اسلامیات

اسلام کا تصور جہاد قرآن وحدیث کی روشنی میں! (۲)

(۳) جہاد کی تیسری قسم’’ جہاد بالنفس‘‘ ہے، قرآن مجید کی مختلف آیات میں اس کا ذکر آیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جاھدوا بأموالکم وأنفسکم في سبیل اللہ (التوبہ: ۴۱)
اس کے علاوہ سورۂ نساء (آیت نمبر: ۹۵) انفال(آیت نمبر: ۷۲) توبہ (آیت نمبر: ۲۰،۴۴،۸۸) میں بھی اس کا ذکر آیا ہے، حدیث میں بھی جہاد بالنفس کا ذکر آیا ہے؛ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت اوپر آچکی ہے، اس میں ’’أنفسکم‘‘ کا لفظ بھی ہے (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۲۵۵۵) جہاد بالنفس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ راہ حق میں انسان اپنی زندگی کی قربانی کے لئے تیار ہو جائے، ایسی صورت میں یہ جہاد بالسیف یعنی قتال کے معنیٰ میں ہوگا، اور اس میں شبہ نہیں کہ قرآن مجید میں بعض مواقع پر جہاد بالنفس کی تعبیر جہاد بالسیف کے لئے بھی کی گئی ہے؛ لیکن جہاد بالنفس کے ایک معنیٰ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں مشقت برداشت کرنے اور گناہوں سے بچنے میں جو تکلیف ہوتی ہے، اس پر صبر کرنے کے بھی ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحج جھاد کل ضعیف (مصنف ابن ابی شیبہ، عن ام سلمۃ: ۱۲۶۵۶) ہر کمزور آدمی کا جہاد حج ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم علیھن جھاد، لا قتال فیہ: الحج والعمرۃ(سنن ابن ماجہ: ۲۹۰۱، نیز دیکھئے صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: ۳۷۰۲) ’’ہاں، عورتوں پر جہادہے؛ لیکن ایسا جہاد جس میں قتال کی نوبت نہیں آتی، یعنی حج اور عمرہ‘‘ ان احادیث کے ذیل میں شارحین نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بہت اہم ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
المراد جھاد النفس لما فیہ من إدخال المشقۃ علی البدن والمال (فتح الباری لابن حجر:۳؍۳۸۱)
حج کو جہاد قرار دینے سے مراد جہاد نفس ہے؛ اس لئے کہ انسان اس میں بدنی اور مالی مشقت سے دوچار ہوتا ہے۔
بخاری کے ایک دوسرے شارح علامہ بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں:
وإنما قیل للحج جھاداََ؛ لأنہ یجاھد فی نفسہ بالکف عن شھواتھا والشیطان (عمدۃ القاری:۹؍۱۳۴)
حج کو جہاد اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شہوات سے اور شیطان سے جہاد کرتا ہے۔
حج کے علاوہ جہاد بالنفس کی بعض اور صورتیں بھی حدیث میں آئی ہیں؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
جاء رجل إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فأستأذنہ في الجھاد، فقال: أحیی والداک؟ قال: نعم قال: ففیھما فجاھد (صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۰۰۴، نیز دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۳۴۵۶)
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، اور جہاد میں جانے کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تمہارے والدین زندہ ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ہی دونوں میں جہاد کرو۔
یعنی والدین کی خدمت کو بھی جہاد قرار دیا گیا؛ کیوں کہ اس میں مشقت بھی ہوتی ہے اور بوڑھاپے میں والدین کے مزاج میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے تو ان کی ڈانٹ ڈپٹ سننا نفس کو شاق بھی گزرتا ہے۔
جہاد بالنفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کہ جہاد کا حق ادا کرو : جاھدو فی اللہ حق جھادہ (الحج: ۷۸) کو بہت سے شارحین نے جہاد بالنفس ہی پر محمول کیا ہے، یا کم سے کم اس کو بھی اس جہاد میں شامل رکھا ہے، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق جہاد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
أن تؤدي جمیع ما أمرک اللہ عزوجل بہ، وتجتنب جمیع مانھاک اللہ عنہ، وأن تترک رغبۃ الدنیا لرھبۃ الآخرۃ (تفسیر السمرقندی: ۲؍ ۴۴۹)
حق جہاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرو، اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے باز رہو، اور آخرت سے ڈر کر دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو۔
علامہ ابو منصور ماتریدیؒ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
جاھدواأنفسکم في شھوتھا وأمانیھا، أو جاھدوا أعداء اللہ في دفع الوسواس والمحاربۃ معھم ( تفسیر الماتریدی: ۴۴۶)
اپنے نفس کی خواہشات اور آرزؤوں پر غلبہ پانے کے لئے نفس سے جہاد کرو، یا اللہ کے دشمنوں سے ان کے وساوس کو دور کر کے اور ان کے ساتھ جنگ کر کے جہاد کرو۔
علامہ نیساپوریؒ فرماتے ہیں:
فجھاد النفس بتزکیتھا بأداء الحقوق وترک الحظوط (غرائب القرآن ورغائب الفرقان للنیسابوری:۵؍۱۰۴)
نفس سے جہاد یہ ہے کہ حقوق ادا کر کے اور خواہشات سے بچ کر نفس کو صاف ستھرا کیا جائے۔
غرض کہ قرآن وحدیث میں جہاد کی ایک قسم جہاد بالنفس بھی بتلائی گئی ہے، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ ایک فوجی مہم سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:
قدمتم خیر مقدم، وقدمتم من الجھاد الأصغر إلی الجھاد الأکبر (کنز العمال، حدیث نمبر: ۱۱۷۷۹)
تمہارا آنا مبارک ہو، تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے ہو۔
(۴) جہاد کی چوتھی قسم جس کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ’’ جہاد بالقرآن‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ولو شئنا لبعثنا فی کل قریۃ نذیرا فلا تطع الکافرین وجاھدھم بہ جھادا کبیرا (الفرقان:۵۱-۵۲)
اگر ہم چاہتے تو ہر آبادی میں ایک اللہ سے ڈرانے والے کو بھیج دیتے؛ لہٰذا آپ کافروں کی بات نہ مانئے اور ان سے قرآن کے ذریعہ بڑا جہاد کیجئے۔
اس آیت میں ’’ جاھدھم بہ‘‘ کے الفاظ ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس سے قرآن مجید مراد ہے:
قال ابن عباسؓ: قولہ (فلا تطع الکافرین وجاھدھم بہ) قال: بالقرآن (تفسیر الطبری: ۱۹؍ ۲۸۰)
علامہ سمرقندیؒ نے بھی یہ تشریح کی ہے:
وجاھدھم بہ أي بالقرآن جھادا کبیرا، یعنی شدیدا (تفسیر السمرقندی: ۲؍۵۴۱)
مفسرین کا دوسرا قول یہ ہے کہ اس میں اسلام اور دین کے ذریعہ جہاد مراد ہے:
وجاھدھم بہ جھادا کبیرا ، قال: یرید الاسلام والدین (تفسیر ابن ابی حاتم: ۸؍۲۷۰۷)
بہر حال قرآن مراد ہو یا اسلام یا دین، سب کا ما حصل ایک ہی ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت پیش کی جائے؛ کیوں کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں، ان کو ایمان کی طرف لانا بھی ایک مشکل اور دشوار کام ہے، اور اس میں بھی مجاہدہ کی نوبت آتی ہے؛اس لئے یہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے؛ بلکہ اہم قسم ہے؛ کیوں کہ جہاد بالسیف کا بھی اصل مقصد اسلام کا غلبہ اور دعوت اسلام میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے، اس آیت میں جہاد سے جہاد بالسیف (تلوار سے جہاد) مراد نہیں ہو سکتا، علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ اس سے جہاد بالسیف مراد لینا حقیقت سے بعید ہے؛ کیوں کہ یہ مکی سورت ہے اور اس وقت نازل ہوئی ہے، جب کہ جہاد بالسیف کا حکم ہی نہیں آیا تھا:
وقیل: بالسیف،وھذا فیہ بعد؛ لأن السورۃ مکیۃ نزلت قبل الأمر بالقتال (تفسیر القرطبی:۱۳؍ ۵۸)
یہی بات الفاظ کے فرق کے ساتھ امام رازیؒ نے لکھی ہے (مفاتیح الغیب: ۲۴؍ ۴۷۴)
(۵) جہاد کی پانچویں قسم’’ جہاد بالسیف‘‘ (تلوار سے جہاد) ہے، اس کے لئے عام طور پر قتال کا لفظ آیا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وقاتلوا في سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا (البقرہ: ۱۹۰)
اللہ کے راستہ میں ان لوگوں سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔
الفاظ اور صیغوں کے ساتھ قتال کا حکم اور صاحب ِایمان کی حیثیت سے قتال کی صفت کا مختلف آیتوں میں ذکر آیا ہے

قرآن کے اس حکم میں دو باتیں قابل لحاظ ہیں: اول یہ کہ قرآن نے ایک طرفہ قتل کا حکم نہیں دیا ہے، جس میں ایک فریق دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، اور دوسرے فریق کی طرف سے کوئی اقدام نہ ہو، قتال کے معنیٰ یہ ہیں کہ دونوں فریق کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف قتل کا اقدام پایا جائے، اور ظاہر ہے کہ جب دوسرے فریق کی طرف سے قتل کا اقدام ہو تو اس کے مقابلہ میں قتل کا اقدام عین تقاضۂ انصاف ہے۔
دوسرا قابل توجہ نقطہ یہ ہے کہ اسلام ایسا دین نہیں ہے، جو اپنے ماننے والوں سے صرف عبادت کا مطالبہ کرتا ہو؛ بلکہ وہ ایک جامع نظام حیات ہے، جو فرد کی اصلاح سے لے کر ایک منصف مزاج اور عدل پرور سلطنت تک کا تصور پیش کرتا ہے؛ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت نہ وہاں کوئی حکومت تھی، نہ لا اینڈ آرڈر کا کوئی اور نظام تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہلی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی مقیم تھے، سبھوں کے ساتھ عدل، مذہبی آزادی، معاشی ترقی کے مساوی مواقع اور بے لاگ انصاف اس سلطنت کے بنیادی اصول تھے، سلطنتوں کو اپنی حفاظت کے لئے فوج کی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے حسب ضرورت جنگ کی ضرورت بھی پیش آتی ہے، دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کوئی ایسا ملک تھا، جس نے بیرونی یلغار سے حفاظت کا انتظام نہیں کیا ہو اور نہ آج کوئی ایسا ملک ہے؛ بلکہ آج تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا کی طاقت ور اقوام دوسروں کو کچلنے، ان کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے اور پوری پوری قوم کو غلام بنانے کے لئے جنگ کرتی ہیں؛ اس لئے اپنی حفاظت اور معاندین کی سرکوبی کے لئے جہاد بمعنیٰ قتال ایک ضروری حکم ہے اور یہ ایسی بات نہیں ہے، جسے برا سمجھا جائے۔
حاصل یہ ہے کہ اس وقت جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ جہاد مارکاٹ اور غیر مسلموں کے قتل عام کانام ہے، یہ بات درست نہیں ہے، جہاد کی مختلف قسمیں ہیں، اور ان میں سے بیشتر وہ ہیں، جن میں لوہے کی تلوار نہیں اخلاق اور محبت کی تلوار استعمال کی جاتی ہے۔

٭ ٭ ٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×