سیرت و تاریخ

پکاپکا ہے کلیجہ، دُکھا دُکھا دل ہے!

دل کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں، قلم کا جگر شق ہوا چاہتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ اللہ کے پیغمبر کی توہین ایسا جرم ہے کہ اگر پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے یا آسمان پھٹ پڑے تب بھی اس کی سنگینی کے اظہار کا حق ادا نہ ہوگا؟ کیوں کہ اللہ کے پیغمبر اللہ کے نمائندے ہوتے ہیں، ان کی بے احترامی خود خالق کائنات کی بے احترامی ہے، اس وقت فرانس نے جو گستاخانہ اور شرپسندانہ طریقہ اختیار کیا ہے، وہ اسی نوعیت کا ہے، پہلے تو کچھ بد بختوں نے شان مبارک میں گستاخی پر مبنی کارٹون چھاپا، پھر جب اس کے خلاف احتجاج ہوا تو ایک بد طینت ٹیچر نےطلبہ کو یہ کارٹون دکھا کر قصداََ مسلمانوں کو مشتعل کیا اور جب اس گھناؤنی حرکت کےرد عمل میں کسی نے اس بد بخت کا قتل کر دیا تو بجائے اس کے کہ حکومتِ فرانس عوام کو اس طرح کی دل آزاری سے منع کرتی، اس نے اس کو اظہار رائے کی آزادی اور سیکولرزم کا حصہ قرار دیتے ہوئے اِس بے ہودہ شخص کی آخری رسوم میں شرکت کی اور اس کو فرانس کا ہیرو قرار دیا، ایک ہیرو تو خود ملک کا صدر ہے، جس نے اپنی ذاتی زندگی میں اخلاق وعفت کی دھجیاں بکھیر رکھی ہیں، دوسرا ہیرو یہ کمینہ شخص تھا، جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، جب ترکی نے صدر فرانس کی اس حرکت پر اس کو اپنے دماغ کا علاج کرانے کا مخلصانہ اور دانشمندانہ مشورہ دیا تو اس کو بہت صدمہ پہنچا کہ اس کی اہانت کی گئی ہے؛ لیکن اس کو یہ خیال نہ رہا کہ اس کی بد تمیزی سے دنیا میں کتنے انسانوں کا دل زخمی ہوا ہے؟
مغرب نے اظہار خیال کی آزادی کا ایک خود ساختہ پیمانہ بنا لیا ہے، اگر کوئی شخص یہودیوں کے ہولوکاسٹ کا انکار کرے، یا اس موضوع پر اپنی تحقیق پیش کرے تو وہ مجرم ہے، اگر کوئی نائن الیون کو فرضی کہانی قرار دے تو وہ سزا کا مستحق ہے، یہاں اظہار رائے کی آزادی کا کوئی احترام نہیں؛ لیکن اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور اربوں انسانوں کی دل آزاری کا سبب بنے تو اس کو اس کا حق ہے اور یہ اظہار رائے کی آزادی میں شامل ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اسلام دشمنی اور خدا بے زاری کا مظہر ہے؛ چوںکہ اسلام اور شریعت اسلامی کی اساس جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر ہے ، اس لئے مغربی دنیا نے صلیبی جنگوں سے لے کر آج تک ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کو نشانہ بنایا ہے ، مستشرقین نے اپنی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی ایسی تصویر کھینچی ہے جس کو اسلام سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی مسترد کردے گا ، یہاں تک کہ نعوذ باﷲ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بت پرستی اور نفس پرستی کی تہمت بھی لگائی گئی ، سیرت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو غلط انداز پر پیش کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے مستشرقین نے اتنا زیادہ لکھا ہے اور ہر روز لکھنے کا سلسلہ جاری ہے کہ صرف ان کتابوں کے نام لکھے جائیں تب بھی پوری ایک جلد تیار ہوجائے ۔
مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ان کو ایمان و عقیدہ سے منحرف کرنے کے لئے انھوں نے مسلم سماج میں سے مسلمانوں کا سا نام رکھنے والے سلمان رشدی جیسے بددین اور بد زبان شخص کو بھی کھڑا کیا ، شراب خانوں کا نام مکہ (Mucca) تک رکھا گیا؛ تاکہ مسلمان اس صورتِ حال سے مشتعل ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ خدا ناترسی ، آخرت میں جواب دہی کے عقیدہ سے محرومی ، حد سے گذری ہوئی لذت پسندی ، نفس کی پرستاری ، اندرونی خباثت اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کی منصوبہ بند سازش کی وجہ سے وہ ہمیشہ انبیاء کی اہانت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور یاوہ گوئی کا ایک مزید مقصد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و عظمت کو مسلمانوں کے دلوں سے نکال پھینکنا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے اس اُمت کے دل میں تمام انبیاء کی اور خاص کر پیغمبر آخر الزماں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت ڈال دی ہے ، اس کے لئے سر کٹادینا ، اپنی رگِ جاں کا آخری قطرۂ خون بہا دینا اور اس راہ میں جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا نہ صرف آسان ہے؛ بلکہ وہ اسے ایک سعادت سمجھتا ہے ، اس سے اس کی زندگی کا سودا کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اس کے نبی کی محبت خریدی نہیں جاسکتی ، وہ اپنی رسوائی اور بے آبروئی کو برداشت کرسکتا ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ بے توقیری کو گوارا نہیں کرسکتا ، اس کے گھر کو آگ لگائی جاسکتی ہے؛ لیکن اس کے سینہ میں محبت کی جو انگیٹھی جل رہی ہے، اسے بجھایا نہیں جاسکتا ، یہی محبت اس کی سب سے بڑی متاع ہے ، اس کے لئے نبی کی محبت کے مقابلہ والدین اور بیوی بچوں کی محبت بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ، یہ محبت جو اسے اپنے آباء و اجداد سے میراث میں ملی ہے اور پیغمبر کے نام پر مر مٹنے کا جذبہ ٔبے پایاں اور اپنے آپ کو قربان کردینے کا حوصلہ جو اسے اپنے بزرگوں سے ایک در نایاب کی طرح حاصل ہوا ہے ، کسی بھی قیمت پر وہ اس سے دست بردار نہیں ہوسکتا ۔
یہ اتھاہ محبت اور انمٹ جذبۂ احترام مغرب کی بے حس ، مذہب کے معاملہ میں غیر سنجیدہ ، خدا کی محبت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے محروم قوموں کے لئے باعث تعجب ہے کہ آخر مسلمانوں کے دلوں سے اس کے نبی کی محبت کیوں کر نکالی جائے اور کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حرمت کا یہ جذبۂ بے پناہ کم کیا جائے ؟ تاکہ دین سے اس امت کا رشتہ کمزور تر ہوجائے اور مغرب کی خدا بے زاری اور مادیت پرستی میں وہ پوری طرح ان کے ہم دوش اور ہم قدم بن کر کھڑے ہوجائیں ، اگر خدانخواستہ کسی شخص کے دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بزرگی کا یقین نکل جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا عنصر کم ہوجائے تو پھر اس کے ایمان کا اغوا کرلینا چنداں دشوار نہیں ہوگا ، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عالمی سازش پر متنبہ رہیں اور انبیاء کی محبت و عظمت کی جو امانت انھیں اپنے بزرگوں سے ملی ہے اور جس پر ان کا مسلمان ہونا موقوف ہے ، وہ اس امانت میں ذرا بھی اضمحلال نہ آنے دیں اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچائیں ۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ مسائل میں الجھاکر رکھنا چاہتے ہیں ، وہ خواہاں ہیں کہ مسلمان احتجاج اور مظاہروں میں اُلجھ جائیں اور تعمیری کام نہ کرسکیں ، ان کی صلاحیت احتجاج اور مدافعت میں خرچ ہوجائے ، تعلیم کے میدان میں حالیہ برسوں میں مسلمانوں نے بہتر پیش رفت کی ہے ، سائنس و تحقیق میں بھی ان کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں ، امریکہ و یورپ کی یونیورسیٹیوں میں زیادہ تر طلبہ و طالبات ایشیاء و عالم اسلام کے ہیں اور ان کی خدمات نہایت ہی نمایاں ہیں ، مغرب چاہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایسے غیر حقیقت پسندانہ مسائل میں اُلجھے رہیں کہ ان کے لئے علمی ترقی دشوار ہوجائے ۔
اس صورتِ حال کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں لائحۂ عمل بنانے کی ضرور ت ہے ، ایسے واقعات پر برہمی اور ناراضگی کا اظہار ضرور ہونا چاہئے؛ مگر تشدد سے بچتے ہوئے، تشدد سے دوہرا نقصان ہوتا ہے ایک تو اصل مسئلہ نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے، سنجیدہ طریقہ پر مسئلہ کو حل کرنے کی صورت ختم ہو جاتی ہے، دوسرے مظلوم کو ظالم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا اور مقتول کو قاتل قرار دینے کا موقع مل جاتا ہے؛ چوں کہ ذرائع ابلاغ بھی اسلام کی معاند طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں؛ اس لئے ان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے رد عمل کو سارے واقعہ کا اصل سبب قرار دے دیں؛ اس لئے ہمیں پُر امن اور سنجیدہ طریقہ پر ایسے بے ہودہ واقعات کا سامنا کرنا چاہئے اور گالی کا جواب گالی سے دینے کے بجائے حُسن تدبیر اور قوت دلیل کے ساتھ اپنا مدعا اقوام عالم کے سامنے رکھنا چاہئے۔
چنانچہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا جواب اس طرح ہونا چاہئے:
۱۔ پوری دنیا کے مسلمان اقوام متحدہ سے مطالبہ کریں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کی جائز، منصفانہ اور شریفانہ حدود قائم کرے، جس میں یہ بات شامل ہو کہ کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیتوں کی اہانت ایک جرم اور دل آزاری ہے اور یہ اظہار رائے کے دائرہ میں نہیں آتی؛ بلکہ اشتعال انگیزی اور شدت پسندی کے دائرہ میں آتی ہے، اپنے یہ جذبات مختلف ملکوں میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر اور ایمیل وغیرہ کے ذریعہ پہنچائے جائیں۔
۲۔ مسلم تنظیمیں اس مہم میں قائدانہ کردار ادا کریں اور دیگر برادران انسانیت اور مذہبی قیادتوں کو بھی اپنے ساتھ لینےکی سعی کریں؛ کیوں کہ ہمارا مطالبہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی گروہوں کے لئے ہے؛ تا کہ دنیا میں امن و آشتی قائم رہے۔
۳۔ مسلم حکومتیں O I C کے پلیٹ فارم سے پوری قوت کے ساتھ اقوام متحدہ سے اس کا مطالبہ کریں اور عالم اسلام اس کو نافذ کرانے کے لئے واضح لائحۂ عمل اختیار کرے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایسی شرانگیزی کرنے والی حکومتوں سے اپنے تعلقات ختم کر دے یا محدود کر دے۔
۴۔ آج کی دنیا انفارمیشن ٹکنالوجی کی دنیا ہے، اور جب اس پلیٹ فارم سے کوئی آواز بڑے پیمانہ پر اٹھائی جاتی ہے تو پوری دنیا میں اس کی قوت محسوس کی جاتی ہے، اس ناشائستہ حرکت کے خلاف بڑے پیمانہ پر اس ذریعہ کو استعمال کیا جائے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تائید حاصل ہو سکے، مسلمان انفرادی سطح پر اور جہاں مسلم حکومتیں ہوں، وہاں سرکاری سطح پر بھی فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، موجودہ دور میں یہ پُرامن احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
۵۔ ہندوستان ایسا ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے، ہمارے ملک میں ایسے سیکولرزم کو اختیار کیا گیا ہے جس میں ہر شخص کو اپنی نجی زندگی میں اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، اور جس میں ہر مذہب کے مقدسات کا احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے، موجودہ حکومت کا فرانس کے رویہ کی تائید بے حد افسوسناک اور تکلیف دہ ہے؛ اس لئے ہمیں اپنی حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ فرانس کے اس رویہ کی مذمت کرے، جیسا کہ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ صاحب نے اسی طرح کے ایک واقعہ پر کیا تھا۔
۶۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ دنیا کی مختلف زبانوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مختصر، متوسط اور تفصیلی لٹریچر شائع کیا جائے، اس لٹریچر کو ابلاغ کے جدید ذرائع کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے؛ کیوں کہ جھوٹ کا علاج سچ اور تاریکی کا علاج روشنی ہے۔
۷۔ یہ بات بے حد افسوسناک ہے کہ خود مسلم معاشرہ میں سیرت کا مطالعہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، ہماری نئی نسل سیرت نبوی کی بنیادی معلومات سے نا آشناہے، اس پہلو پر بھی توجہ ضروری ہے، دینی مدارس بحیثیت ایک مضمون کے سیرت کو اپنے نصاب میں شامل کریں اور مختلف مرحلوں میں اس کی تعلیم دیں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے ان کے معیار کے لحاظ سے سیرت کی کتابیں مرتب کی جائیں اور انہیں کوشش کر کے داخل نصاب کرایا جائے، کم پڑھے لکھے لوگوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے لئے مطالعاتی مقصد کے تحت سیرت کا لٹریچر تیار کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچایا جائے۔
۸۔ سب سے اہم بات برادران انسانیت تک صحیح طور پر سیرت کو پہنچانا ہے، اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں،جیسے: غیر مسلم بھائیوں کے لئے سیرت کے جلسے، غیر مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے سیرت پر تقریر وتحریر کے مقابلے، بحمد اللہ ملک کے کئی علاقوں میں اس کا خوشگوار تجربہ ہو رہا ہے، ربیع الاول کے مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اس کا اہتمام اور کھان پان کے پروگرام کے ساتھ سیرت پر مختصر تعارفی بیان ہونا چاہئے۔
غرض کہ ایسے واقعات پر پُر امن احتجاج بھی ضروری ہے، اس کے سد باب کے لئے ٹھوس تدبیریں بھی مطلوب ہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جائے کہ سچ کی روشنی خود بخود جھوٹ کی تایکیوں کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میںایسے کئی واقعات پیش آئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی کوشش کی گئی ، غلط القاب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ، صحابہ رضی اللہ عنہم کو فطری طورپر اس طرح کی ناشائستہ باتیں مشتعل کردیتی تھیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی انھیں بے قابونہیں ہونے دیا ، اصل مقصد پر نظر رکھا اور پوری توجہ دعوتِ دین پر مرکوز کئے رہے ، اس طرح دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوتی رہیں ، آج بھی ہمیں یہی رویہ اختیار کرنا ہوگا ، ہمیں ایسے واقعات پر احتجاج ضرور کرنا چاہئے ، ناراضگی کا اظہار بھی ہونا چاہئے ، لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارا اصل مشن اسلام کی دعوت اور بندگانِ خدا کی ہدایت ہے !

qqqq

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×