اسلامیات

مشرکین کو ناپاک کہنا

قرآن مجید میں ایک جگہ شرک کرنے والوں کو ناپاک کہا گیا ہے ، ہمارے بعض ہندو بھائی جو اس کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں ، ان کو اس پر سخت اعتراض ہے ؛ اس لئے ضروری وضاحت کی جاتی ہے ۔
قرآن مجید کی جس آیت میں مشرکین کو ناپاک کہا گیا ہے وہ اس طرح ہے : اے ایمان والو ! بے شک مشرکین (اپنے عقیدہ میں) ناپاک ہیں؛ اس لئے وہ اِس سال کے بعد مسجد ِحرام کے قریب بھی نہ آئیں ، اوراگر تمہیں اِفلاس کا اندیشہ ہوتو اگر اللہ چاہیں تو اپنے فضل سے تم کو عنقریب محتاج نہیں رکھیں گے ، بے شک اللہ خوب جانتے ہیں اوربڑی حکمت والے ہیں۔ (التوبۃ: ۲۸)
اس آیت کے سلسلہ میں چند نکات ملحوظ رکھے جانے چاہئیں  :
(۱)   یہاں مشرک سے صرف بت پرست (مورتی پوجک) مراد نہیں ہیں ، جیسا کہ وی ، ایچ ، پی والے اور ہندو انتہاء پسند اسی کا ترجمہ کرتے ہیں ؛ بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو خدا کی ذات یااس کی مخصوص صفات و اختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہرائیں ، خواہ وہ بت کا پرستار ہو ، یاکسی پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتا ہو ، یا اللہ کے کسی نیک بندہ کو خدا کی قدرت و اختیار میں ساجھے دار سمجھتا ہو ، جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے خدانخواستہ غیر اللہ کو خدا کا درجہ دے رکھا ہو اور رسول اور اولیاءؒ کی ذات میں وہ اختیارات مانتے ہوں ، جو اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ، تووہ بھی مشرک کا مصداق ہیں ۔
(۲)   مشرکین کو ’’ ناپاک ‘‘ کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا جسم ناپاک ہے ، ان کے کپڑے ناپاک ہیں ، یا ان کا جھوٹا ناپاک ہے ، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کی مہمان نوازی کی ہے ، خود ان کی دعوت قبول فرمائی ہے ، مسجد ِنبوی میں ان کو ٹھہرایا ہے ، اپنے بستر پر انھیں بٹھایا اور سلایا ہے ، اگر انھیں جسمانی اعتبار سے ناپاک سمجھا جاتا تو کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا عمل فرماتے ؛ اس لئے یہاں عقیدہ اور فکر کی ناپاکی مراد ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ناپاک عزائم رکھتا ہے ، یا آپ کہتے ہیں کہ فلاں دہشت گردوں کے ناپاک منصوبے ہیں ، یہاں ناپاکی سے عمل اور سوچ کے غلط ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے ، گویا اس آیت میں شرک کے نہایت غلط اور خلافِ واقعہ عمل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
(۳)   اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اثبات اور شرک کی نفی صرف اسلام ہی نے نہیں کی ہے ؛ بلکہ یہ تمام ہی مذاہب کی اصل تعلیمات ہیں ، بائبل میں جگہ جگہ شرک کی مذمت آئی ہے اور ہمارے عیسائی بھائی جو آج تین کے مجموعہ (Trinity)کو خدا مانتے ہیں ، ان کے پاس اس دعویٰ کے لیے بائبل کا کوئی صریح فقرہ موجود نہیں ہے ، اس لئے وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ تین مل کر ایک ہی ہیں، ہندو مذہبی کتابوں میں بھی خدا کے بارے میں بہ تاکید وحدانیت کا ذکر ہے ، شرک کی نفی ہے ، کہا گیا ہے کہ خدا جسم والا نہیں ہے ، وہ تنہا پورے عالم کا احاطہ کئے ہوئے ہے ، اس سلسلہ میں پنڈت دیانند جی سرسوتی نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’ستیا رتھ پرکاش‘‘ میں بت پرستی کی تردید میں ہندو مذہبی کتابوں کے جو حوالے نقل کئے ہیں ، وہ بہت ہی چشم کشا ہیں اور جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ہندو مذہب توحید ہے نہ کہ شرک ، اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے ویدوں کے چند حوالے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں  :
= وہ محیط ، پاک اور جسم سے خالی ہے ۔ (یجروید : ۴۰ : ۸)
= میں افضل ترین قوت و نعمت کا منبع ، سورج کی طرح تمام عالم کو منور کرتا ہوں ، میں نہ کبھی مغلوب ہوتا ہوں اور نہ مرتا ہوں ، یہ تمام عالم جو نعمتوں کا مخزن ہے اس کا خالق میں ہوں ، تم مجھے ہی اس دنیا کا خالق اور مبتدا سمجھو ، اے اہل علم ! تم نعمت وحشمت کے حصول کے لیے کوشاں رہ کر علم و غیرہ نعمتوں کے لئے مجھ ہی سے التجا کرو ، میری رفاقت سے کبھی روگرداں نہ ہو ۔ (رگ وید : ۵ : ۴۸ : ۱۰)
رگ وید ہی کے یہ ارشادات کس قدر بصیرت مندانہ اور عقیدۂ توحید کے بارے میں واضح ہیں  :
اے بنی نوعِ انسان ! میری حقیقی حمد و ثنا راست گوئی ہے ، ایسی حمد کرنے والے انسان کو میں ازلی علوم وغیرہ نعمتیں عطا کرتا ہوں … اس لئے عالم میں جو اشیاء موجود ہیں ، ان کا خالق اور قیوم میں ہوں ، اس لئے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کی عبادت مت کرو اور نہ کسی کو میری جگہ معبود مانو اور جانو ۔ (اتھروید : ۱۰ ؍ ۴۹ : ۱)
پنڈت سرسوتی جی نے کینو پنشد (۱:۶) کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے  :
جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا ؛ بلکہ آنکھ جس کی قدرت سے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ، اسے ہی تم خدا سمجھو ، آنکھ سے دکھلائی جانے والی جن چیزوں کی لوگ عبادت کرتے ہیں ، وہ خدا نہیں ہیں ۔
ہندو مذہب کی اہم معتبر کتابوں کی عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کو ایک ماننا اوراس میں کسی اور کو شریک نہیں ٹھہرانا ہی اصل ہندو دھرم ہے ، تو مشرکوں کو ناپاک کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو ہندو کہے اور اصل مذہب پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو یہودی کہے اوراصل یہودی مذہب پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو عیسائی کہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات پر عمل نہ کرے ، جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اور اس کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہو ، وہ اپنے خیال و عقیدہ کے اعتبار سے ناپاک ہیں ۔
(۴)   جو لوگ کسی دھرم کا نام لیتے ہوں اور اس کی اصل تعلیم پر عمل نہ کرتے ہوں ، ان کو ہر مذہب میں عقیدہ کے بگاڑ کے اعتبار سے خراب نام دیئے گئے ہیں، جن لوگوں نے بائبل کا مطالعہ کیا ہے ، وہ اس سے خوب واقف ہیں کہ اس کتاب میں بہت سے مواقع پر شرک کرنے والے کو کسبی ، فاحشہ ، زانی ، بدکار وغیرہ کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے ، دھرم پر عمل کرنے والوں اورنہ کرنے والوں کے درمیان فرق ہندو مذہب کی کتابوں میں بھی زیادہ سخت لب و لہجہ میں ملتا ہے ’’دسیو‘‘ اور ’’داس‘‘ کے نام سے ہندوستان کے اصل کالے باشندوں کو ویدوں میں یاد کیا جاتا ہے ، جو آریہ لوگوں کے مذہب پر نہیں تھے ، اس قوم کے بارے میں ویدوں کے کلمات ملاحظہ کیجئے  :
= ہمارے گرد وہ دسیو ہیں جن کا کوئی دھرم نہیں ہے ، عقل سے محروم ، انسانیت سے خارج ۔ (رگ وید : ۱۰ : ۲۲ : ۲ : ۸)
= اے بہادر ! تو نے لڑائیوں میں بیل جیسے جبڑے والے داسوں کے جادو ٹونے تک کو مغلوب کرلیا۔(رگوید : ۷ : ۴۹ : ۴)
= تو اپنے ہتھیار سے نکٹے دسیوں کو قتل کرتا ہے ۔ (رگ وید : ۵ : ۲۹ : ۱)
کہیں ان لوگوں کو ’’سیاہ رو‘‘ مخلوق سے تعبیر کیا جاتا ہے ، (رگ وید : ۶ : ۲۱) کہیں انھیں ’’گھن کھائے درخت‘‘ کہا جاتا ہے ، (رگ وید : ۸ : ۴ : ۶) کہیں ’’کالے غولوں‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، (سام وید : ۴ : ۲ : ۴ : ۱۱) ویدوں میں اَدھرمی لوگوں کے لئے حریص راکشش اور خبیث دشمن وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں ۔
اب انصاف کی نظر سے دیکھا جائے کہ قرآن نے تو ایک جگہ مشرکین کو ناپاک کہا ہے ؛ لیکن ویدیں اس مذہب کے مخالفین کو خبیث ، بیل جیسے جبڑے والے ، نکٹے ، سیاہ رو ، عقل سے محروم ، انسانیت سے خارج ، بدذات ، پاپی ، حریص ، راکشش وغیرہ کے الفاظ بے تکلف کہتی ہیں ؛ بلکہ اتھر وید میں آدھرمی لوگوں کے لیے بعینہٖ ’’ناپاک‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے  :
یا تو دھانوں کے دلوں کو تیر سے چھید ڈال اور ان کے بازوؤں کو جو تجھ پر حملہ کرنے کے لئے اٹھیں ، توڑدے ، ان شیطانوں کے سامنے بھڑک کر اے اگنی ! انھیں مار گرا ، مردار خوار چتکبرے گدھ اسے کھائیں ، اس’’ پلید‘‘ کو آدمیوں میں سے آدم خور کی طرح تاک کر اس کے تینوں اوپر کے اعضاء کو توڑ ڈال ۔ (اتھروید : ۸ : ۳ : ۶ – ۷ – ۱۰)
(۵)  یہ تو وہ القاب ہیں جو اَدھرمی لوگوں کو دیئے گئے ہیں ؛ لیکن منوجی کی تعلیمات میں عقیدۂ و فکر کی بنیاد پر نہیں ؛ بلکہ نسل و خاندان کی بنیاد پر شودروں کو نہایت ذلیل و حقیر القاب دیئے گئے ہیں اور ان کے بارے میں وہ احکام دیئے گئے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شودر جسمانی طور پر پیشاب ، پائخانہ کی طرح ناپاک اور قابل اجتناب ہیں ، اس سلسلہ میں میں ہندو مآخذ میں اتنا کچھ ہے کہ اگر ان سب کو نقل کیا جائے تو ایک رسالہ بھی ناکافی ہے ، چند نمونے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں  :
= ہاتھی ، گھوڑے ، شودر قابل نفرت ملیچھ لوگ ، شیر ، تیندوے اور سور (پنر جنم کے) وہ ادنیٰ درجے ہیں ، جوتاریکی سے حاصل ہوتے ہیں۔ (منوسمرتی : ۴۳ : ۱۲)
= شودر کا کھانا نہ کھائے ۔(منوسمرتی : ۲۱۱ : ۴)
 = شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے نرک (دوزخ) میں چلاجاتا ہے ۔ (منوسمرتی ۱۷ : ۳)
= اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک اُپاس کرے (بھوکا رہے) ، اور اگر جان بوجھ کر کھالے تو اس کا کفارہ وہی ادا کرے جو حیض ، پائخانہ ، یاپیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے۔(منوسمرتی : ۳۲۲ : ۴)
= غذا سور کی بدبو سے ، کتے کی نظر سے اور شودر کے چھونے سے گندی ہوجاتی  ہے ۔ (منوسمرتی : ۲۹۱ : ۳)
ان تصریحات سے جو نہ صرف منوشاستر میں ہیں ؛ بلکہ ایسی بعض عبارتیں خود ویدوں میں بھی موجود ہیں ، اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ہندو مذہب کے موجودہ مآخذ کی روایت کے مطابق کس نظر سے دیکھا گیا ہے ؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×