حج، عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی
حج کے لغوی معنی قصد اور ارادے کے ہیں،اصطلاح شریعت میں مخصوص اوقات میںمخصوص مقامات پر خاص طریقوں سے مخصوص عبادت کی ادائیگی کو حج کہتے ہیں۔
حج مبرور کی فضیلت
حج اسلام کا اہم اور بنیادی رکن ہے،اس کی فضیلت اور احکام کے سلسلہ میں متعدد قرآنی آیات اور بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں ، حج ایک ایسی عبادت ہے جس کو اللہ کے رسول ﷺنے ایمان وجہاد کے بعد افضل ترین عمل قرار دیا ہے۔بخاری کی حدیث ہے : عن أبي ھریرۃؓ قال: سئل رسول اللہ ﷺ أي الأعمال أفضل ؟ قال : ایمان باللہ ورسولہ، قیل: ثم ماذا ؟ قال : جھاد في سبیل اللہ، قیل : ثم ماذا ؟ قال : حج مبرور۔حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ،سوال ہوا: پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایااللہ کے راستے میں جہاد کرنا، دریافت کیا گیا: پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا:حج مبرور ( مقبول حج ) اسی حج مبرور کی عظمت اور فضیلت کو واضح کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ (متفق علیہ) کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حج کے اہم فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ آیت تکمیل دین اسی موقع پر نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا اتمام کیا اور دین اسلام کو ہمیشہ ہمیش کے لئے پسند فرمالیا۔
حج بیت اللہ درحقیقت تربیت گاہ ہے، جہاں طرز زندگی کو تبدیل کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ حج کی حقیقت اور اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
حج درحقیقت دو منظروں کا نمونہ ہے،اور اس کی ہر ہر چیز میں دو حقیقتیں پنہاں ہیں، اگر چہ اللہ تبارک وتعالی کے ہر حکم میں لاکھوں مصلحتیں ایسی ہیں کہ جن تک ہر شخص کے خیال کی بھی رسائی نہیں ہوتی، لیکن بعض مصالح ایسی کھلی ہوئی اور ظاہر ہوتی ہیں جو ہر شخص کے ذہن میں آجاتی ہیں۔
اسی طرح حج کے ہر ہر رکن میں بہت سی مصالح تو ایسی ہیں، جن تک ذہن کی رسائی بھی نہیںہے، لیکن یہ دو چیزیں اس کے ہر ہر رکن میں ہر ہر جزومیں بالکل عیاں ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ نمونہ ہے موت کا اور مرنے کے بعد کے حالات کا۔ (۲)دوسرا (یہ کہ)نمونہ ہے عشق اور محبت کے اظہار کا اور روح کو حقیقی عشق اور حقیقی محبت سے رنگنے کا۔ (حقیقت حج، ص:۷)
اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حج کا ذکر کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہوا: واتموا الحج والعمرۃ للہ (البقرۃ،۱۹۶) اور حج و عمرہ اللہ کے لئے پورا پورا ادا کرو، اگلی آیت میں فرمایا : فمن فرض فیہن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج (البقرۃ،۱۹۷)پس جو شخص ان مہینوں میں اپنے اوپر حج لازم کرلے تو دوران حج نہ کوئی فحش بات کرے ، نہ کوئی گناہ ، نہ کوئی جھگڑا۔حضرت ابو ھریرۃؓ سے مروی ایک حدیث میں حج کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہیــ: عن أبي ھریرۃ ؓقال: قال رسول اللہ ﷺ: من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ (متفق علیہ) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے ، اس طرح کہ اس حج میں نہ فحش گوئی ہو نہ فسق ، وہ شخص حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا ولادت کے وقت تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے احکام کی پاسداری کرتے ہوئے حج کا فریضہ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اور وہ ایسا پاک وصاف ہو کر لوٹتا ہے جیسا نو مولود بچہ۔
حج کی تاکید اور فرضیت
حج کا شمار ان اہم ترین عبادتوں میں ہوتا ہے جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے،اور یہ وہ عظیم المرتبت عبادت ہے جس کو رسول اللہ ﷺنے وجہ قرار کائنات قرار دیا اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا :لا تقوم الساعۃ حتی لا یحج البیت (صحیح ابن حبان)قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ بیت اللہ کا حج نہ کیا جائے۔ یعنی جب تک بیت اللہ کا حج جاری رہے گا انشاء اللہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔
۹؍ہجری کے آخری دنوں میں اللہ تبارک وتعالی نے آیت قرآنی میں حج کی فرضیت نازل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا(آل عمران ،۹۷) اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اس شخص پر حج بیت اللہ فرض ہے جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو، لہٰذا جس شخص کے پاس کھانے پینے اور سواری کا انتظام ہو اس کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں حج کا فریضہ ادا کرے ، اور اگر کوئی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ہے تواس کے سلسلہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺنے ارشاد فرمایا: من ملک زادا وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ أن یموت یھودیا أو نصرانیا (الترمذي) جو شخص زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جو اس کو بیت اللہ تک پہونچا دے اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرجائے۔
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل اور عمل صالح کی ترغیب
اللہ تبارک وتعالی نے حج جیسی عظیم عبادت کے لئے جس مہینہ کا انتخاب فرمایا ، وہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اور نہایت مقدس ومبارک اور عظمتوں والا مہینہ ہے،اس کے شب و روز بڑے ہی بابرکت اور فضیلت والے ہیں،خاص طور پر اس کا پہلا عشرہ جس کے بیشمار فضائل احادیث میں وارد ہوئے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس عشرے کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ویذکروا اسم اللہ في أیام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الأنعام (الحج ، ۲۸) اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطاء کئے ہیں۔ اورایک جگہ اس بابرکت عشرے کی راتوں کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : والفجر، ولیال عشر(الفجر،۱، ۲) قسم ہے فجر کے وقت کی ، اور دس راتوں کی۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺارشاد فرماتے ہیں:ما من أیام العمل الصالح فیھا أحب الی اللہ من ھذہ الأیام یعني أیام العشر قالوا: یا رسول اللہ ولا الجھاد في سبیل اللہ قال: ولا الجھاد في سبیل اللہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذلک شيء (سنن أبي داود) کہ ان دنوں یعنی عشرۂ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالی کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺاللہ کی راہ میں جہاد بھی (اس کے برابر) نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکلا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس مبارک عشرہ میں کیا جانے والا ایک چھوٹا سا عمل بھی مقبولیت اور اجر وثواب کے اس درجہ کو پہونچ جاتا ہے کہ عام دنوں میں کی جانے والی بڑی بڑی عبادتیں بھی وہاں تک نہیں پہونچ پاتی ہیں۔
لہٰذا اس بابرکت عشرے کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرنا چاہئے جو عبادت وریاضت سے خالی ہو، اسی کی طرف رغبت دلاتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابو ھریرہؓ سے مروی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ما من أیام أحب الی اللہ أن یتعبد لہ فیہا من عشر ذی الحجۃ یعدل صیام کل یوم منہا بصیام سنۃ وقیام کل لیلۃ منہا بقیام لیلۃ القدر (الترمذي وابن ماجہ) اللہ تبارک وتعالی کو عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ کوئی دن محبوب نہیں ہے کہ اس میں اس کی عبادت کی جائے،عشرۂ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ اس حدیث میں جن دو عبادات کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوا ان میں پہلی عبادت روزہ ہے جس کا سب سے بڑا مقصد طرز زندگی کی تبدیلی اور تقوے کا حصول ہے،انہیں فضائل کی بنیاد پر علماء کی ایک بڑی تعداد نے عشرۂ ذی الحجہ کے ایام کو رمضان کے دنوں سے افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔
عرفہ کے دن بندوں پر اللہ کا عظیم انعام۔
مندرجہ بالا قرآن وحدیث کے اقتباسات سے جہاں عشرۂ ذي الحجہ کے فضائل بیان ہوئے وہیں اعمال صالحہ کی ترغیب دی گئی، احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عشرے کی فضیلتیں اور برکتیںاس قدر بڑھی ہوئی ہیں کہ اس کے مختلف ایام کی الگ الگ خصوصیات اور امتیازات ہیں چنانچہ یوم عرفہ ۹؍ذي الحجہ کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: من صام یوم عرفۃ غفر لہ سنۃ أمامہ وسنۃ خلفہ(الترغیب والترھیب وابن ماجہ) جس شخص نے یوم عرفہ کا روزہ رکھا اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺنے ارشاد فرمایا:ما من یوم أکثر أن یعتق اللہ فیہ عبدا من النار من یوم عرفۃ (رواہ مسلم)کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو۔ یعنی یہ دن اس اعتبار سے بھی بڑی عظمت اور نرالی شان کا حامل ہے کہ اس میںاللہ تعالی مسلمانوں پر اپنی خاص رحمت فرماتا ہے، اور ان کو عذاب نار سے آزادی کا پروانہ عطاء کرتا ہے۔
قربانی کی ابتداء
القربان عربی زبان کا لفظ ہے اردو میں اس کے معنی کسی عمل صالح کے ذریعہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے،اور قرآن مجید میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہے،قربانی کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امت محمدیہ تک تمام امتوں میں کسی نہ کسی صورت میں اس کا تصور موجود ہے،سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے قربانی کی اور اللہ تبارک وتعالی نے ہابیل کی قربانی قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا: فتقبل من أحدھما ولم یتقبل من الآخر قال لاقتلنک قال انما یتقبل اللہ من المتقین (المائدۃ، ۲۷) ان میں سے ایک (ہابیل)کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے (قابیل) کی نہیں ،تو قابیل نے کہا کہ میں تم کو قتل کردوں گا ،ہابیل نے کہا کہ اللہ تعالی ان لوگوں سے قربانی قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔ اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا مطالبہ گوشت اور خون کا نہیں ہے بلکہ تقوی کا ہے ، ارشاد باری تعالی: لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائہا ولکن ینالہ التقوی منکم (الحج ، ۳۷)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ
قربانی شعار اسلام ہے،اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت ہے جو اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس کو قیامت تک کے لئے جاری فرمادیا،قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بڑے عجیب وغریب انداز میں بیان فرمایا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب اسماعیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :’’یا بني اني ارٰی في المنام أني اذبحک فانظر ماذا ترٰی‘‘ میرے لخت جگر میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے، وہ بیٹا بھی کوئی عام بیٹا نہ تھا، نبی ابن نبی تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ صرف ایک خواب ہی نہیں بلکہ ایک امتحان ہے، چنانچہ انھوں نے بڑی الوالعزمی کے ساتھ جواب دیا:’’ یٓاَبت افعل ما تؤمر ستجدني انشاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲) ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے کر گزریے انشاء اللہ مجھ کو صبر کرنے والا پائیں گے، تقوی سے لبریز یہ الفاظ تھے جنہوں اس عبادت کی اصل حقیقت اور مقصود کو واضح کردیا ، حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے اللہ کو اپنی مطلوبہ چیز یعنی خلوص نیت حاصل ہوچکی تھی،لہٰذا اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا اور بوقت قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ بھیج دیا ،اللہ پاک کو ان کی یہ قربانی اتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اسے جاری فرمادیا۔
قربانی کی مشروعیت
قربانی اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر اس فرد پر واجب قرار دی ہے جو مالک نصاب ہو، اور اس کی بڑی فضیلتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں ، اور قربانی نہ کرنے والے کے متعلق سخت وعیدیں ہیں ، اس عظیم عبادت کا حکم اللہ تعالی نے قرآن میں دیا اور فرمایا : فصل لربک وانحر(الکوثر، ۲)نماز پڑھئے اور اپنے رب کے لئے قربانی کیجئے۔ اس آیت میں مطلق صیغۂ امر استعمال کیا گیا، جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قربانی واجب ہے ۔ اسی طرح ایک حدیث میں حضرت مخنف بن سلیمؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے وقوف عرفہ کے موقع پر ارشاد فرمایا : اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی لازم ہے۔ اور مالک نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کے متعلق فرمایا کہ وہ ہماری عید گاہوں میں نہ آئے اور بعض روایات میں ہے کہ ہماری عید گاہوں کے قریب بھی نہ آئے۔
قربانی کے فضائل
قربانی کے فضائل میںمتعدد احادیث موجود ہیں لیکن ایام قربانی کا اعتبار کرتے ہوئے صرف ۳ احادیث پیش کرتا ہوں، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما أنفقت الورق في شيء أحب الی اللہ من نحر ینحر في یوم عید (الترغیب والترھیب) یعنی جس چاندی سے عید کی قربانی کے لئے جانور خریدا گیا ہو وہ اللہ تعالی کے نزدیک ہر خرچہ سے زیادہ محبوب ہے، اسی طرح حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے : ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر أحب الی اللہ عز وجل من ھراقۃ دم (الترمذي وابن ماجہ) ابن آدم نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ تعالی کو خون بہانے سے زیادہ محبوب ہو، ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: یا فاطمۃ قومي فاشہدي أضحیتک فان لک بأول قطرۃ تقطر من دمہا مغفرۃ لکل ذنب (الترغیب والترھیب)کہ اے فاطمہ ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس موجود رہو اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
ایام قربانی
قربانی کے ایام ۳ دن ہیں حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے: الأضحی یومان بعد یوم الاضحی (السنن الکبری للبیہقي) اور اس طرح کے متعدد آثار صحابہ کرامؓ سے منقول ہیں ،قربانی کے تینوں دن انتہائی با عظمت اور بابرکت ہیں ، حدیث میں آتا ہے: ان اعظم الأیام عند اللہ تبارک وتعالی یوم النحر ثم یوم القر وھو الذي یلیہ (السنن الکبری للبیہقي) اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ با عظمت دن یوم النحر (قربانی کا پہلا دن) ہے پھر اس کے بعد والا، اس حدیث سے ایام قربانی کی فضیلت و انفرادیت صاف طور پر واضح ہوگئی اور عظمت کھل کر سامنے آگئی۔