قارئین عصر حاضر کو عید الاضحی کی پر خلوص مبارک باد،عاجز راقم الحروف یہ چند سطریں مقدس سرزمین مکہ مکرمہ سے تحریر کر رہا ہے،اس سال اللہ تعالی نے عاجز کو حج کی سعادت کے لئے قبول فرمایا تھا،۲۷؍جولائی کو حیدرآ باد حج ہاوز سے روانگی ہوئی،۲۸؍ جولائی کی فجر کو ہم لوگ عزیز یہ اپنی قیام گاہ ۲۴۰ پہو نچے،اللہ کا بے انتہاء کرم ہوا کہ عافیت کے ساتھ سفر طے ہوا،لبیک کی گونج سے پوری فضا روحانی منظر پیش کر رہی تھی،ہر ایک کی زبان پر لبیک کے الفاظ تھے۔
۲۰۱۹ء کا حج بعافیت اختتام کو پہو نچا،کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں پیش آیا،حکومت کے مطابق۲۰؍ لاکھ سے زائد افراد سعادت حج سے بہرہ ور ہوے لیکن عوامی اندازہ ۲۵ تا۳۰؍ لاکھ بتایاگیا ہے، اتنی بڑی تعداد کے لئے جس قسم کے وسیع انتظامات کئے گئے تھے یہ سعودی حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جس کی دشمن بھی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صفائی عملہ حرمین شریفین کی خدمت جہاں ایک اعزاز ہے وہیں انتھائی نازک ذمہ دار ی ہے،سعودی حکم راں اس ذمہ دار ی کو اسقدر اہمیت دیتے ہیں کہ وہ خادم الحرمین کہلانا پسند کرتے ہیں،چنانچہ مملکت کا ملک خادم الحرمین کہلاتا ہے،اللہ کی ذات پاک ہے،اس پاک ذات کا دین بھی پاک ہے،قرآن و حدیث میں پاکی پر بہت زور دیا گیا ہے، بیت اللہ اور حرم شریف سے متعلق اللہ نے کعبہ کے معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تاکید فرمائی کہ وہ بیت اللہ کو پاک رکھیں،ارشاد ربانی ہے وطھر بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود اس آیت شریفہ کی روشنی میں مسلم حکم رانوں کی اولین ذمہ داری بیت اللہ میں صفائی کا اہتمام ہے۔
حج یاعمرہ کے لیے حرم حاضر ہونے والا ہرمسلمان حرم میں جو چیز نمایاں طور پر محسوس کرتا ہے وہ صفائی کا حیرت انگیز نظام ہے،مطاف کا حصہ ہوں کہ صحن حرم کے طہارت خانے ، نماز کے ہال،ہر جگہ صفائی کا حد درجہ اہتمام ملتا ہے،مطاف میں ہزاروں لوگ محوِ طواف ہوتے ہیں بے پناہ بھیڑ کے باوجود صفائی کا عملہ لمحوں میں اپنا فریضہ اس انداز سے انجام دے جاتا ہے کہ کسی کو ذراسی بھی تکلیف نہیں ہوتی،صفائی کے نوجوان انتہائی متحرک اور فعال ہیں،ساتھ ہی نہایت شفیق اور مہربان بھی،حرم شریف میں ہزاروں کی تعداد میں بیت الخلاء ہیں جن میں ہزاروں لوگ فارغ ہوتے ہیں لیکن ہرجگہ اعلی درجہ کی صفائی نظر آتی ہے،کہیں گندگی کا دور دور تک احساس نہیں ہوتا،ایک حاجی کو قیام حرم کے دور ان جہاں اور چیزیں سیکھنی چاہئے وہیں نظافت اور صفائی کاسبق لینا ضروری ہے،صفائی ستھرائی کے سلسلہ میں مسلم سماج انتہائی کوتاہ واقع ہوا ہے، گندگی اور صفائی سے غفلت مسلم معاشرہ کی پہچان بن گئی ہے،جبکہ اسلام قدم قدم پر صفائی کی تلقین کرتاہے۔
دور ان حج ایک حاجی کو سب سے زیادہ صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے،ہر جگہ بھیڑ اور اژدحام ہوتاہے،مطاف ہوکہ منی،عرفات ہوکہ مزدلفہ ہرجگہ بھیڑ کا منظر ہوتا ہے،بیت الخلاوں پر لمبی قطاریں ہوتی ہیں،اورجہاں بھیڑ ہوتی ہے،وہاں لازما زحمت ہوتی ہے،حجاج کو قدم قدم پر صبر کا دامن تھامے رہنا پڑتا ہے،حج کے دور ان اگر حاجی کچھ نہ سیکھیں صرف صبر کا سبق حاصل کرلیں تو ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا،اس مرتبہ تلنگانہ کے حجاج کو کچھ زیادہ ہی صبر ومجاہدہ کا سابقہ رہا،منی میں کھانے کا نظام صبر آزما تھا اکثر حجاج کھانا نہ کھا سکے،موجودہ دور عصری ترقیات کا دور کہلاتا ہے،حجاج کے لیے بے پناہ سہولیات فراہم ہیں سفر بہت آسان ہو چکا ہے،اس سب کے باوجود اب بھی حجاج کے لیے صبر کے بغیر چارہ کار نہیں،اور یہ حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے،اس لیے کہ انسانی سماج کو بدل کر رکھنے میں صبر کا کلیدی کردار ہوتاہے،ایک صبر آدمی کو ساری خوبیوں کا حامل بنادیتاہے،صبر کے بغیر آدمی حسن اخلاق کا پیکر نہیں بن سکتا،مگر حجاج کا عجیب حال ہے،وہ قدم قدم پر بے صبر ی کامظاہرہ کرتے ہیں،منی میں بے صبری،عرفات میں بے صبری،طواف میں بے صبری،جمرات میں بے صبری،حق تعالی نے سچ کیا کہ انسان عجلت پسند اور بے صبرا واقع ہواہے۔
ہم لوگ ۲۸؍جولائی کو جب مکہ مکرمہ کے عزیز یہ میں اپنی بلڈنگ پہونچے تو بلڈنگ کے حاجیوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ آیا نماز چار رکعت پڑھیں یا دو،یہ در اصل اس مسئلہ میں خود علماء کے اختلاف کے سبب سے تھا،منی مکہ مکرمہ ہی کا ایک حصہ ہے اس کی مستقل الگ حیثیت ہے،اس تعلق سے علماء کی آراء مختلف ہیں،دارالعلوم دیوبند نے اپنے فتوے میں اسے منی سے الگ مان کر حج سے قبل پندرہ یوم سے کم مکہ میں ٹھرنے والوں کے لیے قصر کرنے کا فتوی دیا ہے،جبکہ مدرسہ شاہی کے مفتیان کرام اور دیگر علماء نے منی کو مکہ مکرمہ میں شامل مان کر چار رکعت کا فتوی دیا ہے،تربیتی کیمپوں کے موقع پر بعض علمائنے قصر کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے چار اداکرنے کا،علمی بنیاد وں پر اختلاف بری چیز نہیں لیکن ایسے اختلافات جب عوام الناس کا موضوع بحث بن جائیں تو وہ انتشار بلکہ خلفشارتک پہو نچا دیتے ہیں،بات بات پرالجھ بیٹھنا اور صحیح علم کے بغیر دینی موضوعات کو تختہ مشق بنانا عمومی مزاج بنتا جارہاہے،حج کے منجملہ مقاصد میں ایک مسلمانوں میں باہمی الفت ومحبت کو فروغ دینا ہے،یہ در اصل عالمگیر اسلامی وحدت کی تشکیل کا ذریعہ ہے،حج میں دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان ایک جگہ اکھٹا ہوتے ہیں،یہاں سے ہر حاجی کو اسلامی اخوت وبھائی چارہ کادرس لیکر جانا چاہئے،انتشار اس امت کا سب سے بڑا ناسور ہے۔
۹ ؍ذی الحجہ یوم عرفہ کو میدان عرفات کا عجیب منظر تھالاکھوں حجاج دعاء واستغفار اور آہ وزاری میں مصروف تھے سخت دھوپ تھی یکایک بادل کی گھٹا چھا گئی گرج اور چمک کے ساتھ زور دار بارش شروع ہوگئی لوگ تیز بارش میں دعاء میں مصروف رہے قریب ایک گھنٹہ بارش کا سلسلہ جاری رہا،ادھر جم کرخدا کی رحمت برستی رہی اورادھر لوگ جم کر دعاوں میں مصروف رہے،غیرمتوقع بارش سے لوگ فال نیک لینے لگے اورآپس میں کہنے لگے کہ اللہ نے ہمارا حج قبول کر لیا،کسی عبادت کے تعلق سے قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قبول ہو گئے، البتہ اللہ سے قبولیت کی امید رکھنی چاہئے۔
طواف اور دیگر ارکان کی ادائیگی کے دور ان یہ بات دیکھنے میں آئی کہ بیشتر ممالک کے قافلے ارکان کی ادائیگی کے دور ان منظم اور پابند ڈسیپلین نظر آے،سارا قافلہ ایک امیر کے تابع تھا امیر ہاتھ میں اپنے ملک کا پرچم تھامے ہوے تھا،اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی فرد بھٹکتا نہیں جبکہ تنہا ارکان ادا کرنے والے اکثر حجاج راستہ بھٹک کر حیران وسرگرداں پھر تے ہیں،انڈونیشیا،ملیشیا،ترکی شام عراق اور وسط ایشیاء مسلم ممالک کے قافلے ارکان کی ادائیگی کے دور ان ایک ساتھ سالار قافلہ کی امارت میں ارکان کی ادائیگی میں مصروف تھے،اس کے برخلاف انڈیا کے حاجیوں کا حال ایسا تھا کہ نہ ان کا کوئی امیر،نہ قافلہ ،نہ پرچم،ہم ہندوستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ اتحاد اور اجتماعیت ہمیں کبھی راس نہ آئی،انتشار ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے،ہم انتشار کا خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر خواب غفلت سے بیدار ہونے کو آمادہ نہیں۔
ہماری بلڈنگ میں قریب تین سو حاجیوں کا قیام تھا سب کا تعلق تلنگانہ کے مختلف اضلاع سے تھا،حج کے لیے ایک ہفتہ باقی تھا اس دور ان یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ مسائل کے لیے لوگ بار بار رجوع ہوتے تھے حج شروع ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہا،صحیح علم اور جانکاری جس طرح حج کے لیے ضروری ہے اسی طرح دیگر عبادات اور معاملات کے لیے بھی ضروری ہے حج کے دور ان مسلمان جس قدر علماء سے رجوع ہوتے ہیں اگر مقام پر بھی یہی حال ہو جاے تو مسلم معاشرہ کا سارا بگاڑ دور ہو جائے گا،علماء کی ضرورت کا جو احساس دور انِ حج ہوتا ہے اگر مقام پر بھی ہونے لگے تو بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
حرمین میں ہرفرض نماز کے بعد مائک پر ایک اعلان ہوتاہے،الصلوہ علی الاموات یرحمکم اللہ،اس اعلان کے بعد امام حرم نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں،ہر نماز کے بعد نماز جنازہ کی ادائیگی ایک حاجی کو موت کی یاد دلاتی ہے،جو انسان کی اصلاح کے لیے ضروری ہے۔
حج کے اسرار وحکم پر علماء نے مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں،حج کی ایک حکمت مسلمانانِ عالم کو حرم شریف اور اس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جوڑے رکھنا ہے،یہ ملت دراصل ملت ابراہیم ہے،پا نچوں نماز وں میں قبلہ رو ہوکر ایک مسلمان بیت اللہ سے مربوط ہوتاہے،اسی طرح زندگی میں ایک مرتبہ کعبہ کا حج کرکے اللہ اور بیت اللہ سے تعلق کی تجدید کرتا ہے،یہاں ایک ماہ کا عرصہ گزار کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی قربانیوں کو یاد کرتاہے، اس سے اس کے ایمان کو تازگی اور حوصلوں کو جلا ملتا ہے،وہ یہاں سے دین کے لیے قربانی کا بے پناہ جذبہ لیکر لوٹتا ہے۔
انسان جو کارخیر اور عبادات انجام دیتاہے یہ دراصل خداکی توفیق اور اس کے آسان کرنے سے ممکن ہوتا ہے،مقام پر رہ کر اس حقیقت کا احساس بہت کم ہوتاہے،آدمی سمجھتاہے کہ میں کررہاہوں یا میں فلاں عبادت کرسکتاہوں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کراتا ہے،اس کا سب سے زیادہ احساس حج کے دور ان ہوتاہے جس قدر مجاہدہ حج میں ہوتاہے،اسے دیکھ کر صاف محسوس ہو تاہے کہ یہ حاجی کے بس کی بات نہیں،یہ صرف خدا کی مدد سے ممکن ہوا ہے۔
حج کے لیے بے پناہ حکومتی انتظامات کے باوجود منی کا قیام اور دیگر مقامات مقدسہ تک رسائی بڑے مجاہدہ کی چیز ہے،منی کے خیموں میں سونے کی جگہ اتنی مختصر ہوتی ہے کہ آدمی کروٹ نہیں لے سکتا،پھر ایک ایک خیمہ میں سو سے متجاوز حاجیوں کا قیام ہوتا ہے،جس سے بیماریاں پھیلنے کا امکان ہوتاہے،اکثرحاجی قیام منی کے دور ان بیمار ہوتے ہیں،اسی طرح منی میں کھانے کا نظام بھی فوری توجہ کا طالب ہے،اس مرتبہ حجاج کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،معلمین کی کو تاہیوں کے سبب حجاج کو بڑی پریشانیاں پیش آئیں،اکثرحجاج منی سے عرفات پیدل چل کر پہونچے،ضعیف لوگوں کا حال ناقابل بیان تھا،حکومت کو چاہئے کہ وہ منی کے قیام اور سواریوں کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دے،سعودی حکومت حجاج کی خدمت کے لئے حتی الوسع کوشاں رہتی ہے، اتنی بڑی تعداد کو کنٹرول کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں،لیکن حج کیلئے سعودی حکومت کی خدمات کے اعتراف کے یہ معنی نہیں کہ اس کے ہر اقدام کو درست قرار دیا جاے،سعودی عرب کو سارے عالم کے مسلمان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ہونا تو یہ تھا کہ اسلامی کاز اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ پوری دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرتا،لیکن اس کے بعض حالیہ اقدام نے ملتِ اسلامیہ کو سخت مایوس کردیا۔