اسلامیات

امت مسلمہ کے ایمان کی کسوٹی اور معیار صحابۂ کرامؓ ہیں: مولانا محمد عبد القوی

اللہ تبارک وتعالی نے حضرت آدم کو پیدا کرنے کے بعد اپنایمین (داہنا ) ان کی پشت پر رکھا اور اٹھانے کے بعداس سے حضرت آدم کی ساری نسل حضرت حواء اور دیگر ابن آدم یعنی پوری کی پوری انسانیت وجود میں آئی اسی وقت پورے انسان جوآچکے ہیں اور جو قیامت تک آنے والے ہیں سب کی روحیں اللہ پاک کے سامنےایسی آگئیں جیسے کسی برتن میں کچھ دانے ہوں تو وہ پورے کے پورے دیکھنے والے کی نظروں میں ہوتے ہیں ان تمام ارواح میں جن کی پیشانیاں سب سے زیادہ حسین اور منور تھیں اللہ پاک نے ان میں سے اپنی نبی کا انتخاب کیا پھر دوبارہ ان روحوں پر نظر ڈالی تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ ان میں سے میرے اصحاب کا انتخاب فرمایا تو معلوم ہوا کہ صحابہ کا انتخاب ایسے ہی ہوا جیسے نبی کا انتخاب ہوا ہے عظمت صحابہ کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ وہ اللہ کے منتخب اور پسندیدہ لوگ تھے ہر مومن کو اتنی بات لازما سمجھ لینا چاہیے کہ جس ذات کو اللہ پاک نے صحابیت کے لیے منتخب فرمایا اس میں کتنے اور کمالات نہیں ہوں گے .انبیاء کے مرتبہ کے بعد سب سے زیادہ افضل اور بڑا مرتبہ صحابہ کرام کا مرتبہ ہے اسی وجہ سے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے باربار ان کا تذکرہ فرمایا ایمان لانے کہ بات ہوں یا اعمال واخلاق کا معاملہ ہوں یا کردار سازی کا مسئلہ ہوں ہر موقعہ پر صحابہ کرام ہی کو معیار بنایا گیا اخروی نجات اور دنیاوی فلاح بھی صحابہ کرام ہی کے طرز زندگی پر موقوف ہے …نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی کے بارہ میں خبر دی کہ وہ بہتر فرقوں میں بٹ گئ تھیں اور مستقبل کے بارہ میں بتلایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جاے گی ان سب میں ناجی اور کامیاب فرقہ وہی ہوگا جو ….ماانا علیہ واصحابی …کی راہ پر گامزن ہومیری اور میرے صحابہ کی ڈگر پر ہوں عقیدہ عمل اور اخلاق وکردار ہراعتبار سے صحابہ کرام کے راستہ پر ہوں وہی ناجی فرقہ ہوگا .کچھ لوگ صحابہ کرام کو ہر اعتبار سے لائق تعظیم وتکریم اورقابل محبت سمجھتے اور مانتے ہیں لیکن ان کو حجت نہیں مانتے ہیں ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے نہ ماننے سے صحابہ کی عظمت میں کوئی ذرہ برابر فرق نہیں آے گا مگر نہ ماننے والے ناری اور جہنمی کہلائیں گے مسلمانوں سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کے نبی کو ایمان کی حالت میں صرف ایک مرتبہ بھی اگر کوئی دیکھ لے اور نبی نے اس پر نظر ڈال دی تو اس انسان کامل کا مقابلہ دنیا کا سب سے زیادہ تہجد گزار شب بیدار عالم یامبلغ نہیں کرسکتا ہے .اہل.کتاب کے بارے میں بتلایا گیا کہ اے اہل ایمان تمہارا ایمان نبی کے اصحاب کے ایمان کی طرح ہوں تو ہی معتبر مانا جائے گا ورنہ ان اہل کتاب کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا…….فان امنوا بمثل ماامنتم بہ فقد اھتدو ….تومعلوم ہوا کہ ہمارے ایمان کہ کسوٹی اور معیار صحابہ کرام ہیں .قادیانیوں کو دیکھ لیں وہ بھی توحید کی دعوت اور تعلیم دیتے اور نبوت کا قرار بھی کرتے اور آخری نبی بھی مانتے ہیں لیکن چونکہ ان کا ایمان صحابہ کرام کی طرح نہیں لہذا وہ مقبول ومعتبر نہیں ہے ہر صحابی کامیاب وبامراد ہے ہاں ان کے درمیان میں فرق مراتب تو ہوسکتا ہے لیکن کوئی ادنی سے ادنی صحابی بھی ناکام نہیں ہے ..لایستوی منکم من انفق ومن قبل الفتح قاتل …..سب کے سب وہ ہیں جن سےباللہ تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ..وکلا وعداللہ الحسنی ….آج بھی امت میں ایسے لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے سلسلہ میں مختلف قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں ان کے ذہنوں میں صحابہ کے سلسلہ میں تکدر پایا جاتا ہے حالانکہ مسلمانوں یہ وہ جماعت ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ایمان کو ان کے دلوں میں پرکھا اور ازمایا ہم ظاہر کی کیا بات کریں اللہ نے تو ان کے باطن کو بھی آزمایا اور اسکے بعد ان کےلیے اجر عظیم اور مغفرت کا وعدہ فرمادیا …اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوی لھم مغفرۃ واجر عظیم …..قران مجید اللہ کے نبی ذات اور قلب اطہر پر اترا اور مکمل ہوگیا اب اسکے بعد کوئی وحی نہیں آے گی اسی نزول کے زمانہ میں صحانہ کے لیے رضاء خداوندی اور مغفرت کا وعدہ کرلیا گیا اب اگر کوئ نالائق انسان یہ کہتا ہے کہ حضور کی وفات کے بعد صحابہ کرام نعوذ باللہ مرتد ہوگے تھے یا ان کے اندر کوئ نقص وکمی آگئی تھی تو وہ منکر قرآن کہلاے گا اور جو قرآن کا انکار کرے وہ خارج ازاسلام کہلائے گا مومن ومسلمان بھی باقی نہیں رہے گا صلح حدیبیہ کے موقع پر ببول کے درخت کے نیچے نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے صحابہ کے بارہ میں فرمادیا گیاہے کہ اللہ پاک ان سے راضی ہوگیا ہے اب ہم کہیں کہ وہ نعوذ باللہ مرتد ہوگے تھے تو اس کو ایک احمقانہ بات سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی ہے .صحابہ کرام کی جماعت وہ جماعت ہے جن کے دلوں میں اللہ پاک ایمان کو راسخ فرمادیا تھا اوراتنا راسخ فرمایاکہ غزوہ احد کے موقع پر دشمنان اسلام نے صحابہ کو ڈرایا کہ تم اپنی جان کی خیر مناؤ اور ڈرو کچھ فکر کرو اپنے بارہ میں چونکہ ایک لشکر تم سے مقابلہ کے لیے تیاری کررہا ہے تم سے انتقام لینے کے لیے پر عزم ہے تو صحابہ نے اپنی زبان سے وہ الفاظ کہے جسکا آج کے دور میں تصور نہیں کیا جاسکتا ہے انہوں کہا …حسبنا اللہ ونعم الوکیل …حضرت ابراہیم کے بعد سب سے پہلے ان کلمات کو نبی کے صحابہ نے دہرایا کہ دشمنوں کی صف آرائ ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکی بلکہ ان کا ایمان اور بڑھ گیا مستحکم ہوگیا. دوستو یہ وہ صحابہ ہے جن کی صفات حمیدہ اور اواصاف عظیمہ کا ذکراللہ پاک نے اپنی سابقی کتب تورات زبور انجیل میں فرمایا کہ آخری نبی کے صحابہ کے اخلاق اتنے پیارے ہیں اشداء علی الکفار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحماء بینھم ہیں ..یہ وہ جماعت صحابہ ہیں جو اپنے سے پہلے گزرے ہوے ایمان والوں سے کوئ کینہ کپٹ نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے لیے دعاء مغفرت کرتے تھے …ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان …..ہم اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں سمجھتے ہیں معصوم صرف انبیاء ہوتے ہین ان کےعلاوہ کوئ دوسرا نہیں نبی صحابہ سے بھی غلطیا ں ہوسکتی ہیں اور ہوئیں بھی لیکن وہ ہمارے لیے خیر کاسبب ہی ہے اگر ان سے یہ غلطیاں نہ ہوتیں تو تا قیامت ہم کوپتہ نہیں چلتا کہ گناہ اور غلطی کے بعد انسان کی کیا کیفیت ہونا چاہیے اور اس کی معافی کے لیے کیاکرنا چاہیے ہم کو صحابہ کرام کے عمل سے مثال اور نظیر ملتی ہیکہ کہ کیسے اللہ سے رجوع کیا جاے اور معافی مانگی جاے ..اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ عقیدہ ہیکہ صحابہ کرام کی غلطیوں کو چھپانا اس کی عمدہ تاویل کرنا ہمارے لیے لازم ہے ان کی غلطیوں کو ہم اچھا ل نہیں سکتے یہ ہماری عقیدوں کی کتابوں میں بیان کی گئیں ہیں ہم نحب اصحاب رسول اللہ ولانذکرھم الابالجمیل ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم ان کی خوبیوں کا ہی تذکرہ کریں گے اور آگے لکھا گیا کہ نحب من یحبھم ونبغض من یبغضھم جو صحابہ سے محبت کرے ہم ان سے بھی محبت کرتے ہیں جو صحابہ سے بغض وعداوت رکھتے ہیں ہم ان ک واپنا دشمن سمجھتے ہیں اگر کوئ اس طرح کا عقیدہ نہ رکھے اس کو ہم اہلسنت والجماعت سے خارج مانتے ہیں …حب الانصار من الایمان وبغض الانصار من النفاق ..صحابہ سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے اور منافقوں کاتو کام ہی ہے صحابہ کے دلوں دکھانا اوردل آزاری کرنا …غزوہ تبوک کے موقع پراللہ کے نبی نے صحابہ سےتعاون کی اپیل کی تو عبدالرحمن ابن عوف جواس وقت 80/ہزار درہم.کے مالک تھے انہوں نے چالیس ہزار درہم اس راہ خدا میں دینے کا اعلان کیا اور بعض صحابہ نے کھجور کا نذرانہ پیش کیا ایک صحابی نے صرف کھجور کا بھوسہ پیش کیا تو منافقین نے ان صحابہ کرام کی دل شکنی کی ان کے دلوں کو یہ کہ کر ٹھیس پہونچای کہ زیادہ دینے والے دکھلاوے اور ریا کاری کے لیے اور کمدینے والے ذلیل وحقیر چیز اللہ کو دے رہے ہیں ہر دوقسم کے صحابہ کی نیتوں پر ان منافقین نے حملہ کیا لیکن یہ وہ جماعت تھی جنہوں ایسے موقع پر بھی نبی کاساتھ نہ چھوڑا اور ان منافقین کی باتوں کو اہمیت نہیں دی مالدار صحابہ اور غریب صحابہ دونوں اللہ کے نبی سے سچی محبت وعقیدت رکھتے دشمنوں کی دل آزاریوں کو بھی برداشت کیا ..ہم کیا جانتے ہیں ان صحابہ کے بارہ میں ہماری کیا معلومات ہیں ان کی قربانیوں کے سلسلہ میں ..کچھ بھی ہم واقف نہیں ہیں پھر کیسےاپنی زبان سے ان کو برا بھلا کہاجاسکتاہے …ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام کی قربانیوں کو دیکھے اپنی جان مال اولاد اور بیویوں کی قربانی دے کر اس دین کے چمن کی صحابہ نے آبیاری کی ہے اورسینچا ہے ..آج بھی امت کے اندر ایسا طبقہ موجود ہے جن کو منافق صفت کہاجاسکتا ہے جو خود تو کچھ کرتے نہیں بس دوسروں پر تنقید کرتے ہیں محض تبصرے کرنا جن کی عادت بن چکی ہے جو کام کرنے والوں اور قربانیاں دینے والوں پر بے جا تبصرے کرتے ہوے ان کے دلوں کو دکھاتے ہیں ..آج ہم صحابہ کی محبت کی بات کرتے ہیں حقیقیت یہ ہیکہ محبت کرنے والے تو کرکے گذرچکے ہیں .کیا ہمارے مرداور عورتیں صحابہ وصحابیات کی قربانیوں کو جانتی ہیں ؟ سنو دل کے کانوں سے سنو .اللہ کے نبی کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی اورچہیتی بیٹی حضرت فاطمہ جو جنتی عورتوں کی سردار تھیں جن کو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ فاطمۃ بضعۃ منی فاطمہ میرے جگر کا تکڑا ہے جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھےتکلیف دی اور جس نے مجھےتکلیف دی وہ اللہ کے غضب سے بچ نہیں سکتا اس لاڈلی بیٹی کی قربانیوں کو آج پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے حضرت علی خود راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہمارےگھرمیں کئی روز سے فاقہ تھا میری بیوی بچے سب فاقے سے تھے بھوکے تھےایک دن میں گھر آیا اور پوچھا کہ فاطمہ کچھ کھانے کے لیے ہے تو جواب ملا کہ کچھ نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ میرادل دکھا میں نے مزدوری کرنے کی غرض سے مدینہ کے ایک یہودی کے باغ میں گیایہودی نے کہا کہ تم بڑے عزت دار اور شریف گھرانہ اور خاندان سے تعلق رکھتے ہو تم کیسےمزدوری کروگے بہرحال یہودی نے کہا کہ ایک ڈول پانی نکال کر نالیوں میں سیرابی کرنے پر ایک کھجور معاوضہ میں دوں گا داماد رسول نے حامی بھر لی اور کل سولہ ڈول پانی نکال کر باغ کو سیراب کیا اور سولہ کھجور حاصل کرکے تین دن کے فاقہ کے باوجود اپنی کمر کو پٹہ باندھ کر اونٹ اور بیلوں کے کھینچنے کا ڈول کھینچا فرماتے ہیں کہ سولہ ڈول کے بعد میری ہمت نے جواب دےدیا اور میں رک گیا سب سے پہلے حضور علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول آپ بھی فاقہ سے ہیں میرے دل نے گوارا نہیں کیا کہ آپ سے پہلے ہم اور ہمارے گھر والے کچھ کھائیں اس لیے میں نے مزدوری کرکے یہ کھجور کماے ہیں آپ نوش فرمالیں پھر ہم لوگ کھالیں گے ..یہ ہے دوستو محبت رسول اور سچا عشق جو صحابہ نے کرکے بتایا . اتنے مجاہدات اور فاقے کرے حضرت علی نے کہ ایک مرتبہ راستہ میں لقطہ پڑا ہوا تھا فرماتے ہیں کہ فاقہ کابیہ عالم تھا کہ میں راستہ میں پڑی ہوی چیز تک اٹھاکر کھالینے کی حالت میں آچکا تھا کافی دیررکا رہا دل نےفیصلہ کیا کہ ہم اس کا محتاج ہوں کھاسکتا ہوں چنانچہ میں نے وہ لے لیا ایک درہم تھا میں نے اس سے جو خریدا اور لاکر فاطمہ کو دیا اس نے چکی میں ڈال کر آٹا بنایا حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں کھڑا کھڑا دءکھ رہا تھا فاطمہ کی کمزوری کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ چکی پیستے وقت ان کی گلے کی ہڈیاں اتنی صاف نظر آرہی تھیں کہ وہ چکی میں لگے کھونٹے سے لگ رہی تھیں یہ ہے وہ قربانیاں جو صحابہ وصحابیات نے اس دین کی راہ میں دی ہیں یوں ہی اللہ پاک نے صحابہ کرام.کو معیار حق وایمان نہیں بنادیا ہمیں ان کی قربانیوں کو یاد کرنا پڑے گا …اسی طرح ایک مرتبہ حضرت علی اور فاطمہ کے درمیان آپس میں ناراضگی ہوگیء خفاء ہوکر حضرت علی باہر چلے گےء اللہ کے نبی آے تو پوچھا کہ علی کہاں ہے بتایا کہ اس طرح کا معاملہ ہوا اور وہ ناراض ہوکر چلے گےء کدھر گےء پتہ نہیں تو خود اللہ کے نبی ڈھونڈتے ہوے نکلے اور علی سے کہا کہ اے ابوتراب اٹھو اے ابوتراب اٹھو اور دونوں میں معافی تلافی کراکے پھر خوشی کا اظہار کیا اسی وقت سے حضرت علی نے اپنی کنیت ابوتراب رکھلی حالانکہ وہ وابوالحسن اور ابوالحسین تھے. یہ ہے وہ اخلاق جو نبی نے اپنے صحابہ کو بتاے اور سکھلاے ہیں آج ہم لوگ اگر بیٹی داماد کے درمیان کچھ بات ہوجاتی تو الٹا بیٹیوں کو داد دے کر ہمت بڑھاتے ہیں اور لڑائ جھگڑے پر اتر آتے ہیں جس سے مسائل اور سنگین ہوتے پھر پولیس کورٹ عدالتوں کے چکر کانٹنے پڑتے ہیں .ہم مرد وعورتوں کو چاہیے کہ تاریخ پڑھیں صحابہ وصحابیات کے حالات زندگی پڑھیں .بنات طاہرات اور ازواج مطہرات کے واقعات پڑھیں توپتہ چلے گا کہ ایک ایک کی قربانیاں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں. ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپس میں اختلاف ہوں تو ہونے دیں یہ کوئ بری بات نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے تعظیم وتوقیر کریں صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلافات تھے ایک دوسرے سے شکوے شکایات تھیں جیسے ابوبکر اور ربیعہ رضہ کے مابین ایک باغ کی تقسیم ہوئ درمیان میں ایک درخت آگیاتھا ابوبکر نےکہا میراحق ہے ربیعہ کا اصرارتھا کہ میں لے لوں چونکہ دونوں بھی اس ایک درخت کے سلسلہ میں مصر تھے ابوبکر نے کچھ بلند آواز میں سخت کلامی کردی جس سے ربیعہ کو تکلیف ہوئ کچھ دیر کے بعدابوبکر کو احساس ہوا کہ میں نےشاید زیادتی کردی ہے تو فوری معافی مانگی باربار معافی مانگی ابوبکر نے کہا کہ اگر معاف نہ کروگےطتو حضور کے پاس شکایت کردوں گا چنانچہ اسی غرض سے نکلے پیچھے پیچھے ربیعہ اور ان کے خاندان کے لوگ اور عورتیں بھی تھیں آپس میں وہ کہنے لگیں کہ یہ تو ابوبکر کا ظلم ہے کہ تلخ کلامی بھی کرے اور شکایت بھی خود ہی کرنے جارہے ہیں ربیعہ نے سن لیا اور غصہ ہوکر کہا کہ میرے پیچھے تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے دیکھتے نہیں کہ ابوبکر کامقام کیا ہے ان کے بارہ میں برا نہ کہو اتنی عزت واحترام کہ ایک دوسرے سے اختلاف رہنے کے باوجود قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے .حضرت عمر ایک مرتبہ منبر رسول پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھےحسن وحسین آے اور بولنے لگے کہ یہ تو ہمارےابا کامنبر ہے آپ اپنے باپ کے منبر پر جاکر خطبہ دےلیں عمر نے کوئ سخت بات ان بچوں سے نہیں فرمائ بس اتنا کہاکہ میرے اباکا تو کوئ منبر نہیں ہے کہاں جاکر خطبہ دوں ..حضرت عمر نہ غصہ ہوے نہ ناراض ہوے چونکہ حسن وحسین اہل بیت میں سے ہیں اور اہل بیت اطہار کے ایک ایک فردسے محبت ایمان کا جزو ہے….اسی کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کے حوالہ سے بس اتنا عرض ہیکہ حالات کچھ بھی خراب نہیں ہے ہمیں گھبرانے کی کوئ ضرورت نہیں ہے ڈھونڈوراپیٹنے والے پیٹ رہے ہیں ان کی آواز پر کان نہ دھریں نبی اورصحابہ کے زمانہ میں تو اس سے کہیں زیادہ خطرناک حالات تھے لیکن کوئ نہیں گھبراے توپھر ہم ایمان والے رہ کر نبی کے عاشق رہ کر صحابہ سے محبت کرنے والے رہ کر کیوں گھبرائیں ماضی میں بھی اس امت پر حالات آے اورقیامت تک آتے رہیں گے لیکن مومن کی شان یہ ہیکہ وہ کبھی حالات سے ڈرتانہیں ہے چونکہ ہمارےساتھ ہمارا اللہ ومولی ہے دشمنوں کے ساتھ تو کوئی بھی نہیں اس لیے ایمان والوں کوچاہیے کہ وہ قران کے بتاے ہوے پروگرام کے مطابق عمل کریں .قرآن نے ہم کو حالات سے نمٹنے اور مقابلہ کرنے کا پروگرام دیا فرمایا کہ ….لا تنازعوا …..آپس میں نہ لڑو ایک دوسرے سے دست وگریباں نہ رہوآپسی اتحاد کو پار پارہ نہ کرو مل کر رہوایک دوسرے کی عزت کرو تواضع اختیار کرو باہمی مودت ومحبت کو قائم رکھو .کسی بھی مسلک والے کوکافر نہ کہو اپنے اپنے خیالات پر عمل کرو جس کو جس سے اطمینان ہے اس سے پوچھ کر عمل کرلو لیکن خدارا دین اور اسلام اور کلمہ کی بنیاد پر ایک بن کررہو دوسرا کا حالات آئیں تو. واصبروا . صبرکرو جزع وفزع شکوے شکایات بے صبری کا مظاہرہ نہ کرو ہمت سے کام لو اللہ پاک صبر کرنے والوں کی مدد کرتا ہےاور انہی کوپسند فرماتا ہے ..تیسرا کام ہے ..اطیعواللہ ورسولہ …اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ان کے حکموں سے روگردانی نہ کرو اس لیے کہ دنیا وآخرت کی کامیابی انہی کی طاعات میں مضمر ہےان کو ناراض کرکے مخلوق کو راضی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتااس لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہوے دین پر استقامت کے ساتھ جمے رہو حالات ہم سے ہے ہم حالات سے نہیں .زمانہ ہم سے ہے ہم زمانہ سے نہیں. اگر ہماری زندگیوں میں دین ہوگا تویہ دین خود ہی ہماری حفاظت کریگا اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرمائے اس موقع پر جمعیۃ علماء نظام آباد کے ذمہ داران مولانا مفتی عبدالمبین قاسمی مولانا ارشد علی قاسمی حافظ حامد کے علاوہ کاماریڈی ضلع سے مولانا خواجہ شریف صاحب مولانا عمران صاحب مولانا معزالدین حسامی مولوی خلیل احمد اور مولانامفتی محمود صاحب حسامی ودیگر ذمہ داران شریک اجلاس رہے…………..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×