اسلامیات

فارغین مدارس اورمستقبل کی منصوبہ بندی

ہر سال طلبۂ علوم اسلامیہ کی ایک کثیر تعداد مدارس دینیہ سے فارغ ہوکر نکلتی ہے ،جن کے اندر آٹھ نو سال کے طویل عرصہ میں علوم دی خاصی استعداد پیدا ہوچکی ہوتی ہے اور ان پر ’’مولوی‘‘کا لیبل لگ جاتا ہے ،فراغت کے بعد ان کی سب سے بڑی ذمہ داری مستقبل کے لئے لائحہ عمل طے کرنا ہوتا ہے ،چنانچہ ان کے سامنے مختلف شعبے ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک کو وہ اپنی عملی زندگی کے لئے منتخب کرتے ہیں ،اور اسی میں وہ اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں کو مبذول کردیتے ہیں ، عموما فارغین مدارس مندرجہ ذیل تین میدانوں میںسے کسی ایک میدان کو ترجیح دیتے ہیں :

۱) شعبۂ تدریس : فارغین کی ایک جماعت تعلیم وتدریس کی راہ پر چل پڑتی ہے ،اور ماضی میں جو سرمایہ انہوں نے اکٹھا کیا اپنے شاگردوں کو اس سے مستفیض کرتی ہے ، اور میراث نبوی کو اس کے حقدار تک پہونچاتی ہے ،اگر یہ جماعت طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے کے بجائے مکمل محنت وتن دہی کے ساتھ تدریس میں مشغول رہتی ہے ،اور طلبہ کی استعداد کے لئے حتی المقدور سعی پیہم کرتی ہے ،تو یقینا یہ جماعت قابل مبارک باداور لائق تحسین ہے ،فطوبی لہم۔
اس جماعت کے کچھ افراد تدریس کے مطلوبہ معیار پر کھرے نہیں اترتے ،اور ان کے اندر جو صلاحیت ہونی چاہئے اس سے وہ عاری ہوتے ہیں ،تو ایسے افراد کو مایوسی اور احساس کمتری کا اسیر ہونے کے بجائے اپنی کمزوری کے خاتمہ کی جانب توجہ دینی چاہئے ، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبنددوران درس فرماتے تھے کہ اگر تمہیں فنون پر اچھی دست رس نہ ہو تو پہلے ایک فن کو منتخب کرو ،دیگر فنون کی کتابیں شروحات کی مدد سے پڑھادو ،اور اس منتخب فن کی جو معتبر کتب ہیں ان کا بالاستیعاب مطالعہ کرو ،تاآں کہ تمہیں اس میں مہارت حاصل ہوجائے ،پھر دوسرے فن کا انتخاب کرو ، اس طرح سے تمہاری وصلاحیت پختہ ہوجائے گی ۔
۲) عصری تعلیم : فارغین کی ایک جماعت اپنی عنان توجہ عصری علوم کی جانب مرکوز کرتی ہے ،عموما تین قسم کے افراد اس جانب متوجہ ہوتے ہیں :
الف : وہ افراد جن کے قلوب میں علوم دینیہ کی قدر نہیں ہوتی ،علوم عصریہ کے بالمقابل وہ ان کو حقیر گردانتے ہیں ،اسکول وکالج کے طلبہ سے مرعوب نظر آتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ،ایسے افراد موجود ہیں ؛اگرچہ کہ قلیل تعداد میں ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ احساس محرومی صرف ان کے مرعوب اور بیمار زدہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے ؛کیوں کہ علمائے دین ان علوم کے حامل ہوتے ہیں جن کا دار ومدار وحی الہی اور تعلیمات خداوندی پر ہوتا ہے ،وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ راہ رشد و ہدایت کے راہ رو بھی ہوتے ہیں اور رہبر بھی ، ان علوم دینیہ کے امین ہوتے ہیں جن کا سرچشمہ وحی ہوتا ہے جن میں کبھی تبدل وتغیر نہیں ہوتا ، جب کہ سائنس دانوں کے علوم کا سرچشمہ عقل ہے ،جس کی بناء پر آئے دن ان کی تحقیقات بدلتی رہتی ہیں ،میرا مقصد علوم عصریہ کی اہمیت گھٹانا نہیں ہے ؛بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ بہر حال علوم دینیہ کو علوم عصریہ پر افضلیت وفوقیت ہے ،اس کے باوجود کچھ افراد کا اس کے برعکس خیال رکھنا یہ ان کی حقیقت سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا ۔
ب: وہ افراد جو کسب زر کے لئے علوم حاصل کرتے ہیں ؛چوں کہ مدرسین کی تن خواہ قلیل ہوتی ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ علوم عصریہ میں مہارت حاصل کرکے خوب سے خوب کمائیں ،اور پر تعیش زندگی گزاریں ،ایسے افراد کی خدمت میں چند مخلصانہ گزارشات پیش ہیں :
۱۔ ایک عالم کو ذات باری پر مکمل توکل واعتماد ہونا چاہیے ،اس بات پر مکمل یقین کامل ہونا چاہیے کہ تقدیر انسان میں جتنی روزی لکھ دی گئی ہے اتنی ہی ملے گی ، اور مل کر رہے گی ،نیز عام طور پر مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ مولوی کی قلیل تن خواہ میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ اس کی تمام ضروریات پوری ہوجاتی ہیں ،جب کہ عصری تعلیم یافتہ شخص خطیر مشاہرہ حاصل کرکے بھی پریشانیوں اور جھمیلوں میں گھرارہتا ہے ،مولوی کبھی دست سوال دراز نہیں کرتا ،جب کہ کالج کے اشخاص بے روزگار بیٹھے نظر آتے ہیں ۔
۲۔ ذمہ داران مدارس کو اساتذہ کی تن خواہوں میں اضافہ کی جانب توجہ دینی چاہیے ، احوال زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے مقدار مشاہرہ کی تعیین کرنی چاہیے ، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبندفرماتے تھے کہ تن کے معنی ہیں: بدن ،اس کے اندر خود انسان اور جن کا وہ کفیل ہے سب شامل ہیں ،خواہ کے معنی ہیں: چاہنا،یعنی انسان کی جو حوائج وضروریات ہیں ،تو تن خواہ کا لفظ ہی اس کا مقتضی ہے کہ اس کی مقدار اتنی ہو جس میں انسان اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحت افراد کی ضروریات زندگی پوری کرسکے ، دار العلوم دیوبند نے اس سلسلہ میں تمام مدار س کے لئے نمونہ قائم کیا ہے ، چنانچہ اساتذہ کی تن خواہیں حالات زمانہ کے مطابق ہیں ؛ مگر اہل مدارس اس نمونہ پر عمل نہیں کرتے ۔
۳۔ فارغین کی علوم عصریہ کی تحصیل کے پس منظر میں جو حصول دولت کی نیت کارفرما ہے وہ بالکل غیر درست اور نا مناسب ہے ؛ کیوں کہ اس صورت میں دنیا مقصوداصلی بن جاتی ہے،اور انسان مادی طور پر عروج کی منزلیں طے کرتا ہوا دینی اعتبارسے ایک عمیق غار میں جاگرتا ہے ،اور یہ خدائی فرمان کے عین مخالف ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وماخلقت الجن والانس الالیعبدون(الذاریات :۵۶) اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا اور کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کرسکیں ۔
۳۔ فارغین کی ایک جماعت عصری علوم سے واقفیت اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر حاصل کرتی ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں ، آج کل اہل باطل کی جانب سے انگریزی زبان میں جو اسلام مخالف مواد مسلسل اشاعت پذیر ہورہے ہیں ان کا وہ علی وجہ البصیرت جواب دے سکیں ،امت مسلمہ کی نئی نسل کالجس کے مخرب دین فضاؤں میں پروان چڑھی ہے ان کے اشکالات کو دور کرکے دین کی صحیح تصویر سے ان کو روشناس کرسکیں اور دعوت دین کی اہم ذمہ داری بخوبی انجام دے سکیں ، اگر ان مقاصد کے پیش نظر کوئی عصری علوم سے واقفیت حاصل کرتا ہے تو اس کا جذبہ نہایت قابل قدر ہے ،اور آج اس میدان میں جو خلا محسوس ہورہا ہے امید کہ وہ ان خوش نصیب افراد سے پر ہوسکے گا ،اللہ تبارک وتعالی ان کو اس مقصد میں کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرے اور استقامت نصیب فرمائے ۔آمین
ان طلبہ کے لئے موجودہ زمانہ میں بطور آئیڈیل ہم سابق چیف جسٹس پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اور عمدۃ الاصفیاء پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی لازالت فیوضہ کی مثال دے سکتے ہیں ،عصری علوم سے واقفیت کی بنا پر ان کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے ،اور انہوں نے اسلام کے لئے گراں قدر کارہائے نمایا ں انجام دئے ہیں ، یقینا فارغین ان کے نقش قدم پر چل کر ملت کے لئے سرمایۂ افتخار بنیں گے ،اللہ فارغین کو اسی مقصد سے علوم عصریہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
۳)تجارت یا دیگر دنیوی مصروفیات : فارغین کی ایک جماعت میدان تجارت کو اپنا محور بنالیتی ہے ،اور گزشتہ سالوں کی تمام تعلیمی سرگرمیوں سے اپنا رشتہ توڑکر تجارت ہی کو اپنا مستقل پیشہ بنالیتی ہے ،اس طرح سے وہ اپنی آٹھ نو سالہ تمام جد وجہد کو ناکام بنادیتی ہے ، اور ان کی ذات سے امت کو جو امیدیںوابستہ ہیں اس پر پانی پھیردیتی ہے ، میں یہاں پر حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبندکی تقریر کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،آپ فرماتے ہیں :
مجھے مولانا آزاد کی وہ بات بہت پسند آئی جو دوران گفتگو شاید مولانا اخلاق حسین صاحب نے فرمائی تھی-لوگ مولانا کی بات کی حقیقت نہیں سمجھے -حضرت مولانا نے یہ مشورہ دیا تھا لڑکوں کو کہ اللہ کے بندو!دین کو مقصود بناکر پڑھو ،ذریعہ بناکر نہ پڑھو ،آج ہمارے مدارس عربیہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے جو ہمیں کھلتی ہے ،جو ہمارے نتیجوں کو ختم کردیتی ہے ،ہماری محنتوں پر پانی پھیردیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ دین کو مقصود بناکر نہیں پڑھتے ہیں ،ذریعہ بناکر پڑھتے ہیں ،اگر وہ مقصود بناکر دین کو پڑھے تو وہ فارغ ہوکر اس دین کو چھوڑکر کسی اور دھندے میں نہیں لگ جائے گا ،کاروبار،کھیتی ،تجارت میں لگ گیا ! یہ نہیں کرے گا ،کیوں لگ گیا دوسری جگہ ؟ اس لئے کہ دین کو مقصود بناکر نہیں پڑھا ،اور اگر دینی تعلیم میں لگا تو کتنے دن لگا ؟پانچ سال!اور بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تو دس سال !اور دس سال ہوتے ہوتے آدمی کو کمانے کی راہیں نظر آنے لگتی ہیں ،جب اور راہیں اسے نظر آنے لگیں تو پڑھنا چھوڑدیا ،اس میں لگ گیا ،تو آٹھ سال ہم نے محنت کی اور پانچ دس سال اس نے محنت کی ، اور پھر وہ سب چھوڑکر دوسری لائن میں لگ گیا تو اس نے دین کو مقصود بناکر کہاں پڑھا ۔(عربی اسلامی مدارس کا نصاب ونظام تعلیم اور عصری تقاضے ، ص:۴۳،۴۴)
موجودہ دور کے دانش وران اور روشن خیال افراد کا خیال ہے کہ فارغین مدارس کو علوم عصریہ کی جانب اس لئے توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ بھی ڈاکٹر ،انجینئر ، سائنس دان بنیں اور سرکاری ملازمت حاصل کریں او ر وہ خود کفیل ہوجائیں ،امت کے چندوں پر نہ پلیں ،میری ناقص رائے میں ان کا یہ خیال بہتر نہیں ہے ؛کیوں کہ اگر اسکول و کالج اور مدارس دونوں سے تعلیم پانے والے اسی لائن میں لگ جائیں تو پھر تفقہ فی الدین کے لئے کون اپنی زندگی وقف کرے گا ؟خدمت دین کون انجام دے گا ؟ اور امت کی دینی وشرعی رہبری کا فریضہ کس کے کندھوں پر ہوگا؟مندرجہ ذیل قرآنی حکم کا مصداق کون بنے گا؟
فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذارجعواالیہم لعلہم یحذرون(التوبۃ:۱۲۲) لہذا ایسا کیوں نہ ہوکہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لئے )نکلا کرے ؛تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں وہ)دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے محنت کریں ،اور جب ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں )ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو متنبہ کریں ،تاکہ وہ گناہوں سے بچ کر رہیں ۔
پھر یہ مشورہ خواہ کتنی ہی نیک نیتی اور خیرخواہانہ ومخلصانہ جذبہ کے تحت دیا گیا ہو ؛مگر تجربہ ومشاہدہ اس کے خلاف ہے ،چنانچہ جو طلبہ علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد عصری علوم کے حصول میں لگ جاتے ہیں وہ نہ اسلامی علوم میں ماہر بن پاتے ہیں اور نہ عصری میدان میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دے پاتے ہیں ، نتیجۃ وہ امت کے لئے ایک ناکارہ عضو ثابت ہوتے ہیں ۔
رہی بات امت کے چندوں پر نہ پلنے کی اور خود کفیل بننے کی تو دنیوی اصول ہے کہ آدمی جن کو اپنی خدمات سے مستفید کرتا ہے ،اور اپنی صلاحیتوں سے نفع پہونچاتا ہے وہ ان ہی سے حق الخدمت وصول کرتا ہے ،چنانچہ ایک ڈاکٹر مریض کا اپنے طبی اصولوں کی روشنی میں علاج ومعالجہ کرتا ہے ،پھر اسی سے اپنے حق کے طور پر فیس وصول کرتا ہے ،ایک انجینئر اپنے علم کو سامنے رکھ کر عمارت کا ایک نقشہ بناتا ہے ،پھر صاحب عمارت سے اپنا حق وصول کرتا ہے ،تو اسی طرح علمائے دین امت کے نونہال بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ،اور امت کے جملہ دینی امور کا بارگراں انہیں کے کندھوں پر ہوتا ہے تو کیا امت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی ہے کہ وہ علماء کو ان کا حق الخدمت دیں ،پس جب علماء اپنا حق الخدمت ہی وصول کررہے ہیں تو اس پر اعتراض کرنا کم عقلی اور بے وقوفی کی بات ہے ۔
اور اگر بالفرض امت کے چندہ سے ضروریات پوری کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے ،اور ایسا کرنے والے بنظر حقارت دیکھے جانے کے مستحق ہیں ،تو پھر علماء سے زیادہ تو فوج اور پولیس حقیر ہونے چاہئیں ؛کیوں کہ وہ بھی تو عوام کے چندوں پر گذر بسر کرتے ہیں ،اور ان کی تن خواہیں علماء کے بالمقابل کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں ، مزید برآں علماء کے لئے امت برضاورغبت چندہ دیتی ہے ،جب کہ فوج کے لئے عوام سے ٹیکس وغیرہ کی صورت میں جو پیسہ وصول کیا جاتا ہے وہ بجبر واکراہ کیاجاتا ہے ،اور عوام اس سے پیچھا چھڑانے کی مختلف تدابیر اختیار کرتی ہے ؛لیکن ان حقائق کے باوجود دانش وران اور تجد د پسند طبقہ کی نظر میں فوج کا جو عظیم مقام ومرتبہ ہے ،اور جس ذلت کی نظر سے وہ علماء کی جانب دیکھتے ہیں یہ ان کی نا انصافی کا عکاس ہے ،جس کو ہم محض تعصب اور اہل دین کی ناقدری سے ہی تعبیر کرسکتے ہیں ۔
لہذا ایسے نام نہاد طبقہ کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ اپنے بے جا مشوروں سے فارغین کے ذہنوں میں غلط افکار وخیالات نہ بھریں ،اور ان کا جو دائرۂ کار ہے انہی میں جو قابل اصلاح امور ہیں اس کی جانب توجہ دیں ، نیز فارغین مدارس بھی اپنی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی قدر ومنزلت سے واقف ہوکر اپنی عملی زندگی کے رخ کا تعین کریں ، اور مستقبل کو برباد کرنے کے بجائے جو امانت اکابرین کے واسطہ سے ان کے سینہ میں منتقل ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کریں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×