اسلامیات

دینی مدارس اہمیت، موجودہ دشواریاں اور حل (۲)

اب مسئلہ کے فقہی پہلو پر غور کیجئے، فقہی اصطلاح میں آجر اور اجیر یا مالک اور ملازم کا معاملہ اجارہ کہلاتا ہے؛ لہٰذا یہاں دو باتیں قابل غور ہیں، اول یہ کہ کیا ان حالات کی وجہ سے ادارہ کی مجلس انتظامی کو حق ہےکہ وہ کسی استاذ یا کارکن کو سبکدوش کر دے ؟تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اجارہ’’ عقود لازمہ‘‘  میں سے ہے یا نہیں ہے؟ یعنی کسی کو اجرت پر رکھنا کیا ایسے معامالات میں ہے، جس کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتایا ایسا نہیں ہے؟اگر اجارہ عقد لازم (لازمی معاملہ) ہے تو کسی ایک فریق کے لئے دوسرے کی رضامندی کے بغیر اجارہ کو ختم کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر اجارہ عقد لازم نہیں ہے، تو ایسی صورت میں کسی بھی ایک فریق کو عذر کی وجہ سے اس کو ختم کرنے کا حق ہوگا۔
اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے، حنفیہ کے نزدیک دونوں میں سے کوئی ایک فریق یعنی آجر یا ملازم کسی عذر کی بنا پر اجارہ کو ختم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے؛ چنانچہ مشہور فقہی انسائیکلو پیڈیا’’الموسوعہ الفقہیہ‘‘ میں احناف کی معتبر کتابوں—-  بدائع الصنائع ، فتاویٰ عالمگیری اور المبسوط—-  کے حوالہ سے لکھا ہے:
الحنفیۃ کما سبق، یرون جواز فسخ الاجارۃ لحدوث عذر بأحد العاقدین، أو بالمستأجر (بفتح الجیم)، ولا یبقی العقد لازما ویصح الفسخ اذ الحاجۃ تدعو الیہ عند العذر الخ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱؍۱۷۲)
حنفیہ کی رائے ہےکہ دونوں فریقوں میں سے کسی کو عذر پیش آجائے، یا جس چیز کو اجرت پر حاصل کیا گیا ، اس کی نسبت سے عذر پیدا ہو جائے تو اجارہ کو ختم کر دینا جائز ہے، یہ معاملہ لازم نہیں ہوگا اور اس کو فسخ کرنا درست ہوگا؛ کیوں کہ عذر پیش آنے کی صورت میں یہ ایک ضرورت ہے ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱؍۱۷۲)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب تاتارخانیہ میں ہے:
قال: الاجارۃ تنفسخ بالأعذار عندنا، وفي الظھیریۃ: وذلک اما أن یکون من قبل أحد العاقدین أو من قبل المعقود علیہ……. وفي التجرید: العذر أن یحدث في العین ما یمتنع الانتفاع بہ أو تنتقض المنفعۃ  (تاتارخانیہ، کتاب الاجارۃ: ۵۱؍ ۹۵۱)
ہمارے نزدیک اجارہ کے معاملہ کو عذر پیش آنے کے وقت ختم کیا جا سکتا ہے، چاہے یہ دونوں فریقوں میں سے ایک کی طرف سے ہو یا جس چیز کو کرایہ پر حاصل کیا جا رہا تھا، اس کی وجہ سے ہو……… اور’’ تجرید‘‘ (کتاب کا نام) میں ہے کہ عذر یہ ہے کہ نفع اٹھانے سے رکاوٹ پیدا کرنے والی کوئی چیز پیدا ہو جائے، یا اس کا نفع کم ہو جائے۔(تاتارخانیہ، کتاب الاجارۃ: ۵۱؍ ۹۵۱)
موجودہ صورت حال میں تعلیم کا موقوف ہو جانا ایک عذر ہے؛ کیوں کہ مدرسہ اپنے ملازمین سے متعین نفع اٹھانے سے قاصر ہے اور وہ اسی مقصد کے لئے ملازمین کا تقرر کرتا ہے۔
مالکیہ کی رائے بھی قریب قریب وہی ہے جو احناف کی ہے؛ البتہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک اجارہ عقد لازم ہے اور کوئی ایک فریق اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیںکر سکتا:(الموسوعۃ الفقہیہ:۱؍۱۷۲)
غور کیا جائے تو ہندوستان میں مدارس کا عرف بھی وہی ہے، جو احناف کا نقطۂ نظر ہے، اس کا ایک فریق جو ملازم ہے، وہ جب چاہے اپنے طور پر مدرسہ چھوڑ دیتاہے اور انتظامیہ بھی یک طرفہ طور پر کسی ملازم کی برطرفی کا فیصلہ کرتی ہے،اور جو حکم اجارہ کو ختم کرنے کا ایک فریق کے لئے ہے، وہی دوسرے فریق کیلئے بھی ہے، تو جب اساتذہ یا ملازمین یکطرفہ طور پر مدرسہ کی خدمت کو چھوڑ دیتے ہیں؛ بلکہ بہت سی دفعہ کسی مصلحت یا منفعت کی بنیاد پر درمیانِ سال میں بھی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے طلبہ کی تعلیم کا بہت نقصان ہوتا ہے اور ادارہ کی ساکھ بھی خراب ہوتی ہے، تو صرف دوسرے فریق کو کیسے اس کا پابند کیا جا سکتا ہے؟ہاں اگر مدرسہ کے دستور میں پہلے سے ہو،یا ملازم سے معاہدہ ہوا ہو کہ اسے ہٹایا نہیںجا ئے گا، تب اس شرط کا پاس رکھنا واجب ہوگا۔
نیز ہمارے ملک میں جب سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوطی حاصل ہوئی توحکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ لیبر لا میں سرمایہ کاروں کے حقوق بڑھائے جائیں، اور ان کو بہت زیادہ پابند نہ کیا جائے؛ چنانچہ ابھی ہمارے ملک میں پرائیوٹ اداروں کے لئے بھی ایسا لزوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ملازم کو ہٹا نہیں سکیں؛اسی لئے آئے دن کمرشیل ادارے ،کمپنیاں اور عصری تعلیمی ادارے حسب ضرورت اپنے ملازمین کو سبکدوش کرتے رہتے ہیں،ہاں گورنمنٹ ملازمین کا معاملہ الگ ہے؛ کیوں کہ گورنمنٹ کا اپنا قانون ہے کہ وہ کسی ملازم کو سبکدوش نہیں کرے گی، تو بہت خصوصی حالات کے سوا اُن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا ، اس لئے یہ کہنا کہ عرف ایسا ہے کہ کوئی استاذ یا کوئی ملازم رکھا جائے تو اس کو یکطرفہ سبکدوش نہ کیا جائے، یہ کچھ خاص اداروں کے پس منظر میں تو ہو سکتا ہے، جن کے یہاں پہلے سے اس طرح کا ضابطہ بنا ہوا ہو؛ لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہے۔
البتہ یہ بات فقہی جہت سے ہے، آگے اخلاقی تقاضوں، مدارس کی روایات اور دینی خدمت گزاروں کی اہمیت کے اعتبار سے تجویز پیش کی جائے گی؛ تاکہ مسئلہ کا حل نکل سکے۔
اس سلسلہ میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت کورونا کی وجہ سے جو صورتِ حال ہے، اس میں اگر اساتذہ نے خدمت نہیں کی تو وہ تنخواہ کے مستحق ہوں گے یا نہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے، اور یہ اس لئے اہم ہے کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے میں قصور نہ انتظامیہ کا ہے اور نہ اساتذہ کا ؛ بلکہ ایک خاص قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں، ان حالات کی وجہ سے یہ نوبت آرہی ہے، اگر ہم فقہی کتابوں کی طرف رجوع کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اجیر نے اپنا کام اس لئے نہ کیا ہوکہ جس نے اسے اجرت پر رکھا ہے، اس کی طرف سے رکاوٹ ہو ،مثلاََ: مدرس مدرسہ میں موجود ہو؛ لیکن انتظامیہ نے اسے پڑھانے سے روک دیا ہو تو اس صورت میںوہ تنخواہ کا مستحق ہوگا، اسکی اجرت دینی شرعاََ واجب ہوگی، دوسری صورت یہ ہے کہ خدمت نہ کرنے میںملازم( اجیر) کا قصور ہو، وہ خود مدرسہ نہیں آیا ،غیر حاضر رہا، مدرسہ کے قانون کے اعتبار سے رخصتوں کی جو حدیں مقرر ہیں، اس سے زیادہ دنوں غیر حاضر ہوگیا تو اس شکل میں وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوگا، تیسری صورت یہ ہے کہ ملازم کے خدمت سے قاصر رہنے میں نہ اس کا قصور ہے اور نہ انتظامیہ کا؛ بلکہ قدرتی آفات کے تحت وہ خدمت کرنے سے قاصر ہوگیا ہو تو فقہاء کی عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اس کی اجرت واجب نہیں ہوگی؛ چنانچہ علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:
انہ انما یستحق الأجرۃ بتسلیم نفسہ بدون العمل اذا تمکن من العمل، حتی لو سلم نفسہ ولم یتمکن من العمل لعذر منعہ لم یجب الأجر، فانہ ذکر فی ’’ الذخیرۃ‘‘ لو استأجرہ لاتخاذ الطین أو غیرہ في الصحراء فمطر ذلک الیوم بعد ما خرج الأجیر الی الصحراء لا أجر لہ، وبہ کان یفتي المرغینانی (البنایہ شرح الھدایہ:۱۰؍۳۱۹)
’’ اجیر (ملازم) اگر کام نہ کرے مگر اس نے اپنے آپ کو حوالہ کر دیا ہو اور کام کرنا اس کے لئے ممکن تھا، تو وہ اجرت کا حقدار ہوگا، یہاں تک کہ اگر اس نے اپنے آپ کو حوالہ کر دیا؛ حالاں کہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے وہ اس کام کو انجام نہیں دے سکتا تھا، تو اجرت واجب نہیں ہوگی؛ چنانچہ ’’ ذخیرہ‘‘ (ایک کتاب کا نام) میں ہے: اگر صحرا میں مٹی بنانے یا کسی اور کام کے لئے اجیر رکھا، پھر اس دن اجیر کے صحراء میں چلے جانے کے بعد بارش ہوگئی تو اس کی اجرت واجب نہیں ہوگی، صاحبِ ہدایہ علامہ مرغینانیؒ بھی اس پر فتویٰ دیا کرتے تھے‘‘ (البنایہ شرح الہدایہ: ۱۰؍ ۳۱۹، نیز دیکھئے: شلبی علی تبیین الحقائق، باب ضمان الاجیر:۵؍۱۳۷، مجمع الانہر، ۲؍۳۹۳، رد المحتار: ۶؍۶۹)
محیط برہانی اور تاتارخانیہ میں ہے:
اذا وقع عقد الاجارۃ صحیحا علی مدۃ أو مسافۃ، وجب تسلیم ما وقع علیہ العقد دائما مدۃ الاجارۃ فان عرض في بعض المدۃ، أو المسافۃ ما یمنع الانتفاع سقط الأجر بقدر مدۃ المنع، وذلک بأن یغصبہ غاصب أو یحدث فیہ مرض، أو اباق، أو یغرق الأرض، أو ینقطع عنھا الشرب (تاتارخانیہ: ۱۵؍ ۹۴، نیز دیکھئے: محیط برہانی: ۷؍ ۴۶)
’’ جب اجارہ کا معاملہ ایک مدت یا ایک مسافت کے لئے طئے ہو تو اس مدت یا مسافت تک اجارہ باقی رہے گا، اگر اس مقررہ مدت یا طئے شدہ مسافت کے درمیان ایسی بات پیش آگئی جو مطلوبہ فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ ہے، تو اتنی مدت کی یا مسافت کی اجرت واجب نہیں ہوگی، جیسے: (جانور پر اجارہ ہوا اور) کسی لیٹرے نے اس کو غصب کر لیا، یا ( کسی غلام کو اجرت پر حاصل کیا اور) وہ بیمار پڑ گیا، یا بھاگ گیا، یا (زمین اجرت پر لی اور) وہ پانی میں ڈوب گئی، یا اس کو سیراب کرنے والی نہر خشک ہو گئی‘‘۔ (تاتارخانیہ: ۱۵؍ ۹۴، نیز دیکھئے: محیط برہانی: ۷؍ ۴۶)
صاحب جوہرہ کے یہاں ایک اور مثال ملتی ہے کہ کسی نے بکری چرانے پر کسی شخص کو رکھا تو اگر نصف یا نصف سے زیادہ بکریاں بھی مر گئی ہوں، تب بھی اسکو پوری اجرت ملے گی، اور فقہاء کے یہاں برعکس مفہوم کا اعتبار ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام بکریاں مر گئیں تو پھر اجیر اجرت کا مستحق نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ علامہ شامیؒ نے اس سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں بر عکس مفہوم کا اعتبار نہیں ہے (رد المحتار:۹؍۹۶)؛ لیکن یہ بات ’’جو ہرہ‘‘ کی عبارت سے ثابت نہیںہے، اور فقہاء کے یہاں اصول یہی ہے کہ فقہاء کے کلام میں بر عکس مفہوم (مفہوم مخالف) معتبر ہوتا ہے، خلافت عثمانی میں مرتب ہونے والے مجموعہ قوانین (جملۃ الاحکام) کی شرح درر الاحکام میں ایک اصولی بات کہی گئی ہے کہ: کام کے لئے حاضر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کام کے لئے پیش کرے، وہ اس کام پر قادر بھی ہو اور اس وقت اس کے لئے اس کام کو انجام دینا ممکن بھی ہو : ومعنیٰ کونہ حاضرا الخ(درر الاحکام شرح جملۃ الاحکام: ۱؍ ۴۵۸، دفعہ: ۴۲۵) اور اس نقطۂ نظر پر انھوں نے روشنی حاصل کی ہے مشہور حنفی فقیہ علامہ زیلعیؒ سے، جو کہتے ہیں کہ اگر آجر ملازم سے کام نہ لے سکے اور کوئی حسی رکاوٹ جیسے: بیماری یا بارش نہیں پائی گئی ہو تب کام نہ کرنے کے باوجود بھی وہ اجرت کا مستحق ہوگا (حوالۂ سابق) پس اگر کوئی قدرتی رکاوٹ موجو ہوتو وہ اجرت کا حقدار نہیں ہے۔
جیسے بارش کا ہونا، سیلاب میں زمین کا ڈوب جانا، سیراب کرنے والی نہروں کا خشک ہونا یا بیمار پڑ جانا ایک قدرتی آفت ہے ،اسی طرح کورونا ایک قدرتی آفت ہے اور اس کی وجہ سے سرکار کی طرف سے لاک ڈاؤن ایک سلطانی آفت ہے تو یہ ایک آسمانی سلطانی عذر ہے، اس میں فقہاء کے بیان کئے ہوئے اس اصول کے اعتبار سے مدارس کی انتظامیہ پر تنخواہ دینا لازم نہیں ہے، اگر ہم مدارس کے حالات کا لحاظ کئے بغیر بہر صورت مکمل تنخواہ لازم قرار دیں تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ بہت سے مدرسے بند ہو جائیں گے، یا انتظامیہ مجبور ہو کر اساتذہ کو سبکدوش کر دے گی، بعض جگہ اساتذہ کا عملہ اتنا بڑا ہے کہ موجودہ حالات میں ان کی تنخواہ دینا مدرسہ کے لئے ممکن نہیں ہے، اسی طرح بہت سے مدرسے دیہاتوں میں، قصبات میں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں بہت مشکل اور دشواری کے حالات میں چلتے ہیں، اکثر شعبان میں ان پر کافی قرض ہوجاتا ہے، اور وہ رمضان کی وصولی سے اس قرض کو ادا کرتے ہیں، تو پھر شوال سے مدرسہ چلتا ہے تو اگر ہم ایسا بوجھ مدرسہ پر ڈالیں اور ان کو اس کا پابند کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت سے مدارس کو اپنی خدمت بند کر دینی ہوگی، اور اس کا جو نقصان ہوگا، وہ ظاہر ہے۔
 یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ تمام اداروں کے پاس سال سال بھر کا بجٹ موجود ہوتا ہے، پورے ہندوستان میں انگلیوں پر گنے جانے والے شاید دوچار مدرسے ایسے ہو سکتے ہیں، جن کے پاس آئندہ سال کا بجٹ موجود رہتا ہو، بعض علاقوں میں ایسے مدارس ہیں کہ جنھوں نے مستقل آمدنی کے ذرائع اپنے لئے مہیا کر لئے ہیں، جیسے عمارتیںبنادی گئیں ،یا خریدی گئیں، اور وہ مدرسہ کے لئے وقف ہیں، ان کو کرایہ کی ایک خطیر رقم آجاتی ہے، یا کوئی صاحبِ ثروت خاندان بیرونی ملکوں میں رہتا ہے، جس کا بڑا بزنس ہے اور اس نے مدرسہ کا پورا خرچ اپنے ذمہ لے رکھا ہے، تو یہ استثنائی صورتیں ہیںاور ایسے اداروں کو ضرور استحساناََ پوری تنخواہ ادا کرنی چاہئے؛ مگر مدارس کی ۹۰؍ فیصد سے زیادہ تعداد وہ ہے ،جن کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں، اگر ان سب پر پوری تنخواہ کی ادائیگی کو لازم کر دیا جائے تو اس سے ادارے بند ہو جائیں گے اور بحیثیت مجموعی اس کا خسارہ تمام مسلمانوں کو اٹھانا ہوگا ۔
یہ تو اس مسئلہ کا فقہی پہلو ہے؛ البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہمارے فقہاء نے معاملات کے جو احکام لکھے ہیں، وہ اصل میں عدالتوں کے لئے ہیں، کہ جب کسی مسئلہ میں دو فریق کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے، تو قاضی اس میں کس طرح فیصلہ کرے؟ گویا اصطلاحی طور پر یہ قولِ قضا ہیں، قولِ دیانت نہیں ہیں، اور مدارس قانونی ضابطوں سے نہیں چلتے ؛ بلکہ باہمی رابطوں سے چلتے ہیں؛ اس لئے ہمیں اخلاقی بنیادوں پر مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اصل حکم شرعی سے ہٹ کرایک جائز درمیانی صورت نکالی اور معاملہ کے دونوں فریقوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم فرمایا، سیدنا حضرت عبداللہ ابن کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیسے حضرت ابی حدود ؓ کے یہاں باقی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے، مسجد میں دونوں کے درمیان کچھ کہا سنی ہوئی اور آواز اونچی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اورحضرت عبداللہ ابن کعبؓ سے فرمایا کہ تم آدھا دَین معاف کر دو اور ابن ابی حدردؓ سے فرمایا کہ تم نصف دین ابھی ادا کر دو(بخاری، حدیث نمبر: ۴۵۷) غور فرمائیے کہ فتویٰ کی بات تو یہ تھی کہ حضرت ابن ابی حدودؒ سے کہا جاتا کہ تم پورا دَین ادا کرو؛ کیوں کہ جو دَین کسی کے ذمہ باقی ہو، وہ اس پر پورا کا پوراادا کرنا واجب ہے، یاعبداللہ ابن کعب سے کہا جاتا کہ تمہارا مقروض ابھی دَین ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے ، ایسی صورت میں تم پر واجب ہے کہ ان کو مہلت دو؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ عبداللہ ابن کعبؒ پر پورا دَین ادا کرنے پر اصرار کیا اور نہ ابن ابی حدود کے لئے یہ سفارش فرمائی کہ ان کومہلت دی جائے۔
لہٰذا:
(۱) امام ومؤذن ہوں یا اساتذہ ،ان کو الگ کر دیا جانا نامناسب اور غیر اخلاقی فعل ہے، جو مدرس کم تنخواہ پر ادارہ کی خدمت کرتا آیا ہے، مشکل حالات میں اس کو چھوڑ دینا اور اس کی کوتاہی کے بغیر اس کو علاحدہ کر دینا کسی طرح مناسب نہیں،اگر دینی اداروں کو ضابطہ اور قانون کی بنیاد پر چلایا جائے تو ان کا چلانا مشکل ہو جائے گا، لیبر لا کے تحت ایک اجیر کی یومیہ کم سے کم اجرت مقرر ہے، کم مدرسے اور مسجدیں ہیں جن میں دینی خدمت گزاروں کی تنخواہ اس معیار کو پورا کرتی ہے، اگر وہ کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو ہر مدرسہ میں ایک فتنہ پیدا ہو جائے؛ لیکن اساتذہ دینی جذبہ کے تحت اللہ کی رضا کے لئے کم سے کم تنخواہوں میں خدمت کرتے ہیں، اور اس کی وجہ سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، اسی طرح لیبر لا کے تحت مزدوروں کے اوقات کارمقرر ہیں، آپ کسی مزدور سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لے سکتے؛ لیکن مدارس میں جو اساتذہ دارالاقاموں میں رہتے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ وہ ۲۴؍ گھنٹے مصروف رہتے ہیں، تو بے جا نہ ہوگا، وہ صبح میں بھی پڑھاتے ہیں، ظہر کے بعد بھی، اورجہاں اونچی کتابیں ہیں، وہاں مغرب بعد بھی اور بعض اوقات عشاء کے بعد بھی،یہاں تک کہ عصر بعد بھی طلبہ کی نگرانی کرتے ہیں،اگر وہ کہیں کہ قانون کے اعتبار سے جتنا کام لیا جا سکتا ہے، ہم اس سے زیادہ کام نہیں کریں گے تو کتنی دشواری پیدا ہو جائے گی؟ اس لئے ہمارا موقف ہونا چاہئے کہ ہم کسی بھی دینی خدمت گزار کو کی کوتاہی کے بغیر صرف اس صورت حال کی وجہ سے مدرسہ سے علاحدہ نہیں کریں گے۔
(۲) جو ادارے اس موقف میں ہوں کہ اپنے ملازمین کو نقد تنخواہ دے سکتے ہوں ،تو ان کو نقد تنخواہ دینی چاہئے، اور اگر تعلیم کے علاوہ مدرسہ کا اور کوئی کام استاذ کر سکتا ہو، جیسے: لائبریری کی تنظیم وتنسیق، یا اس طرح کے دوسرے کام تو یہ ان سے لیا جائے، یا ان سے کہا جائے کہ آپ کو سال بھر جو پڑھانا ہے، آپ اس کی یادداشت تیار کر کے مدرسہ کو پیش کیجئے، ان کو زیردرس کتابوں کے خصوصی مطالعہ کا پابند کیا جائے، مثلاََ ایک استاذ ہدایہ پڑھاتا ہے تو اس سے کہا جائے کہ آپ اس لاک ڈاؤن کے زمانہ میں پوری فتح القدیر دیکھ جائیے اور اس کی تلخیص تیار کیجئے؛ تاکہ جب آئندہ طلبہ پڑھیں تو ان کو زیادہ فائدہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔
ایک سوال یہ بھی اُٹھایا گیا ہے کہ جب تک معاونین کی اجازت نہ ہو، کیا بغیر کام کے ان کو اجرت دی جا سکتی ہے؟ تو خیال ہوتا ہے کہ اجازت کبھی صراحۃََ ہوتی ہے اور کبھی دلالۃََ اور معناََ، آج کے ماحول میں اگر چندہ دینے والوں کو معلوم ہوکہ فلاں مدرسہ اپنے اساتذہ کو تنخواہ دے رہا ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے وہ ناراض ہوں؛ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس پر خوشی کا اظہار کریں کہ اس مصیبت کے وقت میں ہمیں مدد کرنی چاہئے تھی، ہم نہیں کر سکے اور مدرسہ ہمارا فرض ادا کر رہا ہے، ان شاء اللہ یہ دلالۃََ اجازت کافی ہوگی۔
(۳) اگر پوری تنخواہ نقد ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہو؛ البتہ امید ہوکہ بعد میں ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہو جائے گی تو انتظامیہ تنخواہ کا ایک حصہ نقد ادا کر دے اور کوشش کرے کہ یہ نصف سے کم نہ ہو، اور اساتذہ سے کہہ دیا جائے کہ مدرسہ کے پاس جب ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی، تب ادا کردے گا، یعنی ادا ضرور کرے گا؛ لیکن اپنی سہولت کے لحاظ سے ؛کیوں کہ ابھی جو صورت حال ہے ،ضروری نہیں ہے کہ مدارس مستقبل قریب میں اس موقف میں آجائیں کہ پچھلے بقایا کو ادا کر سکیں، ابھی تو صورت حال درست ہوگی، معمول کی آمد ورفت شروع ہوگی، پھر جو لوگ مدرسہ کے لئے فراہمیٔ مالیہ کا کام کرتے ہیں، وہ معاونین کے پاس پہنچیں گے، اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ معاونین کا بھی کچھ کاروبار چلے ؛ تاکہ وہ تعاون کرنے کے موقف میں آجائیں، تب مدارس کے مالی حالات بہتر ہوں گے، اور اگر مقروض دیوالیہ ہو جائے تو شرعاََ بھی اس کو مہلت دینا واجب ہے۔
(۴) اگر مدرسہ کے پاس نہ اس وقت پیسہ ہے اور نہ یہ امکان ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے پاس اتنے پیسے ہو جائیں گے کہ وہ اساتذہ کی پچھلے دنوں کی تنخواہ ادا کر سکے ، تو پھر اس صورت میں پوری تنخواہ کے بجائے اس مدت کی نصف تنخواہ دی جائے ، کچھ مشقت مدرسہ برداشت کرے اور کچھ اساتذہ، اس طرح دین کا یہ اہم کام جاری وساری رہے، اور اس کی نظیر حضرت عبداللہ بن کعب بن مالکؓ اور حضرت ابو حدودؓ کا واقعہ ہے، جو پہلے ذکر کیا گیا۔
(۵) اِن حالات میں ایک اہم ذمہ داری عوام کی ہے کہ اگرچہ بہت سے اصحاب خیر موجودہ حالات سے متأثر ہوئے ہیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ ان ہی حالات میں ہم اپنے گھروں کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں، اور اسی طرح پوری کرتے ہیں، جس طرح پہلے پوری کر رہے تھے؛ بلکہ اس وقت لاک ڈاؤن کے درمیان مسلمانوں نے جس فراخدلی کے ساتھ تارکِ وطن مزدوروں کی اور سماج کے غریب لوگوں کی بلا تفریق مذہب وملت مدد کی ہے، وہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے ،جتنی نفرت مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جا رہی تھی، اس خدمت نے نفرت کے ان شعلوں کی آنچ کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، تو جیسے ان حضرات نے ان موقعوں پر مدد کا ہاتھ بڑھایا، اسی طرح اب مدارس اور ان کے اساتذہ وعملہ کی طرف بھی مدد کا ہاتھ بڑھائیں؛ کیوں کہ یہ آپ کے سپاہی ہیں، یہ آپ کی دینی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کتنے بھی مشکل حالات ہوں ، آپ جانتے ہیںکہ کوئی ملک اپنے دفاع کو خطرے میںنہیں پڑنے دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ فتووں سے حل ہونے والا نہیں ہے، اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی اداروں کے ذمہ داران اور ملت کی اہم تنظیمیں ایک قابل عمل فارمولہ تیار کریں ،مدارس کی انتظامیہ اور اساتذہ دونوں کے سامنے رکھ دیں اور دونوں سے اس پر عمل کرنے کی اپیل کریں؛ کیوں کہ یہ ہنگامی حالات ہیں، اور غیر معمولی حالات کے احکام بھی غیر معمولی ہوتے ہیں،اس میں اساتذہ کی بھی رعایت ہونی چاہئےاور مدارس پر بھی اتنا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے ، جو قابل برداشت نہ ہو،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر قیمت پر مدارس اسلامیہ کو باقی رکھنا ملت اسلامیہ اور اصحاب خیر کا فریضہ ہے، اللہ تعالیٰ سبھوں کو اس صورت حال کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور موجودہ مصیبت کو جلد سے جلد دور فرما دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×