سیرت و تاریخ

چند دن محدثین وفقہاء کی بارگاہ میں! (۳)

یہاں کی ایک بہت ہی مشہور اور تاریخی جگہ میدان ریگستان ہے، اسی کو بعض عرب مصنفین نے میدان ِداجستان لکھا ہے، آج کل اس کو’’ ریگستان اسکوائر‘‘ بھی کہتے ہیں، امیر تیمور اپنی فتوحات کے بعد اسی میدان میں اپنی فاتحانہ یاد گاروں کی نمائش کرتا تھا، اس میدان کے ایک طرف شارع عام ہے، اور تین طرف تین مدارس کی عالی شان عمارتیں ہیں، دائیں جانب مدرسہ شیردار ہے، جس میں معقولات کی تعلیم دی جاتی تھی، یہ سلطنت بخاریٰ کے نائب امیر اور ازبک کمانڈر شیردار نے تعمیر کرایا ہے، ۱۴۱۹ء میں اس کی تعمیر عمل میں آئی، بائیں جانب مدرسہ اُلغ بیگ ہے، جو ۱۴۱۷ء میں تعمیر ہوا، الغ بیگ تیمور کا پوتا تھا، اور اس کا شمار ماہرین فلکیات میں ہوتا تھا، اس نے اپنے ذوق کے مطابق ایک رسد گاہ بھی تعمیر کرائی تھی، جس کے نقشہ کا لاطینی ترجمہ آکسفورڈ سے شائع ہوا ہے، یہ مدرسہ اس نے سائنسی مضامین کی تعلیم کے لئے بنایا تھا، اس نے امتحان کے بعد ایک ایسے سادہ لباس درویش کو اس کی ذمہ داری سونپی، جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، اور پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا؛ لیکن اس نے اُلغ بیگ جیسے ماہر فن کے سوالات کا بروقت جواب دیا، یہ درویش تھے: مولانا محمد حوافی، وہ زندگی بھر اس جامعہ کے امیر رہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ادوار میں کس طرح مسلمان علماء دینی وعصری علوم کا بہترین امتزاج ہوا کرتے تھے!
درمیان میں مدرسہ طِلا کاری ہے، اس کو بھی شیر دار خان نے ۱۶۴۶ء میں بنوایا تھا، مدرسہ کے اندر ایک مسجد ہے، جس کی اندرونی دیواروں اور چھت پر سونے کی نقاشی کی گئی ہے؛ اس لئے اس مسجد کو’’ طلائی مسجد اور مدرسہ کو’’ مدرسہ طِلا کاری‘‘ کہا جاتا ہے، اس خطہ کے اکثر گنبدوں کی طرح اس مسجد کے اوپر بھی نیلے رنگ کا ایک بلند گنبد ہے اور دونوں طرف نیلے رنگ کی برجیاں بنی ہوئی ہیں، اس مدرسہ کو خاص طور پر علوم شرعیہ کی تعلیم کے لئے تعمیر کیا گیا تھا، ان تینوں عمارتوں کے درمیان کھلا ہوا نہایت کشادہ صحن ہے، آج کل یہاں روشنی اور آواز پروگرام بھی پیش کیا جاتا ہے اور ملک کی قومی تقریبات اسی میدان میں منعقد کی جاتی ہیں، یہ تینوں عمارتیں اپنی شان وشوکت، بلندی اور دیواروں کے خوبصورت نقش ونگار کے اعتبار سے ایک سے ایک ہیں۔
میدانِ ریگستان سے متصل امیر تیمور کا مجسمہ ہے، جس میں وہ گھوڑے پر سوار ہے، اس کے نیچے اس کی قبر ہے، وہ ۱۳۳۶ء میں پیدا ہوا اور ۱۴۰۵ء میں اس کی وفات ہوئی، ترک منگول کی برلا سن شاخ سے اس کا تعلق تھا، ایک ہی زمانہ کے دو طاقت ور اور جابر حکمراں تیمور اور چنگیز کا جد امجد تومنہ خان تھا، تیمور نے اپنی زندگی میں ۴۲؍ ملک فتح کئے، اس کی فتوحات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۱۳۹۸ء میں وہ ہندوستان پہنچا اور دہلی میں قتل عام کرایا، اور ۱۳۹۹ء میں دمشق اور حلب کو فتح کیا، اس کی شجاعت جس قدر قابل تعریف ہے، اس کی خوں آشامی اسی قدر قابل مذمت، اور مسلمان اور حافظ قران ہونے کے باوجود اِس میں مسلم وغیر مسلم کا کو ئی فرق نہیں تھا، یہ جنگ میں بہ یک وقت دونوں ہاتھ استعمال کرتا تھا، دائیں ہاتھ میں تلوار رکھتا تھا اور بائیں ہاتھ میں کلہاڑی، اور اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے کی لگام بھی ہاتھ میں ہوتی تھی، ان مہمات میں زخم کھا کھا کر دایاں ہاتھ شل اور دائیں پاؤں میں لنگ ہو گیا؛ اسی لئے مخالفین ان کو ’’ تیمور لنگ‘‘ کہتے تھے؛ لیکن ازبکستان میں اس کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے اور ’’ امیر تیمور ‘‘ کہا جاتا ہے۔
بہر حال آج کا پورا دن سمرقند کی سیر میں گزرا ،یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے پورا شہر دیکھ لیا؛ لیکن کچھ اہم اور یادگار عمارتیں ضرور دیکھ لیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ علمی دنیا پر جن محدثین اور فقہاء کا ایسا احسان ہے کہ امت کبھی اس سے سبک بار نہیں ہو سکتی، ان کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی، یہیں ایک ریسٹورنٹ میں میزبانوں کی طرف سے ہم لوگوں کے لئے عشائیہ کا نظم تھا،جب ہم لوگ ہوٹل واپس آئے تو معہد امام بخاریؒ کے دو اساتذہ بھی ملاقات کے لئے آئے، جن میں ایک مولانا نظام الدین تھے، جو ہدایہ اور شرح معانی الآثار پڑھاتے ہیں، دوسرے مکتبہ کے ذمہ دار تھے، ماشاء اللہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان حضرات کے اندر دیوبند کی بڑی محبت ہے، اور اس حقیر سے ان کی محبت ایک تو اس کی تالیفات کی وجہ سے ہے؛ لیکن ساتھ ہی ایک اہم سبب دیوبند کی نسبت بھی ہے۔
اس سفر میں ہم تینوں اور مولانا عبدالقیوم کے علاوہ ایک اہم ساتھی تاشقند کے ایک تاجر جناب مظفر صاحب بھی تھے، ان ہی کی گاڑی تھی اور وہی ڈرائیونگ کر رہے تھے، ان کے علاوہ جناب احمد نقشبندی کے لڑکے عبدالرحمن حافظ اور ایک صالح نوجوان’’ آبی جان‘‘ بھی تھے، جو مولانا عبدالقیوم کے شاگرد ہیں اور حفظ کر رہے ہیں، جناب بختیار صاحب ،جناب سعید اعظم صاحب ،جناب فیض اللہ صاحب اور دیگر محبت کرنے والوں کا بھی ساتھ تھا، یہ سبھی تاشقند کے رہنے والے ہیں، سبھوں کے نام یاد نہیں رہے؛ لیکن یہ قافلہ تین گاڑیوں کا تھا، اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین اجر عطا فرمائے، اس طرح سمرقند کا سفر تمام ہوا۔

بخار ا کی طرف

یہ رات ہم لوگوں نے سمرقند میں گذاری اور اگلی صبح بخارا کے لئے روانہ ہوئے، کہا جاتا ہے کہ ’’ بخر‘‘ کے معنیٰ مشرکانہ عبادت گاہ کے تھے، یہاں اس نام سے بودھوں کی بہت بڑی عبادت گاہ تھی، اسی مناسبت سے یہ شہر ’’ بخارا‘‘ کہلایا، مگر یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ آج اس پورے خطہ کا تعارف اسلامی علوم کی خدمت سے ہے، بخارا کی شہرت تو امام بخاریؒ کی ذات والا صفات سے ہے؛ لیکن یہ شہر مختلف اکابر صوفیاء اور فقہاء کی بھی خوابگاہ ہے، بخارا پہنچنے سے پچاس کیلو میٹر پہلے شیخ عبدالخالق غجدوانیؒ کا مزار مبارک ہے، یہاں ہم لوگ اُترے اور فاتحہ پڑھا، کچھ وقت یہاں گذارا، پھر آگے بڑھے، شہر سے پانچ کیلو میٹر پہلے مشہور صاحب دل شیخ بہاؤالدین نقشبندیؒ کا مزار ہے، یہ ۷۱۷ھ میں پیدا ہوئے اور ۷۹۱ھ میں وفات پائی، شیخ بہاؤالدین نقشبندیؒ سلسلہ نقشبندیہ کے بانی ہیں، تصوف کے سلاسل میں سے یہی سلسلہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے، ان کی قبر کی زیارت کا اور یہاں دعاء کرنے کا موقع ملا، یہیں قریب میں ان کے استاذ اور شیخ کی قبر ہے، جو امیر کُلالؒ کے نام سے جانے جاتے ہیں، یہ کُلال کا لفظ ازبک زبان میں کلاں یعنی’’ بڑے ‘‘کے معنیٰ میں ہے،یہ ان کا لقب تھا، وہاں بھی حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
اب کافی وقت ہو چکاتھا ؛ اس لئے بخاریٰ شہر میں داخل ہونے کے بعد عصر سے پہلے ایک ہوٹل میں تمام ساتھیوں کے ساتھ ظہرانہ کیا گیا، بخاریٰ کے قابل دید مقامات قدیم شہر میں ہیں؛ اس لئے ہمارے بعض رفقاء نے مولانا عبدالقیوم صاحب سے خواہش کی تھی کہ ہمیں قدیم شہر کے کسی ہوٹل میں ٹھہرایا جائے؛ چنانچہ’’ ہوٹل صفیہ‘‘ کے نام سے ایک ہوٹل میں نظم ہوا، یہ قدیم شہر میں تھا اور اس کا گرد وپیش بھی اس کی قدامت کا گواہ تھا، چھوٹی گلیاں اور گلیوں میں بعض مٹی کی کچی دیواریں؛ لیکن ہوٹل اندر سے تمام سہولتوں سے آراستہ تھا، یہیں ہم لوگوں نے آرام کیا، عصر کے وقت نکلے اور یہاں کی بڑی مسجد ’’مسجد کبیر امام بخاریؒ  ‘‘ میں عصر کی نماز ادا کی، پھر یہیں مغرب بھی ادا کی، کہا جاتا ہے کہ امام بخاریؒ کا درس اسی مسجد میں ہوا کرتا تھا، یہ بہت ہی وسیع، کشادہ، خوبصورت ، بلند دیوار اور منبر ومحراب والی مسجد ہے، یہیں اس مسجد کے صحن کے بعد لگا ہوا مدرسہ ’’ مدرسہ میر عرب‘‘  ہے، سعید بن عبداللہ یمنی کسی زمانہ میں بخاریٰ کے امیر تھے، ان کو ’’ میر عرب‘‘ کہا جاتا تھا، انھوں نے اپنے زمانۂ حکومت (۱۵۳۰ھ تا ۱۵۳۶ھ) میں اس کی تعمیر کرائی تھی، روس کے تسلط تک یہ وسط ایشیا کے طلبہ کے لئے مرکز تھا، یہ ۱۶۰؍ کمروں پر مشتمل ہے، اب اس کو عالمی ورثہ میں شامل کیا گیا ہے، موجودہ حکومت نے اس مدرسہ کو گورنمنٹ کے زیر انتظام زندہ کیا ہے ،اندر لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی؛ لیکن بعض طلبہ نے جن کو اطلاع ہوگئی ،بہت ہی اشتیاق کے ساتھ ملاقات کے لئے نکل آئے۔
 یہاں ہمیں امام ابو حفص کبیرؒ جو براہ راست امام محمدؒ کے شاگرد ہیں اور جن کا شمار بڑے حنفی فقہاء میں ہے، کے مزار پر بھی حاضری کا اتفاق ہوا، ایک اور جگہ چہار ابو بکر کہلاتی ہے، اس عمارت میں چار قبریں ہیں، جن میں سے ہر ایک کا نام ابو بکر تھا اور یہ سب اصحاب علم تھے، یہاں بھی پہنچنے کی سعادت حاصل ہوئی، فقہ حنفی کی معروف کتاب’’ فتاویٰ خانیہ‘‘ کے مصنف قاضی خان (م: ۵۹۲ھ) بھی یہیں آسودۂ خواب ہیں،وہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا، اور تھوڑا سا وقت وہاں گذاراگیا، قاضی خان کے مزار کی زیارت سے فارغ ہونے تک کافی دیر ہو چکی تھی، اس روز ہم لوگوں کے لئے عشائیہ کا نظم بخاریٰ کے ایک مخلص جناب شہروز صاحب کے یہاں تھا؛ چنانچہ ہم لوگ وہاں آگئے، وہیں عشاء کی نماز ادا کی ، کھانا تناول کیا، تاشقند اور سمرقند کے احباب کا ایک بڑا قافلہ تو پہلے سے ساتھ تھا، اور بخاریٰ کے بھی بہت سے اہل علم اور مخلصین جمع ہوگئے ، ان حضرات کا اصرار ہوا کہ میں کچھ خطاب کروں ، میں نے اولاد کی تربیت کی اہمیت کے موضوع پر تقریباََ ۵۰؍منٹ خطاب کیا، اور عزیز مکرم مولانا عبدالقیوم صاحب نے اُزبک زبان میں ترجمہ کیا، میں نے اس موضوع کا اس لئے انتخاب کیا کہ یہ خطہ تقریباََ پون صدی الحاد کے زیر سایہ رہا ہے، اور نوجوانوں کو دین سے دور کرنے کی منظم کوششیں کی جاتی رہی ہیں؛ اس لئے اب بہت زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ نئی نسل کی تربیت پر توجہ دی جائے،حاضرین نے بڑی توجہ سے سنا اور بعد میں متعدد حضرات نے کہا کہ آپ نے جس موضوع پر ہمیں نصیحت کی ، واقعی یہاں کے ماحول میں اس کی بہت زیادہ ضرورت تھی، دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہلوایا، اس کو وہاں کے لوگوں کے لئے نافع بھی بنادیں۔

نَسَف اور تِرمِذ

بخاریٰ تاریخی اعتبار سے ایسا گلستانِ علم ہے، جس میں قدم قدم پر فکر ونظر کا شجرۂ طوبیٰ نظر آتا ہے، شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانیؒ (م: ۱۰۵۶ھ) جیسا حنفی فقیہ، ابو یزید بسطامیؒ( م: ۱۲۶۱ھ) جیسا درویش، ابو علی سیناؒ (م: ۴۲۸ھ) جیسا سائنس داں اور محمد بن موسیٰ خوارزمیؒ جیسا فلکیات اور ریاضی کا ماہر اسی سرزمین میں پیدا ہوا، یہیں سے ان کا فیض جاری ہوا، مگر وقت نے اجازت نہیں دی کہ ان کی یادگاروں کی زیارت کی جائے؛ چنانچہ۱۳؍مارچ کی صبح ہم لوگ بخاریٰ سے تِرمذ کی طرف روانہ ہوئے، بخاریٰ سے تِرمذ کا فاصلہ چھ سو کیلو میٹر سے بھی زیادہ ہے، اس سلسلہ میں مولانا عبدالقیوم سلمہ کا مشورہ تھا کہ یہ سفر جہاز سے کر لیا جائے؛ لیکن پھر یہ بات سامنے آئی کہ ترمذ اور بخاریٰ کے درمیان نَسَف نامی شہر ہے، جس کو آج کل ’’قرشی ‘‘ کہتے ہیں، اور نسف میں بڑے اہل علم گذرے ہیں، اگر کار سے جایا جائے اور ایک وقفہ نَسَف میں کر لیا جائے تو وہاں کے تاریخی مقامات کی بھی زیارت ہو جائے گی اور تھوڑا آرام بھی ہو جائے گا؛ چنانچہ اسی پر عمل کیا گیا، ہم لوگ تقریباََ دوپہر میں نَسَف پہنچے، یہاں امام ابو منصور ماتریدیؒ کے اجلہ تلامذہ میں سے ایک علامہ ابو معین نسفیؒ (م: ۵۰۸ھ) کا مزار ہے، جن کی کتاب ’’ تفسیر الادلہ فی اصول الدین‘‘ معروف ہے، اس کے علاوہ اصول فقہ اور علم کلام پر ان کی متعدد کتابیں ہیں؛ چنانچہ ہم لوگ اُن کے مزار پر گئے، پھر وہاں سے آگے بڑھے، جمعہ کا دن تھا، اور سرِ راہ ایک دیہات ’’  تینگا آرام‘‘ کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی، یہ راستہ اتنا طویل تھا اور ہم لوگ اس قدر تھک چکے تھے کہ راستہ کاٹے نہیں کٹ رہا تھا، بہر حال چار بجے ترمذ سے متصل علاقہ شیر آباد پہنچنا ہوا، اسی شیر آباد میں امام محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ (م: ۲۷۹ھ) کا مرقد ہے، یہاں حاضری ہوئی، فاتحہ پڑھا اور تھوڑی دیر توقف کیا، یہ بہت خوشی کا لمحہ تھا؛ کیوں کہ امام ترمذیؒ کی سنن کو بر صغیر کے مدارس میں خاص اہمیت حاصل ہے، اس اہم کتاب کو پڑھنے کا بھی موقع ملا اور سالہا سال پڑھانے کا بھی، امام ترمذیؒ امام بخاریؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے، جناب عبدالرحمن ترمذی کے یہاں ظہرانہ کا نظم تھا ، وہیں جا کر تاخیر کے ساتھ ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا، یہاں وہ حجرہ بھی تھا، جس میں وہاں کی روایت کے مطابق قرآن مجید حفظ کرانے کا انتظام ہوتا تھا، اس کے بعد ہم لوگ ترمذ شہر میں داخل ہوئے اور وسط شہر میں افروز ہوٹل میں قیام کیا؛ چوں کہ بہت تھک گئے تھے؛ اس لئے اب باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
اگلی صبح یعنی ۱۴؍ مارچ کو پہلے ہم لوگ ’’مرکز علمی امام ترمذیؒ  ‘‘حاضر ہوئے، یہ بھی حکومت کے زیر انتظام قائم ایک تعلیمی مرکز ہے، جس میں حدیث وفقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے، عمارت بہت شاندار اور نو تعمیر شدہ ہے، ابھی طلبہ تین چار ہی ہیں؛ البتہ حکومت اس کو آئندہ وسعت دینا چاہتی ہے، یہاں بھی مولانا عبدالقیوم نے میری تالیفات لائبریری میں جمع کرائیں،یہاں ہم لوگ محمد بن علی حکیم ترمذی کے مزار پر بھی گئے، جو بڑے صوفی بھی تھے اور محدث بھی ، جن کی کتاب ’’ نوادر الاصول‘‘ حدیث کا بڑا اہم مجموعہ ہے، یہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ہیں، ان کا مزار شہر سے تین کیلو میٹر کے فاصلے پر دریائے جیحون کے کنارے واقع ہے، بہت ہی پُر فضاء منظر ہے، گورنمنٹ نے یہاں بڑا پارک بنایا ہے، یہاں خانقاہی حجروں کو دیکھنے کا موقع ملا، زیرِ زمین کئی حجرے بنے ہوئے تھے، میں نے تو اوپر سے دیکھا؛ لیکن دوسرے ساتھی سیڑھی سے اتر کر نیچے تک گئے، یہ اصل میں ذاکرین کے لئے بنائے گئے تھے کہ وہ ان حجروں میں چلہ کشی کرسکیں؛ لیکن کمیونسٹ دور میں یہی حجرے خفیہ طور پر بچوں کی تعلیم کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اور حفظ قرآن کی اور دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی،یہاں سے نکل کر دریائے جیحون صاف نظر آتا ہے، کافی کشادہ دریا ہے ،ازبکستان کی سیرابی’’ دریائے جیحون اور دریائے سیحون‘‘  ان ہی دو دریاؤں سے ہوتی ہے،اُن کے درمیان کے علاقے کو’’ ما وراء النہر‘‘ کہا جاتا تھا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترمذ کو پہلی بار حضرت عثمان بن عفانؓ کے صاحبزادے سعیدؒ نے صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا؛ مگر بار بار کی شورش کی وجہ سے یہ علاقہ قبضہ میں آتا اور جاتا رہا، یہاں تک کہ ۹۳ھ میں قتیبہ بن مسلمؒ نے فتح کیا۔دریائے جیحون سے متصل افغانستان ہے، وہاں سے افغانستان کی عمارتیں صاف نظر آتی ہیں، یہاں پر ایک قلعہ بھی ہے، جو فوج کی تحویل میں ہے، یہاں سے نکل کر ہم لوگوں نے گاڑی ہی سے سرسری طور پر شہر کی گشت کی، اور ائیرپورٹ پہنچ گئے، جہاں سے ہمیں تاشقند واپس ہونا تھا، اس بات سے خوشی ہوئی کہ ائیرپورٹ کا عملہ دینی نسبت کی بناء پر خصوصی ادب و احترام کے ساتھ پیش آیا، جو وہاں کے لوگوں کا مزاج ہے۔

سیرِ تاشقند

ترمذ سے تاشقند کا ہوائی سفر ایک گھنٹہ کا ہوتا ہے؛ چنانچہ ڈیڑھ بجے ہم لوگ تاشقند پہنچ گئے، اور سابقہ ہوٹل ’’اورینٹل اِن‘‘ پہنچ کر دن کا کھانا تناول کیا، ابھی تک ہم لوگوں نے تاشقند کے قابل دید مقامات میں سے ایک دو ہی کی زیارت کی تھی؛ اس لئے آج کا دن شہر کی سیر کے لئے رکھا گیا تھا؛ چنانچہ عصر کی نماز مسجد مینار میں پڑھی گئی، یہ بڑی خوبصورت مسجد ہے، اور اس کا مینارہ بھی بہت عظیم الشان ہے، جو غالباََ ۴۳؍ میٹر اونچا ہے، اسی احاطہ میں امام ابو قفال شاشیؒ (۲۹۱– ۳۶۵ھ) کے مزار پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی، جو بڑے شافعی عالم تھے اور اس خطہ میں ان ہی کے ذریعہ فقہ شافعی کی اشاعت ہوئی؛ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی رائے پر فتویٰ دیتے تھے، یہیں پر مدرسہ براق خاں کی عمارت بھی ہے، ازبکستان کی دوسری تاریخی عمارتوں کی طرح یہ بھی بہت خوبصورت اور پُر شکوہ ہے، افسوس کہ روسیوں کے عہد سے اس کا استعمال مارکٹ کے طور پر ہو رہا ہے، اس کو شیبانیوں کے عہد حکومت میں نوردز احمد خان نے تعمیر کیا تھا، جو براق خاں سے مشہور تھا، یہیں وہ عمارت بھی ہے، جس میں بڑے اہتمام کے ساتھ ’’مصحف عثمانی‘‘ کو رکھا گیا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی کتابت کرا کر مختلف جگہوں کو بھیجا تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ خود ان کے زیر تلاوت تھا؛ اسی لئے بتایا جاتا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت جو خون (دھبہ) گرا تھا، اس کا نشان بھی اس مصحف پر موجود ہے، سرخ دھبہ تو ہم لوگوں نے بھی دیکھا؛ مگر اس دعویٰ میں کس حد تک صداقت ہے؟ معلوم نہیں، یہ مصحف دراصل امیر تیمور اپنے ساتھ تاشقند لایا تھا، روسیوں نے اس کو سینٹ پیڑز برگ منتقل کر دیا تھا، ۱۹۸۹ء میں یہ نسخہ ازبکستان کو واپس ملا، لوگ بڑی عقیدت سے اس کی زیارت کرتے ہیں۔
 آج رات کے کھانے کا انتظام جناب اکرام صاحب کے یہاں تھا، ان کے بیٹے عزیزی الہام سلمہ ہمارے عزیز مکرم مولوی عبدالقیوم صاحب کے ساتھ ان کی مسجد میں نائب امام ہیں، مغرب کی نماز ہم لوگوں نے ان ہی کی مسجد میں ادا کی، ما شاء اللہ بہت وسیع، کشادہ اور خوبصورت مسجد ہے، کھانے کا بھی انھوں نے بہت اعلیٰ درجہ کا اہتمام کیا تھا، کھانے کے بعد دعاء کی گئی، علمی مقامات اورمقدس شخصیات کی زیارت کا سلسلہ یہاں مکمل ہوا، تمنا تو ’’ فرغانہ‘‘ جانے کی بھی تھی، جو صاحب ہدایہ کی جائے ولادت ہے، اسی کے ایک شہر’’ اوش‘‘ سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور فتاویٰ سراجیہ کے مصنف علامہ سراج الدین اوشیؒ کا تعلق ہے اور پہلا مغل حکمراں بابر بھی یہیں کا تھا، ازبکستان ہی میں ’’خوارزم‘‘ ہے، جس کو آج کل’’ خیوہ ‘‘کہا جاتا ہے، فقہ حنفی کی کتابوں میں بہت سی آراء علماء خوارزم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہیں، اور مختلف دینی اور سائنسی علوم کے ماہرین یہاں پیدا ہوئے ہیں؛ مگر یہ علاقے کافی دور تھے اور ہم لوگوں کے پاس وقت نہیں تھا؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ اس سفر نے تشنگی اور بڑھا دی۔
ہمارے مقررہ نظام اور ہندوستان واپسی کے بنے ہوئے ٹکٹ کے لحاظ سے ۱۵؍ مارچ کی تاریخ قیام کا آخری دن تھا، ۱۶؍ مارچ کو ہماری واپسی تھی، ۱۵؍ مارچ کو میزبانوں نے ایک تفریحی پروگرام رکھا، وہاں سے تقریباََ ڈیڑھ سو کیلو میٹر پر ایک ایسی پہاڑی ہے، جس کی سطح بہت اونچی ہے اور جو برف سے ڈھکی رہتی ہے؛ چنانچہ ہم لوگ جناب نظام الدین صاحب تاشقندی کی گاڑی سے چلے ، ان ہی کے گھر ناشتہ ہوا، اس سفر میں متعدد رفقاء کے علاوہ مولانا حکمت اللہ صاحب( فاضل دارالعلوم کراچی) اور مفتی عبدالمنان صاحب( فاضل دارالعلوم دیوبند) بھی ہمارے ساتھ تھے، ہم لوگ دوپہر کے قریب اپنی منزل مقصود پر پہنچے، اس جگہ کو ’’کنوش کان‘‘کہا جاتا ہے، کنوش کے معنیٰ ازبک زبان میں’’ چاندی‘‘ کے ہیں، بتایا گیا کہ اس پہاڑ سے چاندی کافی مقدار میں نکلتی ہے؛ اسی لئے اس کو کنوش کان کہتے ہیں، یہاں نظام الدین صاحب کا فارم ہاؤس بھی ہے، ہم لوگ وہیں ٹھہرائے گئے، کشمیر کا سا منظر ہے،ہرا بھرا علا قہ اور کسی قدر ٹھنڈبھی، پھر ہم لوگ گاڑی سے برف پوش پہاڑی کی طرف لے جائے گئے، جس مقام تک گاڑی جا سکتی تھی، میں تو وہاں اتر گیا، زیادہ تر رفقاء سفر بھی میرے ساتھ ہو گئے، عزیزان مولانا ارشدین اور بعض احباب سیڑھی کے ذریعہ اوپر اس مقام تک پہنچے، جہاں برف کی تہیں جمی ہوئی ہیں، وہاں تھوڑا سا وقت گذار کر پھر نظام الدین صاحب کے فارم ہاؤس پر واپسی ہوئی، یہیں ہم لوگوں نے کھانا تناول کیا، اگرچہ اجازت حدیث کی مجلس آج رات میں دوستوں نے رکھی تھی؛ لیکن جو علماء موجود تھے، ان کا خیال ہوا کہ انہیں یہیں حدیث کی اجازت دے دی جائے؛ چنانچہ میں نے ’’مسلسل بالاولیۃ والی حدیث‘‘ اور بخاری کی ایک حدیث پڑھ کر ان حضرات کو حدیث کی اجازت دی، اوریہاں سے تاشقند کے لئے روانہ ہوگئے۔(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×