اسلامیات

دینی مدارس اہمیت، موجودہ دشواریاں اور حل

 دینی تعلیم اور دینی مدارس کی اہمیت یوں تو ہر مسلم سماج میں ہے؛ لیکن خاص کر جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، جہاں ان کا دین، ان کی تہذیب ان کی سماجی روایات ، ان کی شناخت نشانہ پر ہو اور جہاں گمراہی اور منکرات کے دروازے اس طرح کھلے ہوئے ہوں کہ کسی بھی شخص کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو؛ بلکہ اس کا استقبال کیا جاتا ہو، وہاں دینی مدارس کی اہمیت اور زیادہ ہے؛ اسی لئے ہمارے بزرگوں نے اس ملک میں انگریزوں کے غلبہ کے بعد اور مسلمانوں کے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کے پس منظر میں مدارس اسلامیہ کی بنیاد رکھی، اِس ڈیڑھ دو سو سال کے عرصہ میں ان مدارس نے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہ ایسی ہیں کہ اگر چشم بصیرت موجود ہو تو نابینا بھی دیکھ لے ،ان ہی مدارس نے مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے جوڑے رکھا ہے، ان ہی مدارس نے ان کو عیسائیت ، قادیانیت اور مادیت پرستی کے ارتدادی فتنوں سے بچائے رکھا ہے، ان ہی مدارس نے شریعت کی اہمیت ان کے ذہن میں قائم رکھی ہے، ان ہی مدارس کی وجہ سے مسجدیں آباد ہیں، تمام دینی تحریکوں، جماعتوں اور مسلم تنظیموں کو ان ہی سے غذا مل رہی ہے، انھوں نے عوام میں دینی جذبات ، ایمانی حمیت اور اسلامی شعور کی چنگاری کو سرد ہونے سے بچایا ہے، یہاں تک کہ مدارس ہی سے نکلنے والے افراد ہیں، جو آج ملک میں خدمت خلق ، مظلوموں کی مدد، فساد سے متأثر ہونے والے افراد کا تعاون اور ان کی عدالتی پیروی جیسے کام انجام دینے میں بھی شریک یا پیش پیش ہیں، ان مدارس کے فارغین نے مسلمانوں کو بھی اعمال صالحہ کی دعوت دی ہے اور محدود پیمانہ پر سہی برادران وطن تک بھی ایمان کی دعوت پہنچائی ہے؛ اس لئے اگر کہا جائے کہ یہ ملت اسلامیہ کی شہہ رگ ہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
ان مدارس کی تشکیل چار عناصر سے ہوتی ہے: مسلم عوام، اداروں کی انتظامیہ ، اساتذہ اور طلبہ، اور ان سب کا رول اپنی اپنی جگہ اہم ہے، اگر عوام کی طرف سے ان اداروں کی اعانت اور تقویت و حمایت نہ ہو، تو ظاہری اسباب کے اعتبار سے مدارس کا چلنا دشوار ہو جائے گا، اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت ان مدارس کا انفراسٹرکچر سرکاری اسکولوں سے بہتر ہے اور مدارس کے دارالاقامہ کی سہولتوں کا معیار گورنمنٹ کے عصری تعلیمی اداروں کی بورڈنگ کے معیار سے بڑھ کر ہے، یہ سب عوامی تعاون کی وجہ سے ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان اپنی بہت ساری کمزوریوں کے باوجود جتنا زیادہ اللہ کے دین کے لئے، اپنی قوم کے لئے، اسلام کی سربلندی و سرفرازی اوردینی شعائر کی حفاظت کے لئے خرچ کرتے ہیں، کوئی اور قوم اس میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی؛ اس لئے ان کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے، غیر مسلم بھائی بھی اس کو محسوس کرتے ہیں۔
مدارس کی تشکیل وتعمیر میں ایک بنیادی رول انتظامیہ کا ہے، وہ اپنی صلاحیت ، قابلیت، اخلاقی اثرات ، اثرو رسوخ ،محنت اور جدوجہد کے ذریعہ مسلمانوں کو مدرسہ کے قائم کرنے پر، یا جو قائم ہیں، ان کے تعاون پر آمادہ کرتے ہیں، اس  کے لئے بعض دفعہ ان کو اپنی سطح سے نیچے بھی اترنا پڑتا ہے، جن لوگوں کے یہاں وہ عام حالات میں نہیں جاتے، مدارس کی تقویت کے لئے وہ وہاں بھی پہنچتے ہیں، اور اس کے لئے بعض دفعہ اپنی بے عزتی اور تحقیر کو بھی گوارا کرتے ہیں ،اگر کہا جائے کہ وہ قوم کے نونہالوں کے لئے گداگری بھی کرتے ہیں، تو غلط نہ ہوگا،پھر یہ کہ استاذ اپنے بارے میں سوچتا ہے، طالب علم اپنے بارے میں سوچتا ہے، لیکن ادارہ کے ذمہ دار کو ہر ایک کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے، اور جب بھی مدرسہ میںکوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو ذمہ دار کو آگے بڑھ کر اسے حل کرنا پڑتا ہے ، اگر خدانخواستہ کوئی موقع بدنامی کا آیا تو وہی بے چارہ اسے سہتا بھی ہے، نیز انتظام ایک ایسی چیز ہے، جس سے اختلاف کی نوبت آتی رہتی ہے، بڑا سے بڑا آدمی ہو، اس سے بھی لوگوں کو شکایت ہوتی ہے، قرآن مجید ہمارے سامنے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ا یک خاص واقعہ کے پس منظر میں : ما کان لنبي أن یغل (آل عمران: ۱۶۱) آیت نازل ہوئی، منتظم سب کی ضرورتوں کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور سب کی ناہموار باتوں کو بھی سہتا ہے،اس کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں، اس کا فرض ہے کہ اساتذہ اور عملہ کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے، طلبہ کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرے، بہر حال ذمہ داری سب سے بڑھی ہوئی اسی کی ہوتی ہے، بعض دفعہ اساتذہ اپنے ساتھیوں اور طلبہ کے درمیان اکسانے والی بات کہہ دیتے ہیں؛ کیوں کہ ان کے صرف الفاظ خرچ ہوتے ہیں، ان کو کچھ کرنا نہیں پڑتا ہے اور اس سے مدرسہ میں انتشار کی شکل پیدا ہو جاتی ہے؛ لیکن ذمہ دار صرف لفظی ہمدردی کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہو سکتا، جو مسائل درپیش ہیں، دوڑ دھوپ کر کے اس کو حل کرنا پڑتا ہے؛ اس لئے انتظامیہ کی حیثیت ادارہ کے لئے دماغ کی ہے۔
مدرسہ کے ماحول میں منتظم کی حیثیت ’’امیر‘‘ کی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ چاہے وہ ناک کٹا حبشی غلام ہو، پھر بھی اس کی اطاعت کی جائے،(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۶۰۷) یعنی جس معیار کا ہونا چاہئے، اس معیار کا نہ ہو تب بھی اس کی اطاعت کی جائے، اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اگر تم پر ایسے لوگ ذمہ دار بن کر آجائیں کہ تم دیکھو کہ وہ اپنا حق تم سے لیتے ہیں اور تمہارا حق نہیں دیتے ہیں، تو تم صبر سے کام لو، اور اس دن کا انتظار کرو جس دن اللہ کے سامنے وہ بھی حاضر ہوں گے اور تم بھی حاضر ہوگے، (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۷۵۹)یہ بڑی حکمت کی بات ہے ،برائی تو برائی ہے؛ مگر ذمہ دار کسی برائی کا ارتکاب کرے تو وہ اور بڑھی ہوئی برائی ہے؛ لیکن امت کو انتشار سے بچانا اور دین کے تحفظ کا جو نظم قائم ہو، اس کو بکھرنے سے محفوظ رکھنا نہی عن المنکر سے زیادہ اہم ہے۔
 تیسرا تشکیلی عنصر ہیں: اساتذہ ،اساتذہ مدارس کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؛ کیوں کہ مدارس کا بنیادی مقصد تعلیم وتربیت ہے، اور تعلیم وتربیت کا فریضہ اساتذہ ہی انجام دیتے ہیں ،نیز اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دینی مدارس کے اساتذہ کی اپنی ایک شان ہے، طلبہ کے ساتھ شفقت، فرض شناسی کا جذبۂ بے کراں، اللہ کی رضا کے لئے اپنے فریضہ کی ادائیگی اورادارہ کی خیر خواہی، یہ ساری باتیں عام طور سے دینی مدارس کے اساتذہ میں پائی جاتی ہیں ،آج بھی مدارس کے اساتذہ خاص کر قدیم اساتذہ اخلاقی اقدار کے اعلیٰ معیار پر ہیں، اور دینی جذبہ سے سرشار ہیں، ان کا تواضع، ان کی محبت اور ان کی کسر نفسی طلبہ اور عوام کے دلوں کو فتح کر لیتی ہے اور یہی ہونا چاہئے؛ لیکن افسوس کہ آج کل جو نوجوان فضلاء آرہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ اور ذمہ دار تیس پینتیس سال کے بعد جس مقام پر پہنچے ہیں، ہم پہلے ہی دن اس مقام پر پہنچ جائیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارتقاء کی فطرت میںتدریج رکھا ہے، کوئی بھی چیز درجہ بدرجہ اور رفتہ رفتہ ترقی کرتی ہے۔
چوتھا طبقہ طلبہ کا ہے، یہ مدرسوں کی امیدوں کا مرکز ہیں، ساری محنت ، عوام کا اپنی گاڑھی کمائی سے تعاون ، ادارہ کے ناظم یا مجلس انتظامی کی دوڑ دھوپ اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا، اساتذہ کا شب وروز اپنی آنکھوں کا چراغ جلا کر پڑھنا اور پڑھانا، یہ سب طلبہ کے کی شخصیت کی تعمیر کے لئے ہوتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیںکہ بہت سی کوتاہیوں کے باوجود آج بھی دینی مدارس کے طلبہ کا اخلاقی معیار عصری درسگاہوں کے طلبہ سے بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
  ان چار عناصر سے مدرسہ بنتا ہے اور چلتا ہے، ان چاروں کا آپس میں جتنا زیادہ تعاون ہوگا، ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کی رعایت ہوگی،مدرسہ اسی قدر بہتر طور پر ترقی کا سفر طے کر سکے گا؛ اس لئے عوام کا رویہ مدارس کے ذمہ داران، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ بہتر ہونا چاہئے، عام طور پر ایسا ہی ہے؛ لیکن بعض دفعہ کچھ افسوسناک صورت حال بھی سامنے آتی ہے، اگر مدرسہ کا استاذ ہے، ذمہ دار ہے یا مسجد کا امام وموذن ہے، کل وہ سائیکل پر چلتا تھا اور آج اس کے پاس بائیک آگئی، یا فور وہیلر آگئی تو بعض خدا ناترس اصحابِ ثروت کا تبصرہ ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو دیکھو کہ کل تک تو سائیکل چلا رہے تھے اور آج ان کے پاؤں گاڑی سے نیچے اترتے ہی نہیں ہیں، ایسی سوچ رکھنے والے لوگ کم ہیں؛ لیکن ہیں ضرور ؛ حالاں کہ عوام کا مزاج یہ ہونا چاہئے کہ ہم علماء کو اپنے سے بھی بہتر حالت میں دیکھیں، اگر وہ اپنے کسی عالم کو دیکھیں کہ اس کے پاس اچھی گاڑی ہے، اس کے کپڑے اچھے ہیں، ، ڈھنگ کا مکان اللہ نے اس کے لئے بنا دیا ہے، تو ان کو خوش ہونا چاہئے کہ ہمارے دینی رہنما ماشاء اللہ اچھی حالت میں ہیں، آپ دوسری قوموں میں دیکھیں، خاص کر یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں کہ ُان کے مذہبی پیشوا ؤںکو کتنی زیادہ رعایتیں دی جاتی ہیں اور اکثر وہ عوام کے مقابلہ بہتر حالت میں ہوتے ہیں، ابھی اِس لاک ڈاؤن میں بعض مدارس کی مجلس انتظامی کے کچھ ارکان— جوعوام میں سے ہیں—کہنے لگے کہ کیا اتنے مہینے ہم گھر بیٹھ کر ان کو تنخواہ دیں گے، کیا یہاں حرام کے پیسے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ بہت بری بات ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے مواقع پر آپ کے لئے اپنے دینی رہنماؤں کے تئیں ہمدردی کے جذبات اور زیادہ بڑھے ہوئے ہوں۔
 اسی طرح ناظم کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کی عزت نفس کا خیال رکھیں، ان کے ساتھ انصاف سے کام لیں، طلبہ کے ساتھ شفقت ومحبت کا معاملہ رکھیں، کئی جگہ مدرسہ کے ذمہ داران کا اساتذہ کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے کہ گویا وہ ان کے ذاتی خادم یا کارخانہ کے لیبر ہیں، اور طلبہ کو تو گالی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے؛ حالاں کہ ان کے اندر سب سے بڑھ کر تحمل ہونا چاہئے، اور جیسے اساتذہ انتظامیہ کی بہت ساری باتیں سنتے اور برداشت کرتے ہیں، اسی طرح ذمہ دار کا بھی فریضہ ہے کہ اگر مدرسہ کا کوئی مدرس یا کوئی کارکن جذبات میں آکر کوئی ایسی بات کہہ جائے جو نہیں کہنی چاہئے تو اس کو سہہ لے اور نظر انداز کر دے، خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیہاتیوںکی کیسی کیسی باتوں کو سہہ جاتے تھے؛ حالاں کہ نبی کامقام تو اتنا اونچا ہے کہ اس کی بے حرمتی ہی نہیں بے حرمتی کا خیال بھی انسان کے دائرہ ایمان سے باہر ہو جانے کے لئے کافی ہے۔
میرے پاس ایک صاحب جو تاجر ہیں، دینی مزاج رکھتے ہیں، علماء کے بھی قدرداں ہیں، انھوں نے ایک واٹس ایپ کی تحریر لا کر دکھائی ،جس میں ایک فاضل نے مسجد کے صدر اور مدارس کے ذمہ داران کے خلاف بہت ہی سخت و سست الفاظ لکھ رکھے تھے، ایسے الفاظ جو کسی عالم کو زیب نہیں دیتے؛ بلکہ طلبہ کے ساتھ بھی ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ مدارس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتے ہیں؛مگر آپ دیکھئے کہ یہ عالم صاحب ہیں، ایک بڑے ادارہ کی نسبت ان کے ساتھ لگی ہوئی ہے، انھوں نے کیسی سخت اور ناشائستہ باتیں لکھی ہیں؛ اس لئے اساتذہ کو بھی اپنے رویہ اور اخلاق پر توجہ دینی چاہئے ، مدارس کے ذمہ داروں کے بارے میں بعض اساتذہ کا تأثر ہوتا ہے کہ یہ اتنی اچھی حالت میں کیوںہیں؟ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان سہولتوں تک کتنے عرصہ میں پہنچے ہیں اور انھوں نے کتنی محنت کی ہے، بعض ایسے ذمہ داران مدارس بھی ہیں جو مدارس سے تنخواہ ہی نہیں لیتے ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں جو بوقت ضرورت اپنی ذاتی رقم بھی لگا دیتے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو خاندانی طور پر صاحب ثروت ہیں، بعض لوگ وہ ہیں، جن کے رشتہ دار، اعزہ یا خود لڑکے باہر ہوتے ہیں، ان کو اونچی تنخواہیں ملتی ہیں، وہ ان کی خدمت کرتے ہیں، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے اخلاق و کردار سے متأثر ہو کر عام مسلمان ان کی خدمت کرتے ہیں، تو اپنے آپ یہ خیال پال لینا کہ انھوں نے مدرسہ کے پیسہ سے ہی یہ فائدہ اٹھایا ہے، یقیناََ  سوء ظن اور باعث گناہ ہے؛ غرض کہ ذمہ داروں کو اپنے اساتذہ کے ساتھ ہمدردی کا سلوک رکھنا چاہئے اور اساتذہ کو انتظامیہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے۔
طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پڑھنے پر توجہ دیں، اساتذہ ومنتظمین کا پورا احترام کریں، یہ چاروں عناصر جب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے، تب ادارہ کو ترقی ہوگی اور اس کے مسائل حل ہوں گے، اور اگر ایک دوسرے کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کریں، بدگمانی رکھیں، تنابز بالالقاب کریں تو اس سے نہ صرف ادارہ کو نقصان پہنچے گا؛ بلکہ دین کی اور اہل دین کی بدنامی ہوگی، امت کا اعتماد ختم ہو جائے گا اور عوام کے دین کا بقاء علماء پر اعتماد سے جڑا ہوا ہے، اگر یہ اعتماد ختم ہوگیا تو خود دین پر ا ن کا اعتماد ختم ہو جائے گا، یہ بات اس لئے عرض کی جا رہی ہے کہ موجودہ لاک ڈاؤن کے درمیان ایک دوسرے سے شکایت کا نیا باب کھل گیا ہے، جو بات بند کمرہ میں ہوتی تھی، وہ سوشل میڈیا کے چوراہوں پر کی جانے لگی ہے، اس سے بحیثیت مجموعی اداروں کا وقار بھی مجروح ہوا ہے اور علماء کا بھی۔
اب اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو جو تین طبقے مل کر اداروں کا چلاتے ہیں، وہ تینوں ہی اپنی اپنی جگہ سخت دشواری سے دو چار ہیں، اساتذہ عام طور پر بہت ہی معمولی تنخواہوں پر دین کی خدمت کے جذبہ کے تحت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مدرسوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی اس قربانی کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے، ظاہر ہے وہ اس وقت بہت پریشانی میں ہیں؛ کیوں کہ ان کی تنخواہ اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ماہ بہ ماہ اپنی ضرورت پوری کر لیں، کوئی بچی ہوئی رقم ان کے پاس نہیں ہوتی ،اسی طرح منتظمین بھی کچھ کم پریشانی میں نہیں ہیں؛ کیوں کہ لاک ڈاؤن ایسے وقت لگا جومدرسہ کی اصل آمدنی کا وقت ہے، جس سے سال بھر کی آمدنی مہیا ہوتی ہے، دشواری یہ ہو گئی کہ شہر کا تعاون بھی بہت کم حاصل ہوا اور مدارس کے سفراء اور اساتذہ جو اپنے شہر کے باہر یا اپنی ریاست سے باہر بڑے کاروبای شہروں میں جا کر فراہمی مالیہ کا کام کرتے تھے،وہ بھی نہیں نکل سکے، تو مسئلہ یہ ہے کہ جب منتظمین کے پاس پیسے آئیںگے، جب ہی تو وہ تنخواہیں ادا کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ انتظامیہ تو عوام کی طرف سے ان کے تعاون کو خرچ کرنے اورنظم قائم رکھنے کی وکیل ہے، کمرشیل اداروں ،کمپنیوں اور عصری تعلیمی اداروں کی نوعیت الگ ہے، ان میں جو ادارہ کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ گویا اس کا مالک ہوتا ہے، بچ جانے والی تمام رقمیں اسی کی ہوتی ہیں؛ لیکن مدارس میں ذمہ دار کی حیثیت بھی ایک منتظم اور ملازم کی ہے،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کسی ناظم یا مہتمم کے لئے یہ جائز نہیںہے کہ وہ عوام سے تعاون حاصل کر کے اپنی تنخواہ تو نکال لے اور اساتذہ وعملہ کو فراموش کر دے؛ لیکن اگرمدرسہ کے پاس فنڈ ہی نہیں ہو تو وہ اس میں مجبور ہے ،اور جب کوئی شخص مجبور ہوتا ہے تو کسی عمل کو انجام نہ دینے پر اس کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔
تیسرا طبقہ اصحاب خیر کا ہے، عام طور پر مدارس کا تعاون تجار حضرات کرتے ہیں، تاجروں کے ذریعہ زکوٰۃ کی بڑی رقمیں آتی ہیں ،عطیہ کی رقمیں بھی آتی ہیں، اکثر بلڈنگ فنڈ میں بھی وہی پیسہ دیتے ہیں، اب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کئی مہینوں سے کاروبار بند ہیں، دوکانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور کہیں لاک ڈاؤن کھولا بھی گیا ہے تو عوام کے پاس پیسے نہیںہیں کہ خریداری ہو اور اُن کا کاروبار آگے بڑھ سکے؛ اس لئے ان کے ہاتھ خود خالی ہیں؛ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ موجودہ حالات میں مدارس کے نظام کو قائم رکھنے والے تینوں طبقات اپنی اپنی جگہ پریشانی سے دوچار ہیں ، اگر کوئی سمجھتا ہوکہ ایک ہی طبقہ اس سے پریشان ہے ، دوسرے طبقہ پر اس کا اثر نہیں ہے، تو یہ انصاف کے خلاف بات ہوگی۔
(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×