سیرت و تاریخ
اخلاق نبوی ﷺ کی چند جھلکیاں (۲)
آپ ﷺہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین فرماتے تھے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے ، عرب کا ایک معزز قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت چوری میں پکڑی گئی ، لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے ، آپ کے پروردہ اور محبوب حضرت اسامہ بن زید ؓنے سفارش کی ، آپ ﷺ نے اس سفارش پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اس خاتون پر سزا جاری فرمائی ، (صحیح بخاری ، کتاب أحادیث الأنبیاء ، باب حدیث الفار ، حدیث نمبر : ۳۴۷۵)حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ربیعہ بنت نضرنے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا ، ان لوگوں نے قصاص کامطالبہ کیا ، ربیعہ کے لوگوں نے دوسرے فریق سے معافی کی درخواست کی ، جسے ان لوگوں نے قبول نہیں کیا ، اب دونوں فریق بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے ، حضور ﷺ نے قصاص جاری کرنے کا حکم فرمایا ، ان کے بھائی انس بن نضر نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ربیعہ کا دانت توڑ دیا جائے گا ؟ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا ، آپ ﷺنے فرمایا : قصاص اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے ؛ چنانچہ دوسرے فریق راضی ہوگئے ، اور انھوں نے معاف کردیا ، آپ نے فرمایا : اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمادیتے ہیں ۔ ( بخاری ، عن انس ، حدیث نمبر : ۳۷۰۳ ، باب الصلح فی الدین)
حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کے اصرار پر ان کے والد نے ان کو کچھ ہبہ کرنا چاہا ، جب وہ اس کے لئے تیار ہوگئے تو انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر حضور ﷺکو گواہ بنایا جائے ؛ چنانچہ یہ دونوں حضرات اپنے صاحبزادہ نعمان کو لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو گواہ بنانا چاہا ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت بشیرؓ سے پوچھا : کیا اس کے علاوہ تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : ہاں ، آپ ﷺنے فرمایا : کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ہبہ کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : نہیں ، آپ نے فرمایا : پھر تو میں اس پر گواہ نہیں بن سکتا ؛ کیوںکہ میں ایسے کام پر گواہ نہیں بن سکتا جو ظلم پر مبنی ہو ۔ ( مسلم عن نعمان بن بشیرؓ ، حدیث نمبر : ۱۶۲۳)
جیسے آپ اولاد کے درمیان انصاف اور برابری کا حکم دیتے تھے ، اسی طرح بیویوں کے درمیان بھی عدل کا پورا لحاظ فرماتے تھے ، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺہم میں سے ایک کو دوسرے پر باری کے معاملہ میں ترجیح نہیں دیتے تھے ، روزانہ تمام ازواج سے ملاقات فرماتے تھے ؛ لیکن جن کی باری ہوتی تھی ، ان ہی کے پاس شب گزارتے تھے : ’’ حتی یبلغ إلی التی ھو یومھا فیبیت‘‘ ۔ (سنن ابی دادؤ ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۲۱۳۵)جب آپ ﷺسفر میں تشریف لے جاتے اور کسی زوجہ مطہرہ کو ساتھ لے جانا ہوتا تو اپنے طورپر انتخاب نہیں فرماتے ؛ بلکہ قرعہ اندازی کرتے اور جن کا نام نکل آیا ، ان کو ساتھ لے جاتے ۔ (بخاری ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۵۲۱۱)اس درجہ عدل و انصاف کے باوجود حضرت عائشہؓ کی طرف آپ کا قلبی رجحان تھا تو فرماتے تھے کہ اے اللہ ! جو چیز میرے اختیار میں ہے ، اس میں تو میں عادلانہ تقسیم کررہا ہوں ؛ لیکن جس چیز کے آپ مالک ہیں ، میں مالک نہیں ہوں ، یعنی : قلبی رجحان ، اس میں ہماری پکڑ نہ فرمائیں : ’’ فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک‘‘ ۔ (ابوداؤد ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۲۱۳۴)
اگر کوئی شخص قاضی یا حَکم ہو تو اس کے لئے آپ نے خاص طورپر عدل کی تاکید فرمائی ، آپ نے فرمایا : قاضی تین قسم کے ہیں : ایک جنت میں جائیں گے اور دو دوزخ میں ، جس نے مقدمہ میں یہ بات سمجھ لی کہ کون حق پر ہے ؟ اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں جائے گا ، اور جس نے حق اور ناحق کو سمجھ لیا پھر بھی غلط فیصلہ کیا ، یا اس میں حق و ناحق کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور جہالت کے باوجود فیصلہ کردیا تو ان دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ (ابوداؤد ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۳۵۵۲)؛اسی لئے آپ ﷺکی ہدایت تھی کہ جب تک دونوں فریق کی بات نہ سن لی جائے ، اس وقت تک فیصلہ نہ کیا جائے ۔ ( مستدرک حاکم عن علیؓ : ۴؍۹۳)آپ ﷺکا طریقہ تھا کہ جب بھی کسی مقدمہ کا فیصلہ فرماتے تو دونوں فریق کو برابری میں سامنے بیٹھاتے : ’’ إن الخصیمن یقعدان بین یدی الحکم‘‘ ۔ (ابوداؤد ، عن عبد اللہ بن زبیرؓ ، حدیث نمبر : ۳۵۸۸)
معاملات میں بھی آپ اس کا پورا خیال رکھتے تھے ، آپ کے ذمہ اگر کسی کا دین باقی ہوتا تو پورا پورا بلکہ بڑھ کر ادا فرماتے ، ایک دفعہ ایک صاحب کی اونٹنی آپ کے ذمہ دَین تھی ، آپ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا : جو اونٹنیاں آئی ہیں ، ان میں سے اسی معیار کی اونٹنی دے دیں ، حضرت بلالؓ نے عرض کیا : تمام اونٹنیاں اُس سے بہتر ہیں ، جو آپ کے ذمہ میں باقی ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : اسی میں سے دے دو ، یہ حسن ادائیگی کا تقاضہ ہے ۔ (مصنف عبد الرزاق ، کتاب البیوع ، باب السلف فی الحیوان ، حدیث نمبر : ۱۴۱۵۸-۱۴۱۵۹)ایک بار ایک صاحب حَجَرسے مکہ کپڑا لے کر آئے ، رسول اللہ ﷺ نے پائجامہ کا بھاؤ طے کیا ، ان کے ساتھ ایک خادم تھا ، جو درہم کا وزن کرتا تھا ، آپ نے اس سے فرمایا : وزن کرو اور جھکتا ہوا تولو : ’’ وزن وارجح ‘‘ ۔ (ترمذی ، عن سوید بن قیسؓ ، حدیث نمبر : ۱۳۰۵)
آپ نے اُمت کو اجتماعی سَطح پر عدل قائم رکھنے کا خاص طورپر حکم فرمایا ، آپ کا ارشاد ہے : جس اُمت میں حق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا جاتا ہو اور کمزور شخص طاقتور سے بے تکلف اپنا حق وصول نہیں کر پاتا ہو ، اللہ تعالیٰ اس قوم کو عزت نہیں دیتے ہیں : ’’ …..لا یقضی فیھا بالحق ، ویاخذ الضعیف حقہ من القوی غیر متعتع‘‘ ۔ (معجم الکبیر للطبرانی ، عن معاویہ : ۱۹؍۳۸۵)
خود رسول اللہ ﷺکو اِس کا اِس درجہ لحاظ تھا کہ غزوۂ بدر کے موقع سے جب بہت سارے لوگ قید ہوئے تو ان میں آپ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے ، جب فدیہ مقرر ہوا تو ان کے لئے بھی مقرر ہوا ، انھوں نے فدیہ معاف کرنے کی درخواست ، انصار نے بھی حضور ﷺ کے رشتہ کی رعایت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کا فدیہ معاف کردیا جائے ؛ لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا اور ان سے بھی فدیہ وصول فرمایا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب العتق ، باب اذا أسر اخو الرجل ، حدیث نمبر : ۲۵۳۷)
سخاوت و فیاضی
سخاوت و فیاضی کا حال یہ تھا کہ کوئی سائل واپس نہیں ہوسکتا تھا ، اگر اپنے پاس موجود نہ ہوتو دوسروں سے قرض لے کر دیتے ، اگر کچھ درہم و دینار بچا رہتا تو جب تک تقسیم نہ ہوجائے بے چین رہتے ، جن لوگوں کی وفات ہوتی ، فرماتے کہ ان کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے ، اورمتروکہ ان کے ورثہ کے لئے ہے ، (سنن ابی داؤد ، کتاب البیوع ، باب فی التشدید فی الدین ، حدیث نمبر : ۳۳۴۳ ) آپ ﷺ کی اس فیاضی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو چراغ میں تیل تک نہیں تھا اور آپ ﷺ کی زرہ مبارک چند کیلوجَو پر رہن تھی ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المغازی ، باب وفاۃ النبی ﷺ ، حدیث نمبر : ۴۴۶۷)
آپ ﷺکی سخاوت اور فیاضی کے بہت سارے واقعات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں ، حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون نے حضور کی خدمت میں ایک چادر پیش کی ، جس پر بارڈر بھی بنا ہوا تھا ، صحابیہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول میں یہ آپ کو پیش کرتی ہوں ، رسول اللہ ﷺنے قبول فرمایا اور زیب تن کرلیا ، ایک صحابی نے دیکھا تو کہنے لگے : کیا ہی خوب چادر ہے ، یہ آپ مجھے عنایت فرمادیں ، آپ ﷺنے فرمایا : ٹھیک ہے ، جب آپ مجلس سے اُٹھ گئے تو حاضرین نے اس شخص کو ملامت کی کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا ، یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ حضور ﷺکو اس کپڑے کی ضرورت تھی اور یہ بھی جاننے کے باوجود کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں فرماتے ہیں ، تم نے حضور سے مانگ لیا ؟؟ وہ صاحب کہنے لگے : اصل میں میں نے اسے تبرکاً مانگا تھا ؛ کیوںکہ حضور ﷺنے اس کو اپنے جسم مبارک پر زیب تن فرمایا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ یہی میرا کفن ہو ۔ ( بخاری ، عن سہل بن سعد ، حدیث نمبر :۶۰۳۶)
حضرت مقدادؓ نقل کرتے ہیں کہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اس طرح خدمت اقدس میں حاضر ہوا کہ بھوک اور مشقت کی وجہ سے ہماری آنکھیں اور ہمارے کان بھی جواب دے رہے تھے ، ہم اپنے آپ کو مختلف صحابہ پر پیش کررہے تھے کہ کوئی میری میزبانی قبول کرلے ؛ لیکن کسی نے قبول نہیں کیا ، آخر ہم خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، آپ ہمیں اپنے گھر لے گئے ، وہاں تین بکریاں تھیں ، آپ نے فرمایا : ان بکریوں کا دُودھ نکالو ، جس کو ہم سب لوگ مل کر پئیں گے ؛ چنانچہ ہم دُودھ دوھتے ، ہم میں سے ہر آدمی اپنا حصہ لے لیتا اور ہم آپ کے لئے آپ کا حصہ اُٹھالیتے ، ( مسلم ، عن مقدادؓ ، حدیث نمبر : ۲۰۵۵) یہ سخاوت وفیاضی کا اعلیٰ طریقہ تھا کہ صرف ایک دفعہ کھلادینے پر اکتفا نہیں فرمایا ؛ بلکہ ان کے لئے مستقل طورپر آپ نے میزبانی کا نظم فرمایا ۔
معمولِ مبارک تھا کہ کوئی بھی شخص کوئی سوال کرتا ، اگر آپ ﷺکے پاس موجود ہوتا تو ضرور عنایت فرمادیتے ، ’’ نہیں ‘‘ نہ کہتے : ’’ ما سئل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم شیئا قط فقال : لا ‘‘ ۔ (بخاری ، عن جابرؓ ، حدیث نمبر : ۶۰۳۴)یہ فیاضی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ دو پہاڑوں کے درمیان بکریوں کا ایک ریوڑ تھا ، ایک صاحب نے درخواست کی کہ یہ پورا ریوڑ ان کو دے دیا جائے ، آپ ﷺنے عطا فرمادیا ، وہ صاحب اپنی قوم میں گئے اور کہنے لگے : لوگو! مسلمان ہوجاؤ ؛ کیوںکہ محمد (ﷺ)اتنا عنایت فرماتے ہیں کہ محتاجی کا ڈر ہی باقی نہ رہے ۔ ( مسلم ، عن انسؓ ، حدیث نمبر : ۲۳۱۲)
جہاں آپ ﷺکے دربار سے کوئی حاجت مند نامراد واپس نہیں ہوتا تھا ، وہیں دوسری طرف سوال اور گداگری کو بھی ناپسند فرماتے تھے ، ایک صاحب بھیک مانگتے ہوئے آئے تو آپ ﷺنے ان کا بستر اور پیالہ ( جس کے وہ مالک تھے ) منگوایا اور اس کی ڈاک لگوائی ، دو درہم میں فروخت ہوا ، آپ ﷺ نے انھیں ایک درہم خرچ کے لئے دیا اوردوسرے درہم سے کلہاڑی بنادی کہ جنگل سے لکڑی لائیں اور فروخت کریں ، پندرہ دنوں بعد جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو دس درہم ان کے پاس جمع ہوچکا تھا ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرہ پر گدائی کا داغ لے کر جاتے ؟ (سنن ابی داؤد ، کتاب الزکوٰۃ ، باب مایجوز فیہ المسئلۃ ، حدیث نمبر : ۱۶۴۱ )
مساوات و برابری
انسانی برابری اور مساوات کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ، آپ ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں صاف فرما دیا کہ کالے اور گورے یا عربی و عجمی ہونے کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ؛ اسی لئے جب بھی کوئی کام ہو تا، آپ ﷺاپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس کام میں شریک رہتے ، حج میں قریش حدودِ حرم سے باہر نکلنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ؛ اس لئے عرفات نہیں جاتے تھے ، آپ ﷺنے اس امتیاز کو ختم کیا اورعرفہ کے وقوف کو حج کے لئے لازم قرار دیا ۔
عربوں میں خاندان اور ذات پات کی بنیادیں بہت گہری تھیں ، ہر چیز میں اس کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور شادی میں تو سب سے بڑھ کر ، مجال نہ تھی کہ ایک اونچے قبیلہ کے فرد کی لڑکی نیچے قبیلہ کے مرد سے بیاہی جاتی اور سب سے کمتر درجہ غلاموں کا تھا ، یہاں تک کہ اگر غلام آزاد کردیا جاتا تب بھی وہ اس لائق نہیں سمجھا جاتا تھا کہ کسی معزز قبیلہ کی لڑکی اس کے نکاح میں دی جائے ، رسول اللہ ﷺنے اس تصور کو توڑا ، اولاً تو آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص رنگ و نسل کی وجہ سے معزز نہیں ہوتا ؛ بلکہ معزز ہوتا ہے اپنے عمل اور تقویٰ کی وجہ سے : ’’ إن أ کرمکم عند اللّٰه اتقاکم‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی : ۱۸؍۱۲ ، حدیث نمبر : ۱۶ ، باب العین ) پھر خاص طورپر نکاح کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص دین کے اعتبار سے پسند آئے اسے منتخب کریں : ’’ من ترضون دینہ ‘‘ (سنن ترمذی ، ابواب النکاح ، باب ماجاء إذا جاءکم من ترضون دینہ ، حدیث نمبر : ۱۰۸۵) آپ ﷺنے تلقین فرمائی کہ لوگ حسب و نسب اور دولت کی وجہ سے رشتہ طے کرتے ہیں ، مگر ہونا یہ چاہئے کہ دین داری اور اخلاق کی بنیاد پر رشتے طے کئے جائیں ، دین داری کی بنیاد پر طے کئے جانے والے رشتہ میں کامیابی مضمر ہے : ’’ فاظفر بذات الدین‘‘ ۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب الأکفاء فی الدین ، حدیث نمبر : ۵۰۹۰)پھر آپ ﷺنے صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس کا عملی نمونہ پیش فرمایا، اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ سے کیا ، (مصنف عبد الرزاق ، کتاب النکاح ، باب الأکفاء ، حدیث نمبر : ۱۰۳۲۶) اور اپنے متعدد صحابہ کے رشتے عرب کے معزز قبائل میں طے کئے ۔
مساوات و برابری کا آپ کو اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ آپ اپنے آپ کو بھی اپنے رفقاء کے برابر رکھنے کی کوشش کرتے ، مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع سے صحابہ اینٹیں اُٹھااُٹھاکر لاتے تھے اور دیوار چنی جاتی تھی ، آپ ﷺبھی اینٹیں اُٹھاکر لائے، صحابہ نے درخواست کی کہ ہم خدام حاضر ہیں ، آپ زحمت نہ فرمائیں ؛ لیکن آپ باصرار اس کام میں شریک ہوئے اور فرمایا : میرے اندر اتنی طاقت بھی ہے کہ میں اس کام کو کرسکوں ، اور اجر و ثواب کی ضرورت جیسے تم کو ہے ، ویسے ہی مجھے بھی ہے ۔ (صحیح ابن حبان ، کتاب اخیار ﷺ ؟ حدیث نمبر : ۷۰۷۹)
۵؍ ہجری میں غزوۂ خندق کا واقعہ درپیش تھا ، صحابہ خندقیں کھودنے میں مشغول تھے اوراس کے اندر چٹانیں بھی تھیں ، آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مشکل کام میں شریک ہوئے ؛ بلکہ ایک ایسی چٹان تھی، جو کسی سے نہ ٹوٹتی تھی ، آپ ﷺکے وار سے وہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب المغازی ، غزوۃ الخندق ، حدیث نمبر : ۳۶۸۲۰)