اسلامیات

عیدالفطر کی اصلیت

رمضان کا مقدس مہینہ اپنی پوری آب تاب کے ساتھ ہم پر سایہ کیے ہوئے تھا، یہ رمضان کا مبارک مہینہ کتنی تیزی کے ساتھ گزرا کچھ احساس ہی نہیں ہوا، رمضان کا اتنی تیزی کے ساتھ گزرجانا قیامت کی نشانیو میں سے ہے، اور یہ ہمیں بتلانا ہے کہ ہم بھی اتنی تیزی کے ساتھ اپنی موت کی طرف جارہے ہیں، اگر ہم نے اپنی پوری زندگی رمضان بنالی تو اس زندگی کے اختتام پر جو دن آئے گا وہ عید کی طرح خوشی کا دن ہوگا۔
عید کا دن دنیا کی ہر قوم کے پاس پایا جاتا ہے لوگ عید کے دن کو بڑے اہتمام کے ساتھ گزارتےہیں، اور خوب  دل کھول کر لطف اٹھاتے ہیں، دیگر مذاہب میں عید کے دن خوشی ومسرت میں ہر طرح کے کام کئے جاتے ہیں، روانا رواکی پروا کئے بغیر جشن منایا جاتا ہے، اور ہر طرح کی غیر اخلاقی چیزوں کو اختیار کیا جاتاہے،کیوں کہ ان کے یہاں عید کا مطلب صرف خوشیوں میں مست ہوجانا اور من چاہے کاموں کو انجام دینا ہی ہوتا ہے، جب کہ اسلام کی ہر چیز نرالی، اس کے ہر حکم میں غیر معمولی کشش اور روحانیت ہوتی ہے، اسلام میں بہت ہی اہمیت رکھتا ہے، یومِ عید مسلمانوں کو بھی خوشی ومسرت منانے اور اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرنے کے لئے دیا گیا، لیکن دیگر اقوام کی طرح بے لگام نہیں چھوڑاگیا اور نہ ہی آزاد کردیا گیا، بلکہ نبی کریمﷺ نے ایسے عظیم اور خوشی کے دن کیوں دیاجاتا ہے، اور عید کے دن میں کن کاموں کا التزام رکھنا چاہئے ان تمام کو بینن کیاگیا، جب ہم اسلامی عید کا جائزہ لیتے ہیں تو اسلامی عید میں بہت نرالاپن، سب سے جدا رنگ نظر آتا ہے، اور قدم قدم پر احساذ عبدیت کو اجاگرکر تا دکھائی دیتا ہے، محسن حقیقی پرودرگار عالم کے ا نعامات کی قدر دانی کے جذبات کو پیدا کرتا ہے، اور انسان کا ہر موئے دن جذبۂ شکر سے سرشار ہوجاتا ہے، اسلامی عید میں خوشیوں اور مسرتوں کے ساتھ سبق آموزہدایتیں بھی دیں او ر ایک نئے عزم وارادہ کے ساتپ زندگی کے سفر کو شروع کرنے کی تعلیم بھی دی، خوشیوں کو صرف اپنے حد تک یا اپنے کنبے وخاندان تک محدود رکھنے کے وبجائے ہر یک کے لئے فکر کرنے اور ضروت مندوں غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا حکم دیا اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک اور پالنہار کےاحسانات وانعامات کو سمجھنے کا سبق دیا، چنانچہ عید کے دن جو کام کیے جاتے ہیں اس کو دیکھیں کہ عید کے دن بندۂ مؤمن کو حکم ہے کہ عید کی خوشی کی شروعات کرنے سے پہلے خدا کی بارگاہ میں دو گانہ شکرادا کریں، عید گاہ کو جاتے ہوئے زبانوں پر تسبیح وتہلیل کا ورد ہو، جاتے ہوئے ایک راستہ اختیار کیا جائے اور واپسی میں دوسرے راستے آئے (بخاری: ۹۳۸)تاکہ اسلامی کی عظمت اور شان وشوکت کا مظاہرہ ہو، اجتماعی انداز میں نماز ادا کر کے اسلام کے اتفاق اور اتحاد کا نمونہ پیش کیا جائے، سادگی اور عاجزی ہر ایک کی ادا جھلکتی ہے بندگی کے احساس میں ہر مسلمان دوڑادوڑا حکم خدا کو پورا کرنے لئے جاتا ہے، عظمت الہی سے اس کا قلب وجگر سرشار ہو اور عبدیت کے اظہار کے ساتھ اور بندگی کے اعتراف کے ساتھ گھروں سے نکلے اور ایک ایسی جگہ (عیدگاہ) نماز عید ادا رکرے جہاں مسلمانوں کا جم غفیر جمع ہو، تاکہ اجتماعیت کی روح اور اتحاد واتفاق کا دلکش منظر نگاہوں کو دیکھنے کو ملے اور اسلامی اخوت ومودت کی شان نمایاں ہو، عید الفطر میں نماز کو نکلنے سے پہلے حکم دیا گیا کہ صدقۂ فطر ادا کرو، تاکہ عبادتوں میں جو کمی وکوتاہی ہوگئی اس کی تلافی بھی ہو اور ساتھ میں ضرورت مندوں کی حاجات کی تکمیل بھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ بھی ہوجائے اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکے۔
عید کا لفظ ’’عود‘‘ سے بنا ہے جس کا معنی ہے: ’’لوٹنا‘‘ عید ہر سال لوٹتی ہے اور اس کے لوٹ کرآنے کی خواہش کی جاتی ہے، ’’فطر‘‘ کا معنی ہے: ’’روزہ توڑنا‘‘ یا ’’ختم کرنا‘‘ عید الفطر کے روز روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں لہذا اس دن کو عیدالفطر قرار دیاگیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے مسلمان ان دنوں کھیل کود کرتے اور خوشیاں مناتے تھے، اس پر آپ نے ان سے پوچھا: (ماہذان الیومان) یہ دونوں دن کیسے ہیں؟ یعنی تم ان میں کیوں خوشیاں مناتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: (کنا نلعب فیہما فی الجاہلیۃ) ہم زما نۂ جاہلیت میں یعنی اسلام قبول کرنے سے قبل ان دنوں میں کھیل کود کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قد أبدلكم الله بهما خيرا منهما يوم الأضحي ويوم الفطر (ابوداود) الله تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا کیے ہیں: یوم الأضحی اور یوم الفطر۔
دنیا میں بسنے والی قوموں کے یہاں عید کا دن کسی نہ کسی تاریخی واقعہ کی یاد میں منیا جتا ہے اور وقتی طور پر کچھ منالی جاتی ہے اور باقی رنگ رلیوں اور فضول کاموں میں عید کے دن کو ضائع کیاجاتا ہے، جب کہ عید الفطر ایک مہینہ کی قربانی اورمجاہدوں کے بعد بندوں کو دی جاتی ہے جس کی قدر ومنزلت کو وہ بندے ہی جانتے ہیں جو ایک مہینہ کے روزے رکھ کر اپنے پروردگار کو منانے میں لگے رہتے ہیں، جنہوں نے اپنے کھانے پینے کے اوقات کو بدل دیا تھا، اور اپنے نظام العمل کو اللہ کے لئے تبدیل کر رکھا تھا، اسی کے نتیجہ میں وہ عید کے دن کو لغویات اور واہیات میں ضائع نہیں کرتے بلکہ اجر وثواب کے امیدوار بن کر انعام الہی کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں، یہ اسلامی عید کا عجیب امتیاز ہے کہ اس نے کسی واقعہ کی بنیاد پر ایمان والوں کو عید کا دن نہیں دیا، اگر ایسا ہوتا تو پھر ا کی عظمت اور اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے اور مسلمان بھی روایت پرستی کا شکار ہوجاتے۔
عید الفطر کی شان سب سے انوکھی ہے اور اس کا مزہ بھی عجیب ہے کیوں کہ عید الفطر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایسےموقع پر عطا فرمائی جب بندے حکم الہی کی تعمیل میں ایک مہینے کے روزے رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لئے کھانا پینا اور جائز تقاضوں کوپورا کرنا چھوڑدیتے ہیں اور بھوکے فاقے رہ کر بندگی کا فریضہ ادا کرتے ہیں، ان محنت کش بندوں اور روزوں کو اجر وثواب دینےاور ان کی محنتو ں کا صلہ دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے عید الفطر کا دن رکھا، جس کو یوم الجائزہ کہا جاتا ہے یعنی یہ دن بندوںکو انعام اور صلہ دیئے جانے کا دن ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمايا: اعطيت امتي خمس خصال في رمضان لم تطهن امة قبلهم ويغفر لهم في اخر ليلة قيل يا رسول الله اهي ليلة القدر قال لا ولكن العامل ينما يوفي اجره اذا قضي عمله(مسند احمد: ۷۷۱۷)
عيد الفطر مسلمانوں کے لئے جائزۃ اور محاسبہ کا دن ہے، بندے نے جو ایک مہینہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے یہ عید عطافرمائی اب یہاں سے ایک نئے سفر کی شروعات ہوتی ہے، اعمال کے قبول ہونے کی فکراور ان اعمال پر قائم رہنے کا امتحان شروع ہوتا ہے۔
عید الفطر کا دن جہاں مومن کو خوشی ومسرت سے سرشار کرتا ہے  وہیں یہ فکر ب بھی دامن گیر ہوجاتی ہے رمضان المبارک کی ایک ماہ کی ترتیب او ر مشق اب باقی رکھنے کا عزم وارادہ کرے، اور رمضان کے بعد بھی حکم الہی کو پورا کرنے، منشائے رب کی موافقت کرنے میں تیار رہے۔ رمضان المبارک میں انجام دیئے جانے والے اعمال قبو ل ہو ئے یا نہیں، ایک مسلمان کو اس کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں: انماالعید لم قبل الله صیامه وشکر قيامه وکل یوم لا یعصی الله فهو عید‘‘ یعنی عید تو اس کی ہے جس کے روزوں کو قبول کر لیاگیا ہو، ا س کی نمازوں کو منظور کرلیا گیا ہو، اور ہر وہ دن جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی گئی ہو، وہ عید کا دن ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا گو ہو ں کہ اللہ تعالیٰ تمام عالم اسلام کے اعمال کو قبول فرما کر نعم البدل عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×