افکار عالم

محض اعمال صالحہ کی بنیاد پر جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات ناممکن ؛تا آنکہ حق تعالی نظرِ رحمت نہ فرمائیں !

مکہ مکرمہ: 31؍ستمبر (عصر حاضر) امام حرم مکی ڈاکٹر شیخ فيصل بن جميل غزاوي نے عامۃ المسلمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : مسلمانو!صرف عمل صالح خواہ وہ کتنا ہی معیاری اور حسن وکمال کے اعلی درجہ پر فائزہو جنت میں داخل کرنے اور جہنم سے نجات دلانے کے لیے کافی نہیں ہے؛ جب تک کہ اللہ تعالی کی رحمت یاوری نہ کرے۔
امام بخاری ؒ اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص تم میں سے نجات نہ پائے گا اپنے عمل کی وجہ سے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ اور آپ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی نہیں؛مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ڈھانپ لے اپنی رحمت سے؛پس تم کو چاہئے کہ درستی کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو ، صبح اور شام، اسی طرح رات کو ذرا سا چل لیا کرو اور اعتدال کے ساتھ چلا کرو منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔“
شیخ نے فرمایا کہ مذکورہ روایت، اہم ترین قاعدہ اورضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے ؛جس میں صاف صاف کہاگیا ہے کہ آدمی چاہے کتنے ہی اچھے اعمال کرلے وہ جنت میں داخلہ کا سبب نہیں بن سکتے؛ جب تک کہ رحمت الہی متوجہ نہ ہو۔
امام محترم نے فرمایا کہ ایک طرف رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ "کوئی شخص اپنے عمل کی بناء پر جنت میں داخل نہیں ہوگا” اور دوسری طرف آیت قرآن ہے کہ”تم اپنے اعمال کے سبب جنت میں داخل ہوجاؤ!”اب ان دونوں میں دفع تعارض کی یہی صورت ہوگی کہ جس پر اللہ رحم فرمادیں وہ بہر حال جنت میں جائے گااور جنت میں جانے کے بعد اعمال صالحہ کے مطابق درجات و مراتب میں فرق رہے گا۔جن کے اعمال زیادہ بھی ہوں اور اچھے بھی، وہ اعلی درجہ پر فائز ہوں گے اور جن کے اعمال کم ہوں گے وہ اس سے کم مرتبہ والے ہوں گے۔
اللہ تعالی کےنزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ سہولت و آسانی سے کیاجائے۔اور وہ عمل اللہ کو پسند نہیں جس میں تنگی،دشواری اور تکلیف ہو۔ارشاد باری ہے:اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتے ہیں ،تنگی نہیں چاہتے۔
‏‏‏‏مسلم شریف میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں(رضی اللہ عنہن) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا۔ یعنی جو عبادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کرتے تھےاس کے تعلق سے دریافت کیا۔ اور پھر ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا: میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی نے کہا: میں کبھی بچھونے پر نه سوؤں گا۔ سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی یعنی خطبہ پڑھا اور فرمایا: ”کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں یعنی رات کو اور سو بھی جاتا ہوں، اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔“
غور کیاجائے تو نبی پاک ﷺنے اس روایت میں اعتدال و میانہ روی کا نمونہ پیش فرمایا ہے؛جس کی اتباع ہم سب کے لیے لازم و ضروری ہے۔
آپﷺکے قول ’ قاربوا‘ کا یہی مطلب ہے کہ ایسا درمیانی راستہ اپناؤ جو افراط و تفریط سے پاک ہو،تقصیر و غلو سے خالی ہو؛تاکہ عبادت میں یکسوئی رہے اور اکتاہٹ و بیزاری کیفیت نہ آجائے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×