اسلامیات

نفرت کا علاج(۲)

(۶) اگر آپ کا کوئی غیر مسلم دوست، آفس کا ساتھی، یا متعارف شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کیجئے، بیمار کی عیادت کرنے کی بڑی فضیلت ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بیمار کی عیادت کرتا ہے، گویا وہ جنت میں ہوتا ہے، (مسلم، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث نمبر: ۴۲) اس میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی بنیاد انسانیت پر ہے نہ کہ مسلمان ہونے پر؛ چنانچہ امام محمد بن حسنؒ نے حضرت بریدہؓ سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپﷺ نے فرمایا: تم لوگ ہمارے ساتھ چلو کہ ہم اپنے یہودی پڑوسی کی عیادت کرلیں، رسول اللہﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: اے فلاں شخص ! تم کیسے ہو ؟ اور اس پر تین دفعہ کلمۂ شہادت پیش کیا، تیسری دفعہ میں اس کے والد نے کہا: میرے بیٹے ! تم کلمۂ شہادت پڑھ لو؛ چنانچہ اس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، آپﷺ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ جس نے میری وجہ سے ایک شخص کو دوزخ سے بچالیا، (البنایہ: ۱۲؍۲۴۵، بحوالہ کتاب الآثار) اس مضمون کی روایت بخاری اور ترمذی میں بھی آئی ہے (دیکھئے: بخاری، حدیث نمبر: ۱۲۹۰، ترمذی، حدیث نمبر: ۲۲۴۷) — اس روایت میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس یہودی کے یہاں جانا اصل میں عیادت کے لئے تھا؛ البتہ بطور خیر خواہی کے آپ نے اس پر دعوت اسلام بھی پیش فرمائی۔
یہ حقیقت ہے کہ مریض اپنے ساتھ محبت اور دلداری چاہتا ہے، عام طورپر وہ لوگوں کی توجہ سے محروم ہوجاتا ہے، ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص مزاج پرسی کرے اور اس سے تسلی کی باتیں کہے، تو اس کو بے حد خوشی ہوتی ہے اور اس وقت وہ عیادت کرنے والوں کی بات کو بڑی توجہ اور احسان مندی کے ساتھ سنتا ہے؛ اس لئے اگر اس کے سامنے اسلام کی دعوت رکھی جائے تو وہ اس کو توجہ کے ساتھ سنے گا؛ چنانچہ اوپر جس واقعہ کا ذکر کیا گیا، اس سے رسول اللہ ا کا اُسوہ معلوم ہوا کہ مریض کی عیادت اور مزاج پرسی کو دعوتِ اسلام کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

آج کل عیادت کی ایک اجتماعی شکل یہ ہے کہ ہسپتالوں میں پہنچا جائے، وہاں مریضوں سے ملاقاتیں کی جائیں، حسب گنجائش ان کو پھل، بسکٹ، چائے وغیرہ پیش کی جائے، ان کی جو مدد کی جاسکتی ہے، وہ مہیا کی جائے، جو ہسپتال مسلمان انتظامیہ کے تحت ہو، اس میں غیر مسلم مریضوں کے ساتھ خصوصی حسن سلوک اور رعایت کی کوشش کی جائے اور اس کو اسلام کے تعارف اور دعوتِ دین کا ذریعہ بنایا جائے۔
(۷) جب غیر مسلم بھائیوں کے یہاں کسی کی موت ہوجائے، وہاں آخری مراحل میں شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی مدد کی جائے، جیسے لاش کو ہاسپیٹل سے لانا، اگر ضرورت مند ہو تو پیسوں سے مدد کرنا، یا حسب ضرورت کپڑے وغیرہ فراہم کرنا؛ چنانچہ جب حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ان کی تدفین کے کام کو انجام دیں، (نسائی، عن علیؓ، حدیث نمبر: ۲۰۰۶) اسی طرح بعض صحابہؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ غیر مسلم اہل تعلق کے جنازے میں ساتھ ساتھ گئے، نیز رسول اللہ انے منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُبی کے کفن کے لئے اپنا کرتا عنایت فرمایا؛ چنانچہ علامہ سرخسیؒ فرماتے ہیں:
مسلمان اپنے کافر والد کو جس کا انتقال ہوگیا ہو، اس کو غسل دے اور اس کو دفن کرے؛ کیوںکہ غسل دینا بنی آدم میں سے مرنے والوں کے لئے جاری طریقہ ہے، اور وہ باوجود کافر ہونے کے بہر حال بنو آدم سے ہیں، اسی طرح مسلمان بیٹے کو اپنے والد کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، گو باپ مشرک ہو … اور حسن سلوک کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی موت کے بعد اس کو غسل دینے اور دفن کرنے کا اہتمام کرے۔ (المبسوط: ۲؍۵۰)
البتہ غیر مسلموں کے لئے دُعائے مغفرت، ایصالِ ثواب وغیرہ جائز نہیں؛ کیوں کہ جس شخص کی موت شرک کی حالت میں ہوئی ہو، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دُعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے۔(توبہ: ۱۱۳)

(۸) انسان کے لئے وہ وقت یقیناً بڑے رنج کا ہوتا ہے، جب اس کا کوئی عزیز اور صاحب تعلق دنیا سے رخصت ہوجائے، اسی لئے شریعت میں تعزیت کی اجازت دی گئی ہے، اور خود آپ نے تعزیت فرمائی ہے؛ کیوںکہ ایک انسان جب دوسرے انسان کا غم بانٹتا ہے تو جو شخص متاثر ہونے والا ہے، اس کا غم ہلکا ہوتا ہے، تعزیت کا حکم جیسے مسلمانوں کے لئے ہے، ویسے ہی غیر مسلموں کے لئے بھی ہے، فقہاء نے لکھا ہے:
یہودی یا آتش پرست کے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجائے تو اس کی تعزیت کرنی چاہئے اور تعزیت کے موقع پر کہنا چاہئے: اللہ تم کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے، اور تمہارے حال کو بہتر بنائے، حال کو بہتر فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم کو اسلام سے مشرف فرمائے اور تم کو مسلمان بیٹا عنایت کرے۔ (ردالمحتار: ۶؍۳۲۸)
غرض کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر غیر مسلم بھائیوں کے یہاں کسی کی موت واقع ہوجائے تو تعزیت کریں۔
(۹) اگر اللہ نے آپ کو ایمان کی توفیق عنایت فرمائی اور آپ کے خاندان کے بعض افراد ابھی دائرۂ ایمان میں نہیں آئے ہیں تو ان کے ساتھ صلہ رحمی اور اُس حسن سلوک کا خیال رکھئے، جس کا رشتہ داروں کے حق میں حکم دیا گیا ہے؛ کیوںکہ رشتہ داروں کے حقوق رشتہ کی بنیاد پر ہیں،س نہ کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر، اس لئے وہ پوری طرح اس حسن سلوک کا مستحق ہے؛ چنانچہ بعض حضرات نے جب اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ اس لئے حسن سلوک کرنا چھوڑ دیا کہ وہ ایمان نہیں لائے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے ہدایت کا راستہ اختیار کرنے اور نہ کرنے کی ذمہ داری تم پر نہیں، جو بھی خرچ کروگے، تم کو بہر حال اس کا بھرپور اجر ملے گا: { وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ } (البقرۃ: ۲۷۲)
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کی والدہ ایمان نہیں لائی تھیں، وہ حضرت اسماء کے پاس آئیں، وہ چاہتی تھیں کہ ان کی مدد کی جائے، تو حضرت اسماءؓ نے آپ اسے ان کے بارے میں دریافت کیا، آپ نے فرمایا: ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۷۷) رسول اللہ ااور صحابہ عام طورپر اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے رہتے تھے، اس حسن سلوک کی انتہا اس وقت ہوگئی، جب کہ مکہ فتح ہوا، اہل مکہ سے عام طورپر آپ کی قریب یا دور کی قرابت تھی، جب آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو ؟ تو انھوںنے اپنی اسی قرابت مندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک شریف بھائی ہیں، اور ایک شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپ ا نے جواب دیا، آج تم سب کے سب آزاد ہو۔ (سیرت ابن ہشام: ۲؍۴۱۱، زاد المعاد: ۳؍۳۵۶)

اس لئے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ نہ صرف بہتر سلوک کرنا چاہئے؛ بلکہ ایک درجہ بڑھ کر کرنا چاہئے؛ تاکہ آپ کا یہ عمل ان کے دلوں پر اسلام کی اچھی تصویر نقش کرسکے۔
(۱۰) کچھ سماجی قدریں انسان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضہ ہیں اور ہر مذہب اور مہذب سوسائٹی میں اس کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے، ان ہی میں بڑوں کا احترام، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت اور اس کا لحاظ و خیال بھی شامل ہے، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
لیس منا من لم یرحم صغیرنا ویؤقر کبیرنا۔ (ترمذی، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، حدیث نمبر: ۱۹۲۱)
وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش نہ آئے اور بڑوں کا اکرام نہ کرے۔
یہ بڑے کے ساتھ اکرام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا حکم تمام انسانوں کو شامل ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس لئے چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آپ سے زیادہ عمر کا یا بوڑھا اور عمر رسیدہ کوئی غیر مسلم آپ کے ساتھ ہے تو اس کے احترام کا لحاظ رکھنا آپ پر واجب ہے، اسی طرح اگر آپ کے ساتھ آپ سے کم عمر کا کوئی غیر مسلم ہو یا کوئی غیر مسلم بچہ ہوتو وہ آپ کی بھرپور شفقت کا مستحق ہے، اگر آپ نے اس کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک نہیں رکھا تو آپ نے اس کی حق تلفی کی۔

اسی طرح عورتوں کا احترام اور ان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھنا ہر عورت کا حق ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، قرآن نے اپنی نگاہوں کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے، (سورۂ نور: ۳۰) یہ حکم کسی خاص طبقہ کے خواتین کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ سماج کی تمام عورتوں کے لئے ہے، زنا کی ممانعت کا حکم ہر عورت کے لئے ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اس کو برتا ہے، ایسے بہت سے واقعات آج بھی پیش آتے رہتے ہیں کہ اسلام کے اور انسانیت کے دشمنوں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ زیادتی کی ہے؛ لیکن مسلمانوں نے غیر مسلم خواتین کے ساتھ ردعمل کے طورپر اس عمل کو دہرایا نہیں، یہاں تک کہ آپ ااور آپ کے رفقاء نے عین میدانِ جنگ میں بھی اس کا لحاظ رکھا اور بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع کیا۔
بڑوں اور چھوٹوں کے احترام میں یہ بات داخل ہے کہ ان کو اچھے انداز سے مخاطب کیا جائے، ان کو راحت پہنچانے کی کوشش کی جائے، ان کی جسمانی اور مالی مدد کی جائے، اسی طرح خواتین کے ساتھ بہنوں اور بیٹیوں کا سا سلوک کیا جائے اور ہر ایسی بات سے بچاجائے جو ان کو اندیشہ میں ڈالنے والی ہو۔
(۱۱) سماج میں لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، یہ مسلمانوں کے درمیان بھی ہوتا ہے اور غیر مسلموں کے درمیان بھی اور کبھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بھی، یوں تو ہر صورت میں اللہ تعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے؛ لیکن یہ صورت کہ ایک طرف مسلمان ہو اور دوسری طرف غیر مسلم، انصاف کی آزمائش کا موقع ہوتا ہے، اگر یہ معاملہ کسی مسلمان کے پاس جائے تو اس کا جھکاؤ مسلمان فریق کی طرف ہونے لگتا ہے؛ لیکن شریعت میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے صاف طورپر ارشاد فرمادیا کہ کسی گروہ کا برا ہونا بھی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم ان کے ساتھ ناانصافی کرو: { وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا} (المائدۃ: ۸) رسول اللہ اکے زمانہ میں بھی بعض معاملات مسلم اور غیر مسلم فریقوں کے درمیان جھگڑے کے آئے اور فیصلہ غیر مسلم کے حق میں ہوا، یہاں تک کہ حضرت علیؓ خود خلیفہ ہیں، ان کے مقابلہ میں یہودی فریق ہے؛ لیکن قاضی شریح نے شہادت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے یہودی کے حق میں اور حضرت علیؓکے خلاف فیصلہ کیا۔
ہندوستان میں مختلف جگہ دارالقضاء قائم ہیں اور ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کئی مقامات پر غیر مسلم حضرات مسلمان فریق کے خلاف اپنے مقدمات لائے اور وہ فیصلوں سے مطمئن ہوکر واپس ہوئے، خود اس حقیر کے پاس بھی ایسا معاملہ آیا، میں نے غیر مسلم فریق سے کہا کہ اگر آپ سرکاری عدالت یا پنچایت میں فیصلہ کراتے تو شاید آپ کو زیادہ اطمینان ہوتا، مگر انھوںنے اصرار کے ساتھ کہا کہ میں یہاں سوچ سمجھ کر آیا ہوں، مجھے یقین ہے کہ مجھے یہاں سے سچا فیصلہ ملے گا اور میں جانتا ہوں کہ یہاں کسی کی طرفداری نہیں کی جاتی — لہٰذا اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آپ ایسے کسی معاملہ میں حکم یا گواہ بنائے جائیں تو مسلمان ہونے کی بناپر ہرگز کسی فریق کا ساتھ نہ دیں؛ بلکہ جو بات سچی ہو، وہ کہیں اور جو حق ہو اسی کے مطابق فیصلہ کریں، خواہ یہ فیصلہ مسلم اور غیر مسلم فرد کے درمیان ہو یا مسلم اور غیرمسلم گروہ کے درمیان ہو۔
(۱۲) بہت سے معاملات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیشہ وارانہ اور کاروباری تعلق ہوتا ہے، جیسے ایک آجر ہے، دوسرا مزدور و ملازم، ایک کاریگر ہے اور دوسرا گاہک، ایک استاذ ہے دوسرا شاگرد، ایک ڈرائیور ہے دوسرا سوار، ایسے معاملات کی بنیاد وعدہ پر ہوتی ہے، یعنی معاملہ طے ہوتے وقت، جو ذمہ داریاں متعین ہوئی ہوں، ہر فریق اس کو پورا کرے۔
وعدہ پورا کرنا ہر حال میں واجب ہے، چاہے آپ کا وعدہ کسی مسلمان کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: { اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ } (المائدۃ: ۱) ایک اور موقع پر ارشاد ہوا کہ وعدے پورا کیا کرو؛ کیوں کہ وعدہ کے بارے میں تم جوابدہ ہو: { ۠وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚاِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا} (الاسراء: ۳۴) آپ انے جھوٹ، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور بدزبانی کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ (بخاری، عن عبد اللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۲۴۵۹)
اس لئے جس حیثیت سے بھی آپ کا کوئی معاملہ کسی غیر مسلم بھائی سے طے ہو، اپنی ذمہ داری کو پورا کیجئے، وعدہ خلافی سے، جھوٹ سے اور دھوکہ سے بچئے، کسی مسلمان کے ساتھ جھوٹ اور دھوکہ وغیرہ کا جو گناہ ہے، غیر مسلم کے ساتھ ایسے برتاؤ کا بھی وہی گناہ ہے۔
(۱۳) مذہبی تصورات صحیح ہوں یا غلط اور عقل سے ہم آہنگ ہوں یا عقل کے خلاف، بہر صورت جو لوگ اس مذہب پر یقین رکھتے ہیں، ان کو اس سے جذباتی تعلق ہوتا ہے، اس لئے اگر ان کی مذہبی شخصیات کو برا بھلا کہا جائے تو یہ بڑی دل آزاری کا باعث ہوتا ہے اور پھر اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے، اس لئے غیر مسلم بھائیوں کے مذہبی پیشواؤں پر اہانت آمیز ریمارک سے بچنا چاہئے، خود قرآن مجید میں اس سے منع فرمایا گیا: { وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ} (الانعام: ۱۰۸) اور یہ مصلحت بھی ہے کہ آپ کے اس عمل پر رد عمل پیدا ہوگا، اور لوگ اللہ تعالیٰ پر اور رسول اللہﷺ پر اہانت آمیز ریمارک کریں گے، اس طرح خود آپ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بے احترامی کا سبب بنیں گے؛ چنانچہ مشہور مفسر علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت کا حکم اُمت کے لئے ہر حال میں باقی و قائم ہے: ’’حکمھا باق فی ھذہ الامۃ علی کل حال‘‘ (تفسیر قرطبی: ۷؍۶۲) — اس مسئلہ کا خاص طورپر لحاظ رکھنا چاہئے کہ علمی تنقید تو مہذب الفاظ میں کی جاسکتی ہے؛ لیکن دل آزار اور اہانت آمیز تبصرے نہ جائز ہیں اور نہ مناسب۔
ان نکات کے مطابق اگر ہماری عملی زندگی ہوجائے تو بہت سی ان غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی گھٹائیں چاک ہوسکتی ہیں، جنھیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلایا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×