اسلامیات

سلام کی اہمیت و فضیلت اور ہماری غفلت

اسلام دینِ فطرت ہے، جس کی تعلیمات مزاجِ بشری کے بالکل ہم آہنگ اور مطابق ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ فطرتِ انسانی  آپسی میل جول اور باہمی تعلق اور ملاقات کی مقتضی ہے، کہ جب دو لوگ آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو جملہ اقوام کا یہ رواج  ہے کہ اظہارِ تعلق کے لیے کچھ نہ کچھ جملے ضرور استعمال کرتے ہیں،جو کہ ان کی خاص علامت اور شعار ہوا کرتا ہے، لیکن اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سب طریقوں سے قطع نظر کرتے ہوئے ایک نہایت سنہرا  اور منفرد طریقہ سکھایا وہ یہ کہ جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو سب سے پہلے سلام کریں، یہ سلام اصل میں اسلامی شعار اور مذہبی فریضہ ہے، سلام لغت میں نام ہے:  سلامتی اور حفاظت کا.
یعنی مطلب یہ کہ سلام کرنے والا اپنے سلام کے ذریعے سامنے والے کو یہ دعا دیتا ہے کہ آپ تمام آفات سے سلامتی اور شرور سے حفاظت میں رہے خواہ دینی ہو یا دنیاوی، جانی ہو یا مالی، نیز سلام امن و شانتی کا پیغام،  حفظ و سلامتی کا ذریعہ اور اتحاد و اتفاق کی شاہ کلید ہے ،سلام کوئی رسمی بول نہیں؛ بلکہ درحقیقت سلام ایک عالمگیر جامعیت کا نام ہے مثلاً (١) اس میں اللہ کا ذکر بھی ہے ،(٢) اپنے مسلمان بھائی سے اظہار تعلق و محبت بھی ،
(٣) تذکیر بھی ،
(٤) سامنے والے کے لئے بہترین دعا بھی ،
(٥) اور اس سے یہ معاہدہ بھی ہے کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہونچے گی، وغیرہ .
سلام کو فروغ دینے اور عام کرنے کی اہمیت کتاب و سنت کی بے شمار نصوص سے ثابت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے  "واذا حييتم بتحيه فحيوا باحسن منها او ردوها "( سوره النساء : ٨٦)
"اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہیں الفاظ میں لوٹا دو” ، اس آیت کریمہ میں سلام اور سلام کے جواب کے آداب کی تعلیم دی گئی ہے، اور دوسرے مقام پر ہے : يا ايها الذين امنوا لا تدخلوا بيوتا غير بيوتكم حتى تستانسوا وتسلموا على اهلها ( النور :٢٧) ” اے ایمان والو!  تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل مت ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، "
تو کسی اور جگہ گھریلو معاشرت کی تعلیم دیتے ہوئے کہا گیا : واذا دخلتم بيوتا فسلموا على انفسكم تحية من عند الله مباركة طيبه   ( النور :٦١ ) جب تم گھروں میں جانے لگے تو اپنے لوگوں کو سلام کر لیا کرو (جوکہ) دعا کے طور پر ہے اور جو خدا کی طرف سے متعین ہے، مطلب یہ کہ گھروں میں آمدورفت کے وقت اہل خانہ کو سلام کرنے کا اہتمام کریں، اس لیے کہ یہ باعثِ خیر وبرکت ہے،  نیز سورۃ الانعام میں ہے: "واذا جاءك الذين يؤمنون باياتنا فقل سلام عليكم ” ( الأنعام : ٥٤) "یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں تو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ ان کو سلام علیکم کہیے” یعنی ان کو سلام کرکے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں، ان تمام آیات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سلام کی کتنی زیادہ اہمیت ہے ؟
اگر کوئی سلام سے بے رخی برتے یا سلام کی اصل شکل کو مسخ کرکے غیروں کی روش اپنائے تو یہ بات قابل افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے.
 اور اگر ہم ذخیرۂ احادیث میں سلام کی اہمیت والی روایات تلاش کریں تو بے شماراحادیث ایسی نظر آئیں گی جو سلام کی اہمیت اور ضرورت کی اطلاع دیتی ہیں ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا "ای الاسلام خیر ” تو آپ نے فرمایا ” تطعم الطعام وتقرا السلام على من عرفت ومن لم تعرف ” ( بخاري: باب الطعام ) "کھانا کھلانا اور سلام کرنا انہیں جن کو تم پہچانتے ہو اور انہیں بھی جن کو تم نہیں پہچانتے”  مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق جان پہچان اور تعلق سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اسلامی حق اور ایمانی فریضہ ہے۔
لیکن آج اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی عام ہوچکی ہے، عموما لوگ چہرہ اور شخصیت دیکھ کر ہی سلام کرتے ہیں، حالانکہ سلام شناسا و غیر شناسا، اور واقف و اجنبی سب کو کرنا چاہیے،
اور صحیح مسلم کی روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اولا ادلكم على شيء اذا فعلتموه تحاببتم ؟ افشوا السلام بينكم ( مسلم شريف :٩٣ ) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں محبت پیدا ہو جائے گی ( پھر آپ نے فرمایا) آپس میں سلام کو عام کرو
 مطلب یہ کہ معاشرے میں سلام کو عام کیا جائے اس لیے کہ سلام کی وجہ سے سنت عام ہو جائےگی ،تواضع کی صفت پیدا ہوجائےگی،لوگوں کے اخلاق عمدہ ہو جائیں گے،ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے پر روک لگ جائے گی، اور محبت والفت عام ہو جائے گی،
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں : السلام قبل الكلام ( سنن الترمذي :٢٦٩٩) گفتگو شروع کرنے سے پہلے سلام کرنا چاہیے ، ایک اور دوسری حدیث میں کلام کو سلام پر مقدم کرنے والے کے بارے میں فرمایا : من بدا بالكلام قبل السلام فلا تجيبوه ( عمل اليوم والليله لابن السني :٢١٤ ) جو شخص سلام کرنے سے پہلے گفتگو شروع کر دے تو اس کا جواب نہ دو ،
ایک حدیث میں نبیﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں انہی میں ایک یہ بھی فرمایا کہ” اذا لقيته فسلم عليه” (مسلم شریف :٢١٦٢ )  جب کسی مسلمان سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو.
یہ سب احادیث ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہیں کہ ہم ہر ملاقات پر سلام کو عام کریں؛ اس لیے کہ سلام امتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے، طبرانی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے : ان الله عز وجل جعل السلام تحية لامتنا ( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر : ٧٣٩٥ ) اللّٰہ تعالیٰ نے سلام کو ہماری امت کا تحیہ قرار دیا ہے اس لیے سلام کو عام کرنا چاہیے، خود نبی ﷺ (جوکہ وجۂ تخلیقِ کائنات اور امام الانبیاء ہے، اس کے باوجود آپ )کا معمول تھا کہ جب بھی کسی سے سامنا ہوتا اور جہاں سے بھی گزرتے تو سلام کرنے میں پہل کرتے خصوصاً بچوں کو بڑے شوق و ذوق سے سلام کرتے ۔
نیز حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کا بڑا اہتمام فرماتے تھے چناں چہ
حضرت انس رضی  اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں بہت زیادہ سلام کیا کرتے تھے۔ سلام کی کثرت کا یہ حال تھا کہ اگر کسی وقت آپکے ساتھی کسی درخت کی اوٹ میں ہوجاتے اور پھر سامنے آتے تو پھر سلام کرتے اور آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرلے اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور پھر سامنے آئے تو اسے پھر سلام کرے۔ (ریاض الصالحین)
حضرت طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمر ؓکی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کے ہم راہ بازار بھی جاتا، وہ راستے میں جس کے پاس سے بھی گزرتے ، اسے سلام کرتے، چاہے کوئی دکان دار ہو، چاہے کوئی غریب اور مسکین، غرض کوئی بھی ہوتا اسے سلام کرنے سے نہیں کتراتے؛ بلکہ ہر ایک کو سلام کرتے ۔
سلام کے فضائل و فوائد : احادیث نبویہ میں سلام کے بےشمار فضائل اور فوائد ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں : مثلاً ( ١ ) سلام میں پہل کرنے والا رحمتِ خداوندی کا مستحق ہوتا ہے،
( ٢ ) سلام میں پہل کرنے والا کِبر سے بَری ہے،
(٣) سلام میں پہل کرنے والا قطع رحمی سے محفوظ ہے،
(٤) سلام میں پہل کرنے والے کو جنت کی بشارت ہے ،
(٥) سلام میں پہل کرنے والا نناوے رحمتوں کا حق دار ہوگا،
(٦) سلام نیکی میں اضافہ کا ذریعہ ہے،
(٧) سلام حسد وبغض کا علاج ہے،
(٨) افشاء سلام آپسی محبت کا ذریعہ ہے،
(٩) افشاء سلام جز اسلام ہے،
(١٠) سلام باہمی تعلقات میں استحکام کی بنیاد ہے،
(١١) سلام ایمانی حلاوت کا باعث ہے،
(١٢) گھر والوں کو سلام کرنا خیر وبرکت کا سبب ہے،وغیرہ ‌۔
سلام کے آداب : اسلام نے اپنے ماننے والوں کو صرف احکام کا پابند کرکے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسکے آدابِ پابجائی اور اس کے طرقِ ادائیگی کی تعلیم بھی دی ہے ، چنانچہ سلام کے بھی آداب بتائے گئے ہیں مثلاً : (١) اسلامی الفاظ سے سلام کریں ،
(٢) مکمل سلام کریں،
(٣) مُردوں کے سلام کے الفاظ سے سلام نہ کریں،
(٤) سلام میں غیر مسلموں کی مشابہت اختیار نہ کریں،
(٥) سلام میں پہل کریں،
(٦) کلام سے پہلے سلام کریں،
(٧) چھوٹے بڑوں کو، گزرنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کریں،
(٨) محرم عورتوں کو سلام کریں ،
(٩) بچوں کو بھی سلام کریں،
(١٠) سونے والے کی رعایت کرتے ہوئے بیدار لوگوں کو معتدل آواز سے سلام کریں ،
(١١) مجلس سے جدائیگی کے وقت سلام کریں ،
(١٢) گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو  سلام کریں،
(١٣) تھوڑی دیر بعد پھر ملاقات ہو تو پھر سلام کریں ،
(١٤) سلام کا جواب دینا،
(١٥) سلام کرنے والے کو اس کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں یا کم از کم ان ہی الفاظ میں جواب دینا، وغیرہ ۔
ہماری جانب سے غفلت : آج مذہب بیزاری، دین سے دوری اور مغرب کی اندھی نقالی کے اس دور میں جہاں دین سے ناواقفیت کی وبا پھیلتی جا رہی ہے، ایک طرف عصری تعلیم یافتہ طبقہ سلام و مصافحہ کے بنیادی اور اسلامی آداب سے بھی بے خبر ہے، انہیں نہ تو سلام کی اہمیت کا پتہ ہے اور نہ ہی اس کی فضیلت کا علم ؛ نتیجۃً وہ اس مہتمم بالشان  اسلامی شعار کو چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اپنارہے ہیں، صورت حال تو یہ ہے کہ چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک، مردوں سے لے کر عورتوں تک، بچپن سے لے کر پچپن تک ، گھر سے لے کر آفس تک،اسکول سے لے کر ٹیوشن تک ، بازار سے لے کر کمپنیوں تک ہر شخص کی زبان پر "السلام علیکم ” کے بجائے "ہاۓ” ، "ہیلو ” اور صبح بخیر اور شام بخیر کے بجائے گڈمارننگ ( good morning ) ، گڈ آفٹرنون (good afternoon ) ، گڈ نائٹ ( good night ) جیسے جملے ہی زبان زد ہے ، حالانکہ ابن دقیق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: التحيه بغير لفظ السلام من باب ترك المستحب ( فتح الباري ،حديث نمبر : ٥٧٦٢)
تو وہی دوسری طرف دین دار کہلانے والا طبقہ بھی اس بات کا شکار ہے کہ سلام صرف جان پہچان کے لوگوں تک محدود ہے ؛ حالانکہ سلام تو جان پہچان کے بغیر اور رنگ ونسل کی قید کے بغیر ہو ، اس لیے کہ اسلام کا منشاء تو یہ ہے کہ تمہارے اور انکے درمیان جان پہچان ہو یا نہ ہو، آپس میں دوستی ہو یا نہ ہو ، رشتہ داری ہو یا نہ ہو، پڑوس ہو یا نہ ہو، برادری کا تعلق ہو یا نہ ہو، اور چاہے وہ مالدار ہو یا غریب ، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ ان سب خصوصیات سے قطع نظر کرکے سلام کو عام کریں؛ اس لیے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں شناسا اور غیرشناسا سب کو سلام کرنے میں کئی ایک فوائد ہیں مثلاً: (١) اخلاص و للہیت کا اظہار ، (٢) تواضع و خاکساری کا اظہار ، (٣) سلام ( جو شعائر اسلام میں سے ہے اس )  کی اشاعت ( فتح الباری : ١١/٢٧١ جلد نمبر ) اور صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرنا قربِ قیامت کی علامت ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسجد کے پاس سے گزرے گا اور مسجد میں نماز نہیں پڑے گا اور یہ بھی کہ انسان بھی جان پہچان کے لوگوں کو سلام کریں گے ( المعجم الکبیر للطبرانی : ٩٤٨٩ ) اور اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں ایک تفصیلی روایت بیان کی، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ "بین یدی الساعۃ تسلیم الخاصۃ ” قیامت کے قریب خاص لوگوں کو سلام کیا جائے گا،( ٩٨٥)
سلام کے جواب کا شرعی حکم : اگر کوئی شخص سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہے ؛ کیوں کہ جواب نہ دینے سے ایک مسلمان کی اہانت اور بے عزتی ہوتی ہے جو کہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے ، ( الاختیار لتعلیل المختار : ٤/١٦٣ ) اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دے کہ سلام کرنے والا سن لے ، نیز سلام کا جواب دینا فرشتوں، انبیاء اور صلحاء کا طریقہ بھی ہے ، اور ہر شخص کو چاہیے کہ صرف سلام کا جواب ہی نہ دے؛  بلکہ اس سے اچھے انداز میں جواب دے کر سامنے والے کو خوش کرنا مستحب ہے ” واذا حييتم بتحيه فحيوا باحسن منها او ردوها ” ۔
         خیال رکھیں :  اسلام نے مسلمانوں کو جہاں سلام میں پہل کرنے اور ہر ایک سے سلام کو عام کرنے کی تعلیم دی ، تو وہیں یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات اور مقامات ایسے ہیں جن میں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ تین مواقع یہ ہیں: (١)
 جب کوئی آدمی عبادت میں مصروف ہو، مثلاً ذکر،نماز ، تلاوت، دعا،اذان و اقامت،خطبہ وغیرہ ،
(٢) آدمی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے ،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ،
(٣) جب کوئی معصیت اور گناہ میں مشغول  ہو، تو اس موقع پر بھی سلام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
سلام کے یہ وہ بنیادی اور اجمالی احکام ہیں ، جن میں سلام کی ممانعت آئی ہے۔
خلاصۂ تحریر : مذکورہ بالا تحریر ہمیں اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنی ایمانی ذمہ داری سمجھ کر سلام جیسی عظیم الشان سنت اور اسلامی فریضہ کو ہر صاحبِ ایمان سے عام کریں، نیز فرمانِ نبوی ” وتقرأ السلام علی من عرفت ومن لم تعرف ” کو ہر وقت پیش نظر رکھیں ،‌اور جان پہچان کے لوگوں تک محدود رہنے کے بجائے اور رنگ و نسل کے فرق کے بغیر اور مسلک و موقف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سلام میں پہل کریں،  اگر ہم اس کا اہتمام کریں گے تو تب کہیں جا کر اتحاد کا ماحول پیدا ہوگا، الفت و محبت کی فضا قائم ہوگی، آپسی دوریاں اور تلخیاں ختم ہوگی، رنجشیں اور عداوتیں کالعدم ہو جائے گی، ہمدردی اور بھائی چارگی کی مثال قائم ہوگی، خوشیوں اور مسرتوں کا خوشنما منظر نظر آئے گا ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ
 سب سے پہلے سلام کرو
پھر لوگوں سے کلام کرو
عادت سب کی بن جائے
اتنا سلام کو عام کرو ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×