سیرت و تاریخ

فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ!تاریخ کے آئینہ میں

ازقلم:مفتی محمد سعید احمد قاسمی (استاذ مدرسہ قاسم العلوم تانڈور)

فلسطین جس خطہ اور علاقہ کو کہاجاتاہے وہ ایک تاریخی خطہ اور علاقہ ہے دنیا کا قدیم ملک اور انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہا ہے اور دنیا کی تین بڑی مذہبی قوموں (یہودی، عیسائی اور مسلمان) کا وہاں سے گہرا مذہبی تعلق ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل وہاں یہودی تھے لیکن کئی مرتبہ اس علاقہ کو دوسرے بادشاہوں نے فتح کیا اور یہودیوں کو وہاں سے باہر نکال دیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد بھی مختلف بادشاہوں نے وہاں حکومت کی۔
خلافتِ عمرؓ اور فلسطین
۶۳۵؁ء سن ۱۵ھ حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ میں یہاں عیسائی آباد تھے اور عیسائیوں کی ہی اس وقت وہاں حکومت تھی، صحابیٔ حضرت عمروبن العاصؓ مسلمانوں کا لشکر لیکر فلسطین گئے اور جنگ لڑے بغیر ہی فلسطین کا یہ علاقہ فتح ہوگیا پادریوں نے اور عیسائیوں نے صرف اتنی شرط لگائی تھی کہ ہم یہ پورا علاقہ بغیر جنگ کے آپ کو دینے کے لیے تیار ہیں ، بیت المقدس کی چابیاں بھی آپ کو دیدیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کے جو خلیفہ ہیں امیر المومنین عمر بن الخطابؓ خود یہاں صلح اور معاہدہ کے لیے تشریف لائیں چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان کی بات مانی اور فلسطین کا یہ پورا علاقہ اسلامی مملکت کا حصہ بن گیا۔(مسلمانوں نے فلسطین عیسائیوں سے فتح کیا تھا نہ کہ یہودیوں سے) فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت بن گئی اور فلسطین کا پورا علاقہ اسلامی خلافت کے اندر شامل ہوگیا۔
صلیبی دور سے عہدِ عثمانی کے اخیر تک
اس کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کی مختلف کوششیں کی اور گیارہویں صدی کے اواخر میں صلیبیوں کو کامیابی ملی اور تقریباً ۹۰ سال تک انہوں نے دوبارہ یہاں حکومت کی پھر اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی آئےاور انہوں نےقبلۂ اول فلسطین کی آزادی کے لیے تقریباً ۱۶؍جنگیں لڑیں اور ۱۱۸۷؁ء میں فلسطین کو فتح کیا اور عیسائیوں کو نکال باہر کیا پھر دوبارہ یہ فلسطین کا علاقہ اسلامی مملکت کا حصہ بن گیا اور عثمانی سلطنت کے اندر یہ حصہ داخل ہوگیا اور عثمانیوں نے یہاں حکومت کی ۔
پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اس دوران کبھی بھی یہودیوں نے فلسطین کو اپنا وطن بنانے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ یہودی جرمنی ، فرانس اور یورپ کے مختلف ملکوں میں رہے اور جب اٹھارہویں صدی میں یہودیوں کو جرمنی فرانس اور یورپ کے مختلف ملکوں سے بھگایا جانے لگا تو ان یہودیوں کو خلافتِ عثمانیہ نے پناہ دی اور عراق، شام اور فلسطین کے علاقوں میں ان کو ٹھہرایا گیا اس دوران کبھی بھی یہودیوں نے فلسطین کو اپنا وطن قرار نہیں دیا ، ہر مؤرخ اس بات کو جانتا ہے کہ یہودیوں پر سب سے زیادہ ظلم عیسائیوں نے کیا اور مسلمانوں نے یہودیوں کو انسانیت کی بنا پر پناہ دی۔
پہلی عالمی صیہونی کانفرنس اور یہودی ریاست کا منصوبہ
اگست ۱۸۹۷؁ء میں مشہور یہودی (Theodor Herzl)نے سوئزرلینڈ کے شہر بازل میں ایک عالمی صیہونی کانفرنس بلائی اور وہاں تین روزہ عالمی صیہونی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر کے یہودی رہنمائوں میں سے ۲۰۸ رہنمائوں نے شرکت کی، (Herzl) نے اس کانفرنس میں پہلی بار یہودیوں کے ایک ریاست بنانے کا خاکہ پیش کیا اور اکثر یہودیوں نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کچھ یہودیوں نے اس بات سے اتفاق نہ کیا اتفاق نہ کرنے والوں میں خود (Herzl) کا باپ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد (Theodor Herzl) صحافت کو اپنا پیشہ بنایا اور اسی دوران اس نے استنبول اور خلافت عثمانیہ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور اس نے یہ خاکہ پیش کیا کہ فلسطین کا علاقہ ہی ہمارے لیے سب سے بہتر ہے اور اسی کو یہودی ریاست بنانا چاہیے؛چنانچہ استنبول آکر اس وقت اس نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف کئی ساری سازشیں رچی اور فلسطین کے علاقہ کواپنی ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا اوراپنا ایک جھنڈا ایجاد کیا (موجودہ اسرائیلی جھنڈا اسی کا ایجاد کیا ہوا ہے) اس کے بعد وہ اپنے ایک وفد کے ساتھ اس وقت کے عثمانی سلطان عبدالحمیدکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہمیں فلسطین میں یہودیوں کے لیےزمین چاہیے ہمیں یہودیوں کے لیے اپنا وطن بنانا ہے اگر آپ ہمیں فلسطین کا کچھ علاقہ دیتے ہیں تو اس کے بدلے آپ پر یورپ کا جتنا قرض ہے ہم اس کو اداکردیں گے ، سلطان عبدالحمید یہ سن کر غصہ ہوگئے اور غصہ سے اس کو ڈانٹ کر باہر نکال دیا اور کہا کہ جب تک عبدالحمیدکی جان میں جان باقی ہے فلسطین کی زمین کا ایک انچ بھی کسی یہودی کو نہیں دینے دیں گے، اسی دوران یہ خبر بھی ملی کہ بہت سارے یہودی فلسطین پہنچ کر عربوں سے زمینیں خریدرہے ہیں تو سلطان عبدالحمید سمجھ گئے کہ یہ سازش ہے اور اسی سازش کو انجام دینے کے لیے (Theodor Herzl) یہاں آیا تھا پھر سلطاان عبدالحمید نے فلسطین کی زمین کی خرید وفروخت پر پابندی لگادی اور جو زمینیں یہودیوں کو بیچی گئی تھیں بڑی مصلحت سے وہ یہودیوں سے واپس لے لیں۔
جنگِ عظیم اور خلافت عثمانیہ کا زوال
یہ وہ دور تھا جہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو بھگایا جارہا تھا اور دوسری طرف جنگ عظیم کی تیاریاں کی جارہی تھیں چنانچہ پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی اور خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور خلافتِ عثمانیہ کے علاقے شام، مصر، فلسطین اور عراق وغیرہ سب برطانیہ کے حصہ میں آگئے اور برطانیہ نے سب پر کنٹرول حاصل کرلیا جیسے ہی برطانیہ کے قبضہ میں فلسطین کا علاقہ آیا دنیا بھر کے یہودی یہاں آکر بسنے لگے اور عربوں سے زمین خریدنے لگے برطانوی فوج دھمکاکر عربوں کو یہودیوں کے ہاتھ زمین فروخت کرنے پرمجبور کرتی تھی اس طرح یہودیوں کی آبادی فلسطین کے علاقوں میں بڑھتی گئی اور عرب مسلمان فلسطین چھوڑ چھوڑ کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں آباد ہونے لگے۔
اس کے بعد یہودیوں نے کہا کہ ہمیں ایک آزاد ریاست اور ایک آزاد ملک چاہیے ہم یہاں فلسطین میں اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں بالآخر نومبر ۱۹۴۷ میں اقوامِ متحدہ نے ایک اعلان جاری کیا کہ فلسطین کودوحصوں میں تقسیم کردیا جائے ایک حصہ کو یہودی ریاست قرار دیا جائے گا اور دوسرے حصہ کو مسلمانوں کی ریاست قرار دیا جائے گا چنانچہ اقوامِ متحدہ نے ایک ریزولیشن پاس کرکے فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ایک کو اسرائیل کا نام دیا اور دوسرے کو فلسطین کانام دیا۔
اقوامِ متحدہ نے جب یہ بل پاس کیا تو عرب مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی اور اسی احتجاج کے دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان دسمبر ۱۹۴۷ میں لڑائی شروع ہوئی اور یہ لڑائی کافی دنوں تک جاری رہی اور اس لڑائی کے نتیجہ میں تین لاکھ مسلمان بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے، چونکہ یہودیوں کو برطانوی فوج کا مکمل تعاون حاصل تھا اس لیے یہودی عرب مسلمانوں پر فتح حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے ورنہ ممکن نہیں تھا کہ جو یہودی باہر سے آئے ہیں وہ اس علاقہ میں اتنے حاوی اور طاقتور ہوجائیں کہ وہ یہاں کے عربوں کو یہاں سے نکال دیں۔
اس کے بعد برطانیہ اعلان کیاکہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر جارہے ہیں وہ یہاں حکومت نہیں کریں گے جیسے ہی برطانیہ فلسطین کے اس علاقہ کو چھوڑ کر واپس جانے کا اعلان کیا تو یہودی رہنمائوں نے ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ کو یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا جب یہ اعلان ہوا تو مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی ،احتجاج ہوا اور پھر جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں عرب ریاستیں بھی شامل ہوئیں خاص طور پر مصر، اردن ، شام اور عراق اور اس جنگ کے نتیجہ میں نقصان مسلمانو ںکو اٹھانا پڑا اور یہودی زیادہ تر علاقوں پر قابض ہوگئے اور مسلمانو ںنے کچھ علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا چنانچہ ویسٹ بنک کے علاقہ پر اردن نے قبضہ حاصل کیا غزہ پٹی کے علاقہ پر مصر نے اپنا کنٹرول حاصل کیا گولان پہاڑی کا علاقہ شام کے زیر قبضہ رہااور اس طرح فلسطین کا خاتم ہوگیا اور ’’اسرائیل‘‘ نام کی ایک ریاست بن گئی ۔اس دوران اسرائیل نے کوشش کی کہ فلسطین کے یہ کچھ علاقے جو بچ گئے ہیں ان پر بھی قبضہ حاصل کرلیں لیکن انھیں اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔
پھر جون ۱۹۶۷؁ء میں اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے مصر ،شام اور اردن پر ایک اچانک بڑا حملہ کردیا جس حملہ کی ان ممالک کو توقع نہیں تھی کہ اسرائیل اتنا بڑا حملہ کرسکتا ہے،اور یہ اتنا بڑا حملہ تھا کہ اس حملہ کے نتیجہ میں عرب فوجوں کو پیچھے ہٹنا پڑا چھ دن تک یہ جنگ چلتی رہی اور ا س جنگ کے نتیجہ میں ویسٹ بنک ، غزہ پٹی اور مصر کے ابن سینا اورشام کے گولان پہاڑی کے علاقہ پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگیا اور چھ دن بعد یہ جنگ بند ہوئی اور اس جنگ کے نتیجہ میں تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو اپنا علاقہ چھوڑ کر جانا پڑا۔اس کے بعد پھر کئی مرتبہ معاہدہ ہوا بات چیت ہوئی جس کے تناظر میں غزہ پٹی سے اسرائیل نے اپنی فوج کو واپس بلالیا ویسٹ بنک کے علاقہ سے اس نے فوج نہیں ہٹائی معاہدہ ہوا بات چیت ہوئی اور ویسٹ بنک (یروشلم) کا جو علاقہ ہے وہ اردن کے زیر انتظام رکھا گیا سیکوریٹی وہاں اسرائیل کی رکھی گئی ،مصر کا علاقہ مصر کو دیدیا گیا اور گولان کی پہاڑی پر شام نے دوبارہ اپنا کنٹرول حاصل کرلیا یہ سب کچھ ۱۹۶۷؁ کی جنگ کے دوران ہوا ۔
فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کیاہے؟
۱۹۶۷؁ء کی جنگ کے دوران کیے گئے معاہدہ کے مطابق ویسٹ بنک (یروشلم )کا علاقہ ، غزہ پٹی کا علاقہ ،گولان پہاڑی کا علاقہ پر فلسطینوں اور عرب مسلمانوں کا حق ہے ان علاقوں پر ’’اسرائیل‘‘ دوبارہ اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہےاور ان علاقوں میں جو عرب فلسطینی آباد ہیں ان کو یہاں سے خالی کراتا ہے اور جو فلسطینی ہیں وہ چاہتے ہیںکہ ۱۹۶۷؁ کی جو سرحدیں ہیں وہ برقرار رہیں اس سے آگے اسرائیل بڑھنے کی کوشش نہ کرے ، اسی طرح اسرائیل کا دعویٰ ہےکہ یروشلم اس کا دار الحکومت ہے( اس کے اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت بھی حاصل نہیں اور اقوامِ متحدہ کے اصولوںکے بھی خلاف ہے )اور فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتے ہیںلیکن پچھلے ۵۰ برسوں سے اسرائیل لگاتار ۱۹۶۷؁ء کی سرحدوں سے تجاوز کررہا ہے ویسٹ بنک (یروشلم) کے علاقوں میں مسلمانوں سے ان کے گھروں کو خالی کرواکر نئے یہودیوں کو لاکر وہاں بسا رہا ہے اور فلسطینی اس کی مخالفت کررہے ہیںاور فلسطینی مسلمان اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلسل کئی طرح کی جدوجہد کررہے ہیں۔
اسرائیل نے لگاتار اصولوں اور معاہدوں کی مخالفت کی اس کے بعد حماس نے پھر سے آزادی کی جنگ شروع کی دسیوں مرتبہ مسجدِ اقصیٰ میں نماز کے دوران مسلمانوں کو مارا گیا ان پر حملے کیے گئے فلسطینیوں نے بھی لگاتار بدلہ لینے کی کوششیں کی اور دونوں میں لڑائیاں ہوئیں اور اب تک تقریباً دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی مارے گئے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ عورتیں اور بچے شامل ہیں ،۲۰۰۸؁ء کے بعد سےاب تک ایک لاکھ فلسطینی مارے گئے ہیں جس میں ۳۳ہزار خواتین اور بچے شامل ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×