سیرت و تاریخ

تابوت سکینہ

تابوت اور سکینہ کا لغوی و اصطلاحی معنی
لفظ ”تابوت“ *توب*  سے مشتق ہے جسکا معنی ہے رجوع کرنا، پشیمان ہونا،
چونکہ بنی اسراٸیل مصیبت کےوقت اسکی طرف رجوع کرتےتھے لہذا اسکا نام تابوت رکھ دیا گیا، جسکا معنی ہے صندوق کے،
سکینہ کا لغوی معنی ہے سکون اور قلبی تسکین کے،
اور اصطلاح تفسیر و تاریخ میں، تابوت سکینہ بنی اسرائیل کےاس صندوق کو کہتےہیں جس میں انبیا کے تبرکات تھے،
*تابوت سکینہ کیا تھا؟ اور وہ کہاں سےآیاتھا؟ سب سے پہلے وہ کسکو عطا کیا گیا؟*
سیدالمٶرخین حضرت امام طبری اور جلیل القدر مفسر امام قرطبی وغیرھم کی راۓ ہے، کہ یہ شمشاد (ایک خوشبودار اور نہایت مضبوط درخت) کی لکڑی کا بنا ہوا ایک صندوق تھا، امام قرطبی کےمطابق اسکی جسامت تین ہاتھ لمبا اور دو ہاتھ چوڑا تھا، جو آدم علیہ سلام پر نازل ہوا تھا، یہ پوری زندگی آپ کے پاس رہا،پھر بطور میراث آپ کی اولاد کو ملتا رہا، یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپکے بعد آپکی اولاد بنی اسرایئل کو ملا اور بعد میں یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا جس میں وہ اپنا خاص سامان اور تورات شریف رکھا کرتے تھے،یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا، بنی اسرایئل جب کفار سے جہاد کرتے اور انکو شکست کاڈر ہوتا تو وہ اس صندوق کو آگے رکھتے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا کہ مجاہدین کے دلوں کو چین آرام و سکون حاصل ہو جاتا اور صندوق وہ جتنا آگے بڑھاتے آسمان سے *نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ* کی بشارت عظمی نازل ہوتی، بنی اسرائیل میں جب بھی کبھی اختلاف ہوتا تو وہ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے، صندوق سے فیصلہ کی آواز خود ہی آتی الغرض یہ تابوت بنی اسرایئل کے لیے تابوت سکینہ ثابت ہوا،لیکن قرآن و حدیث میں اس بات کی کوٸی وضاحت نہیں ہےکہ وہ صندوق حضرت آدم سے چلا آرہاتھا، لہذا اس بارے میں کوٸی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتاکہ وہ سب سےپہلے کسے دیا گیا، اسی لٸے بعد کےاکثر مفسرین نےاس بحث کو نہیں چھیڑا ہے، تاہم یہ بات قطعی اور یقینی ہےکہ وہ صندوق حضرت موسی کےپاس تھا جیسا کہ خود قرآن مجید سےثابت ہوتاہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اسےخود حضرت موسی نے بحکم الہی بنایاہو یا آسمان سےان پر نازل کیاگیاہو، اور یہ بھی ممکن ہےکہ وہ حضرت آدم ہی سےچلا آرہاہو، بہر کیف،
 سورہ بقرہ کی آیت 248
میں اللہ عزوجل نے تابوت سکینہ کی بابت یوں ذکر کیاہے
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
*وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اٰيَةَ مُلۡکِهٖۤ اَنۡ يَّاۡتِيَکُمُ التَّابُوۡتُ فِيۡهِ سَکِيۡنَةٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوۡسٰى وَاٰلُ هٰرُوۡنَ تَحۡمِلُهُ الۡمَلٰٓئِكَةُ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ۞*
ترجمہ:
”اور ان سے {بنی اسراٸیل}ان کے نبی {حضرت شموٸیل علیہ السلام} نے  یہ بھی کہا کہ : طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (واپس) آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے  اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے“
{ترجمہ :از حضرت شیخ الاسلام}
آیت میں ذکر بنی اسراٸیل کا ہورہاہے
موسی علیہ السلام کے بعد جب بنی اسراٸیل کی شرارتیں حد سےتجاوز کر گٸیں تو فلسطین میں آباد ایک قوم، قوم عمالقہ جو کافر اور مشرک قوم تھی اللہ نے اسکو بنی اسراٸیل پر مسلط کردیا، قوم عمالقہ نے بنی اسراٸیل کو مارا پیٹا انکے شہروں پر قبضہ کرکےانکےکٸ خاندانوں کو غلام بنالیا،ساتھ ہی وہ بنی اسراٸیل سے تابوت سکینہ بھی چھین لےگٸے،اور اللہ نے بنی اسراٸیل میں نبوت کا سلسلہ بھی منقطع کردیا، مگر کچھ عرصہ گزرنےکےبعد بنی اسراٸیل کےکچھ صالح افراد کی دعاٶں کی وجہ سے اللہ نےان کےدرمیان ایک نبی مبعوث کیا، مفسرین میں اس نبی کی تعیین میں اختلاف ہے مگر جمہور مفسرین کی راۓہےکہ وہ نبی *حضرت شموٸیل علیہ السلام* تھے، امام  طبری نے اسی بات کی وضاحت کی ہے،
چنانچہ حضرت شموٸیل سے بنی اسراٸیل نے ایک بادشاہ مقرر کرنےکی درخواست کہ تاکہ اسکے ساتھ مل کر قوم عمالقہ سے جہاد کریں، چنانچہ حضرت شموٸیل نےبنی اسراٸیل کے ایک شریف و صالح اور جسمانی اعتبار سےنہایت قوی شخص حضرت طالوت کو بدشاہ مقرر کردیا، مگر بنی اسراٸیل اپنی عادت کےمطابق نبی کی بات میں نقص نکالنےلگےاور یہ سوال کرنےلگے کہ ہم کیسےمانیں کہ وہ ہمارےبدشاہ ہیں اور انکو اللہ نےانکو ہمارےاوپر مقرر کیاہے؟ چنانچہ اللہ عزوجل نے نشانی کےطور پر یہ فرمایا: کہ طالوت کے بادشاہت کی علامت یہ ہےکہ انکےپاس وہ صندوق واپس لوٹ آۓگا،
مفسرین لکھتےہیں کہ صندوق کی واپسی کا اللہ نےیہ انتظام کیا کہ قوم عمالقہ پر طرح طرح کی مصیبت نازل کرنی شروع کردی، جب قوم عمالقہ کو یہ احساس ہوا کہ یہ سب مصیبتیں اسی صندوق کی وجہ سے آرہی ہیں، لہذا انہوں نے اس صندوق کو دو بیلوں پر لاد کر شہر سےباہر کردیا، بحکم الہی فرشتوں نے اس صندوق کو حضرت طالوت کےدروازے تک پہنچادیا، اور اس طرح بنی اسراٸیل کو انکی بادشاہت اور حضرت شموٸیل کی نبوت کا یقین ہوگیا،
*تابوت میں کیا تھا؟*
قرآن میں صرف اتنا ذکر ہےکہ اسمیں حضرت موسی اور انکےبھاٸی ہارون علیھماالسلام کی چھوڑی ہوٸی کچھ چیزیں تھی، امام ابن کثیر نے نقل کیا ہےکہ امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے نقل کیاہے کہ اسمیں حضرت موسی کا عصا اور تورات کی ٹوٹی ہوٸی تختیاں تھی جو آپ کوہ طور سےلیکر آۓتھے،
امام قرطبی نے لکھاہے کہ، ابوصالح، عطیہ بن سعد، اور سفیان ثوری سے نقل ہےکہ اسمیں عصا اور تورات کےساتھ،دونوں نبیوں کےلباس،پگڑی، اور آسمان سےنازل ہونےوالا *من* بھی ایک بوتل میں رکھاہوا تھا، واللہ اعلم
*پھر وہ تابوت کیا ہوا؟ اور اب کہاں ہے*
حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا اور اس کے لیے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے، لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں مکمل ہوا اور اس کو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا، اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا، بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر (نبو کد نضر) نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کو آگ لگا دی، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا، اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئی چیز باقی نہیں ہے، ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اس کا کوئی نشان نہیں ملا، یہود آج بھی اپنے ماہرین آثار قدیمہ سےاسکی تلاش کروا رہےہیں، انکا دعوی ہےکہ جس دن تابوت مل گیا ہم ساری دنیا پر قبضہ کرلیں گے، وہ اسی لیے فلسطین اور اہل فلسطین کے در پہ ہیں، لیکن وہ تابوت تو ملنےسےرہا، کسی کو خبر نہیں کہ وہ تابوت کیاہوا؟ میری ناقص عقل یہ کہتی ہےکہ جس طرح اللہ نے قوم عمالقہ سے فرشتوں کے ذریعہ اسکی حفاظت کی تھی، بعید نہیں کہ دوبارہ وہ فرشتوں ہی کی محافظت میں ہو، یا اسکی حاجت نہ ہونےکی وجہ سے زمین کی گہراٸی میں دفن کردیاگیاہو، یا آسمان پر اٹھالیا گیا؛ واللہ اعلم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×