطمہ ؓنے باہمی رنجش کی وجوہات کواللہ کے رسولﷺکے سامنے بیان نہیں کیا،اورنہ ہی اللہ کے رسولﷺنے اس بارے میں تفصیلات معلوم کرنامناسب سمجھا،حضرت فاطمہؓکایہ طرزعمل سسرال میں رہنے والی خاتون کویہ پیغام دیتاہے کہ وہ صبروتحمل اوربرداشت کرنے کاخودکوعادی بنائیں،شوہرکی طرف سے یاشوہرکے گھروالوں کی طرف سے کوئی ایسی بات پیش آجائے جوطبیعت پرناگوارہو،اورمزاج لطیف پرگراں ثابت ہوتواس کوبرداشت کرنے کاخودکوعادی بنائیں،چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبیدہ خاطرہوجانا اور اس کی اپنے گھر والوں کو وقتا فوقتا اطلاع دیتے رہنا مسئلہ کاحل نہیں ہے؛بلکہ اس سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں، باہمی تعلقات پر برا اور منفی اثر پڑتا ہے،اس سے نہ صرف میاں بیوی کی ازدواجی تلخی کی شکار ہوتی ہے؛بلکہ دوخاندانوں کے تعلقات بھی متاثرہوتے ہیں،نیزاللہ کے رسولﷺکاطرز عمل بھی حضرات سرپرست اورحضرات ذمہ داران کے لئے نمونہ ہے،لڑکی کے سرپرستوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ لڑکی سے یہ خبرلیتے رہناکہ تمہیں سسرال میں کیاتکلیف ہے؟شوہراوراس کے گھروالے تمہارے ساتھ کیسارویہ برتتے ہیں؟یہ ایک ایسی چیزہے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی؛کیوں کہ بحیثیت انسان ہر شخص میں کچھ نہ کچھ اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں،اورہرایک کامزاج ومذاق قسام ازل نے فطری طورپرمختلف رکھاہے،اس لئے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایک کودوسرے سے شکایات پیداہوجاناناگزیرہے،ایک کودوسرے کارویہ پسندنہ آنافطری بات ہے،اب اگربیٹی سے تفصیلی رپورٹ لی جائے گی،اورسسرال میں بیٹی کوجس رویہ اورسلوک کاسامناہے اس کاباریک بینی سے جائزہ لیاجائے گاتویادرکھئے کہ اس سے باہمی تعلقات کونقصان پہونچے گا،اورآپس میں عداوت ودشمنی کی فضاپیدا ہوگی، تعاون وہمدردی کاصالح جذبہ رفتہ رفتہ سردپڑے گا،اوریہ چیزبسااوقات تفریق اورعلاحدگی کابھی پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

مسئلہ کوجلدسے جلدحل کرنے کی کوشش:مذکورہ بالاواقعہ سے یہ بھی سبق ملتاہے کہ جب زوجین کے مابین ناچاقی پیش آجائے توسرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طورپرزوجین کے مابین مصالحت کرانے کی کوشش کریں،اوردونوں کی ازدواجی زندگی کوبحال کرنے کویقینی بنائیں،اللہ کے رسول ﷺکوجوں ہی اطلاع ملی حضرت علیؓخفاہوکرگھرسے باہرگئے ہیں،توآپ ﷺاسی وقت ایک شخص کوبھیجا،اوراس سے فرمایاکہ دیکھو!علی کہاں ہیں؟اورجب آپ ﷺکومعلوم ہواکہ وہ مسجدنبوی میں آرام کررہے ہیں توآپ وہاں تشریف لے گئے،واقعہ بھی یہی ہے کہ جب کسی مسئلہ کویوں ہی چھوڑدیاجائے،اوراس کوآئندہ وقت کے لئے ٹال دیاجائے،توبسااوقات اس سے بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں،جیسے ایک چھوٹی سی چنگاری کویوں ہی جلتاچھوڑدیاجائے،اوراسے معمولی سمجھ کرنظراندازکردیاجائے توپھرکچھ ہی دیرمیں یہی چنگاری شعلہئ جوالہ بن جاتی ہے،اوراپنے اردگردکی چیزوں کوخاکسترکرکے رکھ دیتی ہے،اسی طرح میاں بیوی جن کاہمیشہ کاساتھ ہوتاہے،ہرایک کاقلبی سکون واطمیان اپنے رفیق حیات سے مربوط ہوتاہے،اگرکسی وجہ سے ان کے مابین رنجش ہوجائے،اوراس کوحضرات سرپرست یوں ہی نظرانداز کردیں، اوراس کوفوری طورپرحل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کریں توآگے چل کربڑے مسائل بھی کھڑے ہوسکتے ہیں،جن کوآسانی سے حل کرنابسااوقات ممکن نہیں ہوتا۔

دامادکااحترام:مذکورہ واقعہ سے یہ بھی سبق ملتاہے کہ ایک خسرکواپنے دامادکااحترام کرناچاہیئے،اس کی عزت وتوقیرکاخیال رکھناچاہئے، سرور دوعالم ﷺکوجب اطلاع ملی کہ سیدناعلیؓمسجدنبوی میں آرام کررہے ہیں،اللہ کے رسولﷺخودوہاں پہونچتے ہیں، اور پیار بھرے انداز میں فرماتے ہیں:اے ابوتراب!اٹھو،اے ابوتراب!اٹھو،حضرت علیؓ کواللہ کے رسول کایہ دیاہوالقب اتناخوش گوارمحسوس ہوتاہے کہ وہ اس کواپنے نام کاحصہ بنالیتے ہیں،اوراس لقب سے اگرانہیں کوئی آوازدیتاتوخوشی ومسرت کااظہارفرماتے۔(بخاری)پھر اللہ کے رسولﷺ گردوغبار کو جو فرش پرسونے کی وجہ سے ان کے جسم پرلگ گیاتھااپنے بابرکت ہاتھوں سے صاف کرتے ہیں، اندازہ لگائیے کہ وہ ذات جوسرورکائنات ہے،افضل الخلائق ہے،مجبوب رب العالمین ہے،جس کے ایک معمولی اشارے پرحضرات صحابہ اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے کے لئے تیاررہتے تھے،آپﷺکے رعب اورجلال کایہ عالم تھاکہ کسی بھی آدمی کوآنکھ میں انکھ ڈال کربات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی،اس بابرکت ذات گرامی نے دامادکونہ ڈانٹانہ اس سلسلہ میں بازپرس کی،بلکہ ان کے ساتھ محبت وہمدردی کامعاملہ کیا،ان کی عزت وتوقیرفرمائی،ظاہرہے کہ جب لڑکی کے سرپرست کی طرف سے دامادکی عزت افزائی کی جائے گی،اس کے ساتھ احترام اورتوقیرکامعاملہ کیاجائے گاتواس کے دل میں بھی لڑکی اورلڑکی کے گھروالوں کااحترام پیداہوگا،جوازدواجی زندگی کوخوش گواربنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص ؓکاواقعہ بھی ہمارے لئے بڑاعبرت آموزاورسبق آموزہے،حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓفرماتے ہیں کہ میرے والدنے میرانکاح ایک قریشی خاتون سے کیا،جوخوب صورت ہونے کے ساتھ ایک اچھے اونچے خاندان سے تعلق رکھتی تھی،میرے والداپنی بہوکاخاص خیال رکھتے تھے،ایک مرتبہ انہوں نے بہوسے پوچھاکہ تمہاراشوہرکیساہے؟اس کاتمہارے ساتھ کیسابرتاؤہے؟بہونے کہا:بہت اچھے آدمی ہیں،بسترپرنہیں آتے،اورحقوق زوجیت ادانہیں کرتے ہیں،حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ جب میرے والدنے میرے متعلق یہ شکایت سنی تومجھے بہت ڈانٹا،اورکہاکہ میں نے ایک معززخاتون سے تمہارانکاح کیاہے،اورتم زوجیت کے حقوق ادانہیں کرتے ہو،جب ان کی زجروتنبیہ کامجھ پرکوئی خاص اثرنہیں ہواتوانہوں نے اللہ کے رسولﷺسے میری شکایت کی،اوربیوی کے حوالہ سے جومیرارویہ تھااسے اللہ کے رسولﷺکے سامنے بیان کیا،آپ ﷺنے مجھے طلب کیااورفرمایا:مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل دن میں روزہ رکھتے ہو،اوررات بھرنمازیں پڑھتے ہو،میں نے کہایہ اطلاع صحیح ہے،آپﷺنے فرمایا:تم کچھ دن روزہ رکھو،اورکچھ دن روزہ نہ رکھو،تھوڑی دیرکے لئے رات میں نمازپڑھو،اوربقیہ حصہ رات میں آرام کرو،کیوں کہ تمارے اوپرتمہارے جسم کابھی حق ہے،تمہاری آنکھوں کابھی تمہارے اوپرحق ہے،تمہاری بیوی کابھی تمہارے اوپرحق ہے،اورمہمانوں کابھی تمہارے اوپرحق ہے۔(مسنداحمد)
مذکورہ بالاواقعہ میں سرپرستوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ بچوں کی شادی کرنے کے بعدبچوں کی تربیت سے کنارہ کشی اختیارکرلینادرست نہیں ہے،اپنی اولادکے ازدواجی مسائل سے دلچسپی نہ لینا صلحاء،متقی اورپرہیزگارلوگوں کاشیوہ نہیں ہے؛بلکہ سرپرستوں کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکے اورلڑکی کے لئے ایک دین دارشریک حیات کاانتخاب کریں،اورشادی کی عمرکوپہونچتے ہی انہیں شادی کے رشتہ میں منسلک کردیں،اسی طرح یہ بھی ذمہ داری ہے کہ شادی کے بعدازدواجی زندگی کی نگرانی بھی کریں،اورزوجین کوباہمی فرائض اداکرنے کاپابندبنائیں،نیززوجین کی عائلی زندگی کی نگرانی صحیح اورمنصفانہ بنیادوں پرہونی چاہیے، اگرسرپرست کویہ محسوس ہوکہ میرے لڑکے یالڑکی سے غلطی ہورہی ہے،جقوق کی ادائیگی میں میرابچہ یامیری بچی کوتاہ ثابت ہورہی ہے تواسے نظراندازکردینااوراس پرخاموشی اختیارکرلیناصحیح نہیں ہے؛بلکہ محبت اورخیرخواہی کے ساتھ لڑکے یالڑکی کواس کی غلطی پرمتنبہ کیاجائے،اوراسے اصلاح حال پرآمادہ کیاجائے،اگرسرپرست کویہ احساس ہوکہ میری پندونصیحت کالڑکے یالڑکی کوخاطرخواہ فائدہ نہیں ہواہے،اوروہ اپنی سابقہ روش پربرقر ارہے توکسی معتبرعالم دین یامعاملہ فہم دیندارشخص سے رجوع کیاجائے،اوراصلاح حال کی کوشش کی جائے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص ؓنے اپنے صاحبزادے کی فہمائش کی،بازنہ آنے پراللہ کے رسولﷺکوان کی حرکتوں کی اطلاع دی،اوران کی اصلاح کی درخواست کی۔
آج کے دورمیں ازدواجی جھگڑے آئے دن پیش آتے رہتے ہیں،میاں بیوی میں رنجش اورشکررنجی ہوتی رہتی ہے،ایک دوسرے پرالزامات لگائے جاتے ہیں،پولیس اسٹیشنوں میں اس طرح کے کیس درج کرائے جاتے ہیں،طویل قانونی لڑائیاں اس کے لئے لڑی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے ایک طرف خاندانوں میں دوریاں پیداہوتی ہیں،آپس میں بغض وعداوت کے شرارے بھڑکتے ہیں،دوسری طرف ایسے ناخوش گوارماحول میں نسل نوکے بھی اخلاق متاثرہوتے ہیں،نئی نسل کی تعلیم وتربیت سے غفلت ہوتی ہے،ظاہرہے کہ اس کے جہاں بہت سارے اسباب وعوامل ہیں وہیں ایک بنیادی اوراہم سبب سرپرستوں اورذمہ داروں کی مجرمانہ غفلت بھی ہے،ضرورت ہے اس بات کی کہ سیرت طیبہ کی روشنی میں سرپرست اپنی ذمہ داریوں کومحسوس کریں،اوراس کونبھانے کی کوشش کریں،شادی کے بعدبھی اپنے بچوں پرخاص نظررکھیں،اوراپنے شریک حیات کے حقوق اداکرنے کاانہیں پابندبنائیں ان شاء اللہ اس سے ایک صالح اورخوش گوارمعاشرہ وجودمیں آئے گا،جوسکون واطمینان اورچین کاگہوارہ ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×