اسلامیات

عید قرباں کا پیغام؛ امت مسلمہ کے نام

جذبہ جانثاری::
اس کائنات میں تسلیم و رضا مندی کے بےشمار واقعات رو نما ہوئے ہیں، محبت و خلوص کی لاکھوں داستانیں صفحات تاریخ پر درج ہوں گی، مگر شاید سینۂ گیتی پر تسلیم و رضا، ایثار و قربانی، خلوص و محبت اور خدا دوستی کا ایسا واقعہ منظر عام پر نہ آیا ہوگا جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی جذبۂ جانثاری و اطاعت شعاری کا حسین مظہر ہے۔
حضرات ابراہیم علیہ السلام کے زندہ جاوید واقعات::

خدائے وحدہ لا شریک لہ اپنے دستور ليبلوكم أيكم أحسن عملا کے تحت اپنے بندوں اور پرستاروں کو آزماتا رہا ہے اور انکا امتحان لیتا رہا ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وہ صبرآزما واقعات ہی تھے، وہ سخت ترین آزمائشیں ہی تھیں جنہوں نے آپ علیہ السلام کو خدا کی دوستی اور مقام خلیلیت سے سرفراز فرمایا ۔ بت پرستی کے ماحول میں آنکھ کھول کر توحید کا اعلان کرنا ہو، یا بتوں کے معبد میں جاکر بت شکنی کی جسارت کرنی ہو، اور بادشاہ وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے آتش نمرود میں بلا خوف وخطر کود پڑنا ہو، یا پھر رضائے الہی کے خاطر اپنی بیوی اور نومولود بچے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنا ہو یا پھر ان سب سے بڑھ کر اپنے فرمانبردار اطاعت شعار بیٹے کی گردن پر چھری کو رکھنا ہو۔ ہر ایک واقعہ بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ لازوال اور زندہ جاوید بھی ہے ۔
قربانی کا واقعہ آیات قرآنی کی روشنی میں:
دل اگر نور ایمانی سے معمور ہو اور جذبۂ روحانی سے روشن ہو جسکا ظاہر معرفت خداوندی سے مزین اور جسکا باطن محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا سے منور ہو تو خدا کی محبت میں ہر چیز کا لٹانا آسان ہوجاتا ہے
بات کہنے میں بڑی آسان لگتی ہے کہ رضائے الٰہی کےلیے ایک باپ نے اپنے اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلادی۔ تصورات کی دنیا میں یہ امر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے باپ جب چھیاسی سال کا بوڑھا ہو ابھی تک اولاد سے محروم ہو رب ھب لي من الصالحين جسکی دعا بارگاہ ایزدی میں ہمیشہ جاری ہو اچانک اللہ پاک اسے فبشرناہ بغلام حلیم کے ذریعے ایک بردبار فرزند کی خوشخبری سناتے ہیں، پر اس خوشخبری کے ساتھ یہ بات معلوم نہیں تھی کہ یہی ایک کھٹن امتحان کا سبب بھی بنیں گے جب ارمانوں اور تمناؤں سے مانگا ہوا بیٹا ہونہار، خدمت گزار، فرمانبردار بن کر ابھرا تو خواب میں اسکو ذبح کرنے کا حکم ملا فلما بلغ معه السعي قال يٰبني إني اري في المنام ذبح کا حکم اس وقت دیا جارہا ہے جب کہ یہ چھیانوے سالہ بوڑھے باپ کے سہارے کے قابل تھا اب وقت آچکا تھا کہ پرورش کی مشقتوں کا بدلہ خدمت و احسان سے عطا کرے پر قدرت پر خدائی حکم کے آگے سرنگوں ہوکر کہا أني اذبحك مولی نے بندہ کو آزمایا بندہ نے بیٹے کو آزمایا اور حکمت عملی کو اپناتے ہوئے پوچھا فانظر ماذا ترى؛ باپ رائے طلب بھی نہیں کرپاتا بیٹا ذبح پر آمادگی ظاہر کردیتا ہے یہ خاندان نبوت کی اطاعت کی علامت تھی خلیل اللہ کی فرزندی اور ہاجرہ جیسی خدا ترس خاتون کی دعا تھی اور اس بڑھ کر خدا نے انکی پشت میں سید الانبیاء و المرسلين کا نور مبارک جلوہ افروز تھا یہ اسی کے برکات تھے کہ بلا تذبذب و بلا تردد برجستہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
یٰابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرين

یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی

کائنات کے وجود کے بعد شاید چشم فلک یہ منظر پہلی بار دیکھ رہا ہوگا کہ ایک حقیقی باپ اپنے اکلوتے فرزند کے حلقوم پر چھری چلا رہا ہے عالم کون و مکان پر سکوت طاری ہے، آسمان ششدر ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ محو حیرت ہے حفیظ جالندھری کے بقول

زمین سہمی پڑی تھی آسمان ساکت تھا بے چارہ
نہ اس بیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ
پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی
چھری حلقومِ اسمٰعیل پر چلنے ہی والی تھی
مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسمٰعیل کا ایک رونگٹا کٹنے نہ پایا

باپ نے فانظر ماذا تری کی مانگ کی تو بیٹا یاابت افعل ما تؤمر کے ذریعے فرمانبرداری کی مثال قائم کردی اور عجز و انکساری کے پیکر میں ڈھل کر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرين کے زمرہ میں شامل ہونے لگے یہ جذبہ جاں نثاری کو خدا نے دیکھا تو قد صدقت الرؤیا کی بشارت سنادی اور ان ھذا لھو البلاء المبین کے ذریعے بتلایا کہ یہ آزمائش کس قدر سخت تھی اور انعام عطا کرتے ہوئے جنت سے دنبہ بھیج کر فرمایا وفدیناہ بذبح عظیم اور رہتی دنیا تک کے لئے اس عمل خالص دوام عطا کرتے ہوئے فرمایا و ترکنا علیه فی الاخرین، اس عمل کو قبولیت عطا کرتے ہوئے قرآن نے کہا سلام علی ابراھیم..
قربانی کی فضیلت
یوں تو قربانی حضرت آدم علیہ السلام السلام کے دور سے ہی شروع ہوچکی تھی "اذ قربا قربانا فتقبل من احدھما و لم یتقبل من الآخر” کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور ایک کی نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے ہی ہوچکی تھی اور جب ہی سے اسلامی شعار بن کر اس امت تک ہر مذہب و ملت میں اس پر عمل رہا ہے
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے :
ولکل أمة جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ على ما رزقھم من بھیمة الأنعام
(ترجمہ:اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ کا نام لیں چوپاؤں کے مخصوص جانوروں پر جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے) اور ایک جگہ ذکر ہے فصل لربک و انحر
( ترجمہ:ایک تفسیر کے مطابق عید کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجیے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ججۃ الوداع کے موقع پر ترسٹھ جانور اللہ کی راہ میں قربان کئے تھے اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بالمدينة عشر سنین یضحی کل سنة ( السنن الترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر سال پابندی سے قربانی کرنا اسکی اہمیت و فضلیت اور عند اللہ اسکے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے
عَنْ عَائِشَةَ أنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلَّى اللَّه علَيْهِ وسلَّم – قالَ: ((ما عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أحَبَّ إلى اللهِ مِنْ إهْراقِ الدَّمِ، إنَّها لَتأْتِي يَوْمَ القِيامةِ بِقُرُونِها وأشْعارِها وأظْلافِها، وإنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِن اللَّهِ بِمَكانٍ قَبْلَ أنْ يَقَعَ مِنَ الأرْضِ فطِيبُوا بِها نَفْسًا)).
عید الاضحٰی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے زیادہ محبوب ترین عمل جانور کے خون کا بہانا ہے بلاشبہ قیامت کے دن (جانور) اپنی سنگھ اور بالوں کھروں کے ساتھ آئے گا…….
حتی کہ قربانی نہ کرنے والے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی ہےعن أبي هُرَيْرة قال: قال رَسولُ اللهِ – صلَّى اللَّهُ عليْه وسلَّم -: ((مَنْ وَجَدَ سَعَةً فلَم يُضَحِّ، فلا يَقْرَبنَّ مُصَلاَّنا) یعنی جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ نہ آئے یہ آیات قرآنی اور آحادیث نبوی علیہ السلام ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں؛ مگر جب ہم اپنے معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سارے صاحب استطاعت مسلمان اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے محروم ہیں اور جو اسکو ادا کررہے ہیں انکے اندر خلوص و تقوی جو اصل ہے وہ مفقود ہے
آخر قربانی کا مقصد کیا ہے؟؟
آخر کبھی ہم نے غور کیا کہ قربانی کا کیا مقصد ہے؟ کیا صرف راہِ خداوندی میں خون کا بہا دینا مقصود ہے؟یا پھر دوست احباب کے لئے دسترخوان کو زینت بخش دینا مقصود ہے؟ یا پھر تزک و احتشام کے ساتھ جانور کو لاکر اس کی گردن پر چھری چلادینا مقصود ہے؟؟
نہیں ہرگز نہیں بلکہ قربانی کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں اور اسکی تشریع کا تقاضا ہی کچھ اور ہے بلکہ اصل مقصد تو دلوں کی اصلاح، جذبوں کا صحیح رخ پر آجانا اور سوچ کا درست معیار پر قائم ہوجانا ہے اور من مانی زندگی کو چھوڑ کر رب چاہی زندگی پر چلنا مقصود ہے کیونکہ بارگاہِ ایزدی میں ہماری قربانیوں کا نہ گوشت پہونچتا ہے نہ خون بلکہ اصل تو تقوی ہے لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم
عید قرباں کا پیغام اور خلاصہ کلام:
اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں بدنیہ ہوں یا مالیہ ہر ایک پر جہاں اخروی اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں وہیں دنیوی فوائد بھی ملحوظ ہیں اور یہ ایک مسلمہ ضابطہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم کی ترقی قربانی میں منحصر ہے اگر قربانی اور جذبہ جانثاری کو ختم کردیا جائے تو ہر قوم رو بہ زوال ہوجائے؛ پھر ہم تو مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں جو دنیائے انسانیت کے لئے آخری پیغام ھدایت ہے اسکا باقی رہنا کائنات کی اصلاح کے لیۓ لازم و ضروری ہے اور یہ امر قربانی کے بغیر محال ہے
اسی اصل روایت کی بقا کے لئے جانور کی قربانی کی ظاہری روایت کو جاری رکھا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ سے جذبہ قربانی اور جذبہ جانثاری فنا نہ ہو جب تک یہ امت اس کے وصف پر باقی رہے گی تب تک اسکا وجودِ کامل باقی اور تشخص اسلامی قائم رہے گا اور جس دن یہ امت قربانی کے جذبات و احساسات سے عاری ہوجائے گی تو پھر الامان و الحفیظ.
اسلیے عید قربان کے پیغام کو سمجھنا ضروری ہے. جانور کی قربانی میں یہ پوشیدہ پیغام ہے کہ خدا کی رضا کے لئے ناموس رسالت کے لیے اسلام کی ترقی و سربلندی کے لیے ملت بیضا کے عروج کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنا پڑے تو دریغ نہ کرنا اپنی آرزوؤں کو چھوڑنا پڑے تو تامل نہ کرنا اپنی حسرتوں سے ہاتھ دھونا پڑے تو تذبذب کا شکار نہ ہونا مال و منال جان و اولاد سب راہ خدا میں نچھاور کردینا یہی عید قربانی کا ایک پیغام ہے اور یہی قربانی کا تقاضا ہے اور یہی موجودہ دور کی ملت کا بھولا ہوا سبق ہے۔

918121832026
832026y@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×