اسلامیات

سال نوکاپیغام

محرم الحرام اسلامی کیلنڈرکاپہلامہینہ ہے،یہ آپﷺ اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے واقعہ ہجرت کی یادگارہے،تیرہ سالی مکی دورمسلمانوں کے لئے بڑاپرآشوب اورمہیب دورتھا،مصائب کے ہجوم اورستم گاریوں کے تلاطم نے مسلمانوں کی زندگی کواجیرن کررکھاتھا،کفارمکہ کے لرزہ خیزمظالم کے شعلے مسلمانوںکے صبروتحمل کے خرمن کوآگ لگارہے تھے،ان کے ظلم وجبرکی چکی میں ضعیف مسلمان پس رہے تھے،تیرہ سال تک مکہ میں نبوت کابادل پیہم برستارہا،اوراسلام کی تخم بوئی جاتی رہی ؛لیکن وہاں کی سرزمین بنجر اورغیرصالح ثابت ہوئی ،چنانچہ معدودے چندلوگوں کے سواکوئی اسلام میں داخل نہیں ہوا،ایسے زہرہ گدازاورشکیب رباحالات میں اللہ تبارک وتعالی نے صحابہ کرام ؓکومکہ سے ہجرت کرنے کاحکم دیا۔
اسلامی تاریخ کے جلو میں بے شمارایسے تاریخ سازواقعات موجودتھے جن میں سے کسی ایک کواسلامی تقویم کی بنیادبنایا جاسکتاتھا،رحمۃ للعالمینﷺ کی ولادت باسعادت ایک انقلاب آفریں واقعہ تھاجس سے گلستان انسانیت میں بہارآئی اورظلمت وتاریکی چھٹ گئی،آپﷺ کی بعثت سے توحید وایمان کی روشنی جلوہ گرہوئی اورکفروشرک کی بساط لپیٹ دی گئی،فتح مکہ کاواقعہ تاریخ اسلام کے گلشن میںگل سرسبدکی حیثیت رکھتاہے جس کی مہک آج تک دل ودماغ کوعطربیزکرتی ہے ،مکہ کی فتح صرف مسلمانوں کی ظاہری فتح نہیں تھی ،بلکہ یہ سارے عرب میں اسلام کے پھیلنے اورمسلمانوں کی غلبہ کی تمہیدتھی،یہ صرف محدود خطے پرمسلمانوں کی بالادستی نہیں تھی ،بلکہ حق کے مقابلے میں باطل طاقتوں کی شکست اورپسپائی تھی ،لیکن عہدفاروقی میں صحابہ کرامؓ …جن میں سے ہرفردگلستان انسانیت کاگل سرسبداورنوع انسانی کے لئے باعث شرف وافتخار تھا…نے اجتماعی غوروخوض سے واقعہ ہجرت پراسلامی تقویم کادارومداررکھا،چنانچہ میمون بن مہران ؒکہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروقؓ کے سامنے ایک خط پیش کیا گیا،جس میں شعبان کامہینہ درج تھا،آپؓ نے فرمایا:کونسا شعبان ؟سال گزشتہ کایا سال رواں کایاآئندہ سال کا،لوگوں کے لئے کسی سن کی تعیین کروتاکہ ان کومعلوم رہے،(فتح الباری :۷/۲۶۸)بعض تاریخی روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابوموسی اشعری ؓ جویمن کے گورنرتھے نے حضرت عمرفاروق ؓکولکھاکہ ہمارے نام آپ کی طرف سے ایسی دستاویزات آتی ہیں جن پرتاریخیں درج نہیں ہوتی ہیں،حضرت عمرؓنے صحابہ کرام کوجمع کیا،اوران سے مشورہ طلب کیا،بعض صحابہ ؓنے یہ رائے دی کہ بعثت سے سن کاآغازہو،بعض صحابہ کرام ؓنے کہا:ہجرت حق اورباطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے ،لہذااسی سے تاریخ کاآغازکیا جائے،جب واقعہ ہجرت سے اسلامی سال کاآغازکرنے پراتفاق ہوگیاتوتعیین ماہ پرمشاورت ہوئی،کسی نے کہاکہ ماہ رجب سے اسلامی سال کاآغازکیا جائے،بعض حضرات نے رمضان المبارک سے سال کاآغازکرنے کی تجویزپیش کی ،حضرت عثمان غنی ؓنے فرمایاکہ محرم سے سال کی ابتداکی جائے،کیوں کہ وہ محترم مہینہ ہے،اسی مہینے میں لوگ سفرحج سے واپس ہوتے ہیں،حضرت عمرفاروق ؓ اوردیگراکابرصحابہ نے اس بات پراتفاق کرلیا،اورماہ محرم سال کاپہلامہینہ قرارپایا،حالاں کہ آپ ﷺ نے ۲۷/صفرکومکہ سے ہجرت فرمایا،بعض حضرات نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ جودراصل واقعۂ ہجرت کی تمہیداوراس کامقدمہ ہے ماہ ذی الحجہ میں پیش آئی،اس مہینے کے بعدپہلاچاندمحرم ہی کانظرآیا،اوراسی مہینے میں سرکاردوعالم ﷺ نے نہجرت کاارادہ فرمالیاتھا۔
واقعہ ٔ ہجرت میں امت مسلمہ کے لئے بہت سے سبق آموزاورعبرت آموزپہلوہیں،سال نوکے موقع پران کااستحضارکرنااوران کواپنی عملی زندگی میں برتناازحدضروری ہے،مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے قبل مسلمانوں کے جودگرگوں حالات تھے ان پرایک نظردوڑائیے !قیدوبندکی صعوبتیں،آہ وکراہ اوردردوالم کی حکایتیں،خاک وخون کے فسانے ،سلسلہ وارمصیبتوں کاہجوم ،ستم گاریو ں کاتلاطم یہ وہ نمایاں نقوش ہیں جن سے تیرہ سالہ مکی زندگی کامرقع تیارہوتاہے،لیکن کیامسلمانوں نے طاغوتی طاقتوں کے سامنے ہتھیارڈال دئیے ؟ کیاصحابہ کرام ؓنے حالات سے مجبورہوکرشکست اورذلت وناکامی کوگلے لگالیا؟کیافرزندان توحید نے بتان آزری کے علمبرداروں کے سامنے اطاعت وفرماں برداری ،تسلیم ورضااورخودسپردگی کانمونہ پیش کیا؟نہیں اورہرگزنہیں!بلکہ وہ خوفناک اورجاں گسل حالات میںحق پرثابت قدم رہے،اوران کے پائے ایمان میں ذرابرابرلغزش نہیں آئی،کفارمکہ کی مسلسل چیرہ دستیوں اورظالمانہ کاروائیوں سے ان کے دلوں میں ایمان ویقین کی دبی ہوئی چنگاری فرو کیاہوتی؛بلکہ شعلہ جوالہ بن گئی ،تیزوتندآندھی اورخوفناک تھپیڑوں سے ان کاسفینہ عمل ڈوبانہیں ؛بلکہ مسلسل اپنے منزل مقصود کی جانب محوسفررہا،مشرکین مکہ کے بیش بہاانعامات اورپرکشش ترغیبات نے انہیں متاثرنہیں کیا ؛بلکہ انہوںنے حقارت سے ٹھکراکرسیم وزرکے پرستاروںکوحیرت زدہ کردیا،دشمنان اسلام کے تیروتفنگ اورشمشیروسنان سے گوان کے جسم چھلنی اورلہولہان ہوگئے ؛لیکن انہوں نے اپنے دین وایمان پرکسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی ،حق کی سربلندی کی خاطرانہوں نے جان کانذرانہ توپیش کردیا؛لیکن باطل کے سامنے جھکناانہوں نے لمحہ بھرکے لئے گوارانہیں کیا۔کیا دنیا دین وحق کی خاطر ایسی قربانی ،جگرکاوی ،جان نثاری ،وفاشعاری کی مثال پیش کرسکتی ہے ؟کیاکسی مذہب کے پیروکاریہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے دین کے لئے ایسے فدائیانہ کارنامے اورسرفروشانہ کوششیں کی ہیں ؟جب صحابہ کرامؓ خدائی امتحان میں کھرے اترے،اورابتلاء وآزمائش کی چقماق نے ان کوایمان ویقین کوفولادکی طرح سخت اورمضبوط بنادیا،آتش وآہن کی بارش نے ان کے ارادے کوصلابت وکرختگی اوران کے حوصلوں کوطاقت وقوت دی ،تواللہ تبارک وتعالی نے ان کو ہجرت کے چندسالوں کے بعد دنیاکی امامت وقیادت عطاکی ،اورپوری دنیاان کے سامنے سرنگوں ہوگئی ،شاہان عجم کے تاج زرنگاراوران کے ہیرے جواہرات صحابہ کرام ؓ کے قدموں میں آگئے،قیصروکسری کے دربارکی چمک دمک ان خرقہ پوشوں کے رعب ودبدبہ سے ماندپڑگئی،بزم کافری کے نقیب ان سادہ لوح مسلمانوں کے نام سے تھرانے اورکانپنے لگے،اورپوری دنیا پرمسلمان چھاگئے اورسارے عالم میں ان کومرجعیت عام اورمقتدایانہ حیثیت حاصل ہوگئی ۔
آج عالمی سطح پرمسلمانوں کے احوال کاجائزہ لیاجائے توکم وبیش مکی زندگی کانقشہ نظرآتاہے،فلسطین میں معصوم بچوں کاخون بہایاجارہاہے ،عورتوں پردست درازی کی جارہی ہے،بوڑھوں اورکمزوروں کو ستایاجارہاہے ،نوجوانون کو پابہ زنجیرپس دیوارزنداں کیا جارہاہے،آتش وآہن کی بارش سے وہاں کی فلک بوس عمارتوں کوپیوندخاک کیا جارہاہے ،غزہ پٹی میں محصورمسلمان علاج ومعالجہ اوردیگربنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، اورسخت قیدوبندکی زندگی گزاررہے ہیں،مسجداقصی… جومسلمانوں کاقبلۂ اول ہے اورانبیاء ورسل کامسکن ومدفن ہے، جہاں ملائکہ مقربین بھی عقیدت واحترام میں آہستہ پرمارتے تھے ،جہاںکبھی تکبیروتہلیل اورتسبیح وتحمید کے روح پرورزمزمے گونجتے تھے ، اورجس کی فرش پر مقدس ہستیاں سجدہ ریز ہوتے تھے … آج اس میں دھتکاری یہودی قوم کے منحوس فوجیوں کے غلیظ اوربدبودارنعرے تعفن پھیلاتے ہیں،یہود بے بہبودکے قدم انبیاء ورسل کے نقش ہائے پاکو روندرہے ہیں ،آج یہ بابرکت مسجد اپنوں کی بے گانگی اوربے رخی پر ماتم کناں ہے،وہاں کے درودیوار صہیونیوں کے دلدوزمظالم پرنوحہ کناں ہیں،وہاں کے منبر ومحراب مسلمانوں کی بے بسی اورلاچاری پر مرثیہ خواں ہیں،اورعالم اسلام کے سربراہوں کی مجرمانہ خاموشی پرشکوہ سنج ہیں،کچھ یہی حال برماکے مسلمانوں کابھی ہے،وہاںبدھسٹوں کی طرف سے مسلمانوں کاقتل عام کیاجارہاہے،مسلمانوں کی شہریت منسوخ کرکے ان کوجلاوطن ہونے پرمجبورکیا جارہاہے،وہاں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوںجیساسلوک کیاجاتاہے،اگرکوئی مسلمان گھربناناچاہے یاشادی کرناچاہے توسرکاری ادارے سے باقاعدہ اجازت لیناضروری ہے،ان سنگین حالات سے مجبوراورپریشان ہوکرلاکھوں مسلمان برماسے ہجرت کرکے دوسرے ممالک کارخ کررہے ہیں،اوران کاکوئی پرسان حال نہیں ہے،ہندوستانی مسلمانوں کاحال بھی کچھ حوصلہ افزااورقابل اطمینان نہیں ہے ،یہاں دشمنان اسلام اورفرقہ پرست طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کوزک پہونچانے کے لئے متحد ہوگئیں ہیں ، اسلامی تہذیب وثقافت سے میل نہ کھانے والی چیزوں کو مسلمانوں پر زبردستی تھوپاجارہاہے ،یوگا، سوریہ نمسکار جیسی خالص ہندوانہ تہذیب کو اختیارکرنے کے لئے مسلمانوں کو مجبور کیا جارہاہے ، گھر واپسی جیسے دل آزارنعروں کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہب کو بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،گائو ذبیحہ پر بابندی عائدکی جاچکی ہے ،بے قصور مسلم نوجوانوں کوبے جاالزامات لگاکرپس دیوارزنداں کیا جارہاہے ،مسلمانوں سے رائے دہندگی کا حق چھیننے کی سازش کی جارہی ہے ، چہارسو مسلم دشمنی کا بیج بویاجارہاہے ۔
واقعۂ ہجرت… جس کواسلامی تقویم کانقطۂ آغازقراردیاگیاہے … عصرحاضرمیں زخم خوردہ امت مسلمہ کے لئے تریاق اورمرہم کی حیثیت رکھتاہے،واقعۂ ہجرت مظلوم اورستائے ہوئے مسلمانوں کے لئے امیدکی کرن ہے،ہرسوچھائی ہوئی تاریکی میں صبح نوکی بشارت ہے ، واقعۂ ہجرت میں مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ دشمنان اسلام کی طرف سے پیداکردہ مشکلات سے مایوس اورناامیدہونے کی ضرورت نہیں ہے،دشمنان اسلام شمع اسلام کوبجھانے کی لاکھ کوششیں کرلیں اسلام ہمیشہ سربلندرہے گا،یہ لوگ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف لاکھ سازشوںکے جال بن لیںوہ اسلام اورمسلمانوں کابال بیکانہیں کرسکتے ،لیکن ایسے جاں گسل اورمہیب دورمیں یہ ضروری ہے کہ مسلمان خدائے وحدہ لاشریک لہ سے اپناتعلق مضبوط کریں ،اپنے قیمتی سرمایہ ایمان وتوحیدکی حفاظت کریں،قرآن وسنت کی تعلیمات وہدایات کومضبوطی سے تھامیں، اعمال صالحہ :نماز ، روزہ ،زکاۃ وغیرہ کی ادائیگی میں سستی وسہل انگاری کامظاہرہ نہ کریں،اپنے اخلاق وکردارکے بام ودرکوگلشن سیرت کے عطربیزپھولوں سے مہکائیں،اپنی اوراپنے اولادکی زندگی کوشریعت کے رنگ میں رنگنے کامضبوط عزم کریں،غیرمسلموں میںدعوت دین اوراشاعت اسلام… جوامت محمدیہ کاامتیازہے،اورکامیابی وکامرانی کی شاہ کلیدہے… کرنے کاپختہ ارادہ کریں، حکمران طبقہ سے دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ خداکے لئے اپنے ذاتی مفادات کے خول سے باہرآئیں،عیش کوشی اورلذت پسندی کوچھوڑکرفلطسینی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کریں، اگرمسلمان ان باتوں پرعمل کرنے کے لئے تیارہوتے ہیں توان شا ء اللہ ہرسوچھائی ہوئی ذلت ونکبت دورہوگی،اوراس طرح مسلمان اپنے کھوئے ہوئے وقارکوبحال کرسکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×