کیا مغربی کنارے میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کامیاب ہوسکتی ہے؟
"ہماری طرف سے، ہمارے لیے ” ایک نیا نعرہ ہے جو ان دنوں فلسطینی علاقے شہروں اور قصبوں میں تیزی سے مقبول رہا ہے اور اس نعرے پر مبنی بینر دکانوں اور مارکیٹوں میں عام نظر آ رہے ہیں۔
اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ صرف فلسطینی اشیا خریدی جائیں کیونکہ اس کا فائدہ فلسطینیوں کو پہنچے گا۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں اس نعرے میں اسرائیل کی بنی ہوئی اشیا کے بائیکاٹ کا پیغام دیا گیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے شدید ردعمل میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور غزہ کے ایک بڑے حصے کی تباہی کے بعد اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم کئی ملکوں میِں زور پکڑ رہی ہے۔اب یہ مہم فلسطینی علاقوں میں بھی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔رملہ میں ایک برانچ مینیجر عمر بوطینہ کہتے ہیں کہ اس مہم کا مقصد فلسطینی مصنوعات کو آگے بڑھانا ہے۔
اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 30 فی صد کمی
مغربی کنارے میں اسٹوروں کی ایک چین کا اندازہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے اس کے اسٹوروں پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت 30 فی صد تک کم ہو چکی ہے۔حماس نے 7 اکتوبر کی صبح اسرائیل کے مغربی علاقے میں اچانک ایک بڑا حملہ کر کے دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ اس حملے میں حماس کے لگ بھگ 1500 کارکنوں نے حصہ لیا اور فولادی باڑ کاٹ کر اسرائیل میں داخل ہو گئے۔زمینی راستے کے علاوہ حماس کے عسکری گروپ کے کئی افراد نے حملے کے لیے سمندری راستہ اختیار کیا اور کشتیوں کے ذریعے اسرائیلی ساحل پر اترے۔حملے کے دوران حماس نے پانچ ہزار سے زیادہ راکٹ بھی اسرائیلی سرزمین کی جانب داغے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس کے حملے میں 1140 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 250 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا جن میں اب کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے، لیکن تقریباً 129 یرغمال اب بھی حماس کی حراست میں ہیں۔
اسرائیل حماس جنگ میں تقریباً 21 ہزار فلسطینیوں کی ہلاکتیں
12 ہفتوں سے جاری اسرائیل کی غزہ میں جوابی کارروائیوں سے غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 20900 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔رملہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی وزارت صحت کے مطابق غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی اسرائیلی فوج اور آبادکاروں نے حملے کیے ہیں جن میں 300 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔عمر بوطینہ نے بتایا کہ مغربی کنارے کی سپر مارکیٹوں میں فلسطینی مصنوعات کو فروغ دینے اور اسرائیلی منصوعات کے بائیکاٹ کی مہم میں نوجوان پیش پیش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی نوجوان اس سلسلے میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بین الاقوامی مہم بائیکاٹ، ڈیویسٹ منٹ اینڈ سینگشنر (بی ڈی ایس) سے مدد لیتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر جا کر ان کی فراہم کردہ فہرست کا جائزہ لیتے ہیں جس میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والی مصنوعات کا اندراج ہے۔
اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم بین الاقوامی گروپ بی ڈی ایس نے شروع کی
بی ڈی ایس تحریک سن 2005 میں فلسطینی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے شروع کی تھی ۔ یہ گروپ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اسرائیل کے خلاف سیاسی اور اقتصادی کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔اسرائیل اور اس کا اہم اتحادی امریکہ بی ڈی ایس پر یہود دشمنی کا الزام لگاتا ہے۔جب کہ اس تنظیم کے شریک بانی عمر برغوتی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ڈی ایس اسلامو فوبیا اور یہود دشمنی سمیت تمام قسم کی نسل پرستی کے خلاف ہے۔بی ڈی ایس کے تین اہم مطالبات میں اسرائیل کے 1967 کے فوجی قبضے کا خاتمہ، اسرائیل کے نسل پرستی پر مبنی نظام کا خاتمہ اور فلسطینی پناہ گزینوں کی زمینوں کی واپسی اورمعاوضہ وصول کرنے کے حق کا احترام شامل ہیں۔بی ایس ڈی گروپ اسرائیلی کھیلوں ، ثقافتی اور تعلیمی تقریبات کے بائیکاٹ پر بھی زور دیتا ہے اور ان کمپنیوں پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔بی ڈی ایس کے قیام کو 18 سال ہو چکے ہیں اور اس گروپ کی اب 40 ملکوں میں شاخیں موجود ہیں۔