اسلامیات

حج …فضیلت واہمیت

حج اسلام کا ایک عظیم الشان رکن ہے، حج کے بغیر اسلام کی عمارت ناقص ونامکمل ہے،اسلام کی تکمیل کا اعلان بھی حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج ایک مہتم بالشان فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم یادگار بھی ہے۔

حج میں جہاد کی شان
احادیث شریفہ کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حج اور جہاد میں بڑی گہری مناسبت ہے ، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بوڑھوں ، کمزوروںاورعورتوں کا جہاد حج و عمرہ ہے۔(ترغیب:۲؍۱۶۴)
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کمزوروں کا جہاد حج ہے ۔(ترغیب:۲؍۱۶۵)
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے حضورﷺ سے دریافت کیا :یارسول اللہ ! کیا عورتوں پر بھی جہاد فرض ہے ؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ان پر وہ جہاد ہے : جس میں قتال نہیں ہے اور وہ حج و عمرہ ہے ۔(شمائل کبری:۱۲؍۲۴، م:زمزم پلیشرز کراچی)

حج گناہوں کے لیے کفارہ ہے
جس طرح اسلام قبول کرناسابقہ گناہوں کے لیے کفارہ ہے ، ٹھیک اسی طرح حج بھی سابقہ گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتاہے۔حاجی حج کرنے کے بعد اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیداہوا ہو، یعنی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد مبارک ہے : ان الحج یھدم ما کان قبلہ۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر:۱۹۲، باب کون الاسلام یھدم ماکان قبلہ)حج پچھلے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

حج سے فقروفاقہ کا خاتمہ
حج اور بیت اللہ کی باربار حاضری کا مادی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے فقر وفاقہ ، محتاجگی اورغربت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، رزق میں وسعت وبرکت پیداہوتی ہے ، حج وعمرہ کی مداومت وتسلسل سے فقر ومحتاجگی اور معاصی کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:بار بار حج اور عمرہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے اور فقروتنگدستی کو دور کرتا ہے ۔(مصنف بن عبدالرزاق، ماخوذ ازشمائل کبریٰ:۸؍۴۴، م: زمزم کراچی)
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کرو، یہ دونوں فاقے اور تنگدستی کو دور کردیتے ہیں اور گناہوں کو ایسے ہی زائل کرتے ہیں، جیسا کہ بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب سوائے جنت کے کچھ بھی نہیں۔(ترغیب:۱۶۴، ماخوذ از شمائل کبریٰ:۸؍۴۴،م: زمزم، کراچی)
اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کوئی حاجی ﷺغریب اور تنگدست بالکل نہیں ہوتا۔ (شمائل کبریٰ:۸؍۴۳،م: زمزم، کراچی)

حجاج کرام اللہ کی ضمانت میں
حجاج کرام کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ وہ اللہ کی حفاظت وضمانت میں ہوتے ہیں ، حج کے مبارک سفرمیں جسے اللہ کی معیت وحفاظت اور ضمانت حاصل ہو، ایسے شخص کی سعادت وخوش نصیبی میں کیا اشکال ہوسکتا ہے؟
چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :تین قسم کے لوگ اللہ کی ضمانت میں ہوتے ہیں :ایک وہ شخص جو اپنے گھر سے اللہ کے کسی گھر کی طرف جائے یعنی کسی مسجد کی طرف جائے ، دوسرے وہ شخص جو اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے جائے ، اور تیسرے وہ شخص جو حج کے ارادہ سے نکلے۔(مسند حمیدی، حدیث نمبر:۱۱۲۱، باب الجہاد، حلیہ الاولیاء وطبقات الاصفیاء:۹؍۲۵۱،م : محافظہ مصر)

حجاج کرام اللہ کے مہمان ہیں
حجاج کرام کے لیے خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتیہیں ، نبی کریمﷺ کاارشادمبارک ہے: وفد اللہ ثلاثۃ: الغازی والحاج والمعتمر۔(سنن نسائی: حدیث نمبر:۲۶۲۵) تین قسم کے لوگ اللہ کے خصوصی مہمان ہیں : ایک اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا، دوسرے حج کرنے والا اورتیسرے عمرہ کرنے والا۔
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وافد خصوصی مہمان ہیں، ان کی دعاء قبول کی جاتی ہے ، ان کا سوال پورا کیا جاتا ہے ۔(ترغیب: ۲؍۱۶۷، ماخوذ از شمائل کبریٰ:۸؍۳۳،م: زمزم، کراچی)

حاجی مستجاب الدعوات ہوتا ہے
رب کریم کی طرف سے حجاج وعمارکی ضیافت ومہمان نوازی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی دعائیں قبول فرماتے ہیں،دنیاو آخرت کی جو بھی بھلائی وہ مانگے ، اللہ حاجی کو عطافرماتے ہیں، فیاضی وکرم فرمائی کا یہ سلسلہ ا ن کے گھر واپس لوٹنے تک رہتا ہے، نبیﷺ نے فرمایا:حجاج کرام کی دعائیں رد نہیں ہوتیں ،جب تک کہ وہ واپس نہ ہوجائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ، جب وہ اللہ سے کسی چیز کا سوال کرتے ہیں ، اللہ ان کو وہ عطافرماتا ہے اور جب وہ مغفرت چاہتے ہیں تو ان کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر:۲۸۹۲، باب فضل دعاء الحاج)

حاجی سے دعاء کی درخواست کرنا
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجاج کرام کے لیے دعاء فرمائی کہ اے اللہ حاجیوں کی مغفرت فرما، اور حاجی جس کے لیے مغفرت کی دعاء کرے ، اس کی بھی مغفرت فرما۔(صحیح ابن خزیمہ:حدیث نمبر:۲۵۱۶، باب استحباب دعاء الحاج)
اسی طرح حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جب تم کسی حاجی سے ملو تو اس کو سلام کرواور اس سے مصافحہ کرواور اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعاء کرے ، اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے، کیوں کہ اس کی مغفرت کردی گئی ہے ۔( مسنداحمد)
حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفیؒ اپنی مایہ ناز تصنیف میں تحریر فرماتے ہیں: حدیث شریف میں ہے کہ جب تو حاجی سے ملے تو اس کو سلام کر ، اس سے مصافحہ کر اور اس سے اس بات کی درخواست کرکہ وہ تیرے لیے مغفرت کی دعاء کرے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے مکان میں داخل ہو، اس لیے کہ اس کے گناہ بخش دئیے گئے،اس کی دعاء مقبول ہونے کی خاص طور پر امید ہے اور جو دعاء چاہے اس سے وہ دعاء کرائے دین کی ہویا دنیا کی۔ (اسوۂ رسول اکرمﷺ:۲۶۳،م: مکتبہ عمر فاروق کراچی)

قدم قدم پر نیکی اوردرجات کی بلندی
حاجی جب سفرحج کے لیے پابہ رکاب ہوتا ہے اور شوق ومستی کے عالم میں اپنے گھر بار کوچھوڑ کر اپنے آقا ومولیٰ کے گھر کی زیارت کے لیے نکل پڑتا ہے تو اس کاہر قدم مقبول ہوتا ہے ، قدم قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ، ایک گناہ معاف ہوتا ہے او رایک درجہ بلند ہوتا ہے، یہ سلسلہ گھر سے نکلنے سے واپس لوٹنے تک جاری رہتا ہے ۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے حج یا عمرہ کی نیت سے بیت اللہ کا ارادہ کیا(سفرکیا)اور اپنے اونٹ پر سوار ہو تو سواری کے ہرقدم پراللہ تعالیٰ ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرمادیتے ہیںاور اس کا ایک درجہ بلند فرماتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بیت اللہ تک پہونچ جائے ،پھر وہ بیت اللہ کا طواف کرے ، صفا مروہ کی سعی کرے ، پھر حج کے بعد حلق یاقصر کرے تو پھر وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہوکر نکلتا ہے، جیسا کہ اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، کنزالعمال مترجم:۵؍۲۸، م: دارالاشاعت کراچی)

سفرحج کی موت پر بشارت
اگر کوئی شخص کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلے ،پھر اسی مبارک سفرمیں زندگی کے دن تمام ہوجائیں تواسی حالت میں موت بھی کچھ کم خوشی نصیبی سے خالی نہیں، یقینا یہ شخص بڑا خوش نصیب ہے ، جو پہلے اللہ تعالیٰ کا مہمان تھا اوراب اسی کی میزبانی میں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی رہے گا، اور قیامت تک حاجیوں میں شمار ہوتا رہے گا۔
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حالت احرام میں نبیﷺ کے ساتھ تھا، اس کو اس کی اونٹنی نے گرادیا، جس سے وہ مرگیا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس کو بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دواور دوکپڑوں میں اس کو کفناؤ اور اس کے منھ کو نہ ڈھانکنا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھائے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کنزالعمال مترجم :حدیث نمبر:۱۲۸۸۶)
لہذا حج عشق الہی کی ایک بلند نظیر ہے اور بیت اللہ شریف مرکز تجلیات الہی ہے، اسی لیے بیت اللہ شریف کی زیارت اور حضورﷺکی باگاہ رسالت میں حاضری مؤمن کی جان تمنا ہے ؛ اگر کسی کے دل میں یہ تمنا نہیں تو اس کے دل میں ایمان کی جڑیں خشک ہیں۔
حج کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ اصلاح حال کی تمام مستند کوششوں کے باوجود بندہ کی زندگی میں جو بھی کھوٹ اور کمی رہ جائے وہ ارکان حج اور مقامات مقدسہ کی برکت سے دور ہوجائیں گے اور وہاں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے کہ گویا اس نے آج ہی جنم لیا ہو،أللھم وفقنا لما تحب و ترضی من القول والفعل والنیۃ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×