اسلامیات

شب برأت اور معافی نامہ

ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ شب برأت سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو یہ میسج کرتے نظر آتے ہیں کہ :

"آج تک میری طرف سے جانے انجانے میں کوئی غلطی یا گستاخی یا غیبت ہوئی ہو یا میری وجہ سے آپ کا دل دکھا ہو تو اللہ تعالی کی رضا کے لئے شب برأت سے پہلے دل سے معاف کردیں، میں نے بھی آپ کو معاف کیا”

یہ اچھی بات ہے کہ بندہ دوسرے مسلمان کے حق میں کوئی زیادتی یا کوتاہی کرے تو معافی مانگ لے اور دوسرے سے دل صاف کردے مگر کیا یہ معافی طلب کرنا اور دوسرے سے دل صاف کرنا صرف ایک رات کے لئے؟ پورے سال تکلیف دے اور کوئی معافی کا سوال نہیں؟ کوئی دل کی صفائی نہیں؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ ایک مؤمن کی شان تو یہ ہے کہ اس کا دل ہر وقت دوسرے مسلمان سے صاف رہتا ہے-

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی مجلس سے ایک انصاری کا گزر ہوا جن کی ڈاڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور انھوں نے بائیں ہاتھ میں جوتیاں لٹکا رکھی تھیں، حضور اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنتی ہیں، دوسرے اور تیسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس انصاری کے پیچھے ہولئے اور ان کے مہمان بن گئے، تین دن ان کے ہاں ٹہرے، فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے پاس تین راتیں گذاریں، لیکن میں نے ان کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا؛ البتہ جب رات کو ان کی آنکھ کھل جاتی تو بستر پر اپنی کروٹ بدلتے اور تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے اور اَللّٰهُ أَکْبَرُ کہتے اور نمازِ فجر کے لیے بستر سے اٹھتے، ہاں جب بات کرتے تو خیر ہی کی بات کرتے، جب تین راتیں گذر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام معمول کے ہی نظر آئے (اور میں حیران ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے ان کے لئے بشارت تو اتنی بڑی دی لیکن ان کا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں) تین دن کے بعد ان سے قصہ عرض کیا، اور کہا کہ میں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں تو اب آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپ اس درجہ کو پہنچ گئے کہ حضور اکرم ﷺ کی زبانی جنتی کی بشارت ملی؟ انہوں نے فرمایا کہ میرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں، وہی عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں، میں یہ سن کر چل پڑا، تب انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ میرے اعمال تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں، البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے، اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا، میں نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔

’’بزّار‘‘ کی روایت میں ان صحابی کا نام صرف سعد بتایا ہے اور ’’ابنِ عساکر‘‘ کی روایت میں پورا نام سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مذکور ہے، اور اس روایت کے آخر میں یہ بھی ہے کہ میرے عمل تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں، البتہ ایک عمل یہ ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے لیے برا جذبہ نہیں اور نہ میں زبان سے برا بول نکالتا ہوں۔

اسی طرح کچھ لوگ حضرت ابو دُجانہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے، وہ بیمار تھے لیکن ان کا چہرہ چمک رہا تھا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے اپنے اعمال میں سے دو عمل پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے:

1- میں کوئی لایعنی بات نہیں کرتا تھا۔

2- میرا دل تمام مسلمانوں سے بالکل صاف تھا۔ [ملخص از حیاة الصحابة 584/2]

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ صدقہ کرنا مال کو کم نہیں کرتا، اور کسی خطا وار کے قصور کو معاف کردینا معاف کرنے والے کی عزت ہی کو بڑھاتا ہے، اور جو شخص اللہ کی رضا کے خاطر تواضع اختیار کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کو رفعت اور بلندی عطا فرماتے ہیں- [فضائل صدقات]

ایک مسلمان کی شان یہ نہیں کہ صرف ایک رات کے لئے دل کو صاف کیا جائے اور غلطی پر سال میں ایک ہی بار معافی مانگی جائے بلکہ ہر روز اس دل کی صفائی ضروری ہے، اگر کسی کا مالی حق ہے تو اس کو بھی ادا کیا جائے، نجانے ہم کیا کچھ بول دیتے ہیں؟ کیا تکلیف دیدیتے ہیں؟کبھی زبان سے! کبھی ہاتھ سے!کبھی چہرے کے تاثرات سے! اس لئے ہر وقت ڈرتے رہا جائے اور اگر کسی نے تکلیف دی ہے تو اس کو معاف بھی کردیا جائے کہ اللہ تعالی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×