حیدرآباد: 3؍مارچ (عصر حاضر) شہر حیدرآباد کے میڈیا پلس آڈیٹوریم میں جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش کی جانب سے غیر مسلم لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں اور حکومت کے اس ایجنڈے کے بارے میں اپنا کیا خیال رکھتی ہے ان کا نظریہ کیا ہے‘ اجلاس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور حکومت کے سیاہ قوانین کے ساتھ ساتھ دہلی میں ہوئے حالیہ فسادات پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا اور یہ بتایا کہ یہ لڑائی ہر گز ہندو مسلم کی نہیں ہے بلکہ ایک منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے‘ مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ یہاں پر غیر مسلم لیڈروں نے جو اظہار خیال کیا ہے وہ تقریبا ہم سب کا ملتا جلتا خیال ہے‘ ملکی حالات میں اگر سب کو ایک رائے پر آمادہ کرلیا جائے تو جمہوریت کی بقاء بہت آسان ہوجاتی ہے‘ دہلی کا فساد اگر صحیح طرح سے دیکھا جائے تو پوری طرح پولیس ایکشن ہوا ہے‘ پولیس آگے آگے اور شرپسند عناصر پیچھے پیچھے‘ پولیس آگے سے آنسو گیس چھوڑ رہی ہے‘ آنسو گیس سے بچنے کی خاطر لوگ گھروں میں گهس کر پناہ لے رہے ہیں اور شرپسند گھروں میں گھس کر تباہی مچارہے ہیں لگے ہاتھ سڑکوں پر پیٹ پیٹ کر قتل کررہے ہیں جان مال گهر بار جائیدادوں اور مسجدوں کو نشانہ بناکر نقصان پہنچایا‘ مولانا نے کہا کہ یہ تو پھر بھی چھوٹا سا فساد ہوا ہے اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق 47؍لوگ فوت ہوئے ہیں‘ آزاد بھارت میں ایسے کئی فسادات رونما ہوئے ہیں آسام کا نیلی فساد جس میں پانچ ہزار لوگ فوت ہوئے تھے اور لاپتہ ہوچکے تھے‘ گودھرا کا سانحہ دیکھیے جس میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ لیکن دہلی فساد کے ختم ہوتے ہی یہ جو خوش کن خبریں آئیں کہ مسلمان ہندو کو بچانے میں مصروف تھا اور ہندو مسلمان کو بچانے میں مصروف تھا فسادات کے بعد گھروں میں واپس ہونے کے بعد تمام لوگ آپس میں مزید مل جل کر رہنے کا عزم کررہے ہیں یہ بہت حد تک مطمئن کرنے والی خبریں ہیں۔ اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ فسادات کے بعد ہندؤں کے دھرم گرو بھی مل جل کر رہنے کی اپیلیں کرتے نظر آئے۔ اگر یہ پوری قوت ایک ساتھ مل جائیں اور تمام اقلیتیں متحد ہوجائیں تو پھر آج لوگ اپنے آپ کو اکثریت کہہ رہی ہیں وہ از خود اقلیت ہوجائیں گے۔ مولانا نے اپنے خطاب کے دوران وہ خط بھے پڑھ کر سنایا جو 1938ء میں کانگریس نے جمعیۃ علماء کے مطالبہ پر تیقن دلایا تھا کہ ملک اگر آزاد ہوجائے تو پھر یہاں پر گنگا جمنی تہذیب برقرار رہنی چاہیے ہر کسی کو مذہبی آزادی ملنی چاہیے‘ مسجدوں سے اذان اور نمازوں کے لیے کھلے طور پر چھوٹ ملنی چاہیے۔ مولانا نے خط سنانے کے بعد کہا کہ اس ملک کو جمہوری بنائے رکھنے کا نظریہ بھی کانگریس کو جمعیۃ علماء ہند نے ہی دیا تھا۔ جس کو بعد میں کچل کر ختم کرنے کے لیے پاکستان کو الگ کردیا گیا اور یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے باضابطہ ایک ملک دے دیا گیا لیکن اس نظریہ اور اس ملک کو چھوڑنے کی اکابر علماء کرام نے شدید مذمت کی اور لوگوں سے یہ اپیل کی کہ آپ اس ملک کو چھوڑ کر ہر گز نہ جائیں۔ اور آج اقتدار پر بیٹھی حکومت اس نظریہ کو چولہے میں جھونک کر ہندو راشٹر کی طرف لے جانا چاہتی ہے جو کسی بھی طرح سے یہ ملک قبول نہیں کرے گا او نہ یہاں کی عوام اس کو قبول کرے گی۔ این پی آر کے مسئلہ پر مولانا سے سوال کرنے پر مولانا نے کہا کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جن ریاستوں میں حکومتیں خود بائیکاٹ کرنے کا اعلان کررہی ہیں وہ خوش آئند ہیں بائیکاٹ ہونا چاہیے لیکن جن ریاستوں میں حکومتیں اعلان نہیں کرتیں اور مقامی عوام ہندو مسلم سب مل کر بائیکاٹ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے شانہ بشانہ چلیں اور سب مل کر بائیکاٹ کریں لیکن جمعیۃ علماء یہ ہر گز نہیں کہے گی کہ تنہا مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں‘ تنہا مسلمانوں کے بائیکاٹ سے کافی نقصان ہوگا۔
جسٹس کمار صاحب نے ملکی حالات پر نہایت فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا اب اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز باقی بھی رہی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ کپل مشرا جس کو پورا ملک فسادات کا ذمہ دار بتارہا ہے حکومت اس کو نہ صرف اعلی درجہ کی سیکوریٹی فراہم کرتی ہے بلکہ یکم مارچ کو اس کو ریلی کی اجازت دیتی ہے‘ حالانکہ دہلی میں فساد ختم ہوئے ابھی چار دن بھی مکمل طور پر نہیں ہوئے تھے پھر اس شرپسند کو حکومت شرپسندی پر مبنی ریلی کی اجازت دے کر حمہوریت کا خون کررہی ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔
علیحدہ تلنگانہ تحریک کے سرگرم رکن جے اے سی ممبر کودنڈارام نے کہا کہ ہم اس ملک میں آزادی کے ساتھ باپ داداؤں کے نقشِ قدم پر چلتے آرہے ہیں کبھی ہم کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم کو اپنے ہی ملک میں شہریت ثابت کرنی پڑے گی‘ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ بدترین دور ہے کہ جس میں عام آدمی کو حکومت کی ان سختیوں کو جھیلنا پڑ رہا ہے‘ ہمارے ہندو رواج میں پنڈت سے شادی کی تاریخ نکالی جاتی ہے‘ تاہم بعض مرتبہ تاریخوں کے صحیح نہ نکلنے پر پنڈت نام ہی تبدیل کردیتے ہیں اب اس کے جملہ دستاویزات پیدائشی نام سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ عین شادی کے وقت اس کو مکمل طور پر تبدیل کردیا جاتا وے تو کیا ایسی صورت میں کوئی اپنا صحیح نام کا پُروف پیش نہیں کیا جاسکتا اور پُروف پیش نہ کرنے کی صورت میں وہی حال ہوگا جو آسام میں ہورہا ہے۔ ایسے بے شمار مسائل ہیں جن سے شہریت ثابت کرنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ ریاستی حکومت کو بھی اس میں باضابطہ اپنا مؤقف ظاہر کرنا چاہیے اور حکومت کی اس بدنیتی پر اپنی آواز بلند کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی ہند تلنگانہ آندھرا اور اڑیسہ کے صدر جناب حامد محمد خان نے کہا کہ حکومت کے سیاہ قوانین پر خواص کی مجلسیں بہت ہوچکی ہیں اب عوام کو تحریک سے جوڑنے کا وقت ہے ہر میٹنگ میں غیر مسلم لیڈروں کی فکر مندی ظاہر ہورہی ہے لیکن ان کی عوام کو بھی اب سمجھاکر تحریک میں شامل کروانا چاہیے۔ موجودہ حالات میں سپریم کورٹ پر اعتماد ختم ہوچکا ہے اب اگر کوئی امید کے لیے صرف ہائی کورٹ بچا رہ گیا۔ اب این پی آر کو بائیکاٹ کرنے کی کوشش کرنا ہے اگر حکومت سنسیکس کروانا چاہتی ہے تو ہم خود ساتھ دیں گے۔ این پی آر نہیں ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری شروع کرچکی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی لیڈر و سابقہ رکن پارلیمنٹ عزیز پاشاہ نے کہا کہ اگر حکومت ایک اعلان کردے تو صرف 60/سیکنڈ میں فسادات پر قابو پا سکتی ہے لیکن دہلی فسادات پوری طرح سے منظم طریقہ سے منصوبہ بند پیمانہ پر کیا گیا ہے۔ اسی لیے پولیس بھی تماشائی بنی رہی بلکہ دنگائیوں کا ساتھ دینے میں مصروف تھی۔ فسادات کے شروع ہونے کے مکمل 69؍گهنٹوں کے بعد وزیر اعظم ہند کی ٹوئٹر کے ذریعہ اپیل آتی ہے کہ ملک میں امن و شانتی برقرار رہے‘ نہایت گھناؤنی اپیل تھی۔ فسادات شروع ہونے کے فوراً بعد اپیل کرنا اور بر وقت حالات کو قابو میں لانے کی کوشش کرنا یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
سماجی کارکن جسمین کرور نے کہا کہ حکومت اگر چاہتی تو دہلی فسادات میں جو کچھ بھی ہوا اس کی شدید مذمت ہونی چاہیے‘ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اس کے جوابدہ ہیں‘ دہلی پولیس کا شرمناک رویہ پورے ملک پر واضح ہوچکا ہے۔ تلنگانہ پولیس بھی دہلی پولیس سے کچھ کم نہیں ہے‘ دہلی پولیس اگر مرکزی حکومت کے زیر نگرانی کام کرتی ہے تو تلنگانہ کا لاء اینڈ آرڈر بھی گورنر کی نگرانی میں کام کرتا ہے‘ تلنگانہ جس وقت باضابطہ ایک ریاست بن گئی تھی ٹھیک اسی وقت دس سالوں کے لیے دونوں ریاستوں کی پولیس کو گورنر کے تابع کردیا گیا ہے‘ اور اس وقت تلنگانہ پولیس پر پورا کنٹرول کشن ریڈی کا ہے‘ ان کے اشاروں پر تلنگانہ پولیس کام کررہی ہے۔
ایڈوکیٹ جے راج نے کہا کہ حکومت کو ایسے فسادات پر شرم کرنا چاہیے جو قومی سلامتی کو داغ پہنچاتے ہوں‘ دہلی میں جو کچھ ہوا اس کی شدید مذمت ہونی چاہیے اور حکومت کی ہٹ دھرمی یہ کہ حق گوئی اور انصاف کے علمبردار ہائی کورٹ کے جج نے شرپسندوں پر کاروائی کا سوال کیا تو اس کا تبادلہ کردیا تو اب ایسے ملک میں انسانی قدروں کی امید کرنا بھی ایک امر محال ہے۔
اجلاس کی نظامت مفتی محمود زبیر قاسمی نے فرمائی‘ محمد علی شبیر کانگریس لیڈر‘ شہر و بیرون شہر جمعیۃ علماء کے ذمہ داران کے علاوہ غیر مسلم لیڈروں اور سیاسی نمائندوں نے شرکت کی‘ ایس سی‘ ایس ٹی ‘ او بی سی کے نمائندہ شخصیتوں نے بھی اس اجلاس کو مخاطب کیا۔