اسلامیاتسیاسی و سماجیمفتی عبدالمنعم فاروقی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

مفتی عبدالمنعم فاروقی

ارض فلسطین پر ظلما ً جبراً ناجائز قبضہ کرکے وہاں کے باشندگان پر مسلسل ظلم وستم ڈھانے والی ظالم وجابر اور مکر وفریب کا کرتب دکھانے والی قوم کا نام ’’یہود‘‘ ہے،اس قابض قوم نے اپنے علاقہ کانام اسرائیل رکھا ہے،یہ قوم سیدنا موسیٰ ؑ کو نبی ماننے اور ان پر نازل کی گئی کتاب تورات کو اپنے لئے دستور العمل گردانتے کا دعوی کرتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ،ان کے پاس نہ تو شریعت موسوی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور نہ ہی آسمانی کتاب تورات اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے بلکہ انہوں نے اس میں اتنی تبدیلیاں کی ہے جس کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے چند اوراق بھی اصلی حالت میں باقی ہیں یا نہیں ،اس مقدس آسمانی کتاب میں انہوں نے تاویلات کے ذریعہ وہ باتیں شامل کی ہیں جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں ،قرآن مجید میں ان کے اس بدترین جرم کا ذکر کیا گیا ہے نیز یہ انتہائی سخت مزاج ،بد اخلاق ، دھوکہ باز،شکر سے عاری،بزدل ،مکار اور انبیاء ؑ کو ستانے اور انہیں قتل کرنے والی قوم ہے ،قرآن کریم میں اس قوم کے متعلق بہت سی باتیں بیان کرکے اسے ناشکری اور خدا کی لعنت کردہ قوم بتایا گیا ہے ، یہ وہ قوم ہے جس نے اپنے نبیوں کو دھوکہ دیا تھا ، انہیں ستایا تھا اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتابوں میں تحریف کرکے اس سے خودساختہ مطالب نکالے تھے ،رسول اللہ ؐ کی بعثت کے بعد اس مکار اور چالباز قوم نے نبی آخر الزماں ؐ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچیں تھیں اور اسلام و مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے جتنے حربے ہوسکتے تھے انہوں نے سب استعمال کئے تھے مگر ان کے ہر مکر وفریب کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بناکر انہیں ذلیل وخوار کیا تھا ، چونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہیں ، مسلمانوں کو ان کے شر سے بچنے کے لئے ان سے دوستی کرنے سے صاف طور پر منع کر دیا گیا ہے ارشاد ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَائَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَّمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَإِنَّہٗ مِنْہُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْن(المائدہ:۵۱) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو یہود یوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ ،یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں سے ہوگا ،یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘ ، یہود ونصاریٰ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ اہل ایمان کے دوست تو ہر گز نہیں ہو سکتے ،جو خدا اور رسول کا دشمن ہوگا وہ یقینا مسلمانوں کا بھی دشمن ہوگا اور جو مسلمانوں سے دشمنی رکھے گا وہ خدا اور رسول کا فرماں بردار نہیں ہو سکتا ، یہود خود بھی آپس میں بھی لڑتے رہے اور اپنی سازشوں کے ذریعہ دوسروں کو بھی لڑاتے رہتے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ انکی مکاریوں اور سازشوں سے تنگ آکر مختلف ادوار میں انہیں مختلف شہروں اور مقامات سے د ھتکارا گیا تھا مگر وہ اپنی ذلیل فطرت سے باز نہیں آئے بلکہ جہاں بھی رہے انتشار کا بازار گرم کیا اور اختلاف پیدا کرکے ایک دوسرے کو لڑاتے ، بھڑکاتے اور بھڑاتے رہے اور اس وقت بھی مستقل ان کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہےاور اس مذموم حرکت کے ذریعہ ایک قوم کو دوسری قوم سے اور ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑا نے میں مصروف ہیں ۔
تاریخ کے صفحات گواہی دے رہے ہیں اسی طرح اس قوم سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے بھی اچھی طرح جانتےہیں کہ قوم یہود کے مزاج میں انانیت،ہٹ دھرمی اور جلن وحسد کی بیماری پائی جاتی ہے ،ان کی مکاریوں کے چرچے ہر خاص وعام کی زبان پر ہیں ،ان کے اندر تعصبیت کا کیڑا نہیں بلکہ ایک جانور پایاجاتا ہے ،یہ کسی سے بھی دوستی و تعلق کسی نہ کسی مطلب ومقصد ہی کی بنیاد پر رکھتے ہیں اور مقصد ومطلب ختم ہوتے ہیں ان سے اس طرح دور ، کنارہ کش اور نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوجاتی ہے،اگر چہ کہ یہ اپنے دل میں ہر ایک سے بعض وعناد رکھتے ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں سے انہیں روز اول ہی سے حددرجہ بعض وعداوت ہے ، یہودنے زمانے نبوت ہی سے رسول اللہؐ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتے چلے آرہے ہیں ،انہوں نے دور نبوت میں دیگر قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی اجتماعیت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی تھیں اور اپنے مال ودولت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو اپنا غلام بنانے کی کوششوں میں مصروف رہا کرتے تھے مگر انکی کوششیں ناکام ہوتی رہیں اور انہیں ذلت ورسوائی اٹھانی پڑی تھی ،انہوں نے دیگر اسلام دشمنوں سے مل کر کئی مرتبہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور پھر خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد عیسائیوں کی مدد سے ارض مقدس فلسطین کے کئی حصہ پر جبراً قبضہ جمایا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو یہاں لاکر اپنی ناجائز بستیاں بسائی اور ظلماً حکومت قائم کرکے قبلہ اول پر اپنا قبضہ جما کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا ، یہ غاصب وقابض اپنی فوجی طاقت وقوت کے ذریعہ ہر روز معصوم وکمزور فلسطینیوں پر ظلم وستم ڈھا تے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ تقریبا ستر سالوں سے جاری ہے ،یہ درندہ صفت معصوم ومظلوم فلسطینیوں کی املاک وجائداد اور ان کے کئی علاقوں پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور جب فلسطینی مزاحمت کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو ان معصوموں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بتاتے ہیں اور ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلاتے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے گھروں پر بمباری کرتے ہیں اور اگر فلسطینی اس بربریت پر احتجاج کرتے ہیں تو انہیں جیلوں میں بند کرکے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اور فلسطینی ہیں کہ ان کے ظلم وستم کو سالہاسال سے برداشت کرتے آرہے ہیں۔
ان ظالموں کے ظلم وستم کے نتیجہ میں اب تک ہزار وں کی تعداد میں فلسطینی مرد ،عورتیں ،بچے اور بوڑھیں شہادت کا جام پی چکے ہیں ،اربوروپئے کی جائدادیں اب تک تباہ ہو چکی ہیں اور شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں ،یہ ظالم وجابر درندہ صفت یہودیوں نے مسجد اقصیٰ تک کے تقدس کو پامال کر رکھا ہے ،جب چاہتے ہیں مسجد اقصیٰ میں گھس کر نمازیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں گھسیٹ کر مسجد سے باہر نکالتے ہیں اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جسے سن کر اور ظلم کی تصویریں دیکھ کر آنکھیں بہنے لگتی ہیں ، اس وقت بھی اہل فلسطین ظالم وجابر اسرائیل کے ظلم وبربریت کا شکار ہیں ،اکتوبر 2023سے لے کر اب تک تقریباً آٹھ ماہ سے مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور ظالم اسرائیل ان معصوم ومجبور فلسطینیوں پر مستقل بم باری کرتا جارہا ہے،پی ٹی آئی رپورٹ کے مطابق 7اکتوبر کی تاریخ سے اب تک اسرائیل کی بربریت کے نتیجہ میں 35173 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور 79061 افراد زخمی ہوئے ہیں ،فلسطینیوں کی شہادت اور ان کے زخمی ہونے کا سلسلہ روزانہ جاری ہے، درندہ صفت اسرائیل نے تو انسانیت کی ساری حدیں پارکردیں ہیں ،اس کی درندگی کو دیکھ کر شائد درندے بھی شرمارہے ہوں گے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس قدر ظلم وستم کے باوجود پوری دنیا اور خصوصاً عدل ومساوات کے علمبردار کہے جانے والے بڑے بڑے ممالک اور عرب دیش خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں گویا یہ بھی ظلم وستم میں برابر کے شریک ہیں بلکہ اپنی خاموشی کے ذریعہ درپردہ ظالم کی حمایت کر رہے ہیں،عجیب بات یہ ہے کہ جانوروں اور جنگلوں کے تحفظات پر بڑے بڑے کانفرنس رکھنے والے اور ان کے حقوق پر لمبی چوڑی تقریریں کرنے والے معصوم انسانوں پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر بھی اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں ،اقوام متحدہ جو پوری دنیا میں حقوق کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے وہ بھی صرف مذمت کی حدتک ہو کر رہ گیا ہے ۔
یاد رکھیں ظلم تو بہرے حال ظلم ہے جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر مٹ جاتا ہے ،ظالموں کو ظلم کرتے ہوئے ایسا نظر آتا ہے جیسے سحرا میں چلنے والے کو ریت پانی جیسا نظر آتا ہے مگر انجام عبرت ناک ہوتا ہے، ظلم کا سفر طویل نہیں ہوتا اور ظالم ظلم کے ساتھ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا ہے ، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ بڑے بڑے ظالم عبرت کا نشان بن چکے ہیں اور اگر یہ ظلم سے باز نہ آئیں تو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بن سکتے ہیں ،ہر ملک اور ان میں بسنے والے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کے ظلم کی مزمت کرے اور اپنی اپنی حکومت اور اس کے حکمرانوں پر دباو ڈالیں کہ وہ اسرائیل کو ظلم سے باز رکھیں اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر ان کے دل میں انسان کا نہیں بلکہ حیوان کا دل ہے اور وہ انسانیت کی بات کرنے کا حق نہیں رکھتے اور حقیقت میں وہ تمام لوگ جو فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں وہ سب فلسطینیوں پر ظلم کرنے میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے ہاتھ بھی خون سے رنگین ہیں ،گویا ہر فلسطینی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×