سیرت و تاریخ

حضراتِ صحابہ کا بلند ترین مقام ومرتبہ

اس کائنات میں حضراتِ انبیاء کرام کے بعد مقدس ترین طبقہ حـضراتِ صحابۂ کرام ؓکا ہے ۔جنہوں نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نور حاصل کیا ، آفتابِ رسالت کی کرنیں ان پر بلا کسی حجاب کے پڑیں ،دینِ متین کو خود صاحبِ وحی سے سمجھا ، اس پر عمل کیا اور امت تک ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ۔ خُلقِ عظیم کے پیکر کی خدمتِ اقدس میں رہ کر اپنے اخلاق وکردار کو سنوارا، اپنی سیرت و عادات کو آئینہ محمدی میں دیکھ کر درست کیا ، رضائے الٰہی کی حصول یابی کیلئے اپنا سب کچھ اپنے محبوب ؐ کے قدموں میں نچھاور کر دیا اور اطاعت و وفاداری کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ وہ رہتی دنیا تک کیلئے درسِ وفا بن گئیں ۔
ایسی عظیم المرتبت شخصیات کے تعلق سے قرآن صاحبِ قرآن اور علماء ِ امت کا کیا کہتے ہیں اس کا سرسری جائزہ ملاحظہ کیجئے ۔
صحابی کی تعریف :
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ صحابی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وھو من لقی النبی ﷺ مومناً بہ ومات علی الٔاسلام ولوتخلت ردۃ فی الاصح‘‘ (نزھۃ النظر بشرحِ نخبۃ الفکر :۱۰۷ مکتبہ البشری کراچی )
ترجمہ : صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور ﷺ سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہوگیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہوگیا )
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ کی یہ تعریف بہت زیادہ جامع مانع اور اہلِ علم حضرات کے یہاں مقبول و راجح ہے ۔
عظمتِ صحابہ قرآنِ کریم کی روشنی میں :
صحابہ کرام ؓ کی عظمت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ خود خالقِ کائنات نے اپنے آخری کلام میں ان کی جا بجا تعریف فرمائی اور ان کو اپنی رضامندی کا پروانہ عطا فرمایا ۔ذیل میں حضراتِ صحابہ کرام کی شان میں نازل ہونے والی چند آیتیں پیش کی جا رہی ہیں۔
(۱) ’’محمد الرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعاً سجدًا یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانًا سیما ھم فی وجوھہم من اثر السجود ‘‘(الفتح: ۲۹)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحم دل ہیں ،تم انہیں دیکھوگے کہ کبھی رکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں ہیں (غرض )اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔
(۲)’’والسابقون الاولون من المہا جرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ‘‘ (التوبہ: ۱۰۰)
ترجمہ : مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے ،اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا ہے ، اور وہ ان سے راضی ہے ۔
(۳)’’اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان واید ھم بروح منہ ‘‘(المجادلہ :۲۲)
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے ۔
(۴)’’اولٰئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقویٰ لھم مغفرۃ وا جر عظیم ‘‘ (الحجرات :۳)
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقویٰ کیلئے منتخب کر لیا ہے ۔ ان کو مغفرت بھی حاصل ہے ، اور زبردست اجر بھی ۔
عظمتِ صحابہ احادیث و آثار کی روشنی میں:
شارحِ قرآن واضح مراد رحمن نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے مبارک ارشادات میں جگہ جگہ صحابۂ کرام ؓ کے مناقب و فضائل کو بیان فرمایا اور ان کی بھر پور تعریف و تو صیف فرمائی ۔ذیل میں مقامِ صحابہ پر احادیث و آثار دیکھتے چلیں :
(۱)’’ لا تمس النار مسلماً راٰنی او راٰی من راٰنی ‘‘ (ترمذی ، باب ما جاء فی فضل من راٰی النبی ﷺ ۲؍ ۲۲۵)
ترجمہ: اس مسلمان کو جس نے مجھے دیکھا یا اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی )جہنم کی آگ نہیں چھو ئیگی ۔
(۲)’’ اکرموا اصحابی فانہم خیارکم ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ‘‘(مشکوٰۃ ، باب مناقب الصحابہ،‘‘۵۵۴)
ترجمہ :میرے صحابہ کا اعزاز و اکرام کیا کرو کیوں کہ وہ تم سے بہترہیں پھر ان کے بعد والے ،پھر ان کے بعد والے ۔
مشہور صحابی حضرتِ سعید بن زید قسم کھاکر فرماتے ہیں :
(۳)’’ واللہ لشھد رجل منھم مع النبی ﷺ یغبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم ولم عمر عمر نوح ‘‘ (جمع الفوائد۲؍۲۰۱، بحوالہ مقالاتِ حبیب۱؍۲۳۰)
ترجمہ : خدا کی قسم صحابہ میںسے کسی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی جہاد میں شرکت کی جس سے اس کا (صرف )چہرہ غبار آلود ہوجائے غیر صحابی میں سے ہر فرد کی عمر بھر کی عبادت و عملِ صالح سے بہتر ہے اگر چہ اس کو عمرِ نوح مل جائے ۔
ابوداؤد طیالسی ؒ نے حضرتِ عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے :
(۴)’’ ان اللہ نظر فی قلوب العباد فنظر قلب محمد ﷺ فبعثہ برسالتہ ،ثم نظر فی قلوب العباد بعد قلب محمد ﷺ فوجد قلوب اصحابہ خیر قلوب العباد ، فاختار ھم لصحبۃ نبیہ ، ونصرۃ دینہ ‘‘(سفارینی شرح الدر المضیۃ۲ ؍۲۸۰ بحوالہ مقامِ صحابہ ؍۴۸)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کو ان سب قلوب میں بہتر پایا ، ان کو اپنی رسالت کیلئے مقرر کر دیا ، پھر قلبِ محمد ﷺکے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمدﷺ کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا ، ان کو نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی نصرت کیلئے پسند کر لیا ۔
عقیدہ اہلِ سنت :
محقق ابنِ ہمام ؒ اسلامی عقائد پر اپنی جامع کتاب مسامرہ میں لکھتے ہیں :
(۱)’’واعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ وجوبا باثبات العدالۃلکل منہم والکف عن الطعن منہم والثنا ء علیہم(ص۱۳۲)
ترجمہ : اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کے لئے عدالت ثابت کرتے ہوئے تمام صحابہ کا تزکیہ کیا جائے ان پر طعن سے باز رہا جائے او ران کی تعریف کی جائے۔
علامہ ابن تیمیہ نے شرح عقیدئہ واسطیہ میں اس عقیدہ کی تصریح ان الفاظ میں کی ہے :
(۲) و عن اصول اھل السنۃ سلامۃقلو بھم والسنتہم لاصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ص۴۰۳)
ترجمہ: اہل سنت کے اصول عقائد میں سے ہے وہ اپنے دلوں اورزبانوں کو صحابہ کے معاملے میں صاف رکھے ۔
(عقائد کے متعلق یہ دونوں حوالے مقام صحابہ از مفتی شفیعؒ سے ماخوذہے)
صحابہ معیار حق ہیں :
حضرات صحابۂ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین کو سیکھا اور آنے والی نسلوں تک من و عن نقل کر دیا ۔لہٰذا صحابۂ کرام نقل دین کے معاملے میں معیارحق ہیں ۔
اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی طرف نظر ڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ صحابہ کرام کے معیار حق ہونے پر خود کلام خدا اور فرامین رسول شاہد ہیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
(۱)فان آمنو بمثل ما آمتم بہ فقداہتدوا(بقرہ:۱۳۷)
ترجمہ: اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔
ایک دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا :
(۲)آمنو کما آمن الناس (بقرہ۱۳)
ترجمہ: تم بھی ایسا ہی ایمان لائو جیسا دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں ایک مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اقتداء میں ہدایت کو مضر بتاتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا :
(۳)اصحابی کاالنجوم فبایہم اقتدیتم اہتدیتم
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پائوگے ۔
ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
(۴)قال رسول اللہ صلیؤ اللہ علیہ وسلم …کلہم فی النار الاملۃ واحدۃ قالوا: وماہی یارسول اللہ! قال ما أنا علیہ واصحابی (ترمذی: باب افتراق ہذہ الامۃ ج:۲ ص:۹۳)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابہ جز ایک فرقے کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ ایک فرقہ کون ہے؟ ارشاد فرمایا کہ جس طریقے پر میںہوں اور میرے اصحاب ہیں۔
مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں سکوت لازم:
صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات رونما ہوئے اور کبھی جنگوں تک کی نوبت آگئی ان اختلاف کو علماء امت نے صحابہ کرام کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاجرات کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
اب ان مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں امت کا کیا طرز عمل ہونا چاہئے اسے ملاحظہ کیجئے۔
(۱) ترجمہ: یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابہ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل سے اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشواہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں کیوں کہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے۔ (تفسیر قرطبی ج:۱۶ ص:۳۲۲ ترکی)
(۲) حضرت امام شافعیؒ نے مشاجرات صحابہ میں گفتگو کرنے کے متعلق فرمایا کہ:یہ وہ خون ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھاہے (کیوں کہ ہم اس وقت موجود نہ تھے) اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنی زبانوں کو بھی اس خون سے آلودہ نہ کریں (یعنی کسی صحابی پر حرف گیری نہ کریں اور کوئی الزام نہ لگائیں بلکہ سکوت اختیار کریں) (روایت نمبر ۱۵ شرح مواقف بحوالہ مقام صحابہ :۹۸)
(۳) حضرت حسن بصریؒ سے قتال صحابہ کے متعلق دریافت کیاگیاتو فرمایا کہ: یہ معاملہ ایسا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اس میں حاضر اور موجود تھے اور ہم غائب، وہ حالات ومعاملات کی صحیح حقیقت جانتے تھے، ہم نہیں جانتے اس لئے جس چیز پر وہ متفق ہوگئے ہم نے ان کا اتباع کیا اور جس چیز میں ان کا اختلاف ہوا اس میں ہم نے توقف وسکوت کیا۔ (حوالہ سابق)
گستاخ صحابہ موجب لعنت:
حضرات صحابہ کرام کہ جن رفعت شان کو خدا اور رسول نے بیان کیا ان عظیم ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والا یقینا کوئی ملعون ومردود ہوسکتا ہے حضرات صحابۂ کرام کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے کے شرپر خود نبی نے لعنت بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے یوں فرمایا:
(۱) اذا رأیتم الذین یسون أصحابی فقولوا لعنۃاللہ علی شرکم (ترمذی :باب ماجاء فی فصل من رای النبی ج:۲ ص:۲۲۵)
ترجمہ: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کر برا بھلا کہتے اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے) جو براہے اس پر اللہ کی لعنت ہو (ظاہر ہے کہ صحابہ کو براکہنے والا ہی بدتر ہوگا)
امام ابوزرعہ عراقیؒ فرماتے ہیں :
(۲)ترجمہ : جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے ،اسلئے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ حق ہیں قرآن حق ہے ،قرآن و سنت ہم تک پہچانے والے یہی صحابہ کرام ؓ ہیں ، یہ تنقیص کرنے والے ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں ،تاکہ کتاب و سنت کو باطل کریں ؛لہٰذا ان کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہیں ۔(کتاب الکفایۃ:باب ماجاء فی تعدیل اللہ ورسولہ، ۴۹ دائرۃ المعارف العثمانیہ )
امام احمد بن حنبل ؒ کا قول ان کے تلمیذ المیمونی نقل کرتے ہیں :
(۳)ترجمہ : میں نے امام احمد بن حنبل ؒ کو فرماتے ہوئے سنا لوگوں کو کیا ہو گیا ہیکہ وہ حضرت معاویہ ؓ کی برائی کرتے ہیں، ہم اللہ سے عافیت کے طلبگار ہیں پھر مجھ سے فرمایا کہ تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ ؓ کا ذکر برائی سے کررہے ہیں تو اسکے اسلام کو مشکوک سمجھو۔(مقامِ صحابہ ؍۶۳ )
درد مندانہ گزارش :
الغرض :حضراتِ صحابہ کرام ؓ اس امت کے سب سے بہترین ہستیاں ہیں،ان کے قلوب پاک ہیں ،وہ عادل اورمتقن ہیں ،امت کا بڑے سے بڑے ولی اور قطب ان کے مقام و مرتبہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا ،ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت ہے اور ان سے بغض اللہ اور رسول سے بغض ہے ۔لہٰذا جو حضرات ان کی عیب جوئی کر رہے ہیں اور ان کے مشاجرات کو اچھال رہے ہیں ان سے درد مندانہ گزارش ہیکہ جمہورِ امت کی راہ نجاتِ اخروی سے الگ نہیں ہو سکتی،جن باتوں میں جمہور نے کفِ لسان کیا ہے اور خاموشی کو لازم پکڑا ہے ان میں سکوت اختیار کریں ،بے جا زبان درازیاں کر کے اپنی آخرت کو تباہ نہ کریں ،محققانہ بہادری دکھاکرامت میں نئے اختلاف کو جنم نہ دیں ، پہلے ہی امت بہت سارے مسائل کا شکار ہیں ، اس سے چھٹکارا دلانے کی فکر کریں ۔
خدا تعالیٰ حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×